Tag: اردو کہانیاں

  • سترنگا ہیرا

    سترنگا ہیرا

    کسی ملک پر ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ کے سپاہی آئے روز شہریوں اور محل میں آنے والے فریادیوں کو تنگ کرتے اور ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی گردن تک مار دیتے۔ اگر کوئی بھی شخص ان کی شکایت کرنے بادشاہ کے پاس جاتا تو بادشاہ کہتا کہ تم ہمارے سپاہیوں پر الزام لگاتے ہو اور جلّاد کو حکم دیتا کہ اس کا سَر قلم کر دیا جائے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بادشاہ کے خلاف بات کرتا تو سپاہی فوراً اسے گرفتار کرلیتے اور سخت ترین سزا دی جاتی۔ رعایا بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سے متنفر ہو چکے تھی۔

    بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی نشاط تھا۔ بادشاہ کو اس سے بہت پیار تھا۔ شہزادی نشاط جب اٹھارہ برس کی ہوئی تو ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئی۔ اس کا جسم موم کی طرح گھلتا ہی جا رہا تھا۔ اس بیماری کا علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ شاہی حکیم اور ہر شہر کے بڑے طبیب جواب دے چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے تو بادشاہ بزرگ کے پاؤں پر گر پڑا اور اپنی بیٹی کی بیماری کا علاج پوچھنے لگا۔ بزرگ نے کہا، ’’یہ تیرے ظلم کی سزا ہے۔ اگر تو اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرتا تو یہ پریشانی نہ آتی۔ اگر تم اپنی بیٹی کو صحت یاب دیکھنا چاہتے ہو تو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنا چھوڑ دو، عدل کے ساتھ حکومت کرو، کیا تم یہ کر سکتے ہو؟ پھر میں بتاؤں گا کہ تمہاری بیٹی کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا ’’میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ بزرگ نے کہا’’ اب میری بات غور سے سن، یہاں سے جنوب کی طرف 12 کوس دور ایک سردار کے لشکر نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے، اس کا ایک بے حد خاص درباری ہامان ہے، اس کے پاس طلسمی انگوٹھی ہے، اگر اس کو راضی کرلیا تو سمجھو تمہاری بیٹی کا علاج ہو گیا۔ اب تم انصاف کے ساتھ حکومت چلانا اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کرنا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔

    بادشاہ نے اگلے روز وزیر اور سپاہیوں کو لیا اور سردار کے لشکر کی طرف چل پڑا۔ چند گھنٹوں بعد سردار کے سامنے حاضر ہوا، دعا سلام کے بعد بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی تو سردارنے فوراً ہامان کو بلایا اور اسے یہ سب بتایا۔ ہامان بولا ’’عالی جاہ! آپ کہتے ہیں تو میں یہ کام کرتا ہوں اور بیماری کا علاج ڈھونڈ لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر ہامان وہاں سے نکل گیا، پھر اپنی طلسمی انگوٹھی سے پوچھا ’’اے طلسمی انگوٹھی مجھے بتاؤ کہ شہزادی نشاط کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ تو طلسمی انگوٹھی نے بتایا کہ یہاں سے شمال کی طرف تین کوس دور ایک جنگل ہے، اس میں ایک سیاہ غار ہے، اس کے اندر ایک شیش ناگ رہتا ہے، اسے مار کر اس کے منہ سے ایک سترنگا ہیرا نکال لینا۔ اگر وہ ہیرا شہزادی کے بالوں میں دو دن تک باندھ دیا جائے تو شہزادی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر ہامان اس جنگل کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس نے غار ڈھونڈ کر اس میں موجود شیش ناگ کو اپنی تلوار سے مار کر ہیرا نکالا اور بادشاہ کے ساتھ اس کے ملک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر شہزادی نشاط کے بالوں میں وہ سترنگا ہیرا باندھا گیا تو وہ ٹھیک ہونے لگی۔ ہفتہ بھر میں شہزادی خود بخود چلنے پھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور ہامان کے لیے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔ ہامان نے بادشاہ سے انعام لیا اور کئی خچروں پر لاد کر اپنے سردار کے پاس لوٹ گیا۔ بادشاہ نے کئی محافظ بھی اس کے ساتھ روانہ کیے تاکہ اسے منزل پر پہنچا سکیں۔ اس کے بعد بادشاہ بھی عدل کے ساتھ حکومت کرنے لگا اور ظلم و ستم سے باز آگیا۔

    (بادشاہ اور طلسماتی دنیا کی کہانیاں)

  • ایک تھا بادشاہ!

    ایک تھا بادشاہ!

    ابا جان بھی بچّوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ آخر نہ رہ سکے، بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں؟

    ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا۔‘‘ سب نے شور ہی مچا دیا۔

    ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی:

    کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
    مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
    نہ آتا تھا کوئی بھی اس کے قریب

    بادشاہ اور غریب۔ سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں۔ ابا سنا رہے تھے:

    کئے ایک دن جمع اس نے فقیر
    کھلائی انہیں سونے چاندی کی کھیر
    فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
    امیروں وزیروں سے کہنے لگا
    کہ آؤ چلو آج کھیلیں شکار
    قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
    مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
    کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
    تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
    کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
    مگرمچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
    سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں

    ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہو کر ایک دوسرے کا مونہہ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا ۔ کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔‘‘

    ابا جان بولے ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    منجھلے بھائی نے کہا ’’سمجھ میں تو آتی ہے مگر پتہ نہیں چلتا۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے اور پتہ نہیں چلتا۔‘‘ آپا نے کہا ’’ابا جان بادشاہ غریب تھا۔ تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں کیسے رکھ لیا۔ مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا مطلب کیا ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھر سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڑے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگر مچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

    ننھی بولی’’توبہ توبہ۔ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا جان نے کہا’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔ ہوا یہ کہ:

    سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
    وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
    مرے پاس دال اور آٹا نہیں
    تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
    یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
    کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
    وہیں ایک مکھی کا پر کٹ گیا
    جلاہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا

    یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا’’یہ کہانی تو کچھ اور جلول سی ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا تھا۔‘‘

    ننھی نے کہا ’’خاک مزا آتا ہے۔ تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہوں۔ ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا ہوگا۔ تو پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا نے کہا ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ:

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور

    ’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے—تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھئی مجھے کیا معلوم۔ کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے؟‘‘

    ’’حفیظؔ صاحب نے۔‘‘

    ’’ابا اب میں سمجھا۔ اب میں سمجھا۔ آگے سنائیے ابا جان جی۔‘‘ ابا جان آگے بڑھے۔

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
    لگا ناچنے سانپ کی دم پہ مور
    کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
    بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
    کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
    لئے شیر سے بیر چہیا نے چھین

    چوہیا نے شیر سے بیر چھین لئے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری آزمانے کے لئے کہانی کہہ رہے ہیں۔ اماں جان بھی ہنستی ہوئی بولیں ’’اور تو خیر، یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی۔ سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہیے کہیے آگے کہیے۔ ابا جان نے کہا ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے۔ ہاں میں کیا کہہ رہا تھا۔

    لئے شیر سے بیر چہیا نے چھین
    یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
    اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
    وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
    ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے

    بھائی جان نے قہقہہ مارا ’’ہہ ہہ ہا ہا۔ لیجئے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا بھی آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی۔‘‘ منجھلے بولے ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ ابا جان نے کہا’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ کمند ہوا چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘

    آپا نے پوچھا۔’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں؟‘‘ مگر ننھی اب بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور بسورنے لگی ’’اوں اوں اوں۔ کہانی ختم کیجئے۔ واہ ساری کہانی خراب کر دی۔‘‘ ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی:

    غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
    چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
    مگر راہ میں چیونٹیاں آ گئیں
    چنے جس قدر تھے وہ سب کھا گئیں
    بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
    لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی
    اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

    (بچّوں کی اس دل چسپ کہانی کے مصنف حفیظ جالندھری ہیں)

  • آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    ایک بادشاہ دریا کی سیر کو نکلا تو اس غلام کو بھی ساتھ لے لیا جو چند دن پہلے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ کشتی دریا میں آگے بڑھی تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔

    بادشاہ کا ایک وزیر اور دوسرے نوکر جو اس کے ساتھ تھے، وہ اسے نرمی کے ساتھ سمجھانے لگے اور ہر طرح اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں‌ ہوتا اور وہ نہیں ڈوبا۔ لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کرائیں۔ اس کشتی میں ایک دانا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھو‌‌‌‌ں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے، اس دانا کے اشارے پر اس کے بال پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ کر کشتی کے پتوار سے باندھ دیا۔ کچھ وقت گزر گیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا، بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب سے پہلے اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی، دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔

  • خطا کس کی؟

    خطا کس کی؟

    کہانیاں اور حکایات سبق آموز بھی ہوتی ہیں اور بہت سی حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور اصلاحِ احوال کے علاوہ ہمیں پُر لطف اور دل چسپ انداز میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ایک مختصر اور بہت سادہ حکایت ہے جو نہ صرف پُرلطف ہے بلکہ اثر انگیز بھی ہے۔

    ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور بارشوں کا موسم تھا۔ وہ غریب آدمی اُس چھت کو کسی طرح سدھارنے کی کوشش کررہا تھا اور اس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا تاکہ برسات میں کمرے پانی سے بچے رہیں۔ اتفاق سے ایک سخی اور امیر شخص اُدھر آ نکلا۔ اس غریب آدمی کو یہ سب کرتا ہوا دیکھ کر اس نے کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں۔ مگر حضور! میرے پاس پکی چھت بنوانے کے لیے رقم کہاں؟‘‘

    امیر آدمی نے اس سے پوچھا۔ ’’پکی چھت بنانا چاہو تو اس پر کیا لاگت آئے گی؟‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! ڈیڑھ سو روپے تو لگ ہی جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر امیر نے جھٹ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس غریب کو ڈیڑھ سو روپے نکال کر دے دیے۔ اور یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ جاؤ اس سے اپنا کام چلاؤ۔

    جب امیر کی دی ہوئی رقم اس غریب نے گنی تو اس پر شیطان حاوی ہوگیا اور اسے بہکایا کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا۔ تم نے بیوقوفی کی، اگر پانسو کہتے تو اتنے ہی دے جاتا۔ غریب نے سوچا کہ اس نے بڑی غلطی کر دی ہے۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ اچانک اس غریب نے آگے قدم بڑھا دیے اور سیدھا اس سخی انسان کے بڑے سے مکان پر پہنچا اور اسے بلا کر کہنے لگا، جناب! میں نے اندازے میں غلطی کی تھی۔ چھت پر پانسو روپے خرچ ہوں گے۔‘‘

    امیر نے یہ سن کر کہا۔ ارے، اچھا بھائی، وہ ڈیڑھ سو کہاں ہیں جو میں نے تمھیں دیے تھے؟‘‘

    غریب آدمی نے فوراً‌ رقم نکال کر اس کے سامنے کر دی۔ امیر آدمی نے وہ رقم اٹھائی اور اپنی جیب میں رکھ کر کہا۔ ’’جاؤ، میری تو اتنی حیثیت نہیں کہ تم کو پانسو دے سکوں۔ کوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا۔

    یہ دیکھ کر غریب بہت گھبرایا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ امیر آدمی اس کی طرف دیکھے بغیر اپنے گھر کے اندر چلا گیا- وہ غریب یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ امیر کی کوئی خطا نہیں۔ یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے۔

  • سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

    سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی جو گاؤں کو شہر سے جوڑتی تھی۔ سڑک پکی، ڈامر کی تھی۔ باقاعدہ پلان کر کے ماہر انجینئروں نے بنائی تھی۔ چھوٹی موٹریں، بیل گاڑیاں، تانگے، سائیکلیں سب اس پر سے گزرتی تھیں۔ سڑک کو اپنے کارآمد ہونے پر بہت غرور تھا۔

    سڑک کے پاس سے ایک پگڈنڈی بھی گزرتی تھی۔ پگڈنڈی سڑک کی طرح شاندار نہیں تھی۔ بس ایک اوبڑ کھابڑ راستہ تھا جس پر اسے گزر کر گاؤں والے اپنے اپنے گھروں یا کھیتوں میں جاتے، جنگل میں لکڑیاں توڑنے، مہوا چننے جاتے، اسے کسی نے باقاعدہ بنایا نہیں تھا۔ بس لوگ چلنے لگے، پگڈنڈی بنتی گئی۔ کافی آگے جاکر یہ پگڈنڈی چھوٹی چھوٹی اور کئی پگڈنڈیوں میں منقسم ہو جاتی تھی۔

    پگڈنڈی کہیں سڑک کے متوازی چلتی، کہیں اس سے دور چلی جاتی اور پھر گھوم گھام کر سڑک کے بازو سے چلنے لگتی۔ ایک روز مغرور سڑک نے اس سے کہا: ’’تم میرے ساتھ چلتی ہوئی بالکل اچھی نہیں لگتی، میں چوڑی کشادہ، کو لتار سے چمکتی ہوئی، تم پتلی، اوبڑکھابڑ، بے رنگ، بے چمک‘‘

    پگڈنڈی کیا کہتی، بات تو صحیح تھی۔ سڑک نے پھر کہا، ’’نہ جانے لوگ تمہیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ منزل تک جانے کے لئے تمہارا سہارا لیتے ہیں۔‘‘

    پگڈنڈی نے خاموشی ہی مناسب سمجھی، کہتی بھی تو آخر کیا کہتی؟ اس کی خاموشی، سڑک کو اکھر گئی، تیز ہوکر بولی۔

    ’’میری بات کیا تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ آخر میرے آزو بازو تم جیسی مریل اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں کے جال کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    پگڈنڈی کو اپنی خاموشی توڑنی پڑی، بولی، ’’میری بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ گاؤں والے مجھے اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ پہلے ایک دو لوگ گزرتے تھے۔ اب تو میں دن رات مصروف رہتی ہوں۔ بغیر کسی منصوبہ کے میں وجود میں آ گئی۔‘‘

    ’’اور کیا؟ بغیر کسی منصوبے کے بنی ہو اسی لئے نہ خوبصورت ہو نہ چست درست۔ مجھے دیکھو سرکار نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر بڑی رقم خرچ کر کے مجھے بنایا ہے۔ پھر کیڑے مکوڑوں اور تمہاری طرح میں اپنے آپ نہیں بن گئی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئروں کے ہنر کی مثال ہوں میں۔ سیکڑوں کاریگروں کی محنت کا ثمر ہوں میں، ضرورت کے تحت بنی ہوں، سرکار کے خوابوں کی تعبیر ہوں میں۔‘‘

    ’’ضرورت کے تحت تو میں بھی بنی ہوں سڑک بہن۔‘‘ پگڈنڈی نے پہلی مرتبہ سڑک کی مخالفت کی۔ اب تک وہ اس کی لن ترانیاں خاموشی سے سنتی آئی تھی۔ ’’جہاں تم کام نہ آؤ وہاں میں کام آتی ہوں، اور مجھ سے کام لیا بھی جاتا ہے۔ جہاں تلوار کام نہ دے وہاں سوئی کام آتی ہے۔ میری ضرورت تھی اور رہے گی۔‘‘

    ’’کیا کہا تم نے؟‘‘ سڑک چراغ پا ہو کر بولی، ’’جہاں میں کام نہ آؤں وہاں تم کام آتی ہو؟ میری برابری کرنے چلی ہو؟ اپنی شکل تو دیکھو۔‘‘

    اسی وقت ایک بڑی لاری سڑک پر آکر رک گئی۔ دراصل سامنے سڑک پر ایک پل تھا جس کی مرمت کا کام چل رہا تھا اور وزنی ٹرکوں اور بسوں کی اس پل پر سے گزرنے کی ممانعت کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر لاری سے نیچے اترے، ان کے پیچھے تمام مسافر۔ دیکھتے دیکھتے تمام مسافروں نے پگڈنڈی کا رخ کیا۔ پگڈنڈی پل کے نیچے سے گزر کر پکی سڑک سے مل جاتی تھی۔ مسافروں کے نیچے اترتے ہی ڈرائیور لاری کو سنبھال کر پل کے پار لے گیا، مسافر پگڈنڈی سے ہو کر لاری تک پہنچے اور لاری آگے روانہ ہو گئی۔

    سڑک جو کچھ دیر پہلے بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہی تھی، ندامت سے بولی ’’بہن پگڈنڈی! مجھے معاف کر دو۔‘‘

    ’’سڑک بہن!‘‘ پگڈنڈی نے خوش دلی سے کہا۔ ’’اس میں معافی کی کیا بات ہے؟ کبھی کبھی معمولی سی بات سمجھ میں دیر سے آتی ہے۔ اس واقعہ نے یہ تو سمجھا دیا کہ پکی سڑک جہاں کام نہ آئے وہاں کچی اوبڑکھابڑ پگڈنڈی کیسے کام آتی ہے۔ اور وہاں میں اتنا ضرور کہوں گی کہ ہر جگہ ہر وقت بڑی بڑی ہی چیزیں کارآمد ثابت ہوں، یہ ضروری نہیں ہے۔ اپنی بساط بھر ہر کوئی دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے۔ یہی زندگی ہے۔‘‘

    (مصنّف:‌ بانو سرتاج)

  • مزدوروں کا دن (افسانچہ)

    مزدوروں کا دن (افسانچہ)

    ڈور بیل کی کرخت آواز نے اسے گہری نیند سے جگا دیا۔

    آج وہ اپنے وسیع پُرتعیش فلیٹ میں اکیلا تھا۔ خراب موڈ کے ساتھ دروازہ کھولا۔ سامنے خاکروب کھڑا تھا۔

    "صاب! کچرا”

    "یار چھٹی کے دن تو سونے دیا کرو” ٹھوکر مار کر ڈسٹ بن دروازے سے باہر کرتے ہوئے اس نے برہمی سے کہا۔

    "آج کون سی چھٹی ہے سر؟”

    "آج مزدوروں کا دن ہے اسٹوپڈ”

    دروازہ دھڑ سے بند کر کے وہ ٹوٹی نیند سے جڑنے بیڈ پر آ گرا۔ اور خاکروب نے اپنے میل بھرے کھردرے ہاتھ کی انگشتِ شہادت اگلے فلیٹ کی ڈور بیل پر رکھ دی۔

    (معروف ادیب، ناول نگار اور شاعر محمد عثمان جامعی کے قلم سے)

  • بے فکری کا زور (حکایت)

    بے فکری کا زور (حکایت)

    ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دُم پکڑ کر اسے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔

    بادشاہ نے بیربل کو اس کی شہ زوری کا تماشا دکھا کر پوچھا۔ ’’کچھ سوچو تو سہی۔ اس میں اتنا زور کہاں سے آگیا۔‘‘

    بیربل نے عرض کی۔ ’’جہاں پناہ! یہ صرف بے فکری کا زور ہے۔ اپنے کام اور معاش کی فکر میں مبتلا یا کوئی پریشان حال ہوتا تو اس کے لیے یہ آسان نہ تھا۔‘‘

    بادشاہ کو وزیر کی اس بات پر تعجب ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ واقعی کوئی ہر طرف سے بے فکر اور آزاد ہو تو اس میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ بیربل نے دیکھا کہ بادشاہ کسی سوچ میں گم ہے تو اس نے بھانپ لیا کہ وہ اس کی بات پر شبہ میں‌ پڑ گیا ہے۔ بیربل نے فوراً اس شہ زور کو دربار میں بلوا لیا اور کہا۔ ’’جہاں پناہ تمہاری شہ زوری دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج سے ایک روپیہ روزانہ تمہیں تنخواہ ملا کرے گی اور کام صرف یہ ہے کہ شہر کے باہر فلاں خانقاہ پر عین شام کے وقت چراغ جلا آیا کرو۔ لیکن یاد رہے کہ اگر ایک دن بھی وقت سے آگے پیچھے پہنچو گے تو پھانسی دے دی جائے گی۔

    نوجوان سن کر آداب بجا لایا اور ہدایت کے مطابق ہر روز خانقاہ پر چراغ جلانے لگا۔ مگر تھوڑے دن گزرے تھے کہ کہیں کسی کا بیل چھوٹ گیا۔ اتفاق سے اس نوجوان نے جو خانقاہ پر چراغ جلانے جارہا تھا، یہ منظر دیکھ لیا اور اس بیل کی بھی دُم پکڑنی چاہی تو اس میں ناکام ہوا۔ وہ بیل کو تو کیا روکتا، اس کے ساتھ خود ہی دور تک گھسٹتا ہوا چلا گیا۔ بیل کی دُم اس نوجوان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور بیل بھاگا تو یہ دھم سے زمین پر آگرا۔

    کسی نے یہ ماجرا بیربل تک پہنچا دیا اور بیربل نے بادشاہ کو یہ بات بتائی۔ تب، اکبر بیربل کی ذہانت کا قائل ہوگیا اور کہا، واقعی فکرمندی بڑی بری چیز ہے۔‘‘

    (ہندوستانی حکایات سے انتخاب)

  • نو سو ننانوے اشرفیاں

    نو سو ننانوے اشرفیاں

    ملّا نصر الدّین کو ایک عقل مند، دانا اور ایسا خوش مزاج کہا جاتا ہے جو ہنسی مذاق اور تفریح میں لوگوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کا کام کرتا تھا۔ کتنے ہی قصّے، دانائی کی باتیں اور لطائف ملّا نصر الدّین سے منسوب ہیں، اور یہ ایک ایسا قصّہ ہے جو دل چسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

    کہتے ہیں کہ ملّا نصر الدّین کے پڑوس میں ایک مال دار شخص رہتا تھا جو بہت کنجوس تھا۔ وہ اپنا مال تجوری میں بھرتا جاتا تھا اور کسی غریب اور محتاج کی مدد کو آمادہ نہ تھا۔ ملّا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے، اس میں سے کچھ غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، تاکہ خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ لیکن اس نے ملّا ہمیشہ ٹال دیا۔ آخر ملّا نصر الدّین کو اس سے مال نکلوانے اور کنجوس کو سبق سکھانے کی ایک ترکیب سوجھی۔

    ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا، یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔ لیکن اگر اس میں ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو میں اسے ہرگز قبول نہ کروں گا۔

    وہ یہ دعا اتنے بلند آواز میں کر رہا تھا کہ اس کا کنجوس پڑوسی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملّا بڑا ایمان دار بنتا ہے، اسے آزمانا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے ایک تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھر لیں اور اس میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جس پر لکھا تھا کہ اگر یہ نعمت قبول نہ ہو تو اسے اپنے صحن سے باہر گلی میں جھانکے بغیر پھینک دینا۔ اب وہ گھر سے نکل کر ملّا کے صحن کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ عین اس وقت جب ملّا نصر الدّین نے دعائیہ کلمات دہرائے تو کنجوس شخص نے تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔

    ملّا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال نکال کر گننے لگا۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں۔ ساتھ ہی وہ تحریر بھی اس کے ہاتھ لگی مگر ملّا نے با آوازِ بلند خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا۔ یا اللہ، تُو نے میری دعا قبول کی ہے، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہیں، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔ ادھر ملّا جی کے کنجوس پڑوسی نے جب یہ سنا تو سخت پریشان ہوا۔ وہ سمجھا تھا کہ ملّا اشرفیاں گننے کے بعد خدا سے شکوہ کرے گا اور تھیلی باہر پھینک دے گا۔ لیکن یہاں تو اس کے برعکس ہوا اور ملّا نے وہ اشرفیاں رکھ لیں۔

    کنجوس پڑوسی کی سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ اسے اچانک یہ احساس ستانے لگا کہ ملّا بہت چالاک ہے اور اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھا لی ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ بات آئی ہی تھی کہ وہ تیزی سے ملّا کے گھر کا دروازہ پیٹنے لگا۔ ملّا کو دروازے پر دیکھتے ہی کہنے لگا تم بہت بے ایمان شخص ہو۔ لاؤ، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم وہ تھیلی قبول کرنے پر تیار ہو۔

    ملّا نصر الدّین نے بھی غصّے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا، تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، شاید تم نے سنا ہو کہ اُس سے گڑگڑا کر اس کے لیے دعا کر رہا تھا۔ جاؤ یہاں سے، اپنا کام کرو۔

    کنجوس شخص سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملّا کی شکایت کردی۔ قاضی صاحب نے ملّا نصر الدّین کو طلب کرلیا۔ وہ کنجوس ملّا نصر الدّین کے پاس گیا اور کہا چلو، تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ ملّا نے جواب دیا، تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے، میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو، اس کنجوس نے عجلت میں یہ شرط بھی منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے ملّا کو لا کر دے دیے۔ اس کے بعد ملّا نے مزید فرمائش کردی۔ کہنے لگا، میاں کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاؤں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے، جاؤ اپنا گھوڑا لے آؤ، اس پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مال دار پڑوسی نے اپنا گھوڑا بھی ملّا جی کے حوالے کر دیا اور وہ نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے۔

    قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ ملّا نصر الدّین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی جب کہ مدعی پیدل آیا تھا۔ اس نے قاضی کے روبرو سارا قصّہ سنایا تو قاضی صاحب نے ملّا جی سے کہا کہ وہ اس پر اپنی صفائی دے۔

    ملّا نصر الدّین نے کہا، حضور! یہ میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوا شخص ہے، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں وہ بھی اسے کا ہے۔

    یہ سنتے ہی جلد باز اور بے وقوف پڑوسی چلّا اٹھا، ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔

    ملا نصر الدین نے مسکرا کر قاضی کی طرف دیکھا اور بولا، جناب سن لیا آپ نے، یہ لباس بھی اس کا ہو گیا اور ابھی دیکھیے یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔

    اشرفیوں کا حقیقی مالک اس وقت ہوش کے بجائے جوش سے کام لے رہا تھا۔ اس نے غصّے کے عالم میں کہا، ہاں حضور، یہ گھوڑا میرا ہی ہے، اس فریبی نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔

    قاضی کو اس کنجوس کا یہ انداز ناگوار گزرا اور اس نے خیال کیا کہ یہ کوئی احمق اور نہایت ہی جاہل انسان ہے، جو اس کا وقت ضایع کررہا ہے۔ قاضی نے اس کی کچھ نہ سنی اور ڈانٹ پھٹکار کر اس کا مقدمہ خارج کر دیا۔

    بعد میں‌ وہ کنجوس روتا پیٹتا ملّا نصر الدّین کے گھر پہنچ گیا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ تب ملّا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں، لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔

  • بڑا آدمی!

    بڑا آدمی!

    ایاز بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔ بڑا، بہت بڑا جیسے قائد اعظم جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ لیاقت علی خان، جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ اسی طرح اور بھی بڑے لوگ تھے اور جن کے بڑے بڑے کارنامے تھے، ایاز ان ہی لوگوں کی طرح بننا چاہتا تھا۔

    اپنا نام تاریخ میں درج کرانے کے لئے وہ خوب دل لگا کر پڑھتا۔ بڑی محنت سے اپنا سبق یاد کرتا۔ ہوم ورک بڑی پابندی سے کرتا۔ سوتے جاگتے کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں دبی ہوتی۔ اس کی امی کہتیں بیٹا کھانا کھا لو۔ وہ جواب دیتا بھوک نہیں ہے، پڑھنے کے بعد کھا لوں گا۔ آپا کہتیں گڈے بھائی بازار سے سودا تو لا دو۔

    ایاز برا سا منہ بنا کر کہتا آپا! آپ دیکھ نہیں رہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ کل میرا ٹیسٹ ہے۔ آپ کسی اور سے سودا منگوائیں۔ مجھے تو پڑھنے دیں۔ مجھے بڑا آدمی بننا ہے۔ محلے میں بھی کوئی اس سے کام کا کہتا تو وہ صاف منع کر دیتا۔

    اس کے امی ابو دیکھتے کہ ایاز راتوں کو اٹھ کر پڑھتا رہتا ہے اس کے ابو کبھی اس کو رات رات بھر جاگ کر پڑھنے سے منع کرتے تو وہ اپنے ابو سے کہتا’’ ابو جی بڑا آدمی بننے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم بھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے۔ ان کے گھر والے بھی انہیں زیادہ پڑھنے سے ٹوکتے تھے لیکن وہ گھر والوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔ ‘‘

    ایاز کا یہ جواب سن کر اس کے ابو جان خاموش ہو جاتے سوچتے کہ یہ لڑکا تو ہاتھ سے گیا۔

    بڑے بھیا جب شام چار بجے کرکٹ کھیلنے جاتے تو اسے پکارتے، ’’ اے کتابی کیڑے، کچھ وقت کھیل کود کے لئے بھی نکال لیا کرو۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود بھی ضروری ہے۔ ‘‘ آپ کا شوق آپ ہی کو مبارک ہو۔ مجھے تو پڑھنے ہی دیں۔ ‘‘

    بڑے بھیا اپنے کاندھے پر بلا رکھ کر ایاز سے کہتے’’ منے میاں کام کے وقت کام پڑھائی کے وقت پڑھائی تازہ ہوا میں سانس لو۔ پڑھ پڑھ کے کیا حالت بنا لی تم نے اپنی؟

    بڑے بھیا کی یہ بات سن کر ایاز کہتا’’ بڑا آدمی بننے کے لئے وقت کی قدر کرنا پڑتی ہے اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں وہ کبھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے۔ ‘‘

    بڑے بھیا بھی بڑے بھیا تھے، چین سے بیٹھنا ان کو آتا ہی نہ تھا، بھلا کس طرح ایاز کی بات مان لیتے، اپنا بلا ایک طرف پھینکتے اور پاؤں پسار کر اس کے پاس جا بیٹھتے اور کہتے دیکھو منے میاں، ہم وقت کی ناقدری نہیں کرتے نہ ہی کھیل کود میں اسے برباد کرتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں اعتدال ہوتا ہے بڑے بھیا ایک لمحے کو خاموش ہوتے پھر دوسرے ہی لمحے کہتے ’’ منے میاں ایک صحت مند جسم ہی میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ جسم تندرست ہو گا تو دماغ توانا ہو گا اور اگر جسم ہی کمزور ہو گا تو دماغ بھلا کس طرح توانا رہ سکے گا؟‘‘

    ’’ بھیا، آپ کو معلوم ہے میں روزانہ پیدل اسکول جاتا ہوں میری اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے، پھر مجھے کھیلنے کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

    ایاز بڑے بھیا کو لاجواب کر دیتا ہے۔ ’’لگتا ہے منے میاں تم نہیں سدھرو گے۔ ‘‘ بڑے بھیا بلا اٹھاتے اور ایاز کے سر کے بال بگاڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے جاتے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ایاز کا پڑھائی اور بڑا آدمی بننے کا شوق انتہا کو پہنچتا جا رہا تھا۔ گھر والے اس کی ہر وقت کی پڑھائی سے جھنجھلا گئے تھے۔ پڑھائی کے چکر میں ایاز گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بازار سے سودا سلف اور سبزی وغیرہ کے لئے بھی گھر والوں کو جانا پڑتا سوئی گیس اور بجلی کا بل بھی گھر والے ہی جمع کراتے، مہمان آ جاتے تو ان کی خاطر تواضع کیلئے سامان وغیرہ بھی گھر والے ہی لاتے۔ غرضیکہ وہ گھر والوں کے کسی کام کا نہیں تھا۔

    امی جان ایاز کے آگے پیچھے کھانا لے کر پھرا کرتیں ’’ چاند، سہ پہر کے تین بج گئے ہیں اب تو کھانا کھا لو۔ ‘‘ ’’ کھا لوں گا امی جان ابھی بھوک نہیں ہے ابھی تو مجھے پڑھنے دیں۔ ‘‘

    وقت پر نہ کھانے اور راتوں کو جاگ کر پڑھنے کی وجہ سے ایاز کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی وہ کمزور ہو گیا۔

    امتحانات قریب آ گئے تھے اور ایاز پڑھائی میں پوری طرح مصروف تھا۔ اپنا کمرہ بند کیے وہ پڑھائی میں مصروف رہتا، اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ چھوٹے ماموں لندن سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں اور انہیں لینے ائیر پورٹ جانا ہے۔ ایاز پڑھائی میں مصروف رہا اور ماموں گھر والوں کے ساتھ ائیر پورٹ سے گھر آ گئے۔ گھر میں سب خوش تھے۔ کئی سالوں بعد چھوٹے ماموں لندن سے واپس آئے تھے۔ ایاز کی امی جان تو بے حد خوش تھیں کئی سالوں کی دوری کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملی تھیں۔

    چھوٹے ماموں گھر والوں کی شفقت و محبت سے بے حد متاثر ہوئے کہنے لگے۔ ’’ لندن میں تو محبت و شفقت کو ترس گیا تھا۔ پھر وطن کی یاد دل کو بے چین رکھتی تھی اور پھر مجھے اپنے بھانجے اور بھانجیوں سے ملاقات کا ہر وقت خیال رہتا تھا سو میں نے اپنا بستر بوریا گول کیا اور سیدھا یہاں چلا آیا۔ آپ لوگوں کے درمیان۔ ‘‘

    ’’ ایاز نظر نہیں آ رہا ہے، کیا کہیں گیا ہوا ہے؟‘‘ چھوٹے ماموں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ گھر میں ہی ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا ہے۔ ‘‘ امی جان نے اطلاع دی۔ ’’پڑھائی کر رہا ہے کیا اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔

    ’’ جب وہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ آپ کو بھلا وہ کس طرح یاد رکھے گا۔ ‘‘ بڑی آپا نے کہا’’ اوہ تو مسٹر پڑھا کو ہو گئے ہیں !‘‘

    ’’ موا ہر وقت پڑھتا رہتا ہے، کہتا ہے بڑا آدمی بنوں گا۔‘‘ دادی جان نے جل کر کہا۔

    ’’ میاں تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ۔ ہماری تو کوئی بات مانتا ہی نہیں !!‘‘ ابا جان نے ماموں جان سے کہا۔

    ’’ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ بڑا آدمی بننے کے چکر میں وہ اپنے ماموں جان کو بھی بھول گئے ہیں !‘‘ ماموں جان مسکرا کر بولے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی۔ عین اسی وقت ایاز کمرے میں داخل ہوا اور دوڑ کر ماموں کے گلے لگ گیا’’ میں اپنے ماموں جان کو کیسے بھول سکتا ہوں‘‘ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے لہجے میں ہلکا سا جوش تھا۔

    چھوٹے ماموں اپنے بھانجے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’’ منے میاں، ماشاء اللہ تم نے اچھا خاصا قد نکال لیا ہے۔ مجھ سے بھی بڑے لگ رہے ہو۔ ‘‘

    ’’ بڑا آدمی جو بننے چلے ہیں !!‘‘ باجی نے جل کر کہا’’ ہاں بھئی، یہ بڑا آدمی بننے کا کیا چکر ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو۔ گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتے اور کسی کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتے؟‘‘

    ایاز نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا’’ سب لوگ میری پڑھائی سے جلتے ہیں۔ ‘‘

    ’’ یہ سب لوگ تمہاری پڑھائی سے نہیں جلتے بلکہ اس بات سے نالاں ہیں کہ تمہارے اندر اعتدال ختم ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے تمہاری گھر والے تم سے بیزار ہو گئے ہیں اور آج تو مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سب ائیر پورٹ پر مجھے لینے آئے لیکن تم نہیں آئے۔ ‘‘

    چھوٹے ماموں جان کی یہ بات سن کر شرمندگی کے احساس سے ایاز کا سر جھک گیا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ ماموں جان نے اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔

    ماموں جان نے دیکھا کہ ایاز شرمندہ ہے تو انہوں نے اس سے کہا’’ یہ بتاؤ جب ہم کہیں چلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘

    ’’ چلتے ہیں !‘‘

    ’’ ٹھیک ہے، چلتے ہیں، لیکن کس طرح!‘‘

    ’’ پہلے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر دوسرا۔ ‘‘

    ’’ بالکل ٹھیک، منزل تک پہنچنے کے لئے دونوں قدموں کا اٹھانا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ہم صرف ایک قدم اٹھا لیں اور دوسرا قدم نہ اٹھائیں تو پھر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے، تو منے میاں، بڑا آدمی بننے کے لئے آپ نے صرف اپنا ایک قدم اٹھایا ہے۔ یعنی صرف پڑھائی، دوسرا قدم آپ نے آگے نہیں بڑھایا اور آپ کو معلوم ہے دوسرا قدم کیا ہے!‘‘

    ’’ نہیں معلوم؟‘‘ ایاز ماموں جان کی باتوں سے الجھ سا گیا۔

    ’’ وہ دوسرا قدم ہے لوگوں کی دعائیں لینا، ان کے کام آنا، بندوں کی خدمت کرنا‘‘ چھوٹے ماموں ایک لمحے کو خاموش ہوئے پھر دوسرے ہی لمحے انہوں نے ایاز سے کہا’’ کیا آپ نے لوگوں کی دعائیں لیں ہیں ؟ گھر محلے سے باہر کبھی کسی کی کوئی خدمت کی ہے؟ کیا کبھی کسی نابینا شخص کو سڑک پار کروائی ہے؟ کیا کبھی کسی غریب شخص کی اخلاقی یا مالی مدد کی ہے؟ چلیں ان باتوں کو بھی چھوڑ دیں۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کبھی کسی کے لئے مسکرائے ہیں ؟‘‘

    ماموں کی اتنی ساری باتیں سن کر ایاز سوچوں میں پڑ گیا، ’’ میں نے تو واقعی کبھی کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی۔ نہ گھر والوں کے کسی کام آیا اور نہ ہی محلے والوں کے اور نہ ہی کبھی کسی سے مسکرا کر بات کی۔ ‘‘

    گھر کے تمام افراد کی نگاہیں ایاز پر لگی ہوئی تھیں ماموں جان نے اسے خاموش پایا تو بولے ’’ہاں منے میاں، کچھ یاد آیا، کوئی ایسا چھوٹا موٹا کام جسے کر کے آپ نے لوگوں سے دعائیں لی ہوں۔ ‘‘

    ایاز اب بھی خاموش رہا تو ماموں جان بولے’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کبھی کسی کے کام نہیں آئے۔ آپ نے کبھی کسی کی کوئی خدمت نہیں کی اور ظاہر ہے جب آپ نے کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی تو پھر دعائیں آپ کو کس طرح مل سکی ہوں گی۔ ‘‘

    کچھ لمحوں تک ماموں جان خاموش رہے پھر انہوں نے ایاز سے پوچھا’’ آپ نے مشہور بادشاہ محمود غزنوی کا نام سنا ہے؟‘‘

    ’’ جی جی‘‘ وہی محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے تھے۔ سومنات کا مندر توڑا تھا اور تاریخ میں اپنا نام ’’ بت شکن‘‘ کی حیثیت سے درج کرایا تھا۔ ایاز نے بڑے جوش سے بتایا

    ’’ کیا آپ ان کے والد کا نام جانتے ہیں ؟‘‘

    ’’ سبکتگین‘‘ بڑے جوش سے ایاز نے بتایا

    ’’ آپ کی معلومات تو بہت اچھی ہے اچھا یہ بتائیے کہ جب سبکتگین ایک معمولی سپہ سالار تھے تو ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہرنی والا واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ یاد آیا؟‘‘

    ’’ جی جی ماموں جان، وہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے سناؤں میں آپ کو؟‘‘

    ’’ ہاں ہاں بالکل‘‘ محمود غزنوی کے والد سبکتگین کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنے نکلے۔ جنگل میں پہنچے تو انہیں ہرنی اور اس کا بچہ نظر آیا۔ انہوں نے اپنا گھوڑا ہرنی کے پیچھے ڈال دیا۔ شکاری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہرنی ایک طرف بھاگ گئی۔ بچے سے بھاگا نہ گیا اور بچے کو سبکتگین نے گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ وہ بچے کو لے کر کچھ ہی دور چلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہرنی اپنے بچے کی محبت میں بے تاب ہو کر گھوڑے کے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس کو اپنی جان کا بھی کوئی خوف نہیں تھا۔

    سبکتگین ماں کی محبت دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے فوراً ہرنی کے بچے کو چھوڑ دیا۔ ہرنی کا بچہ رہائی پاتے ہی قلانچیں بھرتا ہوا ماں کے قریب جا پہنچا۔

    سبکتگین نے دیکھا کہ ہرنی نے محبت میں آ کر اپنے بچے کو چومنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچے کو زبان سے چاٹتی جاتی اور سبکتگین کی طرف تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھتی جاتی جیسے شکریہ ادا کر رہی ہو اور دعا دے رہی ہو۔

    ہرنی کی دعا کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد سبکتگین معمولی سپہ سالار کے عہدے سے ترقی پا کر غزنی کے حکمران بن گئے۔

    ’’ بہت اچھے بھئی، آپ کو تو یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے!‘‘ ماموں جان نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’ جی ماموں جان، مجھے تو ابراہم لنکن والا واقعہ بھی اچھی طرح یاد ہے! جب انہوں نے اسکول کے زمانے میں پتھروں کے ڈھیر میں پھنسی ہوئی ایک ننھی گلہری کو آزاد کرایا اور اس کی دعا لی تھی اور ننھی گلہری کی دعا کا اثر ہی تھا کہ وہ ایک دن امریکا کے صدر بنے‘‘ واہ بھئی واہ، آپ کی معلومات تو بے حد شاندار ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ ان واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟’’ یہی کہ بڑا آدمی بننے کے لئے دعاؤں کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے‘‘ سر جھکا کر بڑے شرمندہ لہجے میں ایاز نے کہا۔

    ’’ اور آپ کو معلوم ہے دعائیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ؟‘‘ ماموں جان نے پوچھا۔ ایاز سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ شرمندگی کے احساس نے اس کی زبان پر چپ کی مہر لگا دی تھی۔ چھوٹے ماموں نے اسے خاموش اور شرمندہ دیکھا تو اس کے دونوں شانے تھام کر کہا’’ بیٹا اعتدال کی راہ پر چل کر ہی دعائیں حاصل کی جاتی ہیں۔ در حقیقت بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو مسکرا کر لوگوں سے ملتا ہو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتاہو اور ان کی خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتا ہو۔ ‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ ایاز بول اٹھا’’ ماموں جان، آپ کی باتوں نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بڑا آدمی بننے کے لئے میں اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناؤں گا۔ لوگوں کی خدمت کروں گا۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں گا اور ان کی دعائیں لوں گا۔ ‘‘

    ’’ شاباش!‘‘ ماموں جان خوشی سے نہا ل ہو گئے۔ ا سی وقت ایاز کو کچھ یاد آیا۔ وہ سائیکل لے کر باہر جانے لگا۔ ماموں جان نے پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’ فاطمہ خالہ کا سوئی گیس اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے۔ وہ کل سے کہہ رہی ہیں کل تو میں نے انہیں منع کر دیا تھا لیکن اب میں انہیں کبھی منع نہیں کروں گا۔ ‘‘

    ایاز باہر جانے لگا تو آپا نے پچاس کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا، ’’ منے میاں، بازار سے واپسی پر دو درجن گرم گرم سموسے لے آنا۔ ‘‘

    ’’ بہت بہتر آپا جانی، میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘ بڑی خوش دلی سے ایاز نے کہا۔ جب وہ سائیکل پر باہر جانے لگا تو ماموں جان نے آواز لگائی’’ میاں، جلدی آ جانا، ہم سب تمہارے ساتھ مل کر چائے پئیں گے۔ ‘‘

    ماموں جان کے ہاتھوں ایاز کی کایا پلٹ جانے پر گھر کے تمام افراد بے حد خوش نظر آ رہے تھے۔ ماموں جان نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ ایاز نے بڑا آدمی بننے کے لئے پہلا قدم اٹھا لیا تھا، دوسرا نہیں اٹھایا تھا۔ آج اس کا دوسرا قدم بھی اس سمت میں اٹھ چکا ہے۔ دعا کریں کہ ایک دن واقعی وہ بڑا آدمی بن جائے‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوتے ہی سب نے بڑے زور سے کہا’’ آمین‘‘

    (مصنّف: محمد طہٰ خان)

  • لومڑی کا رزق (حکایاتِ‌ سعدی)

    لومڑی کا رزق (حکایاتِ‌ سعدی)

    ایک درویش کسی جنگل میں سفر کر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک لنگڑی لومڑی پر پڑی جو بے بسی کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کا انتظام کیسے ہوتا ہوگا جب کہ یہ شکار کرنے کے قابل نہیں ہے؟

    درویش ابھی یہ بات سوچ رہاتھا کہ اسے ایک شیر دکھائی دیا جو ایک گیدڑ کو اپنے منہ میں گرفت کیے اس لومڑی کے قریب آیا اور زمین پر پھینک کر اس کا گوشت نوچنے لگا۔ شیر نے اس کا کچھ حصّہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی لومڑی نے بچا کھچا گوشت کھانا شروع کیا اور اپنا پیٹ بھر کر آگے بڑھ گئی۔

    درویش نے یہ دیکھا تو اسے محض اتفاق پر محمول کیا اور سوچنے لگا کہ اب جب بھوک اس لومڑی کو ستائے گی تو کیا اس پر پھر قسمت اسی طرح‌ مہربان ہوسکے گی۔ اسے یہ مشکل نظر آرہا تھا۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا۔ اگلے روز بھی ایک شیر منہ میں شکار دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی چھوڑ دیا۔ لومڑی نے وہ باقی گوشت کھا لیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی درویش کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ بھی توکل کرے اور خود پیٹ بھرنے کے لیے جستجو نہ کرے۔ اس نے سوچا کہ میرا رزق اللہ مجھے خود پہنچا دے گا جس طرح لنگڑی لومڑی کو شیر کے ذریعے رزق پہنچا رہا ہے۔

    درویش یہ فیصلہ کرنے کے بعد ایک جگہ جاکر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا رزق بھی اس تک پہنچ جائے گا مگر کئی دن گزر گئے اس کے لئے کھانے کی کوئی شے نہ آئی یہاں تک کہ وہ کمزوری کی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے نزدیک ایک مسجد کے محراب سے یہ آواز سنی کہ اے درویش! کیا تو لنگڑی لومڑی بننا چاہتا ہے یا پھر شیر جو اپنا شکار خود کرتا ہے جس میں سے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے۔

    حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ رزق پہنچانے کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ اچھا بھلا ہو اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ اللہ نے جب رزق دینے کا وعدہ کیا ہے تو بیٹھے بٹھائے رزق پہنچائے گا بلکہ اس کے لئے اسے جستجو کرنا ضروری ہے۔ محنت کرنے کے بعد ہی پھل کھانا مزہ دیتا ہے۔ وہ لوگ جو محتاج ہیں اور محنت نہیں کرسکتے ان کا انتظام قدرت کی جانب سے ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہ سب ایک نظام کے تحت ہوتا ہے اور یہ ہر ایک کی خواہش کے تابع نہیں‌ ہے۔