Tag: اردو کہانیاں

  • بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

    اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکّہ چلتا تھا۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوّت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں‌ استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا تھا۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہوچکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کرلینی چاہیے۔

    یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکّہ جاری کرکے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کردیتا اور اس وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کرکے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں‌ کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کردیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گویا فراموش کر بیٹھا تھا۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہوگیا۔ اس نے مزید لشکر تیّار کرکے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہوگیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کردیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

    اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کررہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ‌ جنگ میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں‌ طلب کیا۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کردیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں‌ آکر خود ملے۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہوگیا۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہوگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گُر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے۔ بادشاہ کو غصّہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہوچکا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو بزرگ نے کہا، "اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے۔

    یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کرکے قانع ہوجائے۔

  • شہزادے کی ذہانت (ایک سبق آموز کہانی)

    شہزادے کی ذہانت (ایک سبق آموز کہانی)

    ایک بادشاہ کے کئی بیٹے تھے اور وہ سب وجیہ اور دراز قد تھے۔ بادشاہ ان سے بہت پیار کرتا تھا مگر اس کا سب سے چھوٹا بیٹا بدصورت اور بوٹے قد کا مالک تھا۔ یہ شہزادہ بڑا ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ بادشاہ اور اس کے بھائی بھی واجبی شکل و صورت اور چھوٹے قد کی وجہ اسے اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔

    ایک مرتبہ دربار سجا ہوا تھا اور سبھی شہزادے دربار میں موجود تھے۔ ایک موقع پر بادشاہ سے اس بدصورت شاہزادے کی نظریں‌ چار ہوئیں تو اسے لگا کہ بادشاہ نے بڑی حقارت سے دیکھا اور منہ پھیر لیا۔ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے باپ سے اس پر بات کرے گا۔ دربار ختم ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا ’’ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔ دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقل مند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل میں سب سے عمدہ اور طاقت ور ہوتا ہے!

    بادشاہ نے شہزادے کی بات سنی اور مسکراتے ہوئے اس کی طرف ایسے دیکھنے لگا گویا وہ اس بات سے خوش ہوا ہے، لیکن بادشاہ کے دوسرے بیٹے جو بہت خوب صورت تھے، اپنے بھائی کی اچانک پذیرائی سے خوف زدہ اور رنجیدہ ہوگئے۔

    جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا اس وقت تک ظاہر نہیں‌ ہوتا کہ اس کی اچھائیاں اور برائیاں کیا ہیں اور کتنا ذہین ہے۔ اس بات کو چند ماہ گزرے تھے کہ بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع ہوئی تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر دشمن کے سپاہ سالار کو کہا:

    میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے!

    یہ کہہ کر شہزادے نے یلغار ہو کا نعرہ بلند کیا اور خود بھی اپنے سپاہیوں کے درمیان دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑا اور کئی دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ جب جنگ ختم ہوئی اور بدصورت شہزادہ اپنے باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا: ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا!

    بادشاہ کو سپاہ سالار نے بتایا کہ دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے نے جب انھیں للکارا تھا تو اس کی صف میں سپاہیوں کی تعداد کم تھی۔ اس موقع پر کچھ نے جنگ کا میدان چھوڑنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔ بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور دربار میں اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ اب وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا اور اس کو اپنا ولی عہد بنا دیا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بدصورت شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اتفاق سے ان کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے بہت زور سے بند کیے۔ شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، اس نے فوراً کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔ وہ کہتا جارہا تھا کہ اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا! ادھر کھڑکی زور سے بند کرکے وہ لڑکی دوڑی ہوئی باپ کے پاس گئی اور اسے اطلاع دی تو اس نے سب کو اکٹھا کرلیا اور بیٹے کے قتل کے ثبوت دیکھنے کے بعد شہزادے کے تمام بھائیوں کو سزا سنا دی۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔

  • چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔

    پیوپا نے اپنی دُم ہلائی تو چیونٹی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی جاندار ہے۔ وہ حقارت سے بولی: ” بیچارے جانور، تمہیں دیکھ کر تو ترس آتا ہے، تمہاری قسمت کتنی خراب ہے کہ تم حرکت بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے خول میں قید صرف دم ہلا سکتے ہو، جب کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے ادھر، ادھر تیزی سے دوڑ سکتی ہوں۔ اور اگر میں چاہوں تو سب سے اونچے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ تک بھی پہنچ سکتی ہوں۔” پیوپا نے یہ سب سنا لیکن چیونٹی کو جواب دینے سے گریز کیا۔

    کچھ دنوں بعد کے جب چیونٹی کا گزر ایک بار پھر وہاں سے ہوا۔ وہاں پیوپا کا بس خول پڑا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ اس خول میں موجود پیوپا کہاں گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر سائے کا احساس ہوا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اسے بڑے بڑے پروں والی ایک رنگ برنگی خوب صورت تتلی ہوا میں اڑتی نظر آئی۔

    تتلی نے چیونٹی سے کہا: "میں وہی پیوپا ہوں جسے تم نے چند روز قبل دیکھ کر اس پر ترس کھایا تھا اور اپنی برتری جتلائی تھی، اب مجھے تم پر ترس آتا ہے۔”

    یہ کہہ کر تتلی فضا میں بلند ہوئی اور موسمِ گرما کی ہوا کے دوش پر، فضا میں تیرتی، چیونٹی کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔

    سبق: کسی کا ظاہر دیکھ کر عجلت میں کوئی قیاس کرنا اور اس پر اپنی رائے دینا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    (مشہور یونانی داستان گو ایسوپ کی ایک حکایت جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • قرقاش زندہ باد!

    قرقاش زندہ باد!

    عدالت کی کارروائی ایک دورافتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرہ مستطیل شکل کا تھا اور اس میں ایک گول میز اور چند کرسیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

    کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجید اور بائبل کا ایک ایک نسخہ رکھا تھا۔ کمرے کی عقبی دیوار پر پیتل کی ایک تختی آویزاں تھی جس پر جلی حروف میں درج تھا: ”اعلیٰ حکومت کا ایک اصول: عدل اور انصاف۔ “

    اس اجلاس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ کمرۂ عدالت میں موجود سبھی مشتبہ لوگ تھے۔ سیکیورٹی زون کے قریب ہونے کی وجہ سے گاؤں کے عام لوگوں میں سے کسی کو یہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔ یوں لگتا تھا عدالتی اہل کار حاضرین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ وہ ایک عربی کہاوت ہے کہ ”تماشائی بھی ایک تماشا ہوتا ہے۔ “ کسی ایک کی مصیبت دوسرے کے گلے بھی پڑ سکتی ہے۔ ملزمان کے نام پکارے گئے:
    ”شلومو بن ہیم! گدالیہ شیمتوو! حاضر ہوں !“

    کمرے میں موجود لوگوں کے لئے یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی، اب تک تو یہ عدالتوں میں صرف عربوں کے نام سننے کے عادی تھے اور اب یہاں ایک نہیں بلکہ دو دو ملزم یعنی یک نہ شد دو شد، یہ تو کمال ہوگیا۔

    جج نے ملزمان سے سوال پوچھا: ”تم کہاں سے ہو؟“

    ”گوتاڈا سے“ ملزم نے جواب دیا۔

    ”تمہیں پتہ تو ہے، اس علاقے میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں، پھر تم پرمٹ کے بغیر یہاں کیوں آئے؟“ جج نے پھر سوال کیا۔

    ”ہماری گائے گم ہوگئی تھی، اسی کو تلاش کرتے ہوئے غلطی سے اس علاقے میں آگئے ہیں جناب۔ ہمیں خوف تھا، گائے کہیں غلطی سے آپ کے علاقے میں نہ داخل ہو جائے، لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔“ ملزمان نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    ”ایک ایک کر کے بات کرو، پہلے تم بولو شلومو! کیا تمہاری گائے دودھ دیتی ہے؟“ جج نے ڈانٹ پلائی۔

    ”بالکل دودھ دیتی تھی جی، اس کا گم ہو جانا بہت نقصان دہ ہے۔“

    ”گائے کے دودھ سے ڈیری کی اشیاء بنتی ہیں، آپ یہ بھی جانتے ہیں، دودھ کے بغیرہمارے بچوں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ “

    ”میں سمجھ گیا، مارشل کوڈ کی ساتویں شق کے مطابق عدالت حکومتی قانون کے مطابق گائے کو تو کوئی سزا نہیں دے سکتی البتہ ملزمان کو ان کی ذمہ داریوں سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ “

    ”تمہیں ایک سو پنس جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔“ عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو شلومو اور گدالیہ کے چہروں پرخوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جرمانے کی رقم ادا کرتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیف اور پراسرار سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اسی دوران عدالتی اہل کار نے آواز لگائی۔

    ”احمد حسین سعید! احمد حسین سعید الفہماوی!“ عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے ملزم کو ہلکی سی ٹھوکر لگی۔ اسے پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

    ”ہاں بھئی! کیاعمر ہے تمہاری؟“ جج نے سوال کیا۔

    ”جی حضور، پندرہ سال۔ “ ملزم کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔

    ”تمہیں ذکرون الیعقوب کے علاقے میں داخلے کی ہمّت کیسے ہوئی؟ کیا تم نے سنا نہیں تھا، دو سال پہلے یہاں تمہارے جیسے ایک مزدور کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی، اگر ایسا کوئی حادثہ تمہارے ساتھ بھی پیش آجاتا تو؟“ جج عدالتی اہل کار کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا: ”اس کے باپ کو بلاؤ۔ “ اسّی پچاسی سال کا ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں آکر کھڑا ہوتا، جج نے غصیلے انداز میں سوال کیا: ”تم نے اسے کیوں جانے دیا؟“

    ”میں ایک ضعیف اور معذور آدمی ہوں، میرا خاندان سات افراد پر مشتمل ہے، یہ لڑکا جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، عمر میں سب سے بڑا ہے۔ یہ کام نہ کرے تو گھرکا چولھا نہیں جلتا جناب۔“

    جج نے اس کی بات بڑے غور سے سنی۔ اس کے بعد اس نے حکومتی قانون کی رو سےعدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا: ”عدالت سمجھتی ہے کہ ملزم کا باپ بے قصور ہے، اس لئے بیٹے کو چالیس پاؤنڈ جرمانے یا بیس دن قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے“ چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھا گیا۔

    ”خالد قاسم ملاہا حاضر ہو!“ یہ آج کی عدالتی کارروائی میں تیسرا کیس تھا۔ جج نے ملزم کے بجائے اس کے باپ کو آواز دی۔ باپ حاضر ہوا تو جج نے اس سےمخاطب ہوتے ہوئے کہا: ”تمہارا بیٹا پرمٹ کے بغیرحیدرہ میں کیا کرنے گیا تھا؟“

    ”میں ایک معذور شخص ہوں، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میری ایک ٹانگ نہیں ہے۔ میں کوشش کے باوجود اسے روک نہیں سکتا۔“ باپ نے جواب دیا ”ہاں ہاں، تم اسے کیسے روک سکتے ہو، بالکل سچ کہتے ہو تم، شاباش! اچھا تمہیں چالیس پاؤنڈ جرمانے یا دس دن قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے، ٹھیک؟“

    اس وقت دوپہر کے بارہ بج کر پینتالیس منٹ ہو چکے تھے، جج کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ ”اب ہم ام لقطف کے حسن طاہر حسن کا کیس دیکھیں گے۔“

    ”می لارڈ! میرا گائے کی گم شدگی کا مسئلہ تھا، وہ کہیں کھو گئی تھی۔ “ حسن بولا ”میں اپنے نقصان کے بارے میں پولیس اسٹیشن کے علاوہ اور کہاں شکایت کر سکتا تھا، ہماری آبادی تھانہ کرکور کی حد میں شامل ہے۔ آپ جانتے ہیں، یہ پولیس اسٹیشن ممنوعہ علاقے میں ہے لیکن وہاں جانے کے لئے اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔ میں گیا اور وہاں گرفتار کر لیا گیا۔“

    ”تو کیا تمہاری گائے مل گئی تھی؟“ جج نے سوال کیا۔

    ”جی مل گئی تھی، اسے انتظامیہ نے کانجی ہاؤس میں بند کر دیا تھا۔ “ حسن نے جواب دیا۔

    جج نے تھوڑے توقف کے بعد فیصلہ سنایا:”دس دن قید یا بیس پاؤنڈ جرمانہ۔“

    اس سے تو بہتر تھا کہ حسن کی گائے اسے نہ ہی ملتی کیوں کہ اس کی قیمت جرمانے کی رقم سے آدھی تھی، حسن سے کھل کر اپنے غم کا اظہار بھی نہ ہوسکا کیوں کہ یہاں قرقاش کا قانون چلتا تھا۔

    (مصری ادب سے اںتخاب، قرقاش ایک قدیم مصری حاکم جو اپنی ناانصافی کے لیے مشہور تھا اور عوام میں بدنام ہوا)

  • سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    کہتے ہیں‌ کسی ملک کا بادشاہ اپنے ایک ملازم سے ناراض ہوگیا بادشاہ نے ملازم کو دربار سے نکال دیا اور حکم دیا کہ تم دن رات اپنے گھر میں رہو، کہیں باہر نہ نکلنا اور کوئی کام بھی مت کرنا۔

    یہ بظاہر کوئی کڑی سزا تھی اور نہ ہی ایسی قید جس میں اس ملازم کو تکلیف ہوتی۔ اسے تو اپنے ہی گھر میں‌ رہنا تھا۔ لیکن اس حالت میں‌ چند ماہ گزارنے کے بعد وہ گھبرا گیا۔ ایک آدمی ایک ہی جگہ اور مخصوص لوگوں کے درمیان کب تک رہے؟ اسے وحشت ہونے لگی۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوگیا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کا وہ ملازم بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔

    جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کے دربار میں کوئی بڑا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیر، امراء اور نوابوں‌ کو دربار میں دعوت دی گئی‌ ہے۔ ملازم جس کا نام سردار تھا، اس کو ایک ترکیب سوجھی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔ درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے، وہ پہچان نہ پائے اور سردار بڑے ادب سے دربار میں دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا۔ تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اس کے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے چنے گئے۔ سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپا لی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے سب سے نظر بچا کر گھر پہنچ گیا۔ گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔

    اس نے اپنی بیوی کو وہ سونے کی رکابی دی اور وہ اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بازار جاتی اور جوہری کو فروخت کر کے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کہ سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے لگے۔ بادشاہ کے کان میں‌ یہ بات پہنچی۔ اس نے ان کی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ خیر، ایک سال بیت گیا۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھر گیا۔ جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔

    دربار ختم ہوا تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔ بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹپٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟ یہ سنتے ہی سزا یافتہ ملازم کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔ آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا ”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔ کئی مہینوں تک پریشان اور تنگ دست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔

    بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کر دی۔ غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگ دستی سے مجبور ہو کر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔

    غلطی تو بادشاہ اور اس ملازم دونوں کی تھی۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ بادشاہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور ملازم کو ایسی سزا دینے پر شرمندہ ہوا جس نے اسے تنگ دستی اور آزمائش میں‌ ڈالا۔

  • بادشاہ اکبر اور حجام

    بادشاہ اکبر اور حجام

    ہندوستان کے بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتن میں بیربل کو کون نہیں جانتا۔ بادشاہ اور بیربل کے کئی قصّے آپ نے پڑھ رکھے ہوں‌ گے۔ یہ قصّے اور مشہور واقعات سبق آموز بھی ہیں، انوکھے، حیران کن، ناقابلِ‌ یقین اور اکثر دل چسپ بھی ہیں۔ بیربل اپنی ذہانت اور حاضر جوابی کی وجہ سے بادشاہ کا منظورِ نظر تھا جسے ہماری ثقافت میں ایک دانا اور عقل مند انسان کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بیربل کا کردار افسانوی شہرت کا حامل ہے اور ان نو رتنوں سے منسوب واقعات کو بطور حکایت پیش کیا جاتا ہے۔

    اکبر اور بیربل سے متعلق ایک قصّہ بہت مشہور ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    کہتے ہیں کہ ایک رات کو بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا۔ بھائی یہ بتاؤ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کی گزر بسر کیسے ہورہی ہے، ان کا کیا حال ہے۔ حجام فوراً بولا۔ اجی کیا بات ہے۔ ہمارے اکبر بادشاہ کی۔ اس کے راج میں ہر طرف امن اور خوش حالی ہے۔ لوگ عیش کر رہے ہیں۔ ہر دن عید ہے ہر رات دیوالی ہے۔

    اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔ اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا۔ بیربل دیکھا تم نے ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بیشک جہاں پناہ آپ کا اقبال بلند ہے۔

    چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا۔ اجی حال کیا پوچھتے ہو، ہر طرف تباہی بربادی ہے۔ اس اکبر بادشاہ کا ستیا ناس جائے، منحوس بادشاہ ہے۔ اکبر یہ سن کر حیران رہ گیا۔ یہی آدمی تو تھا جو کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا۔ اور اب ایسا کیا ہو گیا؟

    دراصل بادشاہ کو عوام کی بدحالی اور تکالیف کا کوئی حقیقی معنوں میں علم نہیں‌ تھا۔ اسے تو سب اچھا ہے بتایا جاتا تھا۔ اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہوئی۔ مگر حجام اس وقت آپے سے باہر ہوا جارہا تھا۔ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر حکومت کو برا بھلا کہتا رہا۔ اکبر اس کی بات سے پریشان ہو گیا۔ بادشاہ نے وہاں سے کچھ دور جاکر بیربل سے پوچھا “آخر اس شخص کو کیا ہوگیا ہے، یہ سب کیوں کہہ رہا ہے”۔

    بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں دس اشرفیاں ہیں جو میں نے دو روز پہلے اس کی جھونپڑی سے چوری کروائی تھیں۔ حضور، جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا۔ اسے بادشاہ، اس کی حکومت سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ اور اپنی طرح وہ سب کو خوش حال اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ لیکن جب اس کی دولت لٹ گئی تو اسے ساری دنیا میں تباہی اور بربادی اور سب لوگ مصیبت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    جہاں پناہ! میں نے یہ حرکت کیوں کی؟ اس لیے کہ میں‌ آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ایک فرد اپنی خوش حالی کے تناظر میں ہی دوسروں کو بھی خوش و خرّم دیکھتا ہے۔ بادشاہوں اور حکم رانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنے کے لیے اپنی ذات سے باہر نکلنا چاہیے اور ان کی عینک سے معاملات کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ تبھی وہ اپنی رعایا کو سکھی اور شاد باد رکھ سکتے ہیں۔

    (ہندوستانی قصے اور حکایات)

  • تین گڑیاں (لوک کہانی)

    تین گڑیاں (لوک کہانی)

    فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بوجھنے اور معمّے حل کرنے کا بھی شوق تھا۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا۔

    سلطان نے تحفے کو کھولا، اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا۔ ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشا گیا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاری گری کی خوب تعریف کی۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘

    ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔ گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اور وہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھایا۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی۔ پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بُو مختلف ہو۔ چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھ کر دیکھا۔ تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کا سانس معطّر ہوگیا۔ صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔

    سلطان نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔ سلطان نے دربار بلایا۔ دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے۔ جس نے زندگی بھر کتابیں‌ پڑھی ہوں وہ بھی آگے آئے۔ ایک اسکالر اور ایک قصّہ گو سلطان کے حکم پر سامنے آئے۔

    سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس نے انھیں سونگھا، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلایا اور کچھ فرق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اکتا گیا اور گڑیوں کو میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔

    اب سلطان نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا تم گڑیوں کے درمیان کوئی فرق شناخت کر سکتے ہو!‘‘ قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا۔ وہ بال گڑیا کے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ قصّہ گو نے کہا، ’’ یہ گڑیا اس اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کر بڑی جرأت کی اور اس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا۔ سلطان کچھ نہ بولا۔ اس پر تو گڑیوں کا راز جاننے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔ دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

    اب قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روک پاتا اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔ پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔ بال اندر چلا گیا۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کا دوسرا سرا کہاں سے باہر آئے گا۔ بال گڑیا کے منھ سے باہر آیا۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔

    اب قصّہ گو نے کہا، ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے۔ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کا اپنا شاہکار لگے۔‘

    (فارسی ادب سے انتخاب)

  • سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔ سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چنانچہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی جب پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی ” جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ اپنی درباری پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟ اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا: "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔” اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟ وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ یہ ہرے بھرے جنگل، پھلوں پھولوں سے لدے ہوئے باغات، ان میں بولتی چڑیاں اور کلیلیں کرتے ہوئے جانور چھوڑ کر کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔ بادشاہ نے اسی طرح باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور سب نے سمندر میں جانے سے کھلم کھلا انکار کر دیا۔ اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور یہ دیکھ کر ہر ایک کو حیرت ہوئی کہ وہ بلاجھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں”ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔ گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔ اب جہاں جہاں ہم رہتے ہیں، ان میں چند مچھلیوں اور چھوٹے چھوٹے جھینگا جیسے جانوروں کے سوا کیا رکھا ہے؟ بڑے سے بڑا دریا بھی ہمارے لیے کافی نہیں، جب کہ ندی نالوں کو ہم قید خانے سے کم نہیں سمجھتے۔ حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ان باتوں کا ذرا خیال نہ کرو۔ جب تمھارا دل چاہے، روزانہ رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے، البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ۔”

    بادشاہ کی یہ تقریر سن کر سمندر کا ایلچی بھی خوش ہو گیا کہ ان کی عرض بھی قبول ہو گئی اور سمندر کی نئی پریاں بھی خوش تھیں کہ انھیں سمندر کی نئی حکومت ملی۔ چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کےتصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے پاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں کرنے کے لیے بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگاتار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو آخرکار بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کہیں کوئی مصیبت تو نہیں آ گئی؟ کیا بات ہے کہ پریاں سمندر سے باہر نہیں آئیں۔ اس نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا۔ ان کا حال پوچھا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: "بادشاہ سلامت کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دینا کہ ہمیں بھی اپنی سہیلیوں سے اتنے دن تک نہ ملنے کا بہت افسوس ہے۔ ہم کو یہاں آ کر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا ہے، وہ سنائیں گے۔”

    رات ہوئی تو پریاں سمندر کے کنارے پانی سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے کے لیے جمع ہو گیا اور جب انھوں نے سمندر کی تہہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور تمام درباری پریاں حیران رہ گئیں اور بڑی دلچسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ چوں کہ تمھاری مصروفیت بہت زیادہ ہے اور تمھارا رہنا بھی ٹھہرا دور دراز، اس لیے مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ بھی الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں۔ انھوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھیں اپنا علیحدہ بادشاہ ملا اور اپنی الگ سلطنت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے نئے بادشاہ کے محل کی تعمیر کرنے کے لیے سمندر میں چلی گئیں۔

    سمندر کی تہ میں پہنچتے ہی پریوں نے محل کا ڈول ڈال دیا۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔ محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔ دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف سمندر کے پھولوں کے درختوں سے آراستہ باغات تھے۔ جگہ جگہ فوارے، جو رات دن چلا کرتے۔ رات کی روشنی کے لیے چمکتی ہوئی مچھلیاں تھیں، جو ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں ان شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں، کیوں کہ سونے کے علاوہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کیے ہی جاتے اور ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہ بیٹھتے۔

    کیکڑوں کی نہایت خوب صورت اور نرالی وردیاں بنائی گئی تھیں، ان کی پشتوں پر خوش نما رنگوں کا سمندری سبزہ اگا دیا گیا تھا۔ انہیں اپنی تمام عمر میں کبھی ایسا اچھا زمانہ نہیں ملا تھا۔ ان کی پرانی زندگی بدل گئی تھی۔ وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ اول اول پریاں بہت گھبرائیں، لیکن ایک بوڑھے دریائی بچھڑے نے، جو کئی برس سے ایک عجائب خانے میں رہتا تھا، پریوں کو بتایا کہ سمندر میں دعوت کا سامان کیا ہوتا ہے اور کس طرح کرنا چاہیے۔ چناں چہ اس کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئیں اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    دعوت کی رونق کے لیے پانی کے کم از کم دس لاکھ بچے بلائے گئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک خوب گانے والا تھا۔ کھانا کھاتے وقت گانا لازمی تھا، اس لیے گانے والوں اور بجانے والوں کی ایک بہت بڑی ٹولی جلوس کے کمرے میں ایک طرف کھڑی کر دی گئی اور دروازے کے پاس دو نقارچی بڑے بڑے سنکھ لیے کھڑے تھے کہ جب بادشاہ سلامت اندر آئیں تو اس کا اعلان کریں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائیں ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھ دار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوبصورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔ بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔ سمندر کے اژدہے اپنے آپے سے تو باہر نہیں ہوتے، گنڈلی ٹنڈلی مار کر دوسروں کا راستہ تو نہیں روک لیتے۔ ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے۔ اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟ شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ رات کو اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت ہر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا کودنا، چٹانوں پر بیٹھنا، اپنے بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔ بدذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔ سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی وحشت ناک طوفان آتے اور پانی کی موجیں شور کے ساتھ سمندری مملکت پر حملہ آور ہوتیں تو پریاں پانی کی بلند سے بلند سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے سن لیا کہ خشکی کی پریوں کی طرح سمندر میں پریاں کس طرح پیدا ہوئیں اور کیوں کر وہاں آ گئیں؟

    (مصنّف نامعلوم)

  • خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    ایک گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ سارا دن آگ کی بھٹی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ لوہا گرم کرتا، اسے کوٹتا اور کسانوں کے لیے ہل، کلھاڑے کے پھل اور درانتیاں وغیرہ بناتا رہتا۔ سردی ہو یا گرمی ، سارا سال وہ اسی کام میں جٹا رہتا تھا۔

    ایک دن شدید گرمی میں لوہار بھٹی میں لوہا گرم کرنے کے بعد اسے کوٹ رہا تھا تاکہ وہ اوزار تیار کرسکے جو اسے گاہک کو بیچنا ہے۔ ایسا کام خطرناک بھی ہوتا ہے اور بہت زیادہ احتیاط بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کبھی بھول چوک اور کبھی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔ لوہار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ حادثاتی طور پر اس روز گرم ایک ٹکڑا اس کے جوتے میں جا پڑا۔ اس نے جلدی سے جوتا اتارا، لیکن اس وقت تک پاؤں جل چکا تھا۔ لوہار کو سخت تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:

    ’’یہ کام بہت سخت ہے۔ بھٹی کی گرمی اور پھر گرم لوہے کے ٹکڑے، میں تو اس کام سے تنگ آگیا ہوں۔ بہتر ہوتا، اگر میں پہاڑ پر پڑا ایک پتھر ہوتا۔ پہاڑ پر پڑا پتھر کتنا خوش ہوتا ہو گا۔ پہاڑ پر ہر وقت چلتی ہوا، اسے ٹھنڈا رکھتی ہو گی۔ پھر، پہاڑی پر درختوں کا سایہ بھی تو ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہتی ہو گی۔‘‘
    جب لوہار باتیں کر رہا تھا تو اسی وقت وہاں سے ایک جنّ کا گزر ہوا۔ جنّ نے اس کی باتیں سنیں اور لوہار سے کہا: ’’چلو، میں تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ لوہار کا وجود ایک پتّھر میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھر اس پتّھر کو ایک بڑے پہاڑ کے اوپر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں‌ پہنچ کر لوہار جو اب ایک پتّھر بن چکا تھا، تھوڑی دیر تو آرام سے پڑا رہا، لیکن پھر ایک شخص اس پہاڑ پر آپہنچا۔ یہ شخص کچھ خاص قسم کے پتّھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ انہیں تراش کر مجسمے وغیرہ بنا سکے۔ اس نے کئی پتّھر اپنے تھیلے میں‌ اکٹھا کر رکھے تھے اور جب اس پتّھر پر نظر پڑی تو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اسے اپنے مطلب کا جان کر اٹھایا اور تھیلے میں‌ کئی پتّھروں کی طرح اسے بھی ڈال لیا۔ یہ پتّھر جو اصل میں لوہار تھا، کچھ دیر ہلتے ہوئے تھیلے میں رہا اور محسوس کیا کہ وہ شخص یہ تھیلا اٹھائے اونچے نیچے راستوں‌ پر بڑھ رہا ہے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گیا اور پتّھروں سے بھرے ہوئے تھیلے کو ایک جگہ رکھ دیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ وہ سنگ تراش آیا اور اس نے تھیلا الٹ دیا۔ اس میں‌ سے چند پتّھر دیکھ بھال کر اٹھائے جن میں‌ لوہار بھی شامل تھا۔ سنگ تراش نے اچانک اسے ہاتھ میں لے لیا اور لگا لوہے کے اوزار سے اسے کاٹنے۔ یہ پتّھر چلّانے لگا:

    ’’مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ ضرب سے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے، میں پتّھر نہیں رہنا چاہتا۔ بہتر ہے میں پتّھر کاٹنے والا بن جاؤں۔‘‘ اس کی خواہش جنّ تک فوراً پہنچ گئی۔ اس نے اسے پتّھر سے دوبارہ انسان بنا دیا اور اسے سنگ تراشی کے پیشہ کا پابند بھی کردیا۔ اب وہ شخص جو کبھی لوہار تھا اور پتّھر بن گیا تھا، ایک سنگ تراش کی حیثیت سے پہاڑوں میں‌ پتّھروں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور تھا۔ اس نے پتّھر ڈھونڈنے کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، لیکن اسے مناسب پتھر نہیں مل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ ان سے خون رِسنے لگا۔ سورج کی تپش سے پہاڑ پر موجود پتّھر نہایت گرم ہو رہے تھے۔ اسے یہ سب مشکل لگا۔ اس نے چلّانا شروع کر دیا:

    ’’میں پتّھر کاٹنے والا نہیں رہنا چاہتا۔ میں سورج بننا چاہتا ہوں۔‘‘ اس مرتبہ جنّ نے پھر اس کی آرزو پوری کردی اور اسے سورج بنا دیا۔ سورج بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ اس کا اپنا وجود ہی لوہار کی بھٹی سے بھی زیادہ گرم ہے۔ تپتے پتّھر سے بھی زیادہ گرم ہے۔ سورج میں‌ تبدیل ہوتے ہی اس نے لمحوں‌ میں اپنی خواہش داغ دی اور کہا:‌

    ’’میں سورج نہیں رہنا چاہتا۔ چاند، سورج کے مقابلے میں کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں چاند بننا چاہتا ہوں۔‘‘ جنّ نے سورج کی یہ آواز سنی۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے لوہار کو چاند بنا دیا۔ چاند بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ چاند پر تو سورج کی ہی روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی اسی طرح تپتا ہے، جیسے سورج کی تپش سے پتھر تپتا ہے۔ اس نے کہنا شروع کر دیا:

    ’’میں چاند بن کر نہیں رہ سکتا، مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ لوہار کی زندگی ہی سب سے بہترین ہے۔‘‘ جنّ نے اس کی بات سنی اور کہنے لگا:

    ’’تم نے جو کہا، میں نے تمہیں ویسا ہی بنا دیا۔ اب میں تمہاری فرمائشوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم نے چاند بننے کا کہا، میں نے تمھیں چاند بنا دیا۔ اب تم چاند ہی رہو۔ اس نے یہ سنا تو جنّ کے آگے گڑگڑانے لگا اور بولا کہ میں‌ وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اپنے پیشے کی برائی نہیں کروں اور بے جا خواہشات سے بھی باز آتا ہوں، تم مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ جنّ نے اس کے ساتھ نرمی برتی اور اسے لوہار بنا کر نصیحت کی کہ دیکھو جس حال میں‌ ہو خوش رہنا سیکھو، اور ذرا سی تکلیف یا برا وقت آنے پر اپنے اُس پیشے کو برا نہ کہو جس سے تم ایک عرصہ سے روزی کا بندوبست کرتے آ رہے ہو۔ ایسا کرنے والا ناشکرا اور بے وفا انسان ہوتا ہے۔

    (اطفالِ ادب سے انتخاب)

  • بھونرے کی کہانی!

    بھونرے کی کہانی!

    آج ننھی کنول کو زکام ہو گیا تھا۔

    بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ گھر میں امی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں، آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوارہ بنانا، اسے دوسروں پر پھینکنا اور پانی کے سارے کھیل اسے بہت اچھے لگتے تھے اور ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر اسے زکام ہو گیا۔ ناک سے پانی۔ آنکھوں سے پانی۔ آنکھیں لال۔ ’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخار بھی ہو گیا۔ اب وہ نرسری کیسے جاتی۔ تو اسے چھٹی کرنی پڑی۔

    گھر پر اکیلے لیٹے لیٹے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچے بھی سب اپنے اپنے اسکول جا چکے تھے اور باہر گلی میں کھیلنے پر امی بہت خفا ہوتی تھیں۔

    جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔ رنگ برنگی تتلیاں، لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھر رہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پر پڑ گئی۔

    بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ ننھی کنول تھوڑی دیر بھونرے کو غور سے گھورتی رہی اور پھر جیسے کوئی اپنے آپ سے بولنے لگے، اس نے بولنا شروع کر دیا۔
    ’’میاں بھونرے۔ میاں بھونرے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی اور سندر ہیں؟‘‘

    ننھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔ ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہو گیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کر رہا تھا اور اسی میں سے یہ آواز آ رہی تھی۔

    ’’کیوں!‘‘ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے چاندی ہیرے موت سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے، ہیرے موتی کے پردے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول، پتے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور ہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا باندھی جائیں۔‘‘

    ’’بس میرا حکم ہونے کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مر گئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘

    ’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہو گئے اور پھر بیمار ہو گئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لئے بچوں کے ماں باپ پریشان ہو گئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن دیس کے سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔ انہوں نے کہا تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار ڈال دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے۔ جاؤ۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگا دیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔

    ’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں، میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھر رہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لئے کہہ دو گی۔ اب مجھے پھولوں، پتوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہو گیا ہے۔‘‘

    ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذرا چھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سو رہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے لال لال کلے کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اڑ رہا ہے۔

    (بچّوں کے لیے یہ کہانی بھارتی شاعرہ اور ادیب سیدہ فرحت نے تحریر کی ہے)