Tag: اردو کہانیاں

  • حاجت روا (ایک حکایت)

    حاجت روا (ایک حکایت)

    ایک بادشاہ اپنے چند رفقاء اور درباریوں‌ کے ساتھ اپنے محل سے سیر کی غرض سے نکلا، لیکن ایک مقام پر ان سے بچھڑ گیا اور چلتے چلتے دور ویرانے میں پہنچ گیا۔ وہاں اسے ایک جھونپڑی نظر آئی!

    اس ویرانے میں ایک چھونپڑی دیکھ کر بادشاہ کو حیرت بھی ہوئی اور امید بھی بندھی کہ اب وہ دوبارہ اپنے محل پہنچ سکتا ہے۔

    بادشاہ نے جھونپڑی کے آگے کھڑے ہو کر آواز دی تو اس میں سے ایک شخص باہر آیا۔ بادشاہ نے اسے بتایا کہ وہ مسافر ہے اور راستہ بھٹک کر ادھر نکل آیا ہے۔ اس جھونپڑی میں رہنے والا ایک بوڑھا شخص تھا جس نے بادشاہ کو تسلّی دی اور جھونپڑی میں لے گیا۔ اس نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی۔ وہ غریب آدمی جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے۔ اس نے مسافر سمجھ کر بادشاہ کی خدمت کی اور جو کچھ کھانے پینے کو اس کے پاس تھا، اس کے سامنے رکھا۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ پھر اس دیہاتی بوڑھے نے بادشاہ کو اچھی طرح شہر جانے کا راستہ سمجھا کر روانہ کیا۔ روانگی کے وقت بادشاہ نے اس پر اپنی حقیقت کھول دی اور اپنی انگلی سے ایک انگوٹھی اتاری اور کہا: تم مجھے نہیں جانتے تھے کہ میں بادشاہ ہوں۔ لیکن ایک مسافر سمجھ کر تم نے میرا خیال رکھا اور یہ تمھارا نیک اور اچھا انسان ہونا ثابت کرتا ہے۔ یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضرورت ہو محل کے دروازے پر آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھانا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرا دے گا۔ بادشاہ اس آدمی کے بتائے ہوئے راستے پر ہولیا اور اپنے محل پہنچ گیا۔

    ادھر وہ غریب بوڑھا ایک عرصہ بعد کسی مصیبت میں گرفتار ہوا تو سوچا، بادشاہ کے پاس جاتا ہوں تاکہ اس سے حاجت بیان کروں۔ وہ غریب محل کے دروازے پر پہنچا اور دربان کو کہا کہ اسے بادشاہ سے ملنا ہے۔ دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اور سوچا کہ اس کی کیا اوقات بادشاہ سے ملنے کی۔ دربان نے کہا تم بادشاہ سے نہیں مل سکتے، مفلس و قلاش آدمی۔ تب اس دیہاتی شخص نے وہ انگوٹھی اس کے سامنے کردی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس؟ دربانوں کو بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جو لے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہوں اُسے ہم تک پہنچایا جائے۔

    چنانچہ دربان اسے ساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا، وہ اندر داخل ہوگئے۔ غریب بوڑھے نے دیکھا کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے۔ پھر اس نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا، دربان نےکہا مل تو لو کہا اب نہیں ملنا ہے، کام ہوگیا۔ اب واپس جانا ہے۔ وہ دیہاتی یہ کہتا ہوا آگے چلا گیا۔ ادھر بادشاہ دعا سے فارغ ہوا تو دربان نے یہ ساری قصّہ گوش گزار کیا۔ بادشاہ نے کہا فوراً اسے لے کر آؤ، وہ ہمارا محسن ہے۔ دربانوں نے اس دیہاتی کو جا لیا۔ وہ واپس لایا گیا تو بادشاہ نے اسے پہچان لیا اور کہا آئے تھے تو ملے ہوتے، ایسے کیسے چلے گئے؟ اس دیہاتی بوڑھے نے کہا کہ بادشاہ سلامت! اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کر دیں گے۔ مجھے ایک ضرورت پیش آئی تھی، میں اس لیے یہاں‌ آیا مگر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں، تو میرے دل میں خیال آیا کہ جس سے اتنی بڑی سلطنت کا بادشاہ بھی مانگ رہا ہے، کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگوں۔

    ( قدیم کہانیاں اور حکایات سے انتخاب)

  • ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

    ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

    پیارے بچو! اگر آپ کو کہیں تیز چالاک آنکھیں اور سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی لیے کوئی شخص نظر آ جائے تو رک جائیے اور غور سے دیکھئے، اگر اس کی قبا پرانی اور پھٹی ہوئی ہو، سر پر ٹوپی میلی اور دھبوں سے بھری ہوئی ہو اور اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے اور خستہ حال ہوں تو یقین کر لیجیے کہ وہی خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا ہیں۔

    وہی خواجہ نصر الدّین جو ملا نصر الدّین کے نام سے معروف ہیں اور جن کی کہانیاں آج بھی عراق، ایران، ترکی، روس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہیں، ازبکستان، آذربائیجان، ترکمانیہ اور تاجکستان وغیرہ میں اُن کا ذکر اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ہوں!

    خواجہ بخارا کا گدھا بھی گھر ہی کا کوئی فرد نظر آتا ہے جہاں خواجہ کا ذکر وہاں ان کے گدھے کا ذکر۔

    تو بچو، خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین اپنے گدھے پر سوار ہندوستان کے سفر پر آئے ہوئے ہیں، ہوشیار چمکتی ہوئی آنکھوں، سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی اگائے، پھٹی پرانی قبا اور سر پر میلی کچیلی ٹوپی کے ساتھ کوئی شخص گدھے پر سوار یا اپنے گدھے کو تھامے کہیں نظر آ جائے تو بلا تکلف اسے روک لیجیے ورنہ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کے حقیقی دیدار سے محروم ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خواجہ کو ایک شام پرتکلف کھانا ضرور کھلائیے، ہاں جب بھی خواجہ کو مدعو کیجیے تو یہ ہرگز نہ بھولیے کہ ان کے گدھے کے لیے ہری ہری گھاس کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایسا نہ ہوگا تو گدھا بدک جائے گا، خدانخواستہ گدھا بدکا تو یہ سمجھئے کہ خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین بدکے۔

    ایک شام انڈیا گیٹ سے سرپٹ جو اپنا گدھا دوڑایا تو خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین نے بوٹ کلب کے میدان کے پاس ہی آ کر دم لیا۔

    بوٹ کلب پر اتنی بھیڑ تھی کہ اللہ توبہ کوئی جلسہ ہو رہا تھا اور نیتا لوگ تابڑ توڑ اپنا بھاشن داغ رہے تھے۔ ملا جی اپنے گدھے کو لیے ایک طرف بیٹھ گئے، گدھا بھوکا تھا اور خواجہ بخارا کو بھی بھوک لگ رہی تھی۔ گدھا اطمینان سے پیٹ بھر نے لگا اس لیے کہ لان میں ہری ہری گھاس موجود تھی، ملا نصر الدّین کی نظر سامنے کھڑے خوانچے والے کے اوپر تھی کہ جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا، انھیں معلوم نہ تھا کہ خوانچے والا کیا فروخت کر رہا ہے۔ سوچ رہے تھے بھیڑ چھٹ جائے تو دیکھیں اس کے پاس کیا ہے۔

    بچو، تم سب جانتے ہو کہ اپنے دیش کے نیتا لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔ ایک عدد مائیکرو فون اور ایک اسٹیج۔ سننے والے دو چار ہی کیوں نہ ہوں، یہاں اسٹیج بھی تھا، مائیکرو فون بھی اور جنتا بھی، بھلا کس بات کی کمی تھی، نیتا لوگوں کی پھٹی پھٹی آوازوں سے کان کے پردے پھٹ رہے تھے۔ درمیان میں نعرے بھی بلند ہو رہے تھے، زندہ باد، مردہ باد۔ ملا نصرالدین کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا، سوچنے لگے یہ لوگ دیوانے ہیں یا خون کے پیاسے۔ یہ بات بخوبی سمجھ رہے تھے کہ جو نیتا لوگ بھاشن دے رہے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ اپنے لفظوں سے نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملا جی سوچنے لگے عجیب بات ہے۔ کہنے کو یہ لوگ رہنما ہیں اور باتیں نفرت کی کرتے ہیں۔ اس سے تو نقصان ان کے اپنے لوگوں کا ہی ہوگا۔ اپنے ملک کا ہوگا۔ جب خواجہ صاحب دہلی پہنچے تھے تو انھوں نے ایک شخص سے پوچھا تھا ’’میاں دلی کا کیا حال ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا تھا ’’کیا پوچھتے ہو صاحب، ہر جانب صرف دھما چوکڑی ہے۔‘‘ اب ملا جی کی سمجھ میں دھما چوکڑی کا کیا مطلب سمجھ میں آیا۔ اچانک جلسہ ختم ہوا اور ملا جی نے دیکھا ایک بھگدڑ مچ گئی ہے۔ لوگ ہیں کہ بس ایک دوسرے پر لڑھکتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ پستے جا رہے ہیں لیکن نیچے گر کر بھی اپنی بتیسی نکالے ہوئے ہیں جیسے ان کے جوڑوں کا درد ٹھیک ہو رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام خوانچے والوں کی چلتی پھرتی دُکانیں لٹنے لگیں۔ خوانچہ والے آئس کریم والے سب اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے دم دبا کر بھاگ رہے ہوں۔ خواجہ بخارا کو بصرہ کا وہ ساربان یاد آ گیا بچو، جسے آہن گر نے قرض وصول کرنے کے لیے صرف ایک طمانچہ رسید کیا تھا اور وہ اپنی اُونٹنی چھوڑ سرپٹ دوڑا تھا جیسے اس کے پیچھے بوتل کا جن نکل آیا ہو۔

    خواجہ نصر الدّین سوچ رہے تھے لوگ اطمینان سے کیوں نہیں نکل رہے ہیں، یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو نیتا لوگوں کا بھاشن سن رہے تھے آپس میں لڑنے لگے، دھول اڑنے لگی، چیخ پکار، نعرے بازی، مُلّا جی کا گدھا بھی گھاس چھوڑ کر اس جانب دیکھنے لگا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو لگا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے۔ ملا جی نے اسے ڈانٹا، کہا: ’’اے عقلمند گدھے تجھے کیا ہو گیا ہے، یہ لوگ تو تقریریں سن کر باؤلے ہو رہے ہیں۔ نفرت اپنی جھولی میں بھر بھر کر لیے جا رہے ہیں، لڑتے بھی جا رہے ہیں اور نفرت سے جھولی بھرتے بھی جا رہے ہیں، ذرا اُن کی آوازیں تھم جائیں پھر اپنا راگ سنانے کی کوشش کر۔’’ گدھا اپنے مالک کی بات فوراً سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا۔

    ملا جی نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’میرے پیارے گدھے تو نیتاؤں سے بہت اچھا ہے تو مدد کرنے والا جانور ہے اور وہ — وہ نفرت پھیلانے والے لوگ! میرے پیارے گدھے، میں نے بخارا میں سنا تھا کہ اس ملک میں بھوک ہے، بیکاری اور بیروزگاری ہے۔ غریبی اور مہنگائی ہے۔ سیلاب اور خشک سالی ہے، اتنی ساری بیماریاں ہیں، پھر یہ نئی بیماری نفرت کی کہاں سے ٹپک پڑی۔’’ گدھے نے ان کی باتیں سنتے ہوئے ایک بار ’ڈھینچو’ کہا یعنی مالک آپ ٹھیک فرما رہے ہیں اور خاموش ہو گیا۔

    جب اندھیرا ہونے لگا تو ملا نصر الدّین اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ ایک شخص دوسری جانب سے دوڑا آ رہا تھا۔ اس نے ملا جی کو گدھے پر سوار دیکھا تو ہانپتے ہوئے بولا: ’’حضرت آپ جو بھی ہوں یہاں سے چلے جائیے، اس طرف پولیس کی گولیاں چل رہی ہیں۔ آپ خواہ مخواہ شہید ہونا کیوں چاہتے ہیں۔‘‘

    ملا نصر الدین نے اس شخص کو روک کر کہا: ’’السلام علیکم۔‘‘

    اس شخص نے کہا: ’’وعلیکم السلام۔ کہنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، میں تو بھاگ رہا ہوں، سنا ہے کہ بھاگنے والے سلام کا جواب دیتے ہیں تو پیچھے سے شیطان اسے دبوچ لیتا ہے۔‘‘ وہ شخص بری طرح ہانپ رہا تھا۔

    ملا نصر الدین مسکراتے ہوئے بولے ’’میاں جو ہو رہا ہے ہونے دو، میں تو کبیر داس کی تلاش کر رہا ہوں۔ وہ مجھے مل جائیں تو ہم دونوں حالات پر قابو پالیں گے۔‘‘

    ’’کبیر داس؟ وہ برسے کمبل بھیگے پانی والے کبیر داس؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

    ہاں وہی کہاں ملیں گے؟’’ ملا نصر الدین نے پوچھا۔ ’’

    ’’وہ تو ہمارے حال پر ماتم کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے، انھوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی، پھر وہ چلے گئے، مجھے معاف کیجیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ وہ شخص پھر دوڑنے لگا۔

    ملا نصرالدین نے کہا ’’آپ شوق سے دوڑیے، صرف ایک پیغام ہے میرا اسے اس ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دیجیے، یہ پیغام دراصل داس کبیر کا ہے اور اب میرا بھی سمجھئے، لوگوں سے کہیے اس پیغام کو پانی میں گھول کر پی جائیں، اللہ شفا دے گا۔‘‘

    جلدی بتائیے پیغام کیا ہے، میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

    ’’میرا پیغام یہ ہے، اِسے پڑھ لیجیے، یاد کر لیجیے اور اس ملک کے تمام لوگوں سے کہیے یہ بابا کبیر داس کا پیغام ایک بار پھر سن لو۔ ملا نصرالدّین یہی پیغام سن کر بخارا سے ہندوستان آئے ہیں‘‘۔

    آپ جلدی سے پہلے پیغام تو پڑھیے میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

    ملا نصرالدین نے داس کبیر کا یہ شعر پڑھا:

    چھینہ بڑھے چھن اوترے سو تو پریم نہ ہوئے
    اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے

    اس کا مطلب جلدی سے بتائیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے گزارش کی۔’’

    ملا نصرالدّین نے کہا ’’میاں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک لمحے میں چڑھے اور دوسرے لمحے میں اتر جائے وہ محبت نہیں ہوتی جب ایسی محبت انسان میں پیدا ہو جو کم ہونے والی نہ ہو وہی محبت کہلاتی ہے۔‘‘

    اس شخص نے کہا ’’بہت خوب بہت خوب۔ بابا کبیر داس کا جو پیغام آپ لائے ہیں میں اسے ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دوں گا۔ میں دوڑ رہا ہوں، دوڑتے دوڑتے ہر گھر میں یہ بات پہنچا دوں گا۔ اب چلا اس لیے کہ میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘

    ملا نصرالدین مسکرائے اور گدھے پر سوار جامع مسجد علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کی زبان پر یہ مصرع تھا۔

    اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے۔

    (کہانی کے مصنّف شکیل الرحمٰن کا تعلق بھارت سے ہے)

  • اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔

    وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

    یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

    پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

    پری ہنستے ہوئے بولی، ’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

    (معروف پاکستانی شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • قصہ لکھن لال جی کا…

    قصہ لکھن لال جی کا…

    مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

    وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور انھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچو میرا کیا حال ہو گیا۔ جب انھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آ گیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں’’

    ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

    وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔’’ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری روح فنا ہو جاتی۔

    وہ۔۔۔ اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچو، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آ گیا بندر کی دُم والا۔‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دبک جاتا۔

    بہت دن بیت گئے۔ جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ان کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جاکر پیسے مانگتے ہیں۔

    یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا ان کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں ان کی کہانی کیا تھی البتہ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

    اتنا یاد ہے ان کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دور ’’بلوا ٹال’’ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر…’’ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘ ان سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

    پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ ان کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے ان سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچّوں کو ان کے بارے میں بتایا اور میرے بچّوں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘

    بہت دن بیت گئے۔ موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلوا ٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔‘‘

    بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انھیں ہٹاکر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آ گیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

    کیا یہ وہی شخص ہے؟ کیا یہ وہی لکھن لال ہیں؟ انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے انھیں میری یاد دلائی۔ انھیں یاد آ گیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ان کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچّو! میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے- ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

    جب رخصت ہونے لگا تو انھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک۔۔۔ دھو۔۔۔ دھڑ۔۔۔ کی ناک۔۔۔ نجر۔۔۔ کھررے۔۔۔ کھاں۔’’ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

    پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔ اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

    بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

    (اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد شکیل الرّحمٰن کی بچّوں کے لیے ایک کہانی)

  • معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    چند دن پہلے کی بات ہے، میں نے اپنے بچّوں کی آیا (یولیا واسیلیونا) کو اپنے دفتر میں مدعو کیا تاکہ اس کی تنخواہ کی ادائیگی کی جا سکے۔

    میں نے یولیا واسیلیونا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹھو، تمھیں تنخواہ دینے سے پہلے تمھارے سامنے کچھ حساب رکھنا چاہتا ہوں… تمھیں شاید پیسوں کی ضرورت ہے، لیکن دو ماہ کی میرے ذمہ واجب الادا تنخواہ تم خود مانگتے ہوئے شرماتی کیوں ہو، سنو تمھیں یاد ہے نا کہ تمھیں ملازمت دینے سے پہلے ہم نے اتفاق کیا تھا کہ میں تمھیں ماہانہ تیس روبل ادا کروں گا۔

    یولیا واسیلیونا نے منمناتے ہوئے کہا چالیس روبل…

    نہیں، تیس… یہ دیکھو میرے پاس معاہدے کی تمام دستاویزات موجود ہیں جن پر تم نے انگوٹھا ثبت کر رکھا ہے۔ چالیس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کیونکہ میں نے خادموں کو ہمیشہ بطور ماہانہ اجرت تیس روبل ہی دیے ہیں… ٹھیک ہے، تم نے ہمارے لیے دو مہینے کام کیا ہے… یولیا واسیلیونا نے کمزور سے لہجے میں کہا دو مہینے پانچ دن۔

    نہیں ٹھیک دو مہینے، یہ دیکھو تمھارا حاضری کارڈ۔ میرے پاس ہر چیز ریکارڈ میں موجود ہے، اس طرح طے شدہ تنخواہ کے حساب سے تو تم ساٹھ روبل کی مستحق ہو۔

    ہم اس میں سے نو اتوار کی چھٹیاں کاٹ لیتے ہیں، کیونکہ اتوار کو کولیا میری بیٹی کی چھٹی ہوتی تھی تو تم اس دن اسے لکھانے پڑھانے کی بجائے صرف اس کے ساتھ صبح اور شام کی سیر کے لیے جاتی تھی۔ پھر تم نے ذاتی کام کاج کے لیے تین دن کی چھٹیاں کی تھیں۔

    یولیا واسیلیونا کا چہرہ بے بسی کے مارے زرد ہوچکا تھا، اور وہ اپنی انگلیوں سے قمیص کے کناروں کو لپیٹ رہی تھی، لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

    نو اتوار کی چھٹیاں اور تمھاری اپنی تین چھٹیاں کاٹ لیں، تو بارہ ایام کے کل بارہ روبل بنتے ہیں… کولیا چار دن سے بیمار تھی اور اس دوران اسے کوئی سبق نہیں پڑھایا گیا… تم نے صرف وریا کو پڑھایا تھا… اور تین دن تمہارے دانتوں میں درد تھا، اس لیے میری بیوی نے تمہیں اجازت دی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد پڑھانے کی بجائے آرام کرو۔

    تو بارہ جمع سات… انیس… کو منہا کیا، بقیہ… اکتالیس ۔۔۔ روبل.. ٹھیک ہے؟ یولیا واسیلیوینا کی بائیں آنکھ سرخ ہو گئی اور آنسوؤں سے بھر گئی، اور اس کے چہرے کے عضلات سکڑ گئے۔ وہ اچانک زور سے کھانسی اور الٹے ہاتھ کی پشت سے ناک کو پونچھا، لیکن… اس نے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا۔

    نئے سال کی شام سے پہلے، تم نے ایک کپ اور ایک پلیٹ توڑ دی۔ اس کے لیے زیادہ نہیں میں صرف دو روبل کاٹ رہا ہوں حالانکہ کپ اس سے کہیں زیادہ مہنگا تھا، یہ وراثت میں ملا تھا، لیکن خیر خدا تمھیں معاف کرے! ہمیں ہر چیز کا معاوضہ تو دینا پڑتا ہے… ہاں، اور تمھاری لاپروائی کی وجہ سے، کولیا درخت پر چڑھ گئی اور اس کی جیکٹ پھٹ گئی۔
    قیمتی جیکٹ کے بدلے دس روبل کاٹ رہا ہوں… تمھاری غفلت کی وجہ سے نوکرانی نے وریا کا ایک جوتا چرا لیا، حالانکہ بچوں کے سامان کی حفاظت کرنا تمھارا فرض ہے جس سے تم نے کوتاہی برتی، اور تم اپنا فرض نبھانے کی ہی تنخواہ لیتی ہو۔

    اور اس طرح میں نے جوتوں کے بھی پانچ روبل کاٹ لیے۔ 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے۔ یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کے انداز میں کمزور سا احتجاج کیا: نہیں میں نے نہیں لیے!- لیکن یہ دیکھو اس تاریخ کو میرے حساب میں لکھا ہوا ہے، تم جانتی ہو حساب کتاب میں، مَیں کتنا اصول پسند ہوں۔

    اچھا ٹھیک ہے، لیے ہوں گے ،اب؟

    اکتالیس میں سے، ستائیس کاٹے تو… باقی چودہ بچ گئے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کی لمبی، خوبصورت ناک پر پسینے کے قطروں سے موتیوں کی مالا بن گئی تھی۔

    میں غریب لڑکی ہوں! اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا: میں نے فقط ایک بار ادھار لیا… وہ بھی میں نے آپ کی بیوی سے تین روبل لیے… اس کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں لیا۔

    کیا واقعی؟ دیکھو، مجھے تو ان تین روبل کا علم ہی نہیں تھا، نہ ہی حساب کتاب کے گوشواروں میں ان کا ذکر ہے۔ چودہ میں سے تین کاٹتے ہیں، اور باقی بچتے ہیں گیارہ روبل… یہ رہی تمھاری تنخواہ!

    تین.. تین.. تین.. ایک.. ایک.. آؤ آگے بڑھو، اور انہیں وصول کر کے تصدیقی انگوٹھا ثبت کر دو۔ اور میں نے گیارہ روبل اس کی طرف بڑھائے تو اس نے انہیں لے کر کانپتی انگلیوں سے اپنی جیب میں ڈالا اور سرگوشی کی: شکریہ جناب!

    تو میں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، اور غصے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کس چیز کے لیے تم شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا نے جواب دیا: تنخواہ کی ادائیگی پر…

    لیکن میں نے تمھیں لوٹ لیا، تمھارا حق جو بنتا تھا اس سے میں نے اپنی مرضی سے کٹوتی کر لی! اس واضح ناانصافی پر بھی تم میرا شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا گویا ہوئی: دراصل اس سے پہلے جس کے پاس میں ملازمہ تھی، اس نے تو مجھے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔

    کیا کہا؟ اس نے تمھیں کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی؟ یہ تو عجیب بات نہیں ہے؟

    یولیا واسیلیونا سنو! میں نے تمھارے ساتھ مذاق کیا ہے، میں دراصل تمھیں مشکل سبق سکھانا چاہ رہا تھا۔

    میں تمھیں تمھاری مکمل تنخواہ ادا کروں گا، پورے اسّی روبل! وہ دیکھو تمھارے لیے، تنخواہ کی رقم لفافے میں موجود ہے! لیکن کیا تم اتنی ناانصافی کے بعد بھی اپنا حق مانگنے سے قاصر ہو؟ احتجاج کیوں نہیں کرتی؟ ظلم پر خاموشی کیوں؟ کیا اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے لاتعلق رہے، اور جوابی وار نہ کرے؟ کیا اس حد تک سادہ لوح ہونا ممکن ہے؟

    وہ بے بسی سے مسکرائی اور اس کے چہرے پر واضح لکھا تھا: شاید!

    میں نے اسے سخت سبق سکھانے کے لیے اس سے معذرت کی اور پورے اسّی روبل اس کے حوالے کر دیے۔ اس نے بے یقینی اور حیرت کے ساتھ شرماتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی۔

    اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے سوچا: واقعی، اس دنیا میں کمزوروں کو کچلنا کتنا آسان ہے!

    (مصنّف: انتون چیخوف، عربی سے اردو ترجمہ: توقیر بُھملہ)

  • گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    پچھلے پچاس منٹ سے تینوں بچے سَر جوڑے غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تینوں کی خواہش تھی کہ کل اتوار کو انٹرنیشنل سرکس دیکھا جائے۔ اس سرکس کی بے حد تعریف ہو رہی تھی اور آج یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اسی ہفتے میں اس شہر سے سرکس والوں کا ڈیرا اٹھنے والا ہے۔

    تینوں میں سب سے بڑا شہیر تھا۔ وہی ممی کے پاس اجازت لینے کے لیے پہنچا، لیکن ابھی اس کے منہ سے سرکس کی بات نکلی ہی تھی کہ ممی کا سنسناتا ہوا طمانچہ اس کے گال پر پڑا۔ شہیر کی آنکھوں کے سامنے رنگ برنگے تارے ناچ گئے۔ ہما اور ڈولی دروازے کے قریب ہی کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ چٹاخ کی آواز سنتے ہی ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی اور دونوں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آ گئیں۔

    ممی چلا رہی تھیں: "جمعرات سے امتحان شروع ہو رہا ہے اور تمھیں سرکس کی سوجھ رہی ہے۔”

    ممی کے اس سخت برتاؤ پر غور کرنے کے لیے ہی وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ "ہمارے سرکس دیکھنے جانے پر ممی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” ہما نے کہا۔

    "امتحان تو صرف بہانہ ہے۔ امتحان جمعرات سے شروع ہو گا اور ہم کل سرکس دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔” ڈولی بولی۔

    شہیر اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا: "سرکس دیکھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔”

    ڈولی بولی: "بھیا! آپ ایک غلطی کر رہے ہیں۔”

    شہیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا: "کیا؟”

    "ممی کا طمانچہ آپ کے بائیں گال پر پڑا ہے، مگر غلطی سے دایاں گال سہلا رہے ہیں۔”

    "ڈولی! اس مسئلے کو یوں مذاق میں نہ ٹالو۔” ہما نے چھوٹی بہن کو ڈانٹا۔

    "آئی ایم سوری۔” ڈولی غلطی مان گئی۔

    ہما اصل موضوع پر آتے ہوئے بولی: "ممی کے سلسلے میں ہمیں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔ آج بھیا کے طمانچہ لگا ہے، کل ہمارے بھی لگ سکتا ہے۔”

    شہیر نے مشورہ دیا: "کیوں نہ ہم ممی کا گھیراؤ کریں۔”

    "گھیراؤ!” ڈولی نے پوچھا: "یہ کیا چیز ہوتی ہے؟”

    "ٹھیک طرح تو مجھے بھی نہیں معلوم ہے، ویسے ریڈیو پر اکثر سنتا ہوں کہ فلاں جگہ مزدوروں نے مینجر کا گھیراؤ کیا اور اپنی باتیں منوا لیں۔”

    ہما نے کہا: "ہاں ٹھیک ہے۔ جس کا گھیراؤ کرنا ہو اس چاروں طرف سے گھیر لو۔”

    ڈولی بیچ میں بول پڑی: "پھر اسے نہ کام کرنے دو اور نہ کھانا پکانے دو، مزہ آ جاتا ہو گا۔”

    "بالکل۔” شہیر نے کہا۔

    ڈولی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو صرف تین ہیں۔ ممی کو تین طرف سے ہی گھیر سکتے ہیں۔ چوتھی طرف سے وہ نکل جائیں گی۔”

    "اس بات کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن مجھے ڈولی پر بھروسا نہیں ہے۔ ابھی پرسوں یہ ایک چھوٹی سی چوہیا سے ڈر کر ممی سے لپٹ گئی تھی۔” ہما نے ڈولی کا مذاق اڑایا۔

    ڈولی تلملا کر بولی: "چوہیا، چوہیا ہوتی ہے۔ میں گھیراؤ کرنے سے بالکل نہیں ڈرتی۔”

    ہما نے اسے چڑایا: ” رہنے بھی دو، میں نہیں مان سکتی۔ گھیراؤ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”

    "اچھی طرح سوچ لو، ممی کا گھیراؤ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم طمانچوں اور جھڑکیوں کی بارش ہو جائے۔ اس وقت ہمیں گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنا ہو گا۔”

    اتنے میں باورچی خانے سے ممی کی آواز سنائی دی: "شہیر! جلدی سے یہاں آؤ۔”

    "مت جاؤ بھیا۔” ڈولی نے کہا۔

    "نہیں مجھے ضرور جانا چاہیے۔” شہیر کانپتے ہوئے بولا۔

    ڈولی ہنس کر بولی: "لو، مجھے کہتے ہیں اور اب خود ہی ڈرنے لگے۔”

    "تم سمجھتی کیوں نہیں ڈولی! ہو سکتا ہے طمانچہ مار کر ممی پچھتا رہی ہوں اور آئس کریم کھانے کے لیے پیسے دینا چاہتی ہوں۔” یہ کہہ کر شہیر چلا گیا۔

    ایک منٹ بعد شہیر پچاس روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیے لوٹا۔

    "ممی نے یہ نوٹ نکڑ والی دکان سے مسور کی دال لانے کے لیے دیا ہے۔” اس نے بتایا۔

    ہما نے پاؤں پٹک کر کہا: "آپ کو دال کبھی نہیں لانی چاہیے۔”

    ڈولی بولی: "یہ دال لانے کا نہیں، آپ کی ناک کا سوال ہے۔”

    شہیر کا ہاتھ اپنی ناک پر چلا گیا اور اسے اچھی طرح ٹٹول کر بولا: "کیوں؟ کیا ہوا میری ناک کو؟”

    "بھیا! میرا مطلب آپ کی عزت اور بے عزتی سے ہے۔ دال آگئی تو گھراؤ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” ڈولی بولی۔

    شہیر چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا: "ٹھیک ہے، میں دال نہیں لاؤں گا، اور ۔۔۔ ۔۔”

    اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ شہیر گھبرا کر بولا: "ممی ادھر ہی آ رہی ہیں، میں دال نہیں لایا تو۔۔۔ ۔” گھبرا کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔

    ممی کے قدموں کی آہٹ ہر لمحہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے کا قطعی وقت نہیں تھا۔ سامنے ہی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ شہیر اسی کے نیچے گھس گیا۔

    ممی ریل گاڑی کے انجن کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ آتے ہی بولیں: "ذرا نکڑ تک دیکھ کر آؤ، شہیر دال لینے گیا ہے۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔ چولہا بےکار جل رہا ہے۔”

    ہما نے کہا: "آ جائیں گے۔”

    ممی نے دھم سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: "کیا بات ہے، تم دونوں اداس نظر آ رہی ہو؟”

    ممی کے بیٹھتے ہی شہیر کا برا حال ہو گیا۔ چارپائی اونچائی میں بہت کم تھی۔ یوں بھی اس کی بنائی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ ممی کا وزن جب شہیر کی پیٹھ پر پڑا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔”

    اسی وقت باہر سے ڈیڈی کی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔ وہ بھی کمرے میں آ گئے اور اسی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شہیر کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کسی نے پانچ من کا وزن لاد دیا ہو۔ دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑے بھی آدھی سانس لے پا رہے تھے۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے گھیراؤ کرنے کی اسکیم بنائی اور خود چارپائی کے نیچے آ پھنسا۔

    ڈولی ہما کے کان میں بولی: "گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دیکھو پیچھے دیوار ہے، ایک طرف سے ہم ممی اور ڈیڈی دونوں کو ہی گھیر سکتے ہیں۔”

    "لیکن بھیا کا تو اپنا ہی گھیراؤ ہو گیا ہے۔” ہما بولی۔ "کسی طرح بھیا تک اسکیم پہنچائی جائے۔” ڈولی منمنائی ڈیڈی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولے: "بھئی آج تو کمال ہو گیا۔ ہماری کنجوس کمپنی نے اس بار تین مہینے کا بونس دے ڈالا۔ تیس ہزار ہاتھ آ گئے۔”

    "تیس ہزار!” ممی کھل اٹھیں۔

    "ہاں، اسی خوشی میں کل ہم سرکس دیکھنے چلیں گے۔ اس کی بڑی تعریف سن رہا ہوں۔”

    ہما اور ڈولی اچھل پڑے۔ دونوں چلائے: "ہپ ہپ۔”

    چارپائی کے نیچے سے دبی دبی آواز آئی: "ہرا!”

    ممی اور ڈیڈی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو نیچے سے شہیر اپنی کمر پکڑے نکل رہا تھا۔

    "ارے تم دال لینے نہیں گئے؟” ممی نے پوچھا۔

    "ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ بس اب میں یوں گیا اور یوں آیا۔” شہیر نے کہا اور دال لانے کے لیے دوڑ گیا۔

    (مصنّف: پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • ‘سزا’

    ‘سزا’

    ایک ملک کے کسی بڑے شہر کا حاکم اپنے مشیروں اور چند سپاہیوں کے ساتھ مرکزی بازار کے گشت پر نکلا۔ اس نے وہاں‌ ایک پرندے بیچنے والے کو دیکھا جس کے پاس ایک پرندوں سے بھرا ہوا ایک پنجرہ تھا اور اس کی قیمت وہ ایک دینار لگائے ہوئے تھا جب کہ اسی پنجرے کے ساتھ ایک اور پنجرے میں ویسا ہی صرف ایک پرندہ تھا جس کی قیمت وہ دس دینار مانگ رہا تھا۔

    حاکمِ وقت کو اس عجیب فرق پر بہت تعجب ہوا تو اس نے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ پرندوں سے بھرا ہوا پورا ٹوکرا محض ایک دینار کا اور ویسا ہی ایک اکیلا پرندہ دس دینار کا؟

    بیچنے والے نے عرض کی : حضورِ والا، یہ اکیلا پرندہ سدھایا ہوا ہے، جب یہ بولتا ہے تو اس کے دھوکے میں آکر باقی کے پرندے جال میں پھنس جاتے ہیں، اس لیے یہ قیمتی ہے اور اس کی قیمت زیادہ ہے۔

    حاکمِ وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، نیفے سے خنجر نکالا اور اس پرندے کا سَر تن سے جدا کر کے پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر عسکری و سیاسی مصاحبوں سے رہا نہ گیا اور تعجب سے پوچھا: حضور، یہ کیا؟ اتنا مہنگا اور سدھایا ہوا پرندہ خرید کر مار دیا؟ اس پر حاکمِ وقت نے کہا: یہی سزا ہونی چاہیے ہر اس خائن اور چرب زبان منافق کی، جو اپنی ہی قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلائے، ان کو سبز سہانے مستقبل کے خواب دکھائے، اور اس قوم کو اپنے مطلوبہ مقام و منزل پر لا کر ان سے خیانت کرے۔

    (ماخوذ از حکایات)

  • دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

    دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

    پرانے زمانے میں ترکی میں ایک کسان تھا جس کا نام عبدل تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی مگر اس زمین سے اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بیوی نے دو بھینیسں رکھی ہوئی تھیں، وہ ان کا دوودھ نکالتی اور دودھ سے گھی، مکھن اور پنیر بناتی۔ کسان یہ دودھ اور پنیر شہر لے جاتا اور وہاں سے اس کے بدلے شہد خرید لاتا۔ گاؤں میں شہد کی بہت مانگ تھی، واپس آکر وہ شہد بیچ کر رقم حاصل کر لیتا تھا۔

    کچھ عرصہ سے مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ جب وہ اپنا سامان لے کر شہر کے دروازے پر پہنچتا تو وہاں‌ کا دربان روک لیتا کہ قاضی کے اجازت نامے کے بغیر تم شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ عبدل مکھن اور پنیر کے برتن لے کر شہر پہنچا تو دربان نے اسے روک لیا کہ تم قاضی کی اجازت کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔

    عبدل نے اس کی بہت منت سماجت کی مگر دربان نے شہر میں داخل ہونے نہ دیا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد عبدل نے کہا کہ دربان بھائی تم ایسا کرو ان برتنوں میں سے ایک برتن تم رکھ لو۔ دربان کو برتن میں سے تازہ پنیر کی مہک آرہی تھی، اس نے برتن رکھ لیا اور عبدل کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ عبدل کا مال جلد ہی بک گیا، اس نے اس رقم سے شہد خریدا اور واپس گاؤں کو چل دیا۔ اس مرتبہ شہر کے دروازے پر اسے پھر دربان نے روک لیا اور کہا کہ قاضی کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ عبدل نے دربان کو شہد سے بھری بوتل پیش کی۔ تب دربان نے اسے شہر سے باہر جانے دیا۔ گھر آ کر عبدل سوچتا رہا کہ اگر ایسے ہی دربان کو رشوت دیتا رہا تو بہت نقصان ہو جائے گا، اگلے دن وہ سیدھا قاضی کے پاس پیش ہو گیا تاکہ اجازت نامے کی درخواست کرے اور دربان کو رشوت دینے سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ مگر قاضی اپنی کتابوں میں ایسے گم ہو گیا، جیسے اس کے سامنے کوئی موجود ہی نہ ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے عبدل کو دیکھا اور کہا آج وقت نہیں ہے کل آنا۔ اگلے روز عبدل پھر پیش ہوا مگر قاضی نے اسے پھر ٹال دیا۔ عبدل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا نیک دل قاضی ایسا کیوں کر رہا ہے۔

    راستے میں اسے ایک بزرگ ملے انہوں نے بتایا کہ اس شہر کا حاکم بدل گیا ہے اور اب نئی تنظیم کے بعد کوتوالی، محافظ اور قاضی سمیت سب محکموں میں نئے منصب دار آگئے ہیں، اب رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، تم قاضی صاحب کو جا کر نذرانہ پیش کرو گے تو تب تمہارا کام ہو جائے گا۔ عبدل کو یہ جان کر بڑا رنج ہوا اور اسے غصّہ بھی آیا کہ وہ اور اس کی بیوی محنت کرکے یہ سب حاصل کرتے ہیں اور وہ سڑکوں بازاروں پر پیدل پھر کر رقم جمع کرتا ہے جس میں سے یہ لوگ رشوت چاہتے ہیں۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پنیر کے ایک برتن میں گوبر بھر لیا مگر اوپر کی تھوڑی سی جگہ خالی رکھی۔ اس پر اس نے پنیر ڈال دیا، دیکھنے سے یوں لگ رہا تھا جیسے سارا برتن پنیر سے بھرا ہوا ہے۔ اگلے دن وہ برتن لے کر قاضی کی خدمت میں پیش ہو گیا کہ حضور یہ ہمارے علاقے کی خاص سوغات ہے آپ اسے قبول فرمائیں۔

    قاضی نے اس روز کچھ دیر نہ لگائی اور برتن لے کر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا تمہاری درخواست کہاں ہے؟ عبدل نے درخواست سامنے رکھی تو قاضی نے اسے منظور کر کے اجازت نامے پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ عبدل نے اجازت نامہ جیب میں رکھا اور پوچھا کہ حضور کیا پنیر لیے بغیر آپ میری درخواست پر دستخط نہیں کر سکتے تھے؟

    قاضی نے کہا تمہارا کام ہو گیا، اب گھر جاؤ اور یاد رکھو معاملے کی گہرائی میں کبھی نہیں جانا چاہیے۔ عبدل نے قاضی کے دفتر سے باہر قدم رکھا اور اونچی آواز میں بولا: قاضی صاحب آپ بھی برتن کی گہرائی میں نہ جائیے گا۔

  • بلبلِ ہزار داستان…

    بلبلِ ہزار داستان…

    ایک تو گڈی بی بی خوب صورت، دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب… بس پارہ تھیں پارہ۔ سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دَم تھا۔

    شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلا شبہ گڈی نے گرائی ہے۔ گل دان کے پھول نُچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچّوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔

    "کوئی حد ہے۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”

    "ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔” گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟

    "ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔” کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں”بھئی اللہ ہم خود ڈیڈی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”

    پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے منہ بند کردیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔

    "ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”

    گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جا کر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کر دیا شاید۔ ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔

    "آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچّے تھک ہار کر سمجھا رہے ہیں، مرمر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنّو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟؟ کہنے لگیں۔” یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچّے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔

    ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون منہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اس کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچّے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!

    شام کو ننھّے منّے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔ دل میں تو سب جل گئے مگر منہ سے تو کہنا ہی پڑا۔ "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔” عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!

    ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟” جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔ "آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”

    "ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔” ابا جھنجھلائے۔ "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے؟” ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھماکر دیکھا اور پوچھا۔

    "گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔ جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔

    ” یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔

    "جی گڑیا گھر۔” اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔

    "اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچّی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟” ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ منہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔
    دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھالائے ہوں گے۔

    بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبلِ ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کردی۔

    اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچّوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔ بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ تو جہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
    "ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو چنو کو رابی منی۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟ ہاں چنّو کہتا بھی تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔ اور توبہ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔اف۔۔۔

    پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔

    "کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟” ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔”شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”

    ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔”کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”

    اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ "آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔ امی بھی دور دور رہتی تھیں۔ اور سب۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں منہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
    "اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو….تو ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔” ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔ ڈیڈی نے ذرا سا مسکراکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”

    "جی ہاں۔۔۔۔” وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لاکر رکھ دوں گی۔” پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔

    "بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”

    (معروف فکشن رائٹر واجدہ تبسّم کی یہ بچّوں کے لیے لکھی گئی یہ کہانی 1959ء میں‌ ماہ نامہ کھلونا، نئی دہلی میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • شوربے کا پتھر (لوک کہانی)

    شوربے کا پتھر (لوک کہانی)

    ‎ایک فوجی لڑائی کے میدان سے چھٹی لے کر اپنے گھر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں وہ ایک گاؤں کے قریب سے گزرا۔ ‎ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، جب کہ سپاہی شدید بھوکا تھا۔

    وہ گاؤں کے سرے پر ایک مکان کے سامنے رک گیا اور کچھ کھانے کے لیے مانگا۔ گھر والوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا وہ آگے بڑھ گیا۔

    وہ دوسرے گھر پر رُکا اور وہی سوال دہرایا۔ یہاں بھی گھر والوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، اگر ذرا ٹھہر کر آؤ تو شاید کوئی انتظام ہو جائے۔

    ‎تب سپاہی نے سوال کیا ”تمھارے پاس ہنڈیا تو موجود ہے؟“ ‎گھر والوں نے کہا، ”بے شک! ہمارے پاس ہنڈیا موجود ہے۔“

    ‎پھر اس نے معلوم کیا ”تمھارے ہاں پانی بھی ہو گا۔“

    ”ہاں، پانی جتنا چاہو لے لو۔“ اسے جواب ملا۔ ‎سپاہی بولا، ”ہنڈیا کو پانی سے بھرو اور چولھے پر چڑھا دو۔ میرے پاس شوربہ تیار کرنے کا پتھر موجود ہے۔ بس ابھی کام بن جائے گا۔“

    ‎”کیا کہا؟“ ان میں سے ایک شخص نے تعجب سے پوچھا ”شوربہ بنانے کا پتھر! وہ کیا چیز ہے؟“

    ‎”بس ایک خاص قسم کا پتھر ہے، جسے پانی میں ڈال لینے سے مزے دار شوربہ تیار ہوجاتا ہے۔“

    ‎وہ سب لوگ، اس عجیب و غریب چیز کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے۔ گھر کی مالکہ نے ایک بڑی ہنڈیا کو پانی سے بھرا۔ وہ عام سا پتھر تھا جیسے اکثر سڑکوں پر اِدھر اُدھر پڑے نظر آتے ہیں۔ وہ پتھر اس نے ہنڈیا میں ڈال دیا اور کہا ”بس اب اسے اُبلنے دو۔ پھر دیکھو کہ کیا بنتا ہے۔“ ‎لہٰذا وہ سب چولھے کے آس پاس بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب پانی گرم ہوکر ابلنے لگتا ہے اور کیسا شوربہ تیار ہوتا ہے۔

    ‎سپاہی نے کہا ”تمھارے پاس نمک تو ضرور ہوگا۔ مٹھی بھر نمک اس میں ڈال دو۔“

    ‎عورت نے کہا ”بہت اچھا۔“ اور یہ کہہ کر وہ نمک کا ڈبہ اٹھا لائی۔ سپاہی نے خود ہی ایک مٹھی بھر کر نمک پانی میں ڈال دیا۔ پھر سب لوگ انتظار کرنے لگے۔ ‎پھر سپاہی نے کہا ”اگر چند گاجریں ہوں تو شوربے کا ذائقہ اچھا ہو جائے گا۔“

    ‎”ہاں۔“ عورت بولی۔ ”گاجریں تو ہمارے ہی کھیت میں اگتی ہیں۔“ اور یہ کہہ کر اس نے چند گاجریں ٹوکری میں سے نکالیں۔ دراصل سپاہی نے ترکاریوں سے بھری ہوئی ٹوکری دیکھ لی تھی جس میں گاجریں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
    ‎پانی میں گاجریں ڈال دینے کے بعد سپاہی نے اپنی بہادری کے قصّے بیان کرنے شروع کیے اور ایک دم رک کر پوچھا ”تمھارے پاس آلو بھی تو ہوں گے؟“

    ‎گھر کی مالکہ بولی ”ہاں! آلو بھی ہیں۔“ تو پھر اس میں ڈال دو شوربہ تھوڑا گاڑھا ہو جائے گا۔ ‎عورت نے آلو چھیل کر ہنڈیا میں ڈال دیے۔ ‎سپاہی نے کہا ”اگر ذائقے کو زیادہ لطیف بنانا ہو تو پیاز بھی کتر کر ملا دو۔“

    ‎کسان نے اپنے چھوٹے لڑکے سے کہا ”بیٹا! ذرا پڑوسی کے گھر جاؤ اور تھوڑی سی پیاز مانگ لاؤ۔ وہ بھی کبھی کبھی ہمارے گھر سے لے لیتے ہیں۔“ بچّہ بھاگ کر پڑوسی کے گھر گیا اور پیاز مانگ لایا۔ پس اُنہوں نے پیاز چھیلی اور کتر کر پانی میں ڈال دی۔ ‎پھر کچھ لطیفے سنائے گئے۔ انتظار کا وقت گزرتا ہوا محسوس نہیں ہوا تو سپاہی نے بڑی حسرت سے کہا، ”لڑائی کے میدان میں کرم کلہ نہیں ملتا۔ اپنے وطن سے روانہ ہونے کے بعد سے اب تک میں نے کرم کلے کی شکل بھی نہیں دیکھی۔“

    ‎”ارے منّے“ گھر کی مالکہ نے اپنے لڑکے سے کہا ”بھاگ کر کھیت میں جاؤ۔ دو چار ابھی باقی ہیں۔ ایک کرم کلہ لے آؤ۔“

    ‎”بس اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔“ سپاہی نے اطمینان دلایا اور واقعی ہنڈیا میں سے خوب بھاپ اٹھنے لگی۔ ‎عین اسی وقت کسان کا بڑا بیٹا شکار پر سے واپس آیا۔ وہ ایک خرگوش مار کر ساتھ لایا تھا۔ سپاہی نے خوش ہو کر کہا ”واہ واہ! کیا کہنے، یہ تو سونے پر سہاگے کا کام دے گا۔ بہت اچھے موقع پر آیا ہے۔“

    ‎نوجوان شکاری نے ہنڈیا کی طرف دیکھ کر ناک کو حرکت دی اور سر کھجا کر کہا ”معلوم ہوتا ہے کہ مزیدار شوربہ تیار ہو رہا ہے۔“

    ‎”ہاں! اس کی ماں نے فوراً اسے آگاہ کیا۔ اس سپاہی کے پاس ایک عجیب و غریب پتھر تھا۔ ہم اُسے ابال کر شوربہ بنا رہے ہیں۔ تم اچھے موقع پر آئے ہو۔ ایک پیالہ تم بھی پی لو گے۔“

    ‎اس دوران میں جلدی جلدی خرگوش کی کھال اتار کر اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکٹر ے کر کے فوراً ہنڈیا میں ڈال دیے۔ کچھ دیر بعد ہنڈیا سنسانے لگی اور پھر تیزی سے بھاپ نکلنے لگی۔ اور جب شکاری لڑکا اپنے کپڑے بدل کر اور ہاتھ منہ دھو کر واپس آیا تو شوربہ تیار ہوگیا تھا۔ سارے گھر میں اس کی خوشبو پھیل رہی تھی۔

    ‎وہ شوربہ سب گھر والوں کے لئے کافی تھا کیونکہ ہنڈیا اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ سپاہی، کسان، اس کی بیوی، بڑا لڑکا، لڑکی، چھوٹا لڑکا اور لڑکی۔ سب پیالے بھر کر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے کسان نے شوربے سے چسکی لی۔ اُس نے خوش ہو کر کہا”بھئی واقعی! بہت مزے دار ہے، ایسا شوربہ تو ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔“

    ‎بیوی نے بھی ایک گھونٹ پی کر ہاں میں ہاں ملائی اور کہا ”یہ عجیب قسم کا پتھر ہے۔ شوربہ کتنا مزے دار ہوگیا ہے۔ ہم اس کا ذائقہ کبھی نہیں بھولیں گے۔“

    ‎سپاہی بولا ”کمال کی بات ہے، یہ پتّھر کبھی گھل کر ختم نہیں ہوتا۔ آج والی ترکیب پر جب بھی عمل کیا جائے گا تو اتنا ہی خوش ذائقہ شوربہ تیار ہوسکتا ہے۔

    اپنا حصّہ ختم کر لینے کے بعد سپاہی نے رخصت چاہی اور خدا حافظ کہتے ہوئے اس نے شوربے کا پتھر گھر کی مالکہ ہی کو تحفے کے طور پر دے دیا اور کہا ”یہ تمھاری مہمان نوازی کا صلہ ہے۔ اسے اپنے پاس ہی رکھو اور جب بھی چاہو اسی ترکیب سے شوربہ تیار کر لیا کرو۔“

    ‎تازہ دَم ہو کر سپاہی نے اپنی راہ لی۔ خوش قسمتی سے تھوڑے سے فاصلے پر ویسا ہی ایک اور پتّھر سڑک پر پڑا ہوا مل گیا۔ سپاہی نے اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا کہ شاید گھر پہنچنے سے پہلے کسی اور گاؤں میں وہ کام آجائے اور اس کی بہ دولت مزے دار شوربہ نصیب ہوجائے۔

    (بیلجیئم کی ایک لوک کہانی کا اردو ترجمہ)