Tag: اردو کہانیاں

  • ہاتھی اور چوہے (حکایت)

    ہاتھی اور چوہے (حکایت)

    ایک دفعہ ایک خوفناک زلزلے نے ایک گاﺅں کو کھنڈر بنا ڈالا۔ گھر اور گلیاں چونکہ تباہ ہو گئے تھے، لہٰذا گاﺅں کے باسی اسے خیر باد کہہ کر کہیں اور جا بسے۔ ان کے جانے کے بعد چوہوں نے گاﺅں کے کھنڈرات میں بسیرا کر لیا۔ انہیں یہ جگہ نہ صرف پسند آئی بلکہ راس بھی آ گئی اور دیکھتے دیکھتے ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

    اس گاﺅں کے پاس ہی ایک جھیل تھی جہاں ہاتھیوں کا ایک ریوڑ باقاعدگی سے نہانے اور پانی پینے جاتا تھا۔ وہ جھیل تک پہنچنے کے لئے گاﺅں کے ان کھنڈروں میں سے گزر کر جایا کرتے تھے۔ البتہ جب بھی ہاتھی وہاں سے گزرتے تو بہت سے چوہے ان کے پیروں تلے آ کر کچلے جاتے۔ چوہوں کی اس روز روز کی ہلاکت پر ان کے سردار نے سوچا کہ وہ ہاتھیوں سے بات کرے تاکہ اس بات کا کوئی حل نکل سکے۔

    اگلے روز جب ہاتھیوں کا ریوڑ آیا تو چوہوں کا سردار ان سے خوشگوار ماحول میں ملا اور ان سے کہا، ” محترم ہاتھیو! ہم اس گاﺅں کے کھنڈرات میں رہتے ہیں اور جب آپ یہاں سے گزرتے ہیں تو ہمارے بہت سے چوہے آپ کے قدموں کے نیچے آ کر کچلے جاتے ہیں۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ آپ جھیل پر جانے کے لئے اپنا راستہ بدل لیں اور اگر آپ ہم پر یہ مہربانی کریں گے تو ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ضرورت پیش آنے پر آپ کی مدد کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔

    یہ سن کر ہاتھیوں کا سردار ہنسا اور بولا، ” چُنے منے چوہوں کے اے سردار، تم ہم لحیم شحیم ہاتھیوں کے کیا کام آسکو گے؟ بہرحال میں تمہاری درخواست کا احترام کرتا ہوں، ہم جھیل تک جانے کے لئے آج سے ہی راستہ بدل دیتے ہیں۔ تمہیں اب ہم سے مزید کسی خطرے کی چنتا نہیں ہونی چاہیے۔”

    چوہوں کے سردار نے اس پر ہاتھیوں کے سردار کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد ہاتھی دوبارہ گاﺅں کے کھنڈرات میں سے نہ گزرے۔

    کچھ عرصہ بعد ہاتھیوں کا ریوڑ شکاریوں کے دام میں آ گیا۔ سردار سمیت کئی ہاتھی ان کے مضبوط جالوں میں اس بری طرح سے پھنسے کہ باوجود کوشش کے خود کو آزاد نہ کرا پائے۔ اچانک ہاتھیوں کے سردار کو چوہوں کے سردار کی بات یاد آئی۔ اس نے اپنے ریوڑ کے ایک ایسے ہاتھی کو بلایا جو جال میں پھنسا ہوا نہیں تھا اور اسے کہا کہ وہ چوہوں کے سردار کے پاس جائے اور اسے اس کا وعدہ یاد کرائے اور اس سے مدد کی درخواست کرے۔

    اس ہاتھی نے جا کر چوہوں کے سردار کو صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے تمام چوہوں کو اکٹھا کر کے کہا، "اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہاتھیوں کے احسان کا بدلہ چکائیں۔ ہمیں فوراً ان کی مدد کے لئے جانا چاہیے۔”

    ہاتھی انہیں اس جگہ پر لے آیا جہاں اس کے ساتھی جالوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ تمام چوہے مضبوط جالوں کو کترنے لگے اور جلد ہی ہاتھیوں کو ان سے آزاد کر دیا۔

    ہاتھی جالوں سے آزاد ہونے پر خوش تھے۔ ان کے سردار نے چوہوں کے سردار کا بَر وقت مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

    اسی لئے تو سیانے کہتے ہیں کہ کسی کی ظاہری حالت کو دیکھ کر اسے غیر اہم نہیں گرداننا چاہیے۔

    (کتاب: حکایاتِ عالم، مترجم: قیصر نذیر خاور)

  • آدمی کا مرتبہ

    آدمی کا مرتبہ

    ایک بادشاہ کے کئی بیٹے تھے۔ اُن میں ایک کوتاہ قد اور معمولی شکل و صورت کا تھا اور اس وجہ سے اسے اپنے باپ کی ویسی توجہ اور شفقت حاصل نہ تھی جیسی اس کے دوسرے بھائیوں کو حاصل تھی۔

    ایک دن بادشاہ نے اس پر نظرِ حقارت ڈالی تو شہزادے کا دل بے قرار ہو گیا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔ بے شک انسان کی شکل صورت بھی لائقِ توجہ ہوتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ انسانیت کا اصلی جوہر انسان کی ذاتی خوبیاں اور حسنِ سیرت ہے۔

    آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
    پست ہمّت یہ نہ ہو گو پست قامت ہو تو ہو

    اے والد محترم، حقیر جان کر مجھے نظر انداز نہ فرمائیے بلکہ میری ان خوبیوں پر نظر ڈالیے جو اللہ پاک نے مجھے بخشی ہیں۔ اپنے بھائیوں کے مقابلے میں بیشک میں کم رو اور پست قامت ہوں، لیکن خدا نے اپنے خاص فضل سے مجھے شجاعت کا جوہر بخشا ہے۔ دشمن مقابلے پر آئے تو اس پر شیر کی طرح جھپٹتا ہوں اور اس وقت تک میدانِ جنگ سے باہر قدم نہیں نکالتا جب تک دشمن کو بالکل تباہ نہ کر دوں۔

    بادشاہ نے اپنے بیٹے کی ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ یوں مسکرایا جیسے کسی نادان کی بات سن کر مسکراتے ہیں۔ اس کے بھائیوں نے کھلم کھلا اس کا مذاق اڑایا۔

    خیر بات آئی گئی۔ یہ شہزادہ پہلے کی طرح زندگی گزارتا رہا۔ لیکن پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ طاقت ور پڑوسی بادشاہ نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ عیش و عشرت میں زندگی گزارنے والے شہزادے تو اس فکر میں پڑ گئے کہ اب ان کی جانیں کس طرح بچیں گی۔ لیکن چھوٹے قد والا شہزادہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کے لشکر میں جا گھسا اور اپنی تیز تلوار سے کتنے ہی سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ بادشاہ کو اس کی شجاعت کا حال معلوم ہوا تو اس کا بھی حوصلہ بڑھا اور وہ مقابلے کے لیے نکلا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملہ کرنے والے بادشاہ کے سپاہیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ گھمسان کی لڑائی شروع ہونے کے بعد دشمن کا دباؤ بڑھنے لگا اور بادشاہ کی فوج کے سپاہی اپنی صفیں توڑ کر بھاگنے لگے شہزادے نے یہ حالت دیکھی تو وہ گھوڑا بڑھا کر آگے آیا اور بھاگنے والوں کو غیرت دلائی بہادرو! ہمت سے کام لو دشمن کا خاتمہ کر دو۔ یاد رکھو! میدان جنگ سے بھاگنے والے مرد کہلانے کے حق دار نہیں۔ انھیں عورتوں کا لباس پہن کر گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے۔”

    شہزادے کی تقریر سن کر بھاگتے ہوئے سپاہی پلٹ آئے اور غصے میں بھر کر انھوں نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ دشمن فوج میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔ بادشاہ اپنے بیٹے کی بہادری دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس کی خوب تعریف کی اور اعلان کر دیا کہ ہمارے بعد ہمارا یہی بیٹا تاج اور تخت کا ملک ہو گا۔ شہزادے کے دلی عہد بن جانے کی سب کو خوشی ہوئی لیکن اس کے بھائی حسدکی آگ میں جلنے لگے۔ اور انھوں نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔

    یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے بہادر شہزادے کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا۔ اتفاق سے یہ بات شہزادی کو معلوم ہو گئی۔ جب شہزادہ کھانا کھانے لگا تو شہزادی نے زور سے کھڑکی بند کر کے یہ اشارہ دیا کہ یہ کھانا ہرگز نہ کھائے۔ شہزادہ اس کا اشارہ سمجھ گیا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے حاسد بھائیوں سے کہا، مجھے یہ عزت میری خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر میں مر بھی جاؤں تو تم میری جگہ نہ لے سکو گے کیونکہ تمھارے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ اگر ہما دنیا سے نابود بھی ہو جائے پھر بھی کوئی الّو کے سائے کو پسند نہ کرے گا۔

    بادشاہ کو اس بات پتا چلا تو اس نے حاسد شہزادوں کو بہت ڈانٹا اور پھر اس فساد کو ختم کرنے کے لیے، جو سلطنت کی وجہ سے ان بھائیوں کے درمیان پیدا ہو گیا تھا، یہ تدبیر کی کہ ریاست کو ان کی تعداد کے مطابق تقسیم کرکے شہزادوں کو ایک ایک ریاست کا مالک بنا دیا۔ بہادر شہزادے نے اس فیصلے کو دل سے قبول کر لیا۔

    (از قدیم حکایات، مترجم نامعلوم)

  • چار دوست اور پانچ جھوٹ

    چار دوست اور پانچ جھوٹ

    ایک گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ وہ چاروں بے حد نکمّے اور کام چور تھے۔

    وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی کام بھی نہ کرنا پڑے اور کھانے، پینے اور رہنے کی ہر چیز بھی میسر آتی رہے۔ ان چاروں میں جو سب سے بڑا تھا، وہ بہت چالاک اور ذہین کا تھا۔ اس نے انہیں لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے بٹورنے کا ایک عجیب طریقہ بتایا۔ اس نے کہا ہم کسی دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں، وہاں کے لوگ ہمارے لئے اجنبی ہوں گے اور ہم ان کے لئے اجنبی ہوں گے، ہم گاؤں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنائیں گے اور اپنی مظلومیت بیان کریں گے یوں ہمیں کچھ نہ کچھ پیسے مل ہی جائیں گے۔ تینوں دوستوں نے اس طریقہ سے اتفاق کیا۔ چنانچہ اگلے ہی دن چاروں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور ایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر عجیب و غریب جھوٹی کہانیاں گھڑتے اور بعض دفعہ اپنی مظلومیت بیان کرتے تو لوگ ان کو پیسے دے دیتے۔ جب یہ چاروں گاؤں کے امیر لوگوں کو اچھی طرح لوٹ لیتے اور گاؤں کے لوگ ان کی چالاکی اور مکاری کو سمجھنے لگتے تو یہ اس گاؤں سے بھاگ کر کسی دوسرے گاؤں میں پہنچ جاتے اور وہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنانے لگتے۔ اس طرح انہوں نے اچھا خاصا مال جمع کرلیا تھا۔ اور جھوٹ بولنے میں مہارت ہوگئی تھی۔

    ایک دفعہ یہ چاروں یوں سفر کرتے کرتے ایک دور دراز کے گاؤں میں پہنچے، وہاں ایک ہوٹل میں انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے میں امیر کبیر تاجر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے آس پاس اس کا قیمتی سامان بھی پڑا ہوا تھا اور اس تاجر نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔ تاجر کو دیکھ کر ان چاروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور سب سوچنے لگے کہ کسی طرح اس تاجر کا سب مال ہمیں مل جائے۔ ان چاروں میں سب سے بڑے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے یہ ترکیب تینوں کو بتائی تو تینوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔

    چنانچہ یہ چاروں دوست تاجر کے پاس گئے، سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک دوست نے تاجر سے کہا: اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے ساتھ ایک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سنائیں گے اور شرط یہ ہوگی کہ ان جھوٹی کہانیوں کو سچ کہنا پڑے گا، اگر ان کہانیوں پر کسی نے جھوٹا ہونے کا الزام لگایا تو وہ ہار جائے گا اور اس ہارنے والے کا سارا مال لے لیا جائے گا۔

    تاجر نے کہا واہ! یہ کھیل تو بہت مزیدار ہوگا۔ میں تیار ہوں اگر میں ہار گیا تو یہ سارا مال تمہارا ہو جائے گا۔ چاروں دوست یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہم ایسی ایسی جھوٹی کہانیاں اس کو سنائیں گے کہ یہ فوراً پکار اٹھے گا، یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوسکتا اور ہم جیت جائیں گے اور اس تاجر کا سارا مال قبضہ میں کرلیں گے۔

    ضروری ہے کہ ہمارے اس کھیل میں گاؤں یا ہوٹل کا بڑا بھی موجود ہو تاکہ وہ ہار، جیت کا فیصلہ کرسکے۔ تاجر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ چاروں دوستوں نے اس بات سے اتفاق کیا چنانچہ گاؤں کے چوہدری کو بلایا گیا اور وہ ان پانچوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

    پہلے دوست نے کہانی شروع کی، کہنے لگا: میں ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا یعنی پیدا نہیں ہوا تھا کہ میری ماں اور باپ سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں آم کا ایک درخت نظر آیا، میری ماں نے وہاں رک کر میرے باپ سے کہا، مجھے آم کھانے ہیں، آپ درخت پر چڑھ کر آم توڑ کر لا دیں۔ میرے باپ نے کہا یہ درخت کسی اور کا ہے اور آم بھی بہت اوپر لگے ہوئے ہیں، میں نہیں چڑھ پاؤں گا۔ لہٰذا میرے باپ نے انکار کر دیا۔ مجھے جوش آیا میں چپکے سے ماں کے پیٹ سے نکلا اور درخت پر چڑھ کر آم توڑے اور لاکر ماں کے سامنے رکھ دیے اور واپس پیٹ میں چلا گیا۔ میری ماں اپنے سامنے آم دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مزے لے لے کر کھانے لگی۔

    پہلے دوست نے کہانی سنا کر تاجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ تاجر نے کہا: واہ! کیا زبردست کہانی ہے ماں کے کام آئے، یہ کہانی کیسے جھوٹی ہوسکتی ہے، نہیں یہ بالکل سچی کہانی ہے۔

    پہلے دوست نے جب یہ سنا تو منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب دوسرے دوست کی باری تھی وہ کہنے لگا: میری عمر ابھی صرف سات سال تھی، مجھے شکار کھیلنے کا بے حد شوق تھا، ایک دفعہ میں جنگل میں گیا وہاں اچانک مجھے دور ایک خرگوش نظر آیا، میں اس کے پیچھے دوڑ پڑا یہاں تک کہ میں اس کے قریب پہنچ گیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خرگوش نہیں بلکہ شیر ہے۔ شیر نے مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھنا شروع کیا اب تو میں بہت گھبرا گیا اور شیر سے کہا: دیکھو شیر بھائی میں تو تمہارے پیچھے صرف اس لئے آیا تھا کہ مجھے لگا جیسے آپ خرگوش ہو، خدا کے لئے مجھے جانے دو، لیکن شیر نے میری بات نہیں مانی اور دہاڑنے لگا، مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ شیر کو مارا، شیر وہیں دو ٹکڑے ہوکر مرگیا۔

    واہ واہ! کیا بہادری ہے۔ بندہ کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے۔ یہ کہانی بالکل جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ تاجر نے دوسرے دوست کی کہانی سن کر اسے داد دیتے ہوئے کہا۔ اب وہ دونوں دوست جنہوں نے کہانی سنائی تھی انہوں نے ﴿اپنے تیسرے ساتھی کو﴾ چپکے سے آنکھ ماری کہ تو کوئی ایسی غضب کی جھوٹی کہانی سنا، جسے تاجر فوراً جھوٹ مان لے۔

    چنانچہ تیسرے دوست نے کہنا شروع کیا: مجھے مچھلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی، ایک دن میں دریا کے کنارے گیا اور وہاں پانی میں جال ڈال کر بیٹھ گیا، کئی گھنٹوں جال لگانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہ آئی، میں نے پاس کھڑے مچھیروں سے پوچھا کہ آج دریا میں مچھلی نہیں ہے کیا؟ انہوں نے بتایا کہ تین چار دنوں سے ایک بھی مچھلی ہمیں نظر نہیں آئی۔ میں یہ سن حیران ہوا اور دریا میں غوطہ لگا دیا۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی مچھلی بیٹھی ہوئی ہے اور آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو کھائے جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے اس بڑی مچھلی پر بہت غصہ آیا۔ میں نے اس مچھلی کو ایک زبردست مکا رسید کیا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا، پھر میں نے وہیں دریا کی تہہ میں بیٹھ کر آگ جلائی اور وہیں مچھلی پکائی اور کھا کر واپس دریا سے باہر آگیا اور اپنا سامان لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔
    تیسرے نے کہانی سنا کر امید بھری نظروں سے تاجر کی طرف دیکھا، تاجر نے کہا بہت اچھی کہانی ہے، دریا کی سب چھوٹی مچھلیوں کو آزادی دلائی، کتنا نیکی کا کام ہے بالکل سچی کہانی ہے۔

    اب چوتھے دوست کی باری تھی اس نے کہنا شروع کیا: میری عمر صرف دو سال تھی، ایک دن میں جنگل میں گیا، وہاں کھجوروں کے بڑے بڑے درخت تھے اور ان پر کھجوریں بہت لگی ہوئی تھیں۔ میرا بہت دل چاہا کہ میں کھجوریں کھاؤں، چنانچہ میں درخت پر چڑھا اور پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں۔ جب میں نے درخت سے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو مجھے لگا میں نیچے اترتے اترتے گر جاؤں گا۔ میں بھول گیا تھا کہ درخت سے نیچے کیسے اترتے ہیں۔ میں درخت پر بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں گاؤں سے سیڑھی لاکر اس کے ذریعے سے نیچے اتروں۔ چنانچہ میں گاؤں گیا، وہاں سے سیڑھی اٹھا کر درخت کے ساتھ لگائی اور اس کے ذریعے سے نیچے اترگیا۔

    اب چاروں دوستوں نے امید بھری نظروں سے تاجر کو دیکھا کہ اب ضرور کہہ دے گا نہیں یہ کہانی جھوٹی ہے۔ لیکن تاجر نے آگے بڑھ کر چوتھے سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا کیا زبردست دماغ پایا ہے۔ ایسی ترکیب تو بہت ذہین آدمی کے ذہن میں آسکتی ہے۔ بالکل سچی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

    اب تو چاروں بہت گھبرائے کہ کہیں ہم ہار نہ جائیں اور ہمارا سارا مال یہ تاجر لے اڑے۔ کہانی سنانے کی باری اب تاجر کی تھی۔ تاجر کہنے لگا: میں نے بہت سال پہلے ایک خوبصورت باغ لگایا تھا۔ اس باغ میں ایک سنہرے رنگ کا بہت نایاب درخت تھا۔ میں اس کی خوب حفاظت کرتا تھا، اور اس کو روز پانی دیتا تھا، یہاں تک کہ ایک سال بعد اس درخت پر چار سنہرے رنگ کے سیب نمودار ہوئے، وہ سیب بہت خوبصورت تھے اسی لئے میں نے ان کو نہیں توڑا اور درخت پر لگا رہنے دیا۔ ایک دن میں اپنے باغ میں کام کررہا تھا کہ اچانک ان چاروں سیبوں سے ایک ایک آدمی نکلا، چونکہ یہ چاروں آدمی میرے باغ کے ایک درخت سے نکلے تھے اس لئے میں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا اور چاروں کو کام پر لگا دیا، لیکن یہ چاروں بہت نکمے اور کام چور تھے، ایک دن یہ چاروں بھاگ گئے اور خدا کا شکر ہے آج وہ چاروں غلام میرے سامنے بیٹھے ہیں۔

    یہ کہانی سن کر چاروں دوستوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ گاؤں کے چوہدری نے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی؟ چاروں دوستوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ تاجر کی اس کہانی کو جھوٹ کہیں تو ان کا سارا مال تاجر کا ہوجاتا ہے اور اگر سچ کہیں تو تاجر کے غلام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ چاروں خاموش ہوگئے نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی ناں میں۔ گاؤں کے چوہدری نے ان کو چپ دیکھ کر تاجر کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ یہ چاروں تمہارے غلام ہیں۔ یہ سن کر وہ چاروں تاجر کے قدموں میں گر پڑے اور لگے معافیاں مانگنے۔ تاجر نے چوہدری سے کہا: یہ چاروں بھاگتے ہوئے میرا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے بھاگے تھے، چلو میں ان کو آزاد کرتا ہوں لیکن ان کے پاس جو مال ہے وہ میرا ہے۔ چنانچہ گاؤں کے چوہدری نے ان چاروں دوستوں کے پاس جتنا مال تھا وہ سارا تاجر کو دے دیا۔

    وہ تاجر سارا سامان اور مال و دولت لے کر چلا گیا، یہ چارون بہت سخت پشیمان ہوئے انہیں جھوٹ کی نہایت بری سزا ملی تھی۔ چاروں دوستوں نے تہیہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے اور محنت کر کے روزی کمائیں گے۔ چاروں واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور جھوٹ سے توبہ کر لی۔

  • ادھوری ماں…

    ادھوری ماں…

    کہنے کو تو نادر چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، لیکن گھر میں اُس کا خیال اس طرح رکھا جاتا، جیسے وہ سب سے چھوٹا ہو۔ بہن بھائیوں کے درمیان جب بھی کسی بات پر جھگڑا ہوتا، تو چاہے قصور نادر ہی کا کیوں نہ ہو، امی ابو کی ڈانٹ ڈپٹ ہمیشہ دوسرے بہن بھائیوں کے حصّے میں آیا کرتی۔

    ایک دن سارے بہن بھائی گھر کے چھوٹے سے صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ امجد بولنگ اسٹینڈ پر فاسٹ بولروں کے انداز میں گیند کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور نادر گھی کے خالی کنستر کے آگے بلّا تھامے شاٹ کھیلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اپنی طرف آتی گیند کو اُس نے نظروں ہی نظروں میں تولا اور ایک زور دار شاٹ لگانے کے لیے بلّا گھما دیا۔ گیند سیدھی ایک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے شیشہ چکنا چور ہو کر فرش پر بکھر گیا۔ پورے ”میدان“ میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔ اُس دن اتوار تھا اور صبح ہی سے بچوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔

    نادر کے والد افتخار حسین اپنے کمرے میں اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے۔ شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنتے ہی وہ اور اُن کی بیوی صغراں دوڑتے ہوئے صحن میں آئے۔ افتخار حسین نے غصّے سے تمام بچوں کی طرف باری باری دیکھا۔ تمام کھلاڑیوں پر سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ نادر کے ہاتھوں میں بلاّ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا تھا کہ شیشہ اسی کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ افتخار حسین نے ایک سرسری نگاہ نادر اور بلّے پر ڈالنے کے بعد بولنگ اسٹینڈ پر کھڑے امجد کو شعلہ بار نظروں سے گھورا۔

    ”ابّو! شیشہ بھائی…. نے توڑا….ہے۔ میں تو بولنگ کروا رہا تھا۔“ امجد نے فوراً ہکلاتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی۔

    ”امجد سچ کہہ رہا ہے، شیشے پر گیند بھائی نے ماری ہے۔“ ”سلپ“ میں کھڑی ننھی تہمینہ نے فوراً امجد کے حق میں گواہی دی اور دیگر بہن بھائیوں کے سر اُس کی تائید میں ہلنے لگے۔ ”عینی شاہدوں“ کے بیانات نظر انداز کرتے ہوئے افتخار حسین کا ایک بھرپور تھپڑ امجد کے گال پر پڑا اور دوسرا پرویز کی پیٹھ سہلا گیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے ننھی تہمینہ نے پہلے ہی کمرے کی جانب راہِ فرار اختیار کرلی تھی۔

    ”کمینو! تم لوگ مجھے زندہ بھی رہنے دو گے کہ نہیں۔ بیٹھے بٹھائے ڈیڑھ دو سو روپے کا نقصان کرا دیا۔ مار مار کے ادھ مُوا کر دوں گا، اگر آیندہ کسی کو صحن میں کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔“ اس سے پہلے کہ افتخار حسین کے غصّے کے مزید سنگین نتائج برآمد ہوتے، صغراں نے خود ہی آگے بڑھ کر امجد اور پرویز کی پیٹھ پر دھپ جمائی اور کوسنے دیتی ہوئی بچوں کو کمرے میں لے گئی۔ اس بار بھی اصل ’مجرم‘ نادر صاف بچ نکلا تھا۔

    کمرے میں پٹے ہوئے کھلاڑی اپنی اپنی چوٹیں سہلانے میں مصروف تھے۔ نادر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب بہن بھائی اُسے کینہ توز نظروں سے گھورنے لگے۔

    ”شیشہ تو بھائی نے توڑا، پھر مار ہمیں کیوں پڑی؟“ امجد نے سرگوشی کے انداز میں ماں سے شکایت کی۔ ”اس لیے کہ یہ تمھارا بڑا بھائی ہے اور بڑوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا کرتے۔“

    آج پہلی بار اپنے بہن بھائیوں کو پٹتے دیکھ کر نادر کو اچھا نہیں لگا۔ اُس کے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی۔ کچھ گھنٹوں بعد گھر کی فضا اعتدال پر آگئی۔ بچے اس ”ہول ناک“ سانحے کو بھول کر پھر سے آپس میں کھیل کود میں مصروف ہوگئے۔ شیشے کی کرچیاں سمیٹ لی گئیں اور افتخار حسین کا پارا بھی نیچے آگیا۔ لیکن نہ جانے کیوں نادر کے ذہن سے اس واقعے کا اثر زائل نہیں ہوا۔ کوئی کرچی سمیٹنے سے رہ گئی تھی، جو نادر کے دل میں مسلسل چبھے جا رہی تھی۔ اُس کا معصوم ضمیر اُسے اندر ہی اندر کچوکے لگا رہا تھا۔ ذہن ایک ہی سوال کی بار بار تکرار کیے جا رہا تھا۔

    ”جب شیشہ میں نے توڑا، تو امجد اور پرویز کو مار کیوں پڑی۔ مجھے تو کسی نے ڈانٹا تک نہیں؟“ اس سوال کے ساتھ ہی اس طرح کے کئی اور واقعات اُس کے ذہن کی اسکرین پر چلنے لگے…..ان سارے سوالات کے جوابات نادر کو سولہ سال کی عمر میں ملنا شروع ہوئے۔ وہ محسوس کرتا کہ اُس کی ظاہری ساخت اپنے دیگر بہن بھائیوں سے مختلف ہے۔ اسے لگتا تھا کہ جنس کے اعتبار سے اس کی بہن تہمینہ ماں کے زیادہ قریب ہے، جب کہ امجد اور پرویز باپ کی شباہت رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ خود کو بیچ دوراہے پر اُس مسافر کی طرح کھڑا پاتا، جو فیصلہ نہیں کرپاتا کہ کون سا راستہ اس کی منزل کی طرف جاتا ہے۔
    نادر کو لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا اچھا لگتا تھا۔ اُس کی ماں اُسے ٹوکتی کہ وہ اپنی بہن اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بہ جائے اپنے بھائیوں اور محلے کے لڑکوں کے ساتھ گھوما پھرا کرے۔ یہ بات کہنے کے بعد نہ جانے کیوں اُس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ اپنا منہ پھیر کر دوپٹے سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگتی۔ نادر کو لڑکوں کی صحبت سے آہستہ آہستہ کوفت ہونے لگی۔ اسکول اور محلے کے لڑکے اس کا مذاق اُڑایا کرتے اور اس کے بات کرنے اور چلنے کے انداز پر پھبتیاں کستے تھے۔ چناں چہ، اپنے دو بھائیوں کے مقابلے میں اس کا زیادہ تر وقت گھر ہی پر کٹنے لگا۔ وہ محسوس کرتا کہ اُس کے والدین اُسے شادی کی تقریبات میں ساتھ لے جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی کہ وہ اُن کے ساتھ جانے کے بہ جائے گھر پر رہے۔

    ایسے ہی ایک موقعے پر جب سارا گھر محلے کی ایک شادی میں شرکت کرنے گیا ہوا تھا، نادر گھر میں اکیلا بُری طرح بور ہو رہا تھا۔ اُس کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہ تھا۔ چناں چہ، وقت گزاری کے لیے اُس نے ایک فلمی رسالے کی ورق گردانی شروع کر دی۔ رسالے کے پورے ایک صفحے پر اُس کی پسندیدہ ہیروئن جیا پرادا کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ وہ انہماک سے اس تصویر کو دیکھنے لگا۔ اچانک اُس کے دل میں ایک انوکھے خیال نے جنم لیا۔

    ”کیا میں جیا پرادا کی طرح بن سکتا ہوں؟“ اس خیال کے آتے ہی اُس کے قدم مشینی انداز میں کپڑوں کی الماری کی طرف بڑھنے لگے۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اُسے جیا کے لباس جیسا اُس کی ماں کا سبز جوڑا مل گیا۔ وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے لباس تبدیل کرنے لگا۔ اس کام میں اس کے ارادے کا کوئی دخل نہ تھا۔ اُس کے اندر کوئی ایسی چیز تھی، جو اسے اس کام کے لیے اُکسا رہی تھی۔ زنانہ لباس زیب تن کرکے وہ الماری کے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اپنا عکس آئینے میں دیکھنے سے نادر کے پورے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا مختلف زاویوں سے اپنے سراپے کا جائزہ لینے لگا۔

    اچانک اس کی نظر سنگھار میز پر رکھے، میک اپ کے سامان پر پڑی، جو تہمینہ جلدی میں کُھلا چھوڑ گئی تھی۔ نادر اسٹول کھینچ کر سنگھار میز کے سامنے بیٹھ گیا اور دل چسپی سے میک اپ کے سامان کا جائزہ لینے لگا۔ بے ساختہ اُس کا ہاتھ ٹالکم پاؤڈر کی جانب بڑھا۔ تھوڑا سا پاؤڈر ہتھیلی پر نکالا اور آہستہ آہستہ چہرے پر ملنے لگا۔ اس کام میں نادر کو مزہ آنے لگا اور وہ مزید پاؤڈر نکال کر اسے دونوں ہاتھوں سے جلدی جلدی اپنے چہرے اور گردن پر اچھی طرح ملنے لگا۔ پھر لپ اسٹک کی باری آئی۔ آنکھوں میں کاجل لگانے سے نادر کی پوری شخصیت ہی تبدیل ہوگئی اور وہ ایک بار پھر آئینے میں اپنا بھرپور جائزہ لینے لگا۔ بے ساختہ اُس کی ہنسی چھوٹ گئی، جو جلد ہی قہقہوں میں تبدیل ہوگئی۔ نادر قہقہے لگاتا ہوا پورے کمرے میں تھرکنے لگا۔ ایسا کرنے میں اُسے بڑا لطف آرہا تھا۔ وہ تھرکنے کے ساتھ ساتھ دونوں بازو پھیلائے گول گول گھومنے بھی لگا۔ کافی دیر تک اس طرح تھرکنے اور گھومنے کے بعد وہ نڈھال ہوکر بستر پر گرگیا۔ تیز سانسوں کی وجہ سے اُس کا سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ نادر کی بند آنکھیں اور ہونٹوں پر پھیلی ہلکی مسکان اس کے ذہن میں چلنے والے خوش کن خیالات کا پتا دے رہی تھی۔ آج معما حل ہوگیا تھا۔ نادر کو اُس کی منزل کی طرف جانے والا راستہ مل گیا تھا اور اُس نے اِس راستے پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔

    کئی برس گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد آج اس زنانہ لباس میں اُس کی شخصیت کی تکمیل ہوگئی تھی۔ ”اب مجھ سے میرا اپنا پن کوئی نہیں چھین سکتا۔“ نہ جانے کتنی دیر تک نادر کا ذہن ان ہی خیالات کی آماج گاہ بنا رہا اور اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ رات کے کس پہر اُس کی آنکھ لگ گئی۔

    سکوت کے یہ لمحات دروازے پر ہونے والی تیز دستک کی آواز سے درہم برہم ہوگئے۔ نادر ہڑبڑا کر بستر سے اٹھ بیٹھا۔ دوسری دستک کے ساتھ ہی اُس کے قدم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ نیم غنودگی کے عالم میں اسے لباس تبدیل کرنے کا بھی ہوش نہیں رہا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ زنانہ لباس میں ملبوس اپنے اہل خانہ کے سامنے کھڑا تھا۔ افتخار حسین کو نادر کو اس حالت میں دیکھ کر سانپ سونگھ گیا اور صغراں کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ امجد اور پرویز کے چہروں پر پہلے تو حیرت کے آثار نمودار ہوئے، پھر اُن کی ہنسی چھوٹ گئی۔ تہمینہ فیصلہ نہ کرسکی کہ اُسے اپنے بڑے بھائی کو اس حلیے میں دیکھ کر کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ صغراں کے رونے کی آواز اور افتخار حسین کی شعلہ بار نگاہیں جلد ہی نادر کو غنودگی کی کیفیت سے باہر لے آئیں۔
    ”وہ ابّو، میں….بور….بور ہو رہا تھا، اس لیے سوچا….. امّی….. کے کپڑے پہن کر دیکھوں….کیسا لگتا ہوں۔“ زندگی میں پہلی بار افتخار حسین کا ہاتھ نادر پر اٹھا۔ اُس رات انھوں نے نادر کو ملنے والا خصوصی استثنیٰ واپس لے کر پچھلی ساری کسر ایک ساتھ پوری کر دی۔

    مار پیٹ، قید و بند اور ایذارسانی سے عادتیں تو سدھاری جا سکتی ہیں، لیکن کسی کی فطرت بَھلا کب بدلی ہے، جو نادر کی بدل جاتی۔ گھر والوں کے تشدد اور منت سماجت کے باوجود اُس نے اپنی چال ڈھال نہ بدلی۔ وہ اپنے ہی حال میں مست رہنے لگا۔ کئی مہینوں سے اُس نے حجامت نہیں بنوائی تھی، جس کی وجہ سے اُس کے بال زلفوں میں تبدیل ہونے لگے اور ناخن نیل کٹرکی شکل دیکھنے کو ترس گئے۔ کاجل ہمہ وقت نادر کی آنکھوں کی زینت بنا رہتا، مگر اُس کے ہونٹوں کو اُس واقعے کے بعد لپ اسٹک نصیب نہ ہوسکی۔ افتخار حسین اپنے ہی گھر کے اندر اپنی عمر بھر کی کمائی کو یوں برباد ہوتا دیکھتے اور اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ نادر کی موجودہ ذہنی کیفیت کے سبب تہمینہ کی سہلیوں نے بھی نادر سے ایک خاص فاصلہ رکھنا شروع کر دیا تھا، جب کہ لڑکوں سے وہ خود فاصلے پر رہنا چاہتا تھا، جواس پر غلیظ جملے کستے اور اُسے چھیڑنے سے باز نہ آتے۔

    کوئی بھی جان دار شے اپنے ہم جنسوں کو کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ سو، نادر نے بھی ایک دن اپنے ہم جنس ڈھونڈ ہی نکالے۔

    خواجہ سراؤں سے اُس کا پہلا باقاعدہ رابطہ طارق روڈ کے ٹریفک سگنل پر ہوا۔ نادر گھر جانے کے لیے بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور کافی دیر سے اُن دو خواجہ سراؤں کی جانب دل چسپی سے دیکھ رہا تھا، جو سامنے سگنل پر رُکی گاڑیوں کے مسافروں سے پیسے مانگنے میں مصروف تھے۔ اچانک لال رنگ کی شلوار قمیص پہنے ایک خواجہ سرا کی نظریں نادر کی نظروں سے چار ہوئیں اور فطرت نے اپنا کام شروع کردیا۔ سُرخ پوش خواجہ سرا نے ہرے رنگ کے زنانہ لباس والے دوسرے خواجہ سرا کو آواز دی،
    ”اری او چمکی، ذرا ادھر تو دیکھ، کیسا چیسا لورا (خوب صورت لڑکا) ہے، کچھ اپنا اپنا سا لگتا ہے۔“

    چمکی نے نادر کی طرف غور سے دیکھا، جو اشتیاق بھری نظروں سے پہلے ہی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ”ہائے میں مر گئی، نی زیبا، واقعی بڑا چیسا ہے۔ اگر یہ تھوڑا تڑاواہ (میک اپ) کر لے تو اپنی ہی برادری کا لگے۔“ یہ کہہ کر دونوں خواجہ سرا ہنسنے لگے۔
    ”چل، اس سے بات کرتے ہیں۔ پتا تو چلے کہ پیدایشی ہے یا صرف زنانہ ہے۔“ زیبا نے اپنے سر پر دوپٹے کو ٹھیک کیا اور چمکی کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرنے لگی۔
    ”سلام علیکم، کیسا ہے رے ہیرو۔“ قریب پہنچ کر زیبا نے نادر کو خواجہ سراؤں کے مخصوص انداز میں سلام کیا۔

    ”ٹھیک ہوں۔“ نادر خواجہ سراؤں کو اپنے قریب پا کر تھوڑا سا نروس ہوگیا۔
    ”اگر بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں۔“ زیبا نے استفسارانہ انداز میں نادر کی آنکھوں میں دیکھا۔

    ”ہا…… ہاں پوچھو، کیا پوچھنا ہے۔“ نادر نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
    ”کیا تم بھی ہماری برادری کے ہو۔“

    ”کیا مطلب، میں کچھ سمجھا نہیں۔“ نادر نے استعجابیہ انداز میں کہا۔

    ”ارے، اس کا مطلب ہے کیا تم بھی ہماری طرح خواجہ سرا ہو۔“ چمکی نے تالی بجا کر لچکتے ہوئے زیبا کے سوال کی وضاحت کی۔ پتا نہیں آپ لوگ کیا پوچھ رہی…. رہے ہیں۔ کیا آپ لڑ…کیاں…. ہیں۔“

    نادر کے اس جملے پر زیبا اور چمکی نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ چمکی پھر لچکنے لگی۔

    ”ہاں ہاں لڑکیاں ہیں، خوب صورت لڑکیاں۔“ جملے کے اختتام پر دونوں مردانہ آواز میں قہقہے لگانے لگے۔

    ”ایسی لڑکیاں تو میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں، جو شیو بھی کرتی ہیں۔“ نادر کو ان دونوں کے ساتھ بات کرنے میں مزہ آنے لگا۔ اُس کی ہچکچاہٹ دور ہوگئی اور وہ دل لگی پر اُتر آیا۔
    ”کیا تجھے بھی میک اپ کرنے کا شوق ہے؟“ زیبا بے تکلفانہ انداز میں نادر کے سراپے کا بھر پور انداز میں جائزہ لینے لگی۔

    ”ہاں ہے۔“ مختصر جواب ملا۔ ”اور زنانیوں جیسے کپڑے پہننے کا؟“ تفتیش جاری رہی۔
    ”ایک بار پہنے تھے، ابّو نے بہت مارا تھا۔“

    ”کیا تو بچپن سے ایسا ہی ہے۔“ پھر سوال پوچھا گیا۔

    ”پتا نہیں، لیکن میں شروع سے اپنے بہن بھائیوں سے الگ ہوں۔ مجھے گھر والے ہر بات پر روکتے ٹوکتے ہیں۔“ نادر نے افسردگی سے کہا۔

    ہمارے ساتھ چل، ہم تجھے اپنے گرو، بالی شاہ سے ملواتے ہیں۔ ہمارے ٹھکانے پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہاں تُو اپنے سارے ارمان پورے کرلینا۔“

    وہ دن نادر کی بے سمت زندگی کو ایک سمت دے گیا۔ اس کے پاؤں پھر اپنے گھر پر نہیں ٹکے اور وہ بہانے بہانے سے گھر سے غائب رہنے لگا۔ بالی شاہ کے ٹھکانے پر اپنے ”ہم جنسوں“ سے مل کر اُسے بہت خوشی ہوتی تھی۔ وہ خواجہ سراؤں کے ہم راہ گلی محلوں میں ودھائی (بخشش) لینے بھی جانے لگا تھا۔ افتخار حسین کو جلد ہی اپنے بیٹے کے ان کرتوتوں کا علم ہوگیا اور وہ اس پر اور زیادہ سختیاں کرنے لگے۔

    گھر والوں کی طرف سے لاکھ پہرے بٹھانے کے باوجود نادر نے بالی شاہ کے ٹھکانے پر جانا نہیں چھوڑا۔ وہ بالی شاہ سے ملنا چھوڑ بھی کیسے سکتا تھا۔ اُسے تو بالی شاہ کا ٹھکانا ہی اپنا اصل گھر اور بالی شاہ کے چیلے اپنے اپنے سے لگتے تھے۔ افتخار حسین جب بھی اُسے مارتے تو وہ روتا ہوا بالی شاہ کے ٹھکانے پر جا پہنچتا۔ بالی، نادر کو افسردہ دیکھ کر تڑپ اُٹھتا، فوراً اُسے اپنی بانہوں میں بھر کر اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرنے لگتا اور اس کے رستے زخموں پر مرہم رکھتا۔ نادر کو زنانہ لباس میں دیکھ کر اُس کے بہن بھائی اُس سے نفرت کرتے اور بالی شاہ کے چیلے اُس کی بلائیں لیتے۔ افتخار حسین اور صغراں نادر کو کسی تقریب میں لے جانے اور گھر آئے مہمانوں سے اُس کا تعارف کروانے میں بھی شرمندگی محسوس کرتے، جب کہ بالی شاہ بڑے فخریہ انداز میں لوگوں سے نادر کا تعارف اپنے چیلے کے طور پر کرواتا۔

    قدرت نے نادر کے ساتھ اگر بھیانک مذاق کیا تھا، تو اُس کے گھر والوں نے کون سا اُس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تھا؟ معاشرے نے اسے دھتکار دیا تھا۔ لے دے کر صرف اُس کا اپنا ایک گھر تھا، جو اُسے پناہ کا احساس دلاتا تھا، لیکن جب گھر والے بھی اُس کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرنے لگے، تو نادر کے پاس بالی شاہ کے پاس جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ افتخار حسین اور صغراں اپنے بیٹے کو عام لڑکوں کی طرح دیکھنا چاہتے تھے، لیکن نادر کی فطرت اُسے ان جیسا بننے نہیں دیتی تھی۔ اگرچہ یہ بات دونوں اچھی طرح سمجھتے بھی تھے، لیکن لوگوں کا تضحیک بھرا رویہ انھیں فطرت کی مخالفت پر اکساتا رہتا تھا۔ وہ اپنے بچے کو بُرا بھلا کہہ کر معاشرے کو مطمئن کرکے لوگوں کے سامنے سُرخ رو ہونا چاہتے تھے۔ چناں چہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے بچے کی فطرت کچلنے اور دبانے کی کوشش کرتے۔ آخر کار نادر نے اپنے گھر والوں کو روز روز کی شرمندگی سے بچانے کے لیے انھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بالی شاہ کے ٹھکانے پر آج شادی کا سا سماں تھا۔ آس پاس کے علاقوں کے خواجہ سرا اس کے ٹھکانے پر جمع تھے۔ شیرمی (چائے) اور چھمک (ناچ گانے) کے دور وقفے وقفے سے چل رہے تھے۔ ایک طرف بالی شاہ خواجہ سراؤں کے دیگر گروؤں کے ساتھ بڑی شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ خوشی اس کے چہرے پر سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ آج اُس کے چیلوں میں ایک نئے چیلے کا اضافہ جو ہوا تھا، جس کی خوشی میں اُس نے آس پاس کے خواجہ سراؤں کی دعوت کا انتظام کر رکھا تھا۔ آج کی تقریب کا دولھا یا دلہن، نادر تھا، اس لیے خواجہ سراؤں نے مل کر اُسے خصوصی طور پر تیار کیا۔ سُرخ جوڑے، گہرے میک اپ اور مصنوعی زیورات سے آراستہ نادر آج سب سے الگ نظر آرہا تھا۔ اس تقریب میں نادر کو اپنے گرو بالی شاہ کی طرف سے ایک خصوصی نام ”جَیا“ عطا ہوا۔ آج کے دن نادر اپنے ماضی کی تمام چیزوں کے ساتھ اپنے والدین کا دیا ہوا نام بھی چھوڑ کر ایک نئے نام کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا تھا۔

    خواجہ سراؤں کی اپنی تو کوئی اولاد ہوتی نہیں، اس لیے ممتا کے مارے خواجہ سراؤں نے عمر رسیدہ بالی شاہ (گرو) کو امّی کہہ کر اُس سے ماں اور بچے (چیلا) کا رشتہ قایم کر لیا تھا۔ گُرو کا گُرو، وڈی امّی (دادی، نانی) کہلاتا اور سینیر خواجہ سرا، جونیر خواجہ سراؤں کی باجی بن گیا۔ اس طرح بالی شاہ کا یہ ”خاندان“ وجود میں آیا۔ اس خاندان میں حال ہی میں ایک نئے فرد (جیا) کا اضافہ ہوا تھا۔

    اولاد چاہے گوری ہو یا کالی، لولی ہو یا لنگڑی، والدین کے لیے بہرحال اولاد ہوتی ہے۔ اسی جبر کے تحت نادر کے والدین رات کے اندھیرے میں بالی شاہ کے ٹھکانے پر جاکر نادر سے چوری چھپے ملنے پر مجبور ہوگئے۔ جیا کے نزدیک اپنے والدین کی عزت سب چیزوں سے مقدم تھی، چناں چہ نہ وہ باپ کا آخری دیدار کر سکی، نہ مُردہ ماں کے پیروں سے لپٹ کر اپنی جنت لٹ جانے کا غم منا سکی۔ وہ اپنے کفن میں لپٹے والدین کے جنازے کو لوگوں کے سامنے شرمندہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ جنازے کے ساتھ جانے والے عزت دار معاشرے کے معزز افراد کو یہ پتا ہی نہ چل سکا کہ جنازے کے سب سے پیچھے بال بکھرائے روتا ہوا جو خواجہ سرا چلا آ رہا ہے، وہ کوئی اور نہیں بل کہ مرنے والوں کا اپنا سگا بیٹا ہے۔

    وقت جیسے پر لگا کر اُڑتا رہا اور بیس سال کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ اس دوران جیا نے اپنے بہن بھائیوں کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ایک بار بھی ان کے گھر کا رُخ نہیں کیا۔ اُس کا اصل گھر اب بالی شاہ کا ٹھکانا تھا اور اس کے چیلے اس کے بہن بھائی۔ جیا نے بالی شاہ کی دن

    رات خدمت کر کے اُس کے جانشین کی حیثیت حاصل کر لی۔ اُس کا شمار اب بالی شاہ کے سینیر چیلوں میں ہونے لگا تھا، اور دیگر چیلے اُسے اپنی ماں تصور کرتے تھے۔ جیا بھی انھیں اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتی اور اُن کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔
    معاشی مجبوریاں بسا اوقات ایسے ایسے گُل کھلاتی ہیں، جسے دیکھ کر قدرت بھی حیران رہ جاتی ہے۔ افتخار حسین اور صغراں کی وفات کے بعد جیا کے بہن بھائیوں کو معاشی پریشانیوں نے آن گھیرا۔ امجد ایم اے کرنے کے باوجود کوئی نوکری تلاش کرنے میں ناکام رہا اور پرویز کی کلرکی سے گھر کے اخراجات بہ مشکل پورے ہو رہے تھے۔ معاشی حالات نے انھیں ایک خواجہ سرا کو منہ لگانے پر مجبور کر دیا۔ والدین کی وفات کے بعد اب جیا ہی اُن کی مائی باپ تھی۔ بالی شاہ دیگر خواجہ سراؤں کے مقابلے میں ایک متمول خواجہ سرا تھا، جس نے کئی حج کر رکھے تھے۔ چناں چہ، جیا نے کبھی اپنے بھائیوں کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا۔ جیا جیب اور دل دونوں سے غنی تھی اور بالی شاہ کی چہیتی تھی۔
    پھر ایک دن جیا اپنی سب سے بڑی متاع سے خود ہاتھ دھو بیٹھی۔ اُس کی سب سے بڑی دولت موت کے بے رحم ہاتھوں نے لوٹ لی۔ جیا کو اس کی اصل پہچان دینے والا، اُس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور حقیقی ماں باپ سے زیادہ پیار دینے والا بالی شاہ اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ اس بے رحم معاشرے کے ہر طعنے سے آزاد ہو کر ایک ایسی دنیا کو سدھار گیا، جہاں عزت و ذلت کا معیار جنس نہیں بل کہ اعمال تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ امجد اور پرویز کی شادیاں ہوگئیں اور تہمینہ بھی پیا گھر سدھار گئی۔ اپنے
    بہن بھائیوں کی شادیوں کے تمام تر اخراجات جیا نے خود اُٹھائے اور ایک ماں بن کر اپنی چھوٹی بہن کو رخصت کیا۔ اخراجات اُٹھانے سے جیا کو بہر حال اتنی عزت مل گئی کہ اُس کا اپنے بھائیوں کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ لیکن بالی شاہ کی وفات کے بعد چوں کہ جیا خواجہ سراؤں کی گرو بن چکی تھی، اس لیے ٹھکانے پر اُس کی ذمے داریاں بھی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھیں اور وہ اپنے چیلوں کو چھوڑ کر کسی اور جگہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اُس کے چیلے اُس کی اولاد تھے اور اُسے امیّ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک سال بعد اوپر والے نے امجد کو چاند سا بیٹا عطا کیا۔ اُس دن جیا اپنے ٹھکانے پر بد مستوں کی طرح کئی گھنٹے تک ناچتی رہی۔ اپنی امّی کو خوش ہوتا دیکھ کر اُس کے تمام چیلے بھی اُس کے ہم رقص بن گئے تھے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امجد اور پرویز کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران تہمینہ بھی دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں بن گئی تھی۔ مشترکہ خاندان میں رہنے کی ایک پرانی خرابی نے امجد اور پرویز کے گھر اپنا ڈیرا جمالیا اور ان کے گھر کے برتن آپس میں ٹکرانے لگے۔ اگرچہ دونوں بھائیوں کی محبت اپنی جگہ برقرار رہی، لیکن اُن کی بیویوں میں جاری سرد جنگ، گرم جنگ میں تبدیل ہوگئی، جس کے باعث دونوں بھائیوں کے تعلقات بھی متاثر ہونے لگے۔ اکثر اوقات بچوں کی لڑائی بڑوں کو آپس میں لڑا دیتی۔ ایسے مواقع پر امجد اور پرویز کو پھر سے جیا کی مدد کی ضرورت پڑتی، جو اُن کی ماں جیسی تھی۔ جیا جب بھی صلح صفائی کے لیے اُن کے گھر آتی، تو اپنے بھائیوں کے بچوں کے لیے کھانے پینے کی ڈھیر ساری چیزیں اور کھلونے لاتی۔ امجد اور پرویز کے بچے بھی جیا سے بہت مانوس تھے۔ جیا کے گھر میں قدم رکھتے ہی وہ دوڑ کر اُس سے لپٹ جاتے اور جیا اُنہیں گود میں اُٹھائے ڈھیر سارا پیار کرتی اور بلائیں لینے لگتی۔ اپنی بھابھیوں کی ایک دوسرے کے خلاف بُرائیاں سنتی اور آخر میں دونوں میں صلح کروا کر اپنے ٹھکانے لوٹ آتی۔

    یوں جیا کی زندگی ایک کچے مگر رنگارنگ دھاگے سے بندھی ہوئی تھی، مگر دھاگا تو ٹھہرا کچا دھاگا، سو ایک دن ٹوٹ گیا۔ اُس دن ایک اخباری رپورٹر کو جیا کا انٹرویو لینے آنا تھا۔ جیا رپورٹر کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی، جس کی اسکرین پر امجد کا نام جگمگا رہا تھا۔ امجد سے گفتگو کرکے اس کے چہرے پر پریشانی نے ڈیرا جمالیا۔ آج پھر دونوں بھائیوں کی بیویوں میں جھگڑا ہوا تھا اور اس بار پرویز نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر امجد سے بد تمیزی کی تھی۔ جیا نے اپنے چیلوں کو اخباری رپورٹر کے بارے میں چند ہدایات دیں اور کچھ دیر میں آنے کا کہہ کر روانہ ہوگئی۔ راستے میں اُس نے حسب معمول بچوں کے لیے کھانے پینے کی چند چیزیں خریدیں اور دس منٹ میں اپنے بھائیوں کے گھر پہنچ گئی۔

    بچّے جیا کو دیکھ کر اُس سے لپٹ گئے۔ جیا نے انہیں باری باری پیار کیا اور پرویز کی چار سالہ بیٹی رخشی کو اپنی گود میں بٹھالیا۔ آج پرویز کی بیوی کا موڈ زیادہ خراب تھا۔ جیا نے دونوں بھابھیوں کی صفائیاں سُنیں اور اُنھیں نرمی سے سمجھانے لگی۔ اس بار پرویز کی بیوی کا قصور زیادہ تھا۔ جیا نے جب اُس کی غلطی کی نشان دہی کرنا چاہی تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئی اور جنونی انداز میں جیا کی طرف ہاتھ اُٹھا کر چلائی، ”جا رے ہیجڑے! تو کیا ہم دونوں میں صلح صفائی کروائے گا، تیری تو کوئی اولاد ہی نہیں ہے۔ تو کیا جانے اولاد کسے کہتے ہیں۔“

    یہ کہتے ہوئے اُس نے جھٹکے سے جیا کی گود میں بیٹھی رخشی کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
    پرویز نے اپنی بیوی کی طرف غصّے سے دیکھتے ہوئے کہا، ”یہ تو کیا بک رہی ہے، پتا ہے تو کس سے بات کر رہی ہے۔“

    ”ہاں ہاں، اچھی طرح جانتی ہوں اسے، یہ ہیجڑا ہے۔ ہیجڑا بن کر رہے تو اچھا ہے، خواہ مخواہ دوسروں کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑایا کرے۔“ پرویز کا زناٹے دار تھپڑ بیوی کے منہ پر پڑا اور وہ غصّے سے پاؤں پٹختی کمرے سے باہر چلی گئی۔

    جیا کے لیے ہیجڑا ہونے کا طعنہ نیا نہیں تھا۔ اُس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، دنیا والوں کے اسی قسم کے طعنے سنتی آرہی تھی۔ لیکن بے اولادی کا طعنہ اُسے آج پہلی بار اپنوں کی طرف سے ملا تھا۔ اس سے پہلے کسی غیر نے بھی اسے اس طرح کا طعنہ نہیں دیا تھا۔ جیا کے اندر کوئی چیز ٹوٹ سی گئی، جسے وہ کوئی معنی نہ دے سکی۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ اپنے گھر کے صحن کو دیکھ کر نہ جانے کیوں تیس سال پرانا منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ امجد اور پرویز اُس سے معذرت کرتے ہوئے اُس کے ساتھ ہی صحن میں چلے آئے، لیکن جیا کے کان میں تو کرکٹ کھیلتے بچوں کے شور کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔ سلپ میں کھڑی تہمینہ امجد کو چلا کر جلدی گیند کرانے کا کہہ رہی تھی۔ پرویز اور امجد بولنگ کرانے کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے۔ پھر جیا نے خود کو بلّا پکڑے دیکھا۔ نہ جانے جیا کب تک ٹکٹکی باندھے سامنے کی جانب دیکھتی رہی۔ اچانک شیشہ ٹوٹنے کی زور دار آواز اُسے خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں کھینچ لائی۔ جیا نے بے ساختہ دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیے۔ کرچی کی برسوں پرانی چبھن پھر سے تکلیف دینے لگی۔

    وہ نہ جانے کب اور کیسے اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹی۔ کمرے میں قدم رکھا تو اخباری نمایندے اور اُس کے ساتھی فوٹو گرافر کو اپنا منتظر پایا۔ جیا نے سر کو جھٹکا، چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور کمرے میں داخل ہو کر اخباری رپورٹر سے انتظار کرانے پر معذرت کرنے لگی۔ انٹرویو شروع ہوا۔ جیا پرسکون انداز میں ہر سوال کا جواب دیتی رہی۔ اس کے چیلے اس دوران خاموشی اور توجہ کے ساتھ اپنی ماں کو انٹرویو دیتے سنتے رہے۔ کوئی بھی شخص اُس وقت جیا کے دل کی کیفیات کو اُس کے چہرے پر محسوس نہیں کر سکتا تھا۔

    اخباری رپورٹر نے اپنا آخری سوال کیا، ”یہ تاثر عام ہے کہ خواجہ سرا ناچے گائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا آپ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں خوشی سے ناچتے گاتے ہیں؟“

    نہ جانے کیوں جیا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ جذباتی سی ہوگئی، ”بھیّا! خوشی سے انسان صرف اپنوں کی شادی میں ناچتا گاتا ہے، بیگانوں کی شادی میں مجبوری میں ناچنا پڑتا ہے۔ پیٹ ہمیں ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگوں کو تو صرف ناچتا ہوا خواجہ سرا دکھائی دیتا ہے، لیکن ناچتے وقت اس کے دل میں جو مناظر طلوع اور غروب ہوتے ہیں، ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ ایک منظر میں اُس کی عمر ڈھل رہی ہوتی ہے۔ وہ ناچتے ہوئے سوچتا ہے کہ جوانی ڈھل گئی تو اُسے کون ناچنے کو کہے گا۔ اگر وہ ناچے گا نہیں تو اُسے پیسے کون دے گا۔ سامنے بیٹھے دُولھا کو دیکھ کر ایک اور منظر پہلے منظر کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس منظر میں وہ خود کو دوُلھا کی جگہ بیٹھا محسوس کرتا ہے۔ دُلہن کو دیکھ کر دُولھا بننے کا منظر دھندلا جاتا ہے اور وہ تصور میں خود کو دُلہن بنے دیکھ رہا ہوتا ہے۔“

    جیا نے اخباری رپورٹر کے مختصر سوال کا طویل جواب دے کر چائے کا آخری گھونٹ بھی اپنے حلق سے نیچے اُتارا اور سگریٹ سُلگا کر سلگتے ہوئے لہجے میں اُلٹا اُس سے سوال کر ڈالا، ”کیا لوگ ہمیں نچوائے بغیر پیسے نہیں دے سکتے۔“ پھر خود کلامی کے انداز میں کہنے لگی، ”ہمیں لوگوں نے انسان ہی کب سمجھا ہے۔ کسی کے لڑائی جھگڑے میں صلح کروانے جاؤ تو یہ طعنہ سُننے کو ملتا ہے، جا رے جا! تُو تو ہیجڑا ہے، تجھے کیا فکر، تیری تو کوئی اولاد ہی نہیں۔“

    اپنی بات کے اختتام پر جیا نے تالی پیٹی اور زور سے قہقہہ لگا کر کمرے میں بیٹھی اپنی اولادوں (چیلوں) کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی، جو اُس کی بات سن کر کچھ افسردہ سی ہوگئی تھیں۔ جیا کے چہرے پر اُس وقت ایک ممتا بھرا تقّدس اُبھرنے لگا، جس کے سامنے ساری دنیا کی ممتا ہیچ محسوس ہو رہی تھی۔

    (افسانہ نگار: شفیع موسیٰ منصوری)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی: ’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پَروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑ سکتے ہو، میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کر سکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کر سکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔‘‘

    میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لوگے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دوگے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرّم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیارے محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچّو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلّا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔

    یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔

    اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہو گئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہو سکتا ہے؟

    (بچّوں کی اس کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    آپ لوگوں نے شاید ہیپلے کا نام سن رکھا ہو جو علم حیاتیات میں کیڑوں کا مطالعہ کرنے والا سب سے مشہور سائنس دان تھا۔ اگر آپ نے اس کا نام سن رکھا ہے تو یقیناً آپ ہیپلے اور پروفیسر پاکنز کے درمیان ہونے والے مشہور جھگڑے سے بھی واقف ہوں گے۔ لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا؟

    اس جھگڑے کا آغاز برسوں پہلے ہوا جب پاکنز نے ”مائیکرولیپا ڈوپٹرا“ (اس کا مطلب راقم الحروف کو خود بھی نہیں معلوم) پر ایک سائنسی مضمون لکھا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ ایک نئی قسم کا کیڑا جو ہیپلے اپنی دریافت بتاتا ہے، وہ کوئی نئی قسم ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ کیڑا ویسا ہی ہے جیسے اور ”مائیکرولیپا ڈوپٹر“ ہوتے ہیں۔ ہیپلے جو ویسے ہی تیز مزاج تھا، اس مضمون کی اشاعت پر بہت سیخ پا ہوا اور اس نے اپنی دریافت کا دفاع کرنے کے لیے نہایت سخت الفاظ میں جواب دیا۔ پاکنز نے اس جواب کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہیپلے کا مطالعہ و مشاہدہ اتنا ہی ناقص ہے جتنا اس کا مائیکرو اسکوپ!

    ہیپلے نے جوابی حملہ کرتے ہوئے ”آپ جیسے اناڑی سائنس دان“، اور ”آپ کے بے ڈھنگے آلات“ جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا۔ سرد جنگ چھڑ چکی تھی۔
    اس دن کے بعد سے مستقل بنیادوں پر دونوں سائنس دانوں میں ہر موضوع اور ہر موقعے پر بحث ہونے لگی۔ میرا خیال ہے کہ عام طور پر پاکنز، ہیپلے کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہوتا تھا لیکن ہیپلے کو اپنا موقف کہنے کا ڈھنگ زیادہ بہتر طریقے سے آتا تھا۔ اس کے پاس اپنے مخالف کو احمق ثابت کرنے کے درجنوں دلائل موجود ہوتے تھے۔

    دوسری طرف پاکنز کو اپنی بات منوانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ساکھ اس حوالے سے بھی خراب تھی کہ وہ طالب علموں کو پاس کرنے کے لیے پیسے طلب کرتا تھا۔ لہٰذا نوجوانوں کی اکثریت ہیپلے کے ساتھ تھی۔ یہ سرد جنگ کئی برس تک جاری رہی اور دونوں سائنس دانوں کے درمیان نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

    1891ء میں پاکنز (جس کی صحت اب بہت خراب رہنے لگی تھی) نے ڈیتھ ہیڈ نامی کیڑے کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون میں بے شمار غلطیاں قابلِ گرفت تھیں اور ہیپلے نے اس مضمون کے خلاف لکھتے ہوئے ان ہی غلطیوں کا حوالہ دیا۔ یہ مضمون بہت بے رحمی سے لکھا گیا تھا جس میں ہر ایک غلطی کی نشان دہی بڑی تفصیل سے کی گئی تھی اور پاکنز کو مکمل طور پر احمق ثابت کیا گیا تھا۔ پاکنز نے ان اعتراضات کا جواب دیا لیکن اس کے دلائل بودے تھے اور لکھنے کا طریقہ بھی کمزور تھا۔ البتہ اس میں نفرت کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ وہ ہیپلے کو تکلیف پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس پر قادر نہیں تھا۔ وہ بہت بیمار رہنے لگا تھا۔
    اس کامیاب حملے کے بعد ہیپلے نے اپنے دشمن کو فیصلہ کن شکست دینے کی ٹھان لی۔ اس نے ایک تفصیلی مضمون لکھا جو بظاہر تو کیڑوں کے متعلق ایک عام مضمون تھا لیکن درحقیقت اس میں پاکنز کی تمام تحقیقات کو رد کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی زبان بہت جارحانہ تھی لیکن اس میں دیے گئے دلائل بہت مضبوط تھے جنھوں نے پاکنز کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

    اب تمام سائنس دان پاکنز کی طرف سے جوابی حملے کے منتظر تھے۔ لیکن ان ہی دنوں پاکنز شدید بیماری کے باعث انتقال کر گیا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ شاید اس کی وفات ہی اس کی طرف سے ہیپلے کو دیا جانے والا بہترین جواب تھا۔ کیوں کہ اس کے بعد لوگوں نے ہیپلے کی حمایت کرنا چھوڑ دیا۔ وہ لوگ جو اس لڑائی میں ہیپلے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اب بہت سنجیدگی سے پاکنز کی وفات پر افسردگی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ہار جانے کی ذلّت ہی پاکنز کی موت کا اصل سبب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسی بحث و تکرار کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ اتفاق سے ہیپلے کا لکھا ہوا ایک تنقیدی مضمون جو اس نے کچھ ہفتے قبل لکھا تھا، عین اس دن ایک میگزین میں شائع ہو گیا جس دن پاکنز کی تدفین تھی۔ اس مضمون کی اشاعت نے لوگوں کو ہیپلے کے خلاف کر دیا۔ عوامی ہمدردیاں اب پاکنز کے ساتھ تھیں اور وہ اس کے لکھے گئے تمام مضامین بھول گئے جو مرحوم نے ہیپلے کے خلاف لکھے تھے۔ یہاں تک کہ اخبارات تک نے ہیپلے کے اس مضمون کی مذمت کی جو پاکنز کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔

    سچ تو یہ تھا کہ اس طرح مر جانے پر ہیپلے، پاکنز کو کبھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اوّل تو یہ فیصلہ کن شکست سے بچ نکلنے کا بہت بزدلانہ طریقہ تھا اور دوسرا یہ کہ اب ہیپلے کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاس کوئی کام کرنے کو بچا ہی نہیں ہے۔ گزشتہ بیس برسوں سے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف پاکنز کی ساکھ برباد کرنے میں صرف کرتا چلا آیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی اپنی ساکھ ہمیشہ بہتر ہوتی چلی گئی تھی۔

    یہ سچ تھا کہ ان کے آخری قلمی جھگڑے نے پاکنز کی جان لے لی تھی۔ لیکن اس واقعے نے ہیپلے کی زندگی کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اس کے ڈاکٹر نے اسے کچھ عرصہ مکمل آرام تجویز کیا تھا۔ لہٰذا ہیپلے ایک پُرفضا مقام پر چھٹیاں گزارنے چلا گیا۔ لیکن یہاں بھی وہ دن، رات پاکنز کے خلاف ان تمام دلائل کے بارے میں سوچتا رہا جو اب نہیں دیے جا سکتے تھے۔
    ٭٭٭

    آخرکار ہیپلے نے اس حقیقت کا ادراک کر ہی لیا کہ پاکنز کے متعلق مستقل سوچتے رہنا اسے ذہنی طور پر بیمار کر سکتا ہے۔ اس نے پاکنز کو اپنے دماغ سے نکالنے کی شعوری کوششیں شروع کر دیں۔ وہ بہت ساری کتابیں خرید کے لایا لیکن جب بھی وہ کوئی کتاب اٹھا کے پڑھنے کی کوشش کرتا تو اسے کتاب کے ہر صفحے پر پاکنز کا سفید چہرہ نظر آ رہا ہوتا۔ وہ اسے تقریر کرتے ہوئے دیکھتا، ایک ایسی تقریر جس میں سے ہیپلے بیسیوں غلطیاں نکال سکتا تھا۔

    پھر ہیپلے نے شطرنج کھیلنا شروع کی۔ وہ جلد ہی اس کھیل میں ماہر ہو گیا اور اپنے مخالف کو باآسانی شکست دینے لگا۔ تاہم جب شطرنج میں اس کے مخالف کھلاڑی کی شکل پاکنز سے ملنے لگی تو اس نے اس کھیل کو بھی خیرباد کہہ دیا۔
    آرام کی سب سے بہترین شکل یہ تھی کہ وہ کسی نئی قسم کے کام میں مصروف ہو جائے۔ اس نے پانی میں اُگنے والے پودوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں مشغول ہونے کے بعد تیسرا دن تھا جب اس نے ایک نئی قسم کے کیڑے کو دیکھا۔ وہ رات کا وقت تھا اور کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ ایک ننھا سا لیمپ تھا۔ اس کی ایک آنکھ اپنے مائیکرو اسکوپ پر مرکوز تھی جب کہ دوسری آنکھ سے وہ میز پوش کو دیکھ سکتا تھا۔ کپڑے کی زمین سرمئی تھی اور اس پر شوخ سرخ، سنہرے اور نیلے رنگ سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اس نے اچانک کپڑے میں ایک جگہ حرکت محسوس کی اور اپنا سر اُٹھا کر دونوں آنکھوں سے کپڑے کا جائزہ لیا۔ اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میز پوش کا یہ رنگین حصہ باقاعدہ حرکت کر رہا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کمرے کی ساری کھڑکیاں اور دروازہ بند تھے تو یہ کیڑا اندر کہاں سے آ گیا؟ یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ اس نے یہ کیڑا کہیں سے اُڑ کے آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کیڑے کا میز پوش کے رنگوں سے ہم آہنگ ہونا بھی عجیب تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیپلے جو کیڑوں کے علم کا سب سے بڑا ماہر تھا، وہ اس کیڑے کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔

    کیڑا آہستہ آہستہ لیمپ کی طرف رینگ رہا تھا۔ ”ایک نئی قسم کا کیڑا!“ ہیپلے کا فطری تجسس بیدار ہو گیا۔ اسے اچانک پاکنز کا خیال آ گیا: ”اگر پاکنز کو پتا چل جائے کہ میں نے ایک بالکل انوکھی قسم کا کیڑا دریافت کیا ہے تو جلن کے مارے اس کا برا حال ہو جائے۔ لیکن پاکنز تو مر چکا ہے!“

    اس نے سوچا، ”مجھے اس کیڑے کو پکڑنا چاہیے۔“

    اب اس نے اردگرد کسی ایسی چیز کی تلاش شروع کی جس کی مدد سے وہ اس کیڑے کو پکڑ سکے۔ وہ بہت آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک کیڑا ہوا میں بلند ہوا اور لیمپ سے ٹکرایا۔ لیمپ ایک طرف لڑھک کر بجھ گیا۔ اب کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ ہیپلے نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کے لیمپ کو سیدھا کیا اور کمرے میں دوبارہ روشنی ہو گئی۔ لیکن کیڑا اب میز پر موجود نہیں تھا۔ ہیپلے نے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اسے وہ کیڑا دروازے کے قریب دیوار پر بیٹھا دکھائی دیا۔ ہاتھ میں لیمپ شیڈ پکڑ کر وہ کیڑے کو اس میں قید کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن کیڑا اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اب ہیپلے اس کیڑے کے تعاقب میں کمرے میں ناچتا پِھر رہا تھا۔ ایک بار اس کا لیمپ شیڈ والا ہاتھ لیمپ سے ٹکرا گیا اور وہ لڑھک کر میز کے نیچے جا گرا۔ کمرے میں ایک بار پھر تاریکی کا راج ہو گیا۔ ہیپلے کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا سخت بھنا رہا تھا۔ ایک بار کیڑا اس کے منہ سے آ کر ٹکرایا بھی لیکن اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ اگر وہ کمرے کا دروازہ کھولتا ہے تو کیڑا اُڑ کے باہر چلا جائے گا اور پھر شاید وہ اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکے۔

    اندھیرے میں اس نے اچانک پاکنز کا چہرہ دیکھا۔ وہ زور زور سے اس پر ہنس رہا تھا۔ ہیپلے نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور اتنی زور سے پاؤں پٹخے کہ کمرہ اس کے جوتوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے باہر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون کے خوف زدہ چہرے نے دروازے کی جھری سے جھانکا۔ ”کیا بات ہے؟ یہ شور کی آواز کیسی ہے؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ اسی وقت باہر سے آنے والی روشنی میں ہیپلے کو وہ کیڑا ادھ کھلے دروازے سے بالکل قریب نظر آیا۔

    ”دروازہ بند کر دو!“ہیپلے پوری قوت سے چلایا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ مالک مکان اس کے چہرے کے تاثرات سے سمجھی کہ وہ شاید اسے مارنے دوڑا ہے۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور اوپری منزل پر پہنچ کر اپنے کمرے کا دروازہ بھی بند کر لیا۔ وہ ہیپلے کے اس عجیب و غریب رویّے سے بہت سہم گئی تھی۔ ہیپلے کے کمرے میں اب پھر گھپ اندھیرا تھا۔ ہیپلے کو اندازہ تھا کہ اس کا رویہ پراسرار اور خوف زدہ کر دینے والا ہے۔

    ہیپلے اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہوئے الماری کی طرف بڑھا اور ماچس تلاش کرنے لگا۔ اس تلاش کے دوران اس کا ہاتھ شیشے کے ایک گلدان سے ٹکرا گیا جو چھناکے سے ٹوٹ گیا تاہم اس کے بعد ہیپلے ماچس ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اس نے ایک موم بتی جلا کے اس کی روشنی میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں کیڑے کا نام ونشان بھی نظر نہ آیا۔ ہیپلے اب بری طرح تھک چکا تھا۔ اس نے سو جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ پرسکون نیند نہ سو سکا۔ رات بھر خواب میں اسے وہ کیڑا اور پاکنز نظر آتے رہے۔ رات میں دو بار اُٹھ کر اس نے اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا۔

    ایک بات تو طے تھی، وہ مالک مکان خاتون کو اپنے عجیب و غریب رویے کی کوئی وضاحت نہیں دے سکتا تھا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ کیڑا پکڑنے میں ناکام رہا تھا۔ صبح اٹھ کر اس نے طے کیا کہ وہ رات کے واقعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ وہ ناشتے کے بعد چہل قدمی کرنے نکل گیا۔ چہل قدمی کے دوران تمام تر کوشش کے باوجود وہ کیڑے کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ایک دفعہ تو اس نے بڑے واضح طور پر کیڑے کو باغ کی پتھریلی دیوار پر بیٹھے دیکھا لیکن جب وہ بھاگ کر وہاں پہنچا تو وہ کیڑے کے بجائے محض پتھر کا قدرتی رنگ اور ڈیزائن نکلا۔

    دوپہر میں ہیپلے پادری صاحب سے ملنے گیا۔ وہ گرجے کے باغ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہیپلے نے اچانک کہا: ”آپ وہ کیڑا دیکھ رہے ہیں؟“

    ”کہاں؟“ پادری صاحب نے حیران ہو کر کہا۔

    ”کیا آپ کو اس بینچ کے کونے پر کیڑا بیٹھا ہوا نہیں نظر آ رہا؟“ ہیپلے نے اس سے بھی زیادہ حیران ہو کر کہا۔

    ”نہیں تو!“ پادری صاحب نے نفی میں سر ہلایا اور ہیپلے حیران، پریشان نظر آنے لگا۔ پادری صاحب اسے گھور رہے تھے۔

    اس رات ہیپلے نے کیڑے کو اپنے بستر پر رینگتے ہوئے دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرنے لگا کہ کیا یہ اس کا وہم ہے یا حقیقت میں کیڑا اس کے بستر پر رینگ رہا ہے۔ اسے لگا جیسے وہ پاگل ہو جائے گا۔ اس نے اس پاگل پن سے اسی طرح لڑنے کی کوشش کی جیسے وہ اپنے سابق حریف پاکنز سے لڑتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ اب پاکنز سے لڑتے رہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ انسانی نفسیات بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ دماغ جب تھکا ہوا ہو تو وہ طرح طرح کی ایسی چیزیں اختراع کرنے لگتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ کیڑے کو محض دیکھ ہی نہیں رہا تھا، اس نے رات کی تاریکی میں کیڑے کو دو بار اپنے چہرے سے ٹکراتے ہوئے بھی محسوس کیا۔ اس نے موم بتی کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ وہ کیڑا مجسم حقیقت تھا۔ اس نے کیڑے کا بالوں سے بھرا جسم دیکھا، اس کے پر دیکھے، اس کی باریک ٹانگیں دیکھیں اور ایک لمحے کے لیے اسے خود پر شدید غصہ آیا کہ وہ ایسے ننھے منے کیڑے سے کیسے ڈر سکتا ہے!
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون نے اس رات اپنی ملازمہ کو کمرے میں بلا لیا تھا کیوں کہ اسے اکیلے سوتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے کمرہ بند کر کے دروازے کے ساتھ ایک بھاری میز بھی لگا دی تھی۔ رات گیارہ بجے کے قریب انھوں نے کرائے دار کے کمرے میں بھاری قدموں کی آواز سنی۔ ایک کرسی گرنے کی آواز آئی پھر ایک دیوار پر زبردست مکا مارا گیا۔ اس کے بعد شیشے کی کوئی چیز چھناکے سے ٹوٹ گئی۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر ہیپلے سیڑھیاں اترتے ہوئے محسوس ہوا۔ دونوں خواتین نے ڈر کے مارے ایک دوسرے کو پکڑ لیا۔ قدموں کی آواز بار بار سنائی دے رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بار بار سیڑھیاں چڑھ اور اُتر رہا تھا۔ آخرکار گھر کا مرکزی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ شاید وہ گھر سے باہر جا رہا تھا۔ وہ بھاگ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور پردہ ہٹا کر تاروں کی ملگجی روشنی میں ہیپلے کو جاتے دیکھا۔ وہ نہ صرف سڑک پر دیوانوں کی طرح دوڑ رہا تھا بلکہ بار بار ہوا میں اس طرح ہاتھ چلا رہا تھا جیسے کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ تاہم ان دونوں کو ہیپلے کے سوا اس وقت سڑک پر کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دوڑتے ہوئے سڑک کے کنارے جنگل میں غائب ہو گیا۔

    ابھی وہ دونوں آپس میں اس بات کا فیصلہ کر ہی نہ پائی تھیں کہ نیچے جا کر دروازہ کون بند کرے کہ ہیپلے گھر واپس لوٹ آیا۔ اس نے خاموشی سے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے بعد گہرا سناٹا چھا گیا۔

    ”مسز کولول! مجھے امید ہے کہ میں نے کل رات آپ کو خوف زدہ نہیں کیا ہو گا۔“ ہیپلے نے اگلی صبح مالک مکان سے کہا۔ مالک مکان نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”دراصل مجھے نیند میں چلنے کی بیماری ہے۔ میں نے گزشتہ دو راتوں سے نیند کی دوا نہیں لی تھی، اس لیے ایسا ہوا۔ آپ کو خوف زدہ ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو میرے رویے سے پریشانی ہوئی تو میں اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ میں آج کیمسٹ سے اپنی نیند کی دوا خرید لاؤں گا۔ بلکہ مجھے یہ کام کل ہی کر لینا چاہیے تھا۔ بہت معذرت!“ ہیپلے نے جلدی، جلدی کہا۔
    لیکن کیمسٹ کی دکان جاتے ہوئے ہیپلے کو وہ کیڑا دوبارہ نظر آ گیا۔ وہ بار بار اس کے چہرے سے ٹکرا رہا تھا اور ہیپلے کو اسے ہاتھ ہلا کر بھگانا پڑ رہا تھا۔

    اچانک اسے اپنے اندر وہی غصہ ابھرتا ہوا محسوس ہوا جو وہ پاکنز کے لیے محسوس کرتا تھا۔ اس نے غصے میں مٹھیاں بھینچ کر کیڑے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی اور کسی چیز پر سے پھسل کر گر پڑا۔

    جب وہ کوشش کر کے اُٹھا تو اسے پتا چلا کہ وہ ایک کھائی کے اندر جا گرا ہے اور اس کی ٹانگیں اس کے بوجھ تلے مڑ گئی ہیں۔ عجیب و غریب کیڑا اس وقت بھی اس کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن حسب سابق ناکام رہا۔ اسی اثنا میں اس نے دو مردوں کو سامنے سے آتا دیکھا۔ ان میں سے ایک قصبے کا ڈاکٹر تھا۔ ہیپلے نے ان کے آنے کو اپنی خوش قسمتی خیال کیا کیوں کہ اسے باہر نکلنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت تھی۔ تاہم اسے یہ بھی یقین تھا کہ دونوں اشخاص اس کے سر پر منڈلاتا کیڑا نہیں دیکھ پائیں گے۔ لہٰذا اس نے طے کیا کہ وہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔
    ٭٭٭

    رات تک اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا درد تو خاصا کم ہو چکا تھا لیکن اسے ہلکا سا بخار ہو گیا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔ پہلے پہل اس نے فیصلہ کیا کہ کمرے میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن اسے خودبخود وہ کیڑا بستر کے سرہانے رکھے لیمپ پر بیٹھا ہوا نظر آ گیا۔ اس کو اچانک شدید غصہ آنے لگا اور اس نے کیڑے کو مارنے کے لیے زور سے اپنا ہاتھ گھمایا۔ لیمپ الٹ گیا اور سامنے کرسی پر بیٹھی نرس جو تقریباً سو چکی تھی، گھبرا کر اٹھ گئی۔

    ”وہ کیڑا! نہیں…میرا مطلب ہے کہ مجھے اپنے تصور میں یہاں ایک کیڑا نظر آ رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔“

    ہیپلے نے جلدی جلدی کہا۔ اسے وہ کیڑا کمرے میں اڑتا ہوا بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نرس اسے نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے خود پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی لیکن جیسے جیسے رات گزرتی گئی، اس کے بخار میں شدت آتی گئی اور کیڑے کو نہ دیکھنے کی ناکام کوشش میں اس کا سر درد سے پھٹنے لگا۔ اس نے بستر سے اٹھ کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ چل نہ سکا۔ نرس نے بڑی مشکل سے اسے اس ارادے سے باز رکھا۔ لیکن وہ ہر دس منٹ بعد اٹھنے کی کوشش کرتا۔ مجبوراً اس کے ہاتھ پاؤں بستر کے ساتھ باندھ دیے گئے۔ اسے بندھا دیکھ کر کیڑے کی جرات میں اضافہ ہو گیا۔ اب وہ کبھی اس کے بالوں پر آ بیٹھتا کبھی بازو پر اور کبھی اس کے چہرے پر چہل قدمی شروع کر دیتا۔ ہیپلے کبھی غصے سے چلاتا، برا بھلا کہتا اور کبھی رو دیتا۔ وہ نرسنگ اسٹاف سے درخواست کرتا کہ اس کے اوپر سے کیڑے کو ہٹا دیا جائے لیکن یہ سب کرنا بے سود ہی رہا۔

    اس کا ڈاکٹر شاید انسانی نفسیات کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، لہٰذا وہ محض یہ کہہ دیتا کہ کمرے میں کوئی کیڑا نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ ہیپلے کو اس اذیت سے بچا سکتا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کیڑا وہاں موجود ہے، ہیپلے کو منہ ڈھانکنے کے لیے کوئی رومال دے سکتا تھا تاکہ کیڑا اس کے منہ پر نہ بیٹھ سکے۔ لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اور ہیپلے اپنی ٹانگ کے صحت یاب ہو جانے تک بستر سے بندھا رہا۔ اس سارے عرصے میں کیڑا اسے کسی عفریت کی طرح ڈراتا رہا جسے وہ سوتے جاگتے اپنے اردگرد پاتا تھا۔

    ہیپلے اب اپنی باقی ماندہ زندگی ایک پاگل خانے میں ایک ایسے کیڑے سے خوف زدہ ہو کر گزار رہا ہے جو کسی اور کو نظر نہیں آتا۔ پاگل خانے کے معالج کا کہنا تھا کہ یہ کیڑا ہیپلے کے دماغ کی اختراع ہے۔ لیکن ہیپلے جب اپنے ہوش و حواس میں ہوتا تھا تو لوگوں کو بتاتا کہ یہ کیڑا پاکنز کی روح ہے لہٰذا اس کو پکڑنا سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

    (مصنّف: ایچ جی ویلز، مترجم: گل رعنا صدیقی)

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    یہ ایک سوداگر کی کہانی ہے جس کی چار سو دینار سے بھری ہوئی تھیلی گم ہوگئی تھی۔ اس نے منادی کروا دی کہ جس شخص کو اس کی تھیلی ملے اور وہ اس تک لے آئے تو اُسے دو سو دینار انعام دیا جائے گا۔

    اتفاقاً یہ تھیلی ایک غریب شخص کو مل گئی۔ وہ اُسے لے کر مالک کے پاس انعام کی اُمید میں پہنچ گیا۔ لیکن سوداگر نے جب اپنی گم شدہ تھیلی کو پایا، تو اس کے دل میں دو سو دینار کے خسارے کا خیال آگیا۔ وہ بدنیّت ہو گیا تھا اور اسے ایک بہانہ سوجھا۔ سوداگر اس غریب آدمی سے کہنے لگا’’اس تھیلی میں نہایت قیمتی موتی بھی تھے۔ کیا وہ بھی اس کے اندر ہیں؟‘‘ وہ آدمی بڑا گھبرایا اور سمجھ گیا کہ یہ اب دھوکا کر رہا ہے اور انعام نہ دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا ہے۔ اب ان دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ آخر یہ دونوں لڑتے ہوئے فیصلے کے لیے قاضی کے پاس پہنچے۔ قاضی نے اس غریب آدمی سے موتیوں کے بارے میں پوچھا تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ تھیلی میں اسے دیناروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں ملی۔ اب قاضی نے سوداگر سے پوچھا کہ بتاؤ وہ موتی کیسے تھے؟ سودا گر نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور کچھ صحیح نہ بتا سکا۔

    قاضی سمجھ گیا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اور جھوٹ سے مقصد اس کا یہ ہے کہ اپنے اعلان کے مطابق اسے انعام نہ دینا پڑے۔ قاضی نے کہا کہ میرا فیصلہ سنو! اے سوداگر! تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہاری تھیلی گم ہو گئی جس میں دینار تھے اور موتی بھی تھے اور یہ آدمی جو تھیلی لایا ہے اس میں کوئی موتی نہیں ہے، لہٰذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تھیلی تمہاری ہے ہی نہیں۔ تم اپنی گم شدہ تھیلی کے لیے دوبارہ منادی کراو۔ ممکن ہے تمہاری گم شدہ تھیلی تمہیں مل جائے جس میں وہ موتی بھی موجود ہوں اور تم بامراد بن جاؤ۔ یہ تھیلی تو تمہاری نہیں ہے۔

    اب قاضی نے اس غریب آدمی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ یہ تھیلی چالیس روز تک احتیاط سے رکھو۔ اگر اس کا کوئی دوسرا دعوے دار نہ ہو تو یہ تمہاری ہے۔‘‘ قاضی کا فیصلہ سن کر سوداگر کا دل بجھ گیا مگر وہ کیا کرسکتا تھا؟ دل میں‌ آئے کھوٹ نے اسے یہ دن دکھایا تھا۔ وہ بری طرح‌ پچھتایا اور وہ غریب شخص خوشی خوشی چار سو دیناروں‌ والی تھیلی لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا کوئی دعوے دار نہیں‌ آئے گا اور اب وہی اس رقم کا مالک ہے۔

    (انتخاب از دل چسپ حکایات)

  • لالچی سپیرا اور اژدھا

    لالچی سپیرا اور اژدھا

    زمانۂ قدیم ہی سے قصّے کہانیاں انسانوں‌ کی دل چسپی اور توجہ کا محور رہی ہیں۔ بالخصوص بچّے اور نوجوان بہت اشتیاق اور ذوق و شوق سے اپنے بڑوں کی زبانی وہ کہانیاں سنتے رہے ہیں، جو ان تک سینہ بہ سینہ اور کتابوں کے ذریعے پہنچی تھیں۔

    یہ سبق آموز کہانیاں اور حکایات اکثر سچے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جن میں عقل و دانش کی بات اور کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے جو بچّوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت، فکری اور جذباتی راہ نمائی اور ان کو معاملاتِ زمانہ سکھانے میں‌ مددگار ثابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہ درس گاہوں کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور لوگوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں۔ دنیا کی کوئی قوم، کوئی علاقہ یا کوئی براعظم ایسی سبق آموز کہانیوں اور حکایات سے خالی نہیں اور ہر ایک قوم کے پاس لوک کہانیوں اور حکایات کا خزانہ موجود ہے۔ ان حکایات میں ہزاروں سال کے انسانوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے بڑے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور اسے اپنے بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    بچّو! یہ ایک سپیرے کا قصہ ہے۔ سپیرا کسے کہتے ہیں، تم جانتے ہو نا؟ یہ وہ آدمی ہوتا ہے جو جنگل بیاباں میں جاکر سانپ پکڑتا ہے اور اسے حکیم اور طبیب وغیرہ کو فروخت کردیتا ہے یا اس کا تماشا دکھا کر روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک بین ہوتی ہے جسے بجاتا ہوا وہ اپنے شکار کی تلاش میں پھرتا رہتا ہے۔

    ہم جس سپیرے کی کہانی سنا رہے ہیں، وہ دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل، ویرانوں اور صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت سردی کا موسم تھا۔ سپیرا پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا۔ وہ خاصا تھک گیا تھا اور اب مایوس ہو کر گھر لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک اژدھا نظر آیا۔ یہ ایک بہت بھاری اور بہت لمبا اژدھا تھا۔ سپیرے نے غور کیا کہ اژدھا اس کے پیروں کی آواز اور اس کے بین بجانے پر ذرا بھی حرکت نہیں کر رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مَر چکا ہے۔ سپیرے نے ہمّت کی اور اژدھے کے قریب گیا۔ اس نے اپنی چھڑی سے اس کے جسم پر متعدد بار ضرب لگائی اور ہلایا بھی، لیکن اس نے ذرا بھی حرکت نہ کی، تب سپیرے کو یقین ہوگیا کہ اژدھا مر چکا ہے، کیوں کہ پہاڑوں پر پچھلے چند ہفتوں کے دوران سخت سردی ہی نہیں پڑی تھی بلکہ برف باری بھی ہوئی تھی۔ سپیرے نے سوچا کہ موسم کی سختی کے باعث وہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرنے میں ناکام رہا ہوگا اور یخ بستہ ہواؤں کو برداشت نہیں کرسکا جس کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی۔ سپیرے نے سوچا اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو اسے دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا اور یہ تماشا کرکے میں خوب مال کماؤں گا۔

    وہ اژدھا کیا تھا، ستون کا ستون تھا۔ سپیرے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جانا مشکل تھا۔ مگر اس نے دماغ لڑایا اور کسی طرح درختوں کے چند بڑے بڑے پتّوں کو جمع کر کے سوکھی ہوئی مضبوط شاخوں کی مدد سے اژدھے کے جسم کو ان پر پتّوں پر ڈال دیا۔ اب اس نے درختوں کی چھال سے ایک قسم کی رسّی بٹ لی اور جان لیا کہ وہ بڑی آسانی سے اژدھے کو کھینچ سکتا ہے۔ سپیرے نے خوشی خوشی شہر کا رخ کیا۔ وہ اسے ہموار راستے پر گھسیٹ کر اور ناہموار جگہوں پر پتّوں سمیت دونوں ہاتھوں میں‌ اٹھا کر، الغرض کسی طور شہر کے مصروف علاقے کے مرکزی بازار میں لے آیا۔ سپیرے کے اس کارنامے کی شہر میں دھوم مچ گئی۔ جس نے سنا کہ شہر میں فلاں سپیرا ایک نایاب نسل کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے، وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ آتے اور اژدھے کا مالک سپیرا دیکھتا کہ خاصے لوگ جمع ہوگئے ہیں‌ تو وہ اس کے جسم پر سے وہ چادر ہٹا دیتا جو اس نے یہاں‌ پہنچ کر ڈال دی تھی۔ اس کے ساتھ وہ لوگوں کو پہاڑوں کی جانب اپنے سفر اور خطرناک سانپوں کی تلاش کا قصّہ بڑھا چڑھا کر سناتا جاتا اور اس کا سچ جھوٹ سن کر لوگ حیران بھی ہوتے اور باتیں‌ بھی بناتے، مگر اسے انعام اور اس تماشے پر بخشش کے طور پر اشرفیاں ضرور دیتے۔ سپیرے کو اور چاہیے بھی کیا تھا۔ وہ ان لوگوں کے مذاق کا نشانہ بن کر اور ایسی ویسی باتیں سن کر بھی خوش تھا، کیوں کہ وہ شام کے آغاز سے اس وقت تک جتنی رقم جمع کرچکا تھا، وہ ایک سے دو ہفتے تک سپیرے اور اس کے گھر والوں کی کھانے پینے کی ضرورت کو کافی تھی۔ سپیرا لالچ میں آگیا اور گھر لوٹنے کے بجائے مرکزی چوک پر اژدھے کے ساتھ ہی سو گیا۔ اسے گھر جانے اور اس رقم کو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کا خیال ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا زیادہ سے زیادہ مال بنا لے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو کسے معلوم تھا کہ یہ دن سپیرے پر آج کیسا غضب ڈھائے گا۔

    بچّو! جب سپیرا اژدھے کے ساتھ شہر آیا تھا، تو شام کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ سورج ٹھنڈا‌ پڑنے کے بعد ڈوبنے کو تھا۔ مگر آج تو اژدھا مسلسل سورج کی تپش اور سخت دھوپ میں پڑا رہا تھا۔ دراصل وہ اژدھا زندہ تھا اور پہاڑوں پر سخت سردی اور برف باری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ہو چکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ بے حس و حرکت ایسا پڑا تھا جیسے مردہ۔ آج جیسے جیسے سورج کی براہِ راست تپش اور دھوپ اس کے جسم پر پڑی، اس کا منجمد جسم زندگی کی طرف لوٹنے لگا۔ دوپہر کو سخت دھوپ تھی اور لالچ کا مارا سپیرا جو اسے مردہ سمجھ رہا تھا، اژدھے کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف کے عالم میں جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا۔ سپیرے نے جب اچانک بھگدڑ مچتے دیکھی اور شور سنا تو پلٹا اور تب مارے دہشت کے سپیرے کا خون ہی گویا اس کی رگوں میں جم گیا۔ اس نے دل میں کہا غضب ہو گیا۔ یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا بڑا سا منہ کھول کر اس سپیرے کو نگل لیا۔ لوگ تو اس افتاد سے ہڑبڑا کر دور جا کھڑے ہوئے تھے اور اکثر تو وہاں سے بھاگ ہی نکلے تھے۔ کون اس بیچارے سپیرے کو بچاتا؟

    سپیرے کو نگلنے کے بعد اژدھا رینگتا ہوا آگے بڑھا، اور ایک بڑے اور قدیم پیڑ کے مضبوط تنے سے خود کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اندر موجود اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔

    بچّو! یہ مولانا روم سے منسوب حکایت ہے جس میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ محض نام و نمود اور مال کی خواہش میں کیا گیا کوئی کام خطرے سے خالی نہیں‌ ہوتا۔ خوب سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے ہی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس کی اچھائی اور نفع کا خوب یقین نہ ہو۔ اس حکایت سے ایک دوسرا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہمارا نفس بھی سردی میں ٹھٹھرے ہوئے اژدھے کی مانند ہے جسے جب عیش و آرام کی حدّت اور سازگار ماحول ملتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اور تب ہماری ہی جائز و ناجائز خواہشوں کی شکل میں ہمیں نگلنے کو لپکتا ہے۔

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)