Tag: اردو کہانیاں

  • لوگ اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے!(عربی حکایت)

    لوگ اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے!(عربی حکایت)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں جا رہا تھا کہ اسے ایک شخص ریت میں دھنسا ہوا نظر آیا۔

    سردار نے گھوڑا روکا، نیچے اترا، اس شخص کے جسم پر سے ریت ہٹائی، تو معلوم ہوا کہ وہ جو کوئی بھی تھا، بے ہوش چکا تھا۔ سردار نے اسے ہلایا جلایا تو وہ نیم وا آنکھوں کے ساتھ پانی پانی پکارتے ہوئے کہنے لگا، پیاس سے میرا حلق اور میری زبان کسی سوکھے ہوئے چمڑے کی طرح اکڑ چکی ہے، اگر پانی نہ پیا تو مر جاؤں گا۔ سردار نے سوچا کہ وضع قطع سے اجنبی دکھائی دینے والا شخص، جو اردگرد کے کسی بھی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا، پتا نہیں کب سے یہاں بے یارو مددگار پڑا ہوا ہے، اس نے جلدی سے گھوڑے کی زین کے ساتھ لٹکی ہوئی چھاگل اتاری اور اس اجنبی کے ہونٹوں سے لگا کر اس کی پیاس بجھانے لگا۔

    اجنبی نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ سردار کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا، اے رحم دل شخص، میرا گھوڑا شاید کہیں بھاگ گیا ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم مجھ پر مزید احسان کرتے ہوئے اپنے ساتھ بٹھا کر کسی قریبی جگہ لے جاؤ، جہاں میں اپنی سواری کا بندوبست کرسکوں؟

    سردار نے خوش دلی سے کہا، ہاں کیوں نہیں۔ سردار گھوڑے پر سوار ہو کر اس اجنبی سے کہنے لگا، آجاؤ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ، اجنبی بمشکل زمین سے اٹھا اور اٹھ کر دو تین بار گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر ہر بار نقاہت کے باعث گر جاتا رہا۔ وہ سردار سے کہنے لگا، اس سنگ دل صحرا نے میرے جسم کی ساری طاقت نچوڑ لی ہے، براہِ کرم کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ اتریں اور گھوڑے پر سوار ہونے میں میری مدد کریں۔

    سردار اتر کر اس اجنبی کو گھوڑے پر بٹھانے میں مدد کرنے لگا۔ اجنبی جیسے ہی گھوڑے پر سوار ہوا، اس نے ایک زور دار لات سردار کے پیٹ میں رسید کی اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بھگا لے گیا۔ سردار نے پیچھے سے آوازیں دیں، تو اس اجنبی شخص نے رک کر کہا، شاید تم خجالت محسوس کررہے ہو کہ ایک اجنبی کے ہاتھوں دھوکا کیسے کھا گیا۔ سنو میں ایک راہزن ہوں اور لٹیرے سے رحم کی بھیک مانگنا بے کار ہے، اس لیے چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    سردار نے جواب دیا کہ میں ایک قبیلے کا سردار ہوں، اور بھیک مانگنا یا رحم کی درخواست کرنا ایک سردار کی شان کے خلاف ہوتا ہے، میں فقط یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بات میری شرمندگی کی نہیں ہے، بلکہ جب تم کسی منڈی میں اس گھوڑے کو فروخت کرنے جاؤ گے، تواس نایاب نسل کے گھوڑے کے متعلق لوگ ضرور پوچھیں گے، تو انہیں میرا بتانا کہ فلاں قبیلے کے فلاں سردار نے مجھے تحفتاً دیا تھا، کسی بھی محفل میں صحرا میں لاچار اور بے یارو مددگار شخص کا روپ دھار کر مدد حاصل کرنے کے بہانے لوٹنے کا قصہ مت سنانا۔ "ورنہ لوگ بے رحم صحراؤں میں مدد کے طلب گار اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے۔”

    (عربی حکایت، مترجم: توقیر بُھملہ)

  • اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اٹھا تے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔

    بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزّت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزّتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔

    ہُوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں، اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔ بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آنکلے تھے، بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔ کیا چا ٹ بنائی ہے میں نے، واہ بی لومڑی واہ۔“

    بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔ دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں، لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزّتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔ بی لومڑی نے اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔ اور بالآخر وہ دن آہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔

    اُس روز موسم سخت گرم تھا، دھوپ بھی بہت تیزتھی، بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔ اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یادآ گیا۔ وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پَل بھر میں‌ یہ جا، وہ جا۔

    بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں، اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، لیکن یہ اُن کی بھول تھی، کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہوگئے تھے، اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے، بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔ پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بندرمیاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ تمام جانور بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہو گئے۔

    بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ ان کا زخمی چہرہ اور کلا ئی سے رِستا ہُوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔ بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔ تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔ کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔

    جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سُنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

    یہ فیصلہ سُنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُن کی آنکھیں بھر آئیں، جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔ بی لومڑی منہ بسورے، کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔ یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔ عادت سے مجبور جو تھے۔ پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔ کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟ تمام جانورہنس رہے تھے۔ بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشا ہ بھی مسکرا دیے۔ اپنی بھد اڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہُوئیں اور اُداس بھی۔

    بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آگیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چُکی تھی۔ خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزّت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔ فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لیے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔

    بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہُوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔ بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

    (شائستہ زرّیں کے قلم سے بچّوں کے لیے ایک سبق آموز کہانی)

  • غریب بادشاہ

    غریب بادشاہ

    قصّے، کہانیاں اور داستانیں ہمیں زندگی کو سمجھنے، سیکھنے کا موقع دیتی ہیں اور قدیم زمانے میں بھی افسانوی کرداروں کی مدد سے نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا کام لیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی سبق آموز کہانیاں اور حکایات بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لکھی جاتی ہیں اور یہ بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو بچّوں کی فکری تربیت اور کردار سازی کے ساتھ انھیں اپنے اسلاف کی حیاتِ مبارکہ اور بزرگوں کے روشن کارناموں سے روشناس کرواتی ہے۔ آپ بھی یہ کہانی اپنے بچّوں کو ضرور سنائیے۔

    جب تمام بچّے دادی کے پاس کہانی کے لیے جمع ہوئے تو ارشاد نے کہا دادی آج ہم کسی بادشاہ کی کہانی سنیں گے۔

    دادی نے کہا’’کہانی تو سناؤں گی مگر ایک غریب بادشاہ کی وہ بھی بالکل سچّی۔ تمام بچّے پوری توجہ سے دادی کے قریب بیٹھ گئے تو دادی نے کہانی شروع کی۔

    یہ ایسے بادشاہ کی کہانی ہے جو اپنے عہد کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ اس کی فوجوں نے دنیا کی دو بڑی حکومتوں کو شکست دے کر ان کے ملکوں پر قبضہ کیا اور وہاں لوگوں کو زندگی کا مقصد دیا۔ بڑے بڑے بادشاہ اس کا نام سن کر کانپتے تھے۔

    ’’پھر وہ بادشاہ غریب کیسے ہوا‘‘ عفیفہ نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’بیٹی ذرا صبر سے کام لو، وہی تو بتانے جارہی ہوں، تم لوگ درمیان میں سوال کرو گی تو میں کہانی ہی بھول جاؤں گی، ویسے بھی بڑھاپے میں حافظہ کمزور ہو جاتا ہے۔‘‘

    تمام بچّے غصے سے عفیفہ کو دیکھ رہے تھے۔ اس لئے وہ خاموش ہوگئی اور دادی نے کھنکھارتے ہوئے پھر کہانی شروع کی۔

    ہاں، بچّو، اتنا بڑا بادشاہ ہونے کے باوجود وہ بادشاہ بہت غریب تھا۔ اس کا گھر بہت معمولی تھا، ایک دو جوڑے کپڑے تھے، اس پر بھی درجنوں پیوند لگے ہوتے تھے، سر پر جو عمامہ ہوتا تھا وہ بھی اکثر پھٹا پرانا ہوتا تھا۔ پاؤں میں معمولی اور خستہ جوتیاں ہوتی تھیں۔ مسجد کے فرش پر بغیر کسی بستر کے لیٹا رہتا تھا۔ غذا اتنی سادہ اور معمولی ہوتی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ جلدی کھانا کھانے کے لئے تیار ہی نہ ہو۔ ایک دفعہ اس کے ملک میں قحط پڑا تو اس نے ہر طرح کا سالن کھانا چھوڑ دیا۔ صرف سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے اور کھجوروں پر وہ گزر بسر کرتا تھا۔

    ایک دفعہ بادشاہ کو کسی مجلس میں‌ جانا تھا، لیکن دیر ہورہی تھی اوروہ اپنے گھر میں تھا جب کہ لوگ اس کا انتظار کررہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہی جوڑا کپڑا تھا جسے دھونے کے بعد سکھایا اور جب کپڑا سوکھ گیا تب وہ بادشاہ اسے پہن کر باہر آیا۔ وہ اگرچہ بادشاہ تھا مگر لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرنے میں اسے کبھی شرم نہ آتی تھی۔ وہ مجاہدین کے گھروں پہ جاتا اور عورتوں سے کہتا تم کو کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لا دوں، وہ لونڈیوں کو ساتھ کر دیتیں، وہ چیزیں خرید کر ان کے حوالے کر دیتا۔

    وہ رعایا کی خبر گیری کے لئے راتوں میں شہر اور اس کے اطراف میں گشت کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ شہر کے باہر ایک قافلے کی حفاظت کے لئے پہرہ دے رہا تھا کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی۔ دیکھا تو ایک چھوٹا بچّہ رو رہا ہے۔ ماں سے کہا بچّے کو چپ کراؤ، تھوڑی دیر کے بعد جب بادشاہ وہاں سے گزرا تو دیکھا بچّہ پھر رو رہا ہے۔ بادشاہ کو غصہ آگیا، بولا ’’تو بڑی بے رحم ماں ہے۔‘‘ عورت نے کہا تم کو حقیقت معلوم نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جب تک بچّے ماں کا دودھ نہیں چھوڑتے انہیں وظیفہ نہیں ملتا، میں بچّے کا دودھ چھڑا رہی ہوں تاکہ اسے وظیفہ ملنے لگے۔ عورت کو معلوم نہ تھا کہ وہ بادشاہ ہی سے بات کررہی ہے۔ بادشاہ کو بڑا افسوس ہوا اور اسی دن بادشاہ نے حکم دیا کہ بچّہ جیسے ہی پیدا ہو اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے۔

    ایک بار وہ بادشاہ گشت کے لئے نکلا تو دیکھا کہ ایک عورت کھانا پکا رہی ہے اور دو تین بچّے رو رہے ہیں، اس نے بچّوں کے رونے کی وجہ پوچھی تو عورت نے کہا کئی وقتوں سے بچّوں کو کھانا نہیں ملا ہے۔ ان کو بہلانے کے لئے میں نے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دیا ہے۔ بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بڑا افسوس ہوا وہ شہر میں آیا۔ بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور غلام سے کہا میری پیٹھ پر رکھ دو، غلام نے کہا میں لے چلتا ہوں، مگر بادشاہ نے کہا نہیں، کل قیامت کے دن تم میرا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے۔ تمام سامان بادشاہ نے خود اٹھایا اور عورت کے پاس لے جا کر رکھ دیا۔ عورت نے کھانا تیار کیا اور بچّوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ بادشاہ ان بچوں کو دیکھتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ اس عورت نے کہا، ’’اللہ تم کو جزا دے، سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے امیر ہونے کے لائق تم ہو۔‘‘

    ’’دادی میں جان گئی آپ کس بادشاہ کی کہانی سنارہی ہیں۔ یہی کہانی تو میں نے اردو کی کتاب ’’ہماری کتاب ‘‘ میں پڑھی ہے۔ وہ بادشاہ حضرت عمرؓ تھے۔‘‘

    عفیفہ بولی ’’مگر حضرت عمرؓ بادشاہ کہاں تھے، وہ تو خلیفہ تھے۔ بادشاہ اور خلیفہ میں تو بہت فرق ہوتا ہے۔‘‘ فاطمہ نے درمیان میں لقمہ دیا۔

    دادی جان تو ابھی اور نہ جانے کیا کیا بتاتیں مگر بچّوں کی گفتگو کی وجہ سے وہ آگے کی کہانی بھول گئیں۔ انہوں نے کہا ’’عفیفہ نے سچ کہا، میں حضرت عمرؓ کی زندگی کی کہانی سنا رہی تھی۔ ایک ہفتے سے میں علامہ شبلیؒ نعمانی کی کتاب ’’الفاروق‘‘ پڑھ رہی ہوں۔ بقیہ کہانیاں اور سچّے واقعات تم اسی کتاب سے پڑھ لو۔‘‘

    عدی نے جھپٹ کر دادی کی الماری سے کتاب لے لی۔ سب بچّے اس کے پیچھے دوڑے۔ اب عدی کتاب پڑھے گا اور سب بچّے سنیں گے۔

    (اختر سلطان اصلاحی)

  • بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ کی چار بیویاں تھیں۔ یوں تو وہ سبھی سے بہت محبت کرتا تھا، مگر ہر بیوی کے ساتھ اس کا الگ رویہ اور سلوک تھا۔

    چوتھی بیوی بادشاہ کی نورِ نظر تھی۔ بادشاہ اسے اکثر بیش قیمت تحائف دیتا اور باقی بیویوں کے مقابلے میں اُس کا جھکاؤ چوتھی بیوی کی طرف زیادہ تھا۔

    بادشاہ کی تیسری بیوی انتہائی خوب صورت تھی اور بادشاہ ہمیشہ دربار میں اُس کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتا تھا۔

    دوسری بیوی سمجھدار، بُردبار، مہربان اور تحمل مزاج تھی اور بادشاہ جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہوتا اپنی اسی بیوی سے مشورہ کرتا اور اُس کے کہنے پر عمل بھی کرتا۔

    اس بادشاہ کی پہلی بیوی انتہائی وفا شعار اور ساتھ نبھانے والی خاتون تھی۔ اسی کی ہمّت اور حوصلہ افزائی نے بادشاہ کو اس سلطنت اور تاج و تخت کا مالک بنایا تھا مگر بادشاہ اُسے نظر انداز کر دیا کرتا تھا اور کبھی اُس کے کسی کام کی تعریف نہیں کی تھی۔

    ایک روز بادشاہ بیمار پڑ گیا۔ یہ بیماری اتنی بڑھ گئی کہ بادشاہ کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اس دنیا میں کچھ دن کا مہمان ہے۔ وہ بستر پر پڑا سوچ رہا تھا کہ "میں کیسا بادشاہ ہوں؟، میری چار بیویاں ہیں اور جب میں مروں گا تو تنہا مروں گا۔ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں جائے گا۔” اس نے اپنی چوتھی بیوی سے کہا ” میری نُور نظر میری موت قریب ہے، میں چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ قبر کی تنہائی میں میرا ساتھ دے سکو۔” اس نے بادشاہ کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی۔ بادشاہ کو بڑا ملال ہوا۔ اس نے یاد کیا کہ کیسے وہ اس بیوی کی خاطر کرتا تھا اور اس کے لیے ہر آسائش مہیا کررکھی تھی۔ اس نے اپنی تیسری بیوی کو بلایا اور اس سے یہی بات کی مگر اس نے بھی ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

    دونوں بیویوں کی ایسی سرد مہری دیکھ کر بادشاہ کا دل ڈوبنے لگا تو اُس نے اپنی دوسری زوجہ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ دوسری والی بولی، ” بادشاہ سلامت آپ خود ہی تو فرماتے ہیں، مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ لہٰذا یہ منزل آپ کو تنہا ہی پار کرنی پڑے گی۔” بادشاہ نے مایوس ہوکر اس سے منہ پھیر لیا۔

    ان تینوں بیویوں کو آزمانے کے بعد جب بادشاہ تکلیف اور بے بسی کے ساتھ چھت کی طرف دیکھے جارہا تھا تو اس کے کانوں میں چوتھی بیوی کی آواز پڑی، وہ کہہ رہی تھی ”بادشاہ سلامت! میں آپ کے ساتھ چلوں گی جہاں بھی آپ جائیں گے میں ساتھ دوں گی۔” بادشاہ نے چوتھی بیوی کی طرف دیکھا جو دراصل بادشاہ کے التفات سے محرومی اور کسی موقع پر اہمیت نہ دیے جانے کے سبب ذہنی اذیت سے گزرتی رہی تھی، اور وہ انتہائی لاغر ہوچکی تھی۔ اس کی رنگت زردی مائل نظر آرہی تھی۔ بادشاہ نے اسے قریب پاکر انتہائی رنجیدہ لہجے میں کہا ” میری حقیقی غم خوار! ہائے صد افسوس، کاش میں نے تمہارا خیال اُس وقت رکھا ہوتا جب میرے قبضۂ قدرت میں اختیار تھا۔” یہ جملہ ادا کر کے بادشاہ کا سَر ایک طرف ڈھلک گیا۔ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

    اس کہانی میں ایک سبق اور دنیا کی ایک حقیقت پوشیدہ ہے کہ گویا ہر انسان کی زندگی میں چار بیویاں ہوتی ہیں، چوتھی بیوی اُس کا جسم ہے جس کو توانا رکھنے کے لیے وہ ساری زندگی کوشش کرتا ہے مگر ایک دن اُسے یہ جسم چھوڑنا پڑتا ہے۔

    تیسری بیوی اس کا مال اور منصب ہے جو مرنے پر چھوٹ جاتا ہے اور دوسروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دوسری بیوی کو اگر ہم اس کے رشتہ دار، دوست احباب فرض کریں تو ان کا حال ایسا کہ یہ ہر انسان کے مرنے کے بعد قبر تک اُس کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر واپس اپنی عارضی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

    پہلی بیوی کی مثال انسان کی روح جیسی ہے جس کا ہم ساری زندگی خوب صورت جسم حاصل کرنے کی چاہت، دولت، منصب و جاہ، شان و شوکت حاصل کرنے کی آرزو میں اور محفل عیش و طرب سجانے کے دوران خیال نہیں رکھ پاتے اور کوئی اہمیت نہیں دیتے، جب ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے تب تک یہ ضیف و لاغر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمیں پہلی بیوی یعنی اپنی روح اور سیرت و کردار کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہی وہ سب ہے جو ہمارے مرنے کے بعد قبر میں ہمارا مضبوط سہارا بنتا ہے۔

    (قدیم اور سبق آموز کہانیاں)

  • میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں ہمیں نصیحت آمیز قصّے اور دل چسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہماری دنیا کی ہر زبان کا ادب ایسی کہاوتوں اور حکایات سے مالا مال ہے جو دانایانِ رفتہ کے علم، ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز۔

    عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا۔“ اسی ضربُ المثل سے جڑی ایک دل چسپ حکایت بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں‌ عافیت جانی۔

    ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع ملتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔

    اس سے پہلے جب شیر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھیرتا تھا تو دوسرا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور وہ مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اس بار اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا… سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے ’بھائی چارے‘ کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے میں ڈوبے لال بیل پر اس کی پکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی برادری کے ایک فرد کو درندے کا شکار بنتا دیکھتا رہا۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سفید بیل کے ساتھ نہ تھا ورنہ آج شیر کے حملے میں اس کام بھی تمام ہو جاتا۔ شیر نے پے در پے حملے کرکے سفید بیل کو شدید زخمی کردیا اور وہ اس کے آگے ڈھسل گیا۔ شیر نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھ لیا۔ وہ اپنے باقی ماندہ شکار کو کھینچتا اپنے ٹھکانے پر لے گیا تھا۔

    تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیر نے لال بیل کو بھی ہڑپ کرنے کا سوچا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل کی آنکھوں میں ملال کی سرخی دوڑ گئی اور اب وہ شیر کا ساتھ دینے پر پچھتا رہا تھا۔ اس نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باسیوں کو پیغام دیا کہ… ”میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا…!“

  • اہرام کا میر محاسب

    اہرام کا میر محاسب

    ممتاز افسانہ نگار نیّر مسعود افسانہ اور رمز سے بھری ہوئی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی یہ کہانی ایک صاحبِ اقتدار شخص کی طاقت اور غرور کے انجام کو بیان کرتی ہے جو قدیم دور کے اہرام کو ایک چیلنج سمجھ کر توڑنے کے لیے مزدور اکٹھا کرتا ہے، مگر ناکام ہونے کے بعد اپنا شہر چھوڑ کر اسی ویرانے میں چلا جاتا ہے جہاں وہ اہرام موجود ہے۔

    بڑے اہرام کی دیواروں پر فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہیں۔

    اس سے یہ بدیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عمارت کو فرعون نے بنوایا ہے۔ لیکن اس سے ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہونے سے پہلے اہرام کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ مگر کتنے پہلے؟ چند ماہ؟ یا چند سال؟ یا چند صدیاں؟ یا چند ہزار سال؟ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اہرام کی عمارت فرعون سے بیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی تو اس دعوے کی تردید اس کے سوا کوئی دلیل نہ ہوگی کہ اہرام پر فرعون کا نام کندہ ہے، لیکن یہی دلیل اس کا ثبوت ہوگی کہ نام کندہ ہوتے وقت یہ عمارت بنی ہوئی موجود تھی۔

    کب سے بنی ہوئی موجود تھی؟ اس سوال کا جواب دینے سے مؤرخ بھی قاصر ہیں اور تعمیرات کے ماہر بھی۔ مؤرخ اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی تعمیر کی دستاویزیں نہیں ہیں، اور ماہر اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی عمر کا پتا لگانے والے آلات نہیں ہیں۔ ان کے ترقی یافتہ آلات نہ یہ بتا سکے ہیں کہ اہرام اپنی کتنی عمر گزار چکا ہے اور نہ یہ بتا سکے ہیں کہ ابھی اہرام کی کتنی عمر باقی ہے۔ البتہ یہ آلات ماضی اور مستقبل دونوں سمتوں میں اہرام کے بہت طویل سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    تعمیرات کے ماہروں نے یہ تخمینہ ضرور لگا لیا ہے کہ اہرام کے اطراف کی زمینوں اور خود اہرام کی عمارت کے رقبے کے لحاظ سے اس کے بنانے میں زیادہ سے زیادہ کتنے آدمی ایک ساتھ لگ سکتے تھے، اور زیادہ سے زیادہ آدمی کم سے کم کتنی مدت میں اہرام کو مکمل کر سکتے تھے، اور یہ کم سے کم مدت کئی سو سال کو پہنچتی ہے۔ لیکن خلیفہ کے وقت میں اہرام کی ایک سل پر یہ عبارت کندہ پائی گئی۔

    ’’ہم نے اسے چھ مہینے میں بنایا ہے، کوئی اسے چھ مہینے میں توڑ کر تو دکھا دے۔‘‘

    خلیفہ کو غصہ آنا ہی تھا۔ مزدور بھرتی ہوئے اوراہرام پر ایک طرف سے کدالیں چلنا شروع ہوئیں۔ مگر ہوا صرف یہ کہ کدالوں کی نوکیں ٹوٹ گئیں اورپتھروں سے چنگاریاں سی اڑ کر رہ گئیں۔ خلیفہ کو اورغصہ آیا۔ اس نے اہرام کے پتھروں کو آگے سے گرم کرایا۔ جب پتھرخوب تپنے لگے تو ان پر ٹھنڈا ٹھنڈا سرکہ پھینکا گیا۔ چٹ چٹ کی آواز اور پتھروں میں پتلی پتلی لکیریں کھل گئیں۔ ان لکیروں پر نئی کدالیں پڑنا شروع ہوئیں اور پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے الگ ہونے لگے۔ خلیفہ کو تسلّی ہوئی اوروہ دارُالخلافہ کو لوٹ گیا۔ اس کے پیچھے یہ حکم رہ گیا کہ چھ مہینے تک دن رات میں کسی بھی وقت کام روکا نہ جائے۔

    چھٹا مہینہ ختم ہوتے ہوتے خلیفہ پھر اپنے امیروں کے ساتھ اہرام کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اتنے دن میں اہرام سے صرف ایک چھوٹی دیوار بھر پتھر الگ کئے جا سکے تھے۔ ان پتھروں کے پیچھے ایک طاق نمودار ہوا تھا جس میں پتھر کا تراشا ہوا ایک مرتبان رکھا تھا۔ مرتبان خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور خلیفہ نے اسے خالی کرایا تو اس میں سے پرانی وضعوں کے سونے کے زیور اور قیمتی پتھر نکلے۔ پھر دیکھا گیا کہ پتھر کے مرتبان پر بھی ایک عبارت کندہ ہے اور خلیفہ کے حکم سے یہ عبارت پڑھی گئی:

    ’’تو تم اسے نہیں توڑ سکے۔ اپنے کام کی اجرت لو اور واپس جاؤ۔‘‘

    اس وقت خلیفہ طاق کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے اہرام کا مخروطی سایہ بیابان میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ خلیفہ مڑا اورآہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا جہاں اہرام کا سایہ ختم ہو رہا تھا۔ خلیفہ تھوڑا اور آگے بڑھ کر رکا۔ اب زمین پر اس کا بھی سایہ نظر آنے لگا۔ بیابان کی دھوپ میں صرف سائے کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ اہرام کی چوٹی پر کھڑا ہے۔ لیکن اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں تھا۔ خلیفہ واپس آ کر پھر طاق کے سامنے کھڑا ہوا اور اب اس نے حکم لکھوایا کہ چھ مہینے کی اس مہم کے اخراجات کا مکمل حساب پیش کیا جائے۔ اس نے ایک اور حکم لکھوایا کہ مرتبان سے نکلنے والے خزانے کی قیمت کا صحیح تخمینہ لگایا جائے۔

    مشہور ہے کہ خزانے کی قیمت ٹھیک اس رقم کے برابر نکلی جو اہرام کا طاق کھولنے کی مہم پر لگی تھی اور اس میں ایسی بات مشہور ہو جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ یہ بات حسابات مکمل ہونے سے پہلے ہی مشہور ہوگئی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں وہ میر محاسب فراموش کر دیا گیا جس کے ذمے یہ دونوں حساب کتاب تھے۔

    اس کے بارے میں مشہور تھا کہ خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں تک کا شمار رکھتا ہے۔ حساب کی فردوں کے پلندے اس کے آگے رکھے جاتے اور وہ ایک نظر میں ان کے میزان کا اندازہ کر لیتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جمع تفریق کی غلطیاں اپنے آپ کاغذ پر اچھل کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ خلیفہ سے زیادہ اس کے میر محاسب سے خوف زدہ رہتے تھے۔ دارُالخلافہ کے لوگ ایک دوسرے کو کبھی ہنسانے کے لئے، کبھی ڈرانے کے لئے بتاتے تھے کہ میر محاسب کے دل میں جذبوں کی جگہ اور اس کے دماغ میں خیالوں کی جگہ اعداد بھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بلکہ وہ بات جس کی طرف یہ بات اشارہ کرتی ہے، کچھ بہت غلط بھی نہیں تھی، کم سے کم اس حساب کی رات تک۔

    اس رات اس کے سامنے دونوں حسابوں کی فردیں کھلی رکھی تھیں اور اس نے ایک نظر میں اندازہ کر لیا تھا کہ دونوں حساب قریب قریب برابر ہیں۔ تاہم اس نے ضروری سمجھا کہ دونوں فردوں کی ایک ایک مد کو غور سے دیکھ لے۔ اس کے مستعد ماتحتوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اندراجات کئے تھے۔ کسی بھی مد کی رقم میں کوئی کمی بیشی نہیں تھی۔ حاصل جمع نکالنے کے لئے اس نے مرتبان والے خزانے کی فرد پہلے اٹھائی۔ لیکن جب وہ حاصل جمع لکھنے لگا تو اس کا قلم رکا اور اسے محسوس ہوا کہ اس نے جوڑنے میں کہیں غلطی کر دی ہے۔ اس نے پھر حساب جوڑا اور دیکھا کہ اب حاصل جمع کچھ اور ہے، لیکن اس کو پھر غلطی کر جانے کا احساس ہوا اور اس نے پھر حساب جوڑا اور حاصل جمع کو کچھ اور ہی پایا۔ آخر اس فرد کو ایک طر ف رکھ کر اس نے طاق کھولنے کی مہم والی فرد اٹھائی، مگر یوں جیسے اپنے کسی شبہے کی تصدیق چاہتا ہو، اور واقعی اس فرد کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس کے سامنے دو فردیں اورچھ سات یا اورزیادہ حاصل جمع تھے۔ الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ فردوں کو یوں ہی چھوڑ کر وہ باہر نکل آیا۔ کوئی سوال اس کو پریشان کررہا تھا۔ کوئی سوال اس تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن اعداد کے ہجوم میں اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔

    باہر چاندنی میں کھڑے کھڑے جب اس کے پاؤں شل ہونے لگے اورہتھیلیوں میں خون اتر آیا تب اسے احساس ہوا کہ اعداد کا ہجوم اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دور ہوتے ہوئے اعداد اسے انسانوں کی ٹولیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ دو اور دو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کا حاصل جمع ہے، جسے وہ پہچان نہیں پایا کہ چار ہے یا کچھ اور۔ اس آخری ٹولی کے گزر جانے کے بعد وہ اندر واپس آیا۔ اس نے دونوں فردوں کو تلے اوپر رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ ان کا حاصل جمع ایک نکلے گا یا الگ الگ؟ پھر سوچنے لگا کہ خود وہ دونوں کو ایک چاہتا ہے یا الگ الگ؟ اور پھر یہ کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے؟ تب اچانک اس کو پتا چلا کہ یہی وہ سوال ہے جو اعداد کے ہجوم میں راستہ ڈھونڈ رہا تھا، خلیفہ کیا چاہتا ہے؟

    باقی ماندہ رات اس نے یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے۔ صبح ہوتے اسے نیند آگئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ خلیفہ اور فرعون ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اہرام کی پرچھائیں کے سرے کی طرف جارہے ہیں اور اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوتے ہی میں سمجھ لیا کہ خواب دیکھ رہا ہے، اور اپنی آنکھ کھل جانے دی۔

    دن ڈھل رہا تھا جب اس نے دونوں فردوں کو جلا کر راکھ کیا، اپنے ایک غلام کا خچر کسا، غلام ہی کی پوشاک پہنی اور باہر نکلا۔ بازاروں میں بے فکر ے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ٹولیاں بنائےگشت کر رہے تھے۔ اس دن شہر میں گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا، سب ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ طاق کھولنے کی مہم پر صرف ہونے والی رقم اور مرتبان کے خزانے کی قیمت میں ایک جو کا فرق بھی نہیں نکلا ہے اور یہ کہ یہ حساب میر محاسب کا نکالا ہوا ہے جو خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں کا شمار رکھتا ہے۔

    وہ واپس لوٹنے کے لئے گھر سے نہیں نکلا تھا۔ اس نے خچر کو ایڑ لگائی، بازاروں کو پیچھے چھوڑا اور خود کو اس بیابان میں گم کر دیا جہاں ہوا میں ریت کے ذرّے چنگاریوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین پر اہرام اپنا مخروطی سایہ ڈالتا ہے۔

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • آتش فشاں پر بنا گھر

    آتش فشاں پر بنا گھر

    اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔

    ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا کر۔ تجھے سمجھ میں نہیں آتا کیا؟‘

    وہ سہم گئی۔ ماں جیسا نازک بدن کپکپانے لگا۔ وہ دادی کو اکثر غصے میں دیکھتی، مگر اس لمحے یوں لگا کہ جیسے وہ مار ہی ڈالیں گی۔ چند دنوں سے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ وہ جوں جوں بڑی ہورہی تھی، دادی کی روح میں کسی بت کی طرح سر اٹھائے کھڑا اضطراب اپنا قد بڑھاتا جا رہا تھا۔ وہ جب بھی سامنے آتی، دادی کی آنکھوں میں بے چینی مچلنے لگتی۔ اسے گھر میں ہر طرف آنے جانے کی آزادی تھی۔ وہ اپنے کھلونوں سے کھیلے یا انہیں توڑے۔ اپنی کتابوں میں بنی تصویروں میں رنگ بھرے یا بد رنگ کرے۔ اسے ہر بات کی آزادی تھی۔ مگر جب کبھی دادی کے کمرے میں بنی الماری کی طرف ہاتھ بڑھاتی، چاروں سمت پھرتی شاطر آنکھیں اس کی گردن دبوچ لیتیں اور وہ سہم جاتی۔ ایسے میں نہ جانے کیوں ماں یاد آتی، جو برسوں پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اسے دادی نے یہی بتایا تھا، بلکہ اکثر دادی یہ سبق اسے حفظ کروانے کی حد تک دہراتی رہتی تھیں۔ وہ کہتیں۔

    ’تیری ماں کو تجھ سے محبت نہیں تھی۔ ورنہ مائیں اپنی اولاد کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتیں۔ بہت ظالم تھی تیری ماں اور اس سے ظالم تیرا نانا تھا۔ سور کا بچہ۔۔۔‘

    نانا کا ذکر آتے ہی دادی کے چہرے پر وحشت برسنے لگتی۔ نفرت کی شدید تمازت بوڑھے چہرے پر پھیلی جھریوں کو اور گہرا کر دیتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ذہن سوالوں، الجھنوں سے بے نیاز تھا، مگر جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی، الجھے سوالوں کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے سلجھے جوابوں کی خواہش شدید ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں سے اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں پوشیدہ شفاف ورق پر سوال لکھنا شروع کر رکھے تھے۔

    ماں کیوں چھوڑ کر چلی گئی؟ نانا اتنے برے آدمی کیوں ہیں؟ دادی میرا چہرہ دیکھ کر چھوٹی اور بڑی تائی امی سے کیا کھسر پھسر کرتی ہیں؟ اس الماری کی درازوں میں کیا ہے جسے دادی مجھ سے چھپارہی ہیں؟ میرے امی بابا، کا رشتہ ناکام ہونے میں غلطی کس کی تھی، یا کس کس کی تھی؟ نانا نے مجھے نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا میں ان پر بوجھ بن جاتی؟

    اس کا معصوم ذہن کہتا کہ دادی اور گھر کے تمام لوگ سارے جواب جانتے ہیں۔ اسے لگتا کہ سچ وہ نہیں ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔ شاید اصل حقیقت دادی کے چہرے کی دبیز جھریوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یا تائی امی کے چہرے پر پھیلے تمسخر سے کہیں دور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے بابا کی جھکی ہوئی گردن میں کہیں اٹکا ہوا ہو۔ یا پھر خود ساختہ احساسِ تفاخر کے اونچے مگر کمزور تخت پر بیٹھے ہوے دادا کے ادھورے اور ناکام فیصلوں تلے دھنسا ہوا کراہ رہا ہے۔

    ایک دن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے کانوں سے دادی کی آواز ٹکرائی۔ ’شکل و صورت میں بالکل اپنی ماں جیسی بنتی جا رہی ہے۔‘

    تب وہ دیر تک آئینے میں اپنے چہرے کے خط و خال کو گھورتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ دادی اس کی ماں سے نفرت کرتی ہیں۔ ایسے میں اس کے چہرے میں ماں کی شباہت اتر آنا دادی کو تکلیف دیتا ہے۔ تب اس نے بے دھیانی میں ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ ڈالا۔ جب وہ اپنی ہی سسکیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی تو چیخ نکل گئی۔ آواز سن کر اس کے بابا نے اسے پکڑا اور چیخ کر بولے۔

    ’یہ کیا کر رہی ہو؟‘

    ’میرے چہرے میں دادی کو امی نظر آتی ہیں۔ میں انہیں کھرچ رہی ہوں‘۔ اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

    باب نے پیار سے اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔ باپ کے سپاٹ چہرے پر بے چارگی ابھرنے لگی۔ وہ جان ہی نہ سکی کہ بے چارگی کا یہ بد رنگ احساس اس کی ذہنی سوچ اور صحیح یا غلط کے درمیان فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کو نچلے درجے کی حد تک کمزور سے کمزور تر کیے ہوئے ہے۔

    وہ جب گردن جھکا کے پلٹنے لگا تو اس نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’بابا آپ دادی کو نہیں بتائیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا۔‘‘

    ’ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گا۔‘ اس کے باپ نے وعدہ کیا۔ مگر جب وہ کچھ دیر بعد لاؤنج میں گئی تو دادی نے تڑاخ سے کہا۔

    ’تیری ماں سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان ہوتا تو میں نہ کھرچ دیتی تیرے چہرے سے۔‘

    یہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ لمحہ بھر کو اسے بابا پر بہت غصہ آیا۔ اسے یاد آیا کہ پہلے بھی کئی بار اس نے کمرے میں ہونے والی گفتگو دادی کو بتانے سے منع کیا تھا۔ مگر ہر بار اس کے بابا دادی کو جا کر سب بتا دیتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ سوچنے لگی۔

    مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ بابا کی ایسی بہت سی حماقتوں کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے دور ہوئی تھی۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال کا اضافہ کر لیا۔ جوں جوں الجھے سوال بڑھ رہے تھے، اس کا اضطراب بھی دو چند ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن وہ ٹیرس میں لٹکے جھولے میں جھولتے ہوئے بے دھیانی میں گیت گنگنا رہی تھی۔

    اماں میرے نانا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔ اچانک اس کے نزدیک اس کا تایا زاد بھائی آیا اور بولا۔

    ’میری مما کہتی ہیں کہ جس دن میری تمہاری شادی ہو گی، تم اپنی ماں اور نانا کو ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ گی۔‘ یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دادی سے جا لپٹتی۔ وہ بولیں۔

    ’اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بچپن ہی میں طے ہو گیا تھا۔ تیری اماں کو اس رشتے پر بہت اعتراض تھا، مگر اب تیری اماں تو یہاں نہیں ہے۔ اب فیصلہ تو ہم کریں گے۔‘

    ’مگر بچپن میں رشتہ طے کرنا تو بہت ظلم ہے۔‘ اس نے تجربے کی بھٹی میں پکا اینٹ سا جواب دے مارا۔

    ’چپ کر۔‘ دادی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’بالکل اپنی ماں کی طرح سوچتی ہے۔‘

    وہ ایک جھٹکے سے دادی سے دور ہوتے ہوئے بولی۔ ’اس میں غلط کیا ہے؟ بچپن میں جوڑے ہوئے رشتوں کا خراب نتیجہ پہلے سے آپ اس گھر میں بھگت تو رہی ہیں۔‘

    اس کے واضح اشارے کو محسوس کرتے ہی دادی کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔ انہوں نے غصے میں چیختے ہوئے کہا۔

    ’بہت زبان چل گئی ہے تیری۔ کاٹ کر پھینک دوں گی۔‘

    وہ اپنے بڑے بیٹے، جسے انہوں نے اپنے تصور میں بہت اونچے سنگھاسن پر بٹھا رکھا تھا، کے بارے میں سچ سننے کو تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے لرزتی جھریوں کے ساتھ غراتے ہوئے کہا۔

    ’تو اس گھر کا کھاتی ہے اور اسی کے بارے میں ایسے گھناؤنے انداز سے سوچتی ہے۔‘ وہ ایک لمحے کو رکیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔’ ایک بات کان کھول کر سن لے، اپنے نانا اور اماں کے انداز میں سوچنا بند کر، ورنہ ان چھوٹے لوگوں کی طرح ہی ہو جائے گی۔‘

    اس نے حیرت سے دادی کو دیکھا۔ نانا کے بارے میں یہ لفظ اس نے پہلے بھی دادا دادی سے سنا تھا۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال درج کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس اثنا میں اس کی چھوٹی تائی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں۔

    ’کل اس کے لیے تعویذ بنوا کر لاؤں گی، تاکہ اس کا دماغ درست رہے۔‘

    ’میں کوئی تعویذ واویذ نہیں پہنوں گی۔‘ اس نے فوراً کہا۔

    ’چپ رہ! یہ جو تیرے اندر چار کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے والا نانا بولنے لگا ہے، اسے چپ کرنا بہت ضروری ہے۔ کمبخت نہ جانے کیسی سخت مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اتنے تعویذ جادو گنڈے کیے، کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ سور کا بچہ۔۔۔ نہ اندھا ہوا اور نہ مر کے دیا۔‘

    دادی نے آخری جملہ بہت دھیرے سے کہا تھا، مگر پھر بھی اس نے سن لیا۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ اکثر تائی امی کو کھانوں پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے، دوسروں کو پڑھی ہوئی شکر والی چائے پلاتے، دادی کے پیروں کے درد اور دادا کے فشار خون کو معتدل کرنے والے تعویذ باندھتے ہوے دیکھا کرتی تھی، مگر وہ حیران تھی کہ برسوں سے نہ دادی کے پیروں کا درد دور ہوا اور نہ دادا کا بلڈ پریشر اعتدال پر آیا۔ البتہ دن بہ دن گھر پر چھوٹی تائی امی کا قبضہ مضبوط ہوتے ہوئے وہ ضرور دیکھ رہی تھی۔

    گھر میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے تجسّس کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ اکثر اس کا دھیان دادا دادی کے کمرے میں موجود الماری کی درازوں کی طرف چلا جاتا، جنہیں کھولنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ یقیناً وہاں کچھ ایسا ہے جو میری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اکثر سوچتی۔ کچھ دنوں سے وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے دادی کے کمرے کی طرف زیادہ جانے لگی تھی، مگر وہاں اکثر دادا ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے یا پھر قوی الجثہ ریسلرز کے طے شدہ اور ڈیزائن کردہ اسکرپٹ والے مقابلے دیکھتے ہوئے پاتی۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان میں ماورائیت سے دلچسپی اور سپر ہیومن نیچر سے لگاؤ کمزور ارادوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دادا منصوبے تو بڑے بڑے بناتے ہیں اور اکثر دوسروں کو سناتے بھی بہت ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہوا آج کے کاموں کو کل پر ٹالنے والا ریٹائر سرکاری افسر کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور تصور میں ایورسٹ کی چوٹی سر کرتا رہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے دادا اس سے آنکھیں ملاتے ہوے جھجھکتے ہیں۔ ایک دن اس نے دادی کی غیر موجودگی میں ڈرتے ڈرتے دادا سے سوال کر ڈالا۔

    ’دادا! ایک بات پوچھوں؟‘ ’ہوں۔۔۔انہوں نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

    ’اس الماری میں کیا ہے؟ اس نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’دادی سے پوچھو۔‘ وہ بولے۔

    ’وہ نہیں بتاتیں۔۔۔‘ اس نے مایوس لہجے میں جواب دیا۔

    ’انہی سے پوچھو۔‘ دادا نے پھر دہرایا۔ ’ویسے تم اس قدر کھوج میں کیوں رہتی ہو؟‘

    ’اگر آپ مجھے ڈانٹیں نہیں تو میں ایک بات کہوں؟‘ اس نے سہمے ہوے لہجے میں کہا۔

    ’کہو‘۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ٹی وی کا ریموٹ بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’دادا مجھے اپنے حوالے سے گھر کی فضا میں جھوٹ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔

    ’تم ابھی بہت چھوٹی ہو‘۔ داد نے اپنے مخصوص انداز میں گردن ہلائی اور ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے مزید کہا۔ ’تمہیں معلوم نہیں کہ یہ گھر کتنی محنت سے بنا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بات لڑکیوں کو بتائی جائے۔‘

    وہ مایوس ہو گئی۔ دبیز کارپٹ میں پیر کا انگوٹھا رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پلٹ کر جانے لگی۔ یکایک دادا پیچھے سے بولے۔ ان کے لہجے میں حقارت نمایاں تھی۔

    ’سنو۔۔۔اس الماری میں تمہاری ماں کے ہاتھ کا لکھا ہوا خلع نامہ ہے اور اس سے بڑھ کر تمہارے نانا کا وہ خط ہے جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔‘ وہ چند ساعتوں کے لیے خاموش ہوئے اور پھر بولے۔ ’ہم اس سے بڑے تھے، اسے ہمارا احترام کرنا چاہیے تھا۔‘

    ’جہاں تک مجھے معلوم ہے انہوں نے آپ اور دادی کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ دادا یہ ضروری تو نہیں کہ جو آپ کی عزت کرتے ہیں وہ آپ کی نالائق اولاد کو بھی سر پر بٹھائیں۔‘ اس نے دادا کی طرف دیکھتے ہوئے ایک سچ اگل دیا۔ دادا کے بوڑھے چہرے پر نخوت بھری دبیز جھریاں لرزنے لگیں۔ وہ بولے۔

    ’وہ میرا بیٹا ہے۔ آنے والے کل میں وہ اس خاندان کا سربراہ بنے گا۔ کوئی اس سے آگے نکلے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔

    ’دادا آپ کے اس غرور اور گھمنڈ نے مجھے تنہا کر دیا۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ کپکپاتے ہونٹوں پر فریاد لیے پلٹ کر جانے لگی۔ اس کی پشت پر پتھر جیسے لفظ ٹکرائے۔

    ’خلع نامے اور خط میں کیا لکھا ہوا، اس کے مندرجات پر جانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس حوالے سے کوئی بات نہ کرنا۔‘

    وہ گردن جھکائے دروازے کی طرف بڑھی، مگر جوں ہی ادھ کھلے دروازے کی دہلیز پار کرنے کی کوشش کی تو کاٹن کا کُرتا ہینڈل میں اٹک کر چِرتا چلا گیا۔ اس نے بے بسی سے پھٹے ہوئے کُرتے کو دیکھا۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو چھلک پڑے کہ اس گھر کی دہلیز پار کرنا کتنا مشکل ہے۔

    (محمد امین الدّین کا ایک افسانہ)ٰ

  • بھیڑیے کی آنکھ

    بھیڑیے کی آنکھ

    یہ ایک بھوکے بھیڑیے کی کہانی ہے جو شکار کی تلاش میں گھومتے گھومتے ایک ایسے غار کے دہانے پر آپہنچا جس کے اندر سے تازہ گوشت کی بُو آرہی تھی۔

    اسے سخت بھوک لگی تھی اور تازہ گوشت کی بُو بھیڑیے کو بے حال کیے دے رہی تھی۔ وہ غار کے اندر چلا گیا۔

    بھیڑیا اندر داخل ہوا تو وہاں اس کی ملاقات پرانے دوست چیتے سے ہوگئی جو ایک بکری اڑا رہا تھا۔ بھیڑیے نے اسے دیکھا تو حیرانی سے بولا: ارے تم! کہاں غائب تھے اتنے عرصے سے؟ بڑے مزے آرہے ہیں اکیلے ہی پوری بکری ہڑپ کرو گے کیا۔

    چیتا بولا، ہاں بھائی! شکار کے لئے محنت کی اور اب اس محنت کا پھل کھا رہا ہوں، میرا پیٹ بھر چکا ہے، جو بچا ہے وہ تم کھا سکتے ہو۔ اس دعوت کو بھیڑیے نے غنیمت جانا اور جانور کا بچا کھچا گوشت نوچنے لگا۔ چیتے نے اسے غور سے دیکھا اور بولا، سب خیریت تو ہے؟ بڑے کمزور دکھائی دے رہے ہو حالانکہ پہلے تو اچھے بھلے صحت مند تھے۔

    بھیڑیا اس کی بات سن کر کہنے لگا، بس کیا بتاؤں! تم تو آسانی سے شکار کر کے کھا لیتے ہو مگر مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے۔ قریب کے گاؤں سے روزانہ جنگل میں بکریوں کا ایک ریوڑ گھاس چَرنے آتا تو ہے مگر ریوڑ کے ساتھ محافظ کتّے ہوتے ہیں اس لئے میں ان کا شکار نہیں کر پاتا۔

    چیتے بھائی! تم مجھے کوئی آئیڈیا دو کہ میں کس طرح ان بکریوں کا شکار کروں اور واپس پہلے جیسی صحت بنا سکوں؟

    چیتے نے اپنے دوست کی پریشانی سنی تو فوراً دماغ لڑایا اور کہا، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے، تم اس بکری کی کھال تم لے لو اور کل صبح اسے پہن کر بیٹھ جانا پھر جیسے ہی ریوڑ آئے تم بکری کا بھیس بدل کر اس میں چپکے سے شامل ہو جانا اور آگے کیا کرنا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو۔

    سمجھ گیا چیتے بھائی! کیا آئیڈیا دیا ہے آپ نے واہ! چیتے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیڑیے نے وہاں سے کھال سمیٹی اور رخصت ہوگیا۔

    پھر روزانہ کی طرح جب اگلے دن بکریوں کا ریوڑ آیا تو بھیڑیا وہ کھال پہن کر چپکے سے بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہوگیا اور ان کے باڑے میں پہنچ گیا۔ اس نے یہ راستہ دیکھ لیا تھا اور سب سے آنکھ بچا کر قریب ہی رہنے لگا۔ اس کے ساتھ روزانہ رات کو ایک بکری کو اپنی خوراک بنانا بھی شروع کر دیا۔ بھیڑیا بڑا خوش تھا کیوں کہ وہ بغیر محنت کے کئی روز سے ایک بکری کو اپنی خوراک بنا رہا تھا، کچھ دن گزرے تو مالک کو بکریوں کے کم ہونے پر تشویش ہوئی مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سیکیورٹی ہونے کے باوجود بکریاں کیسے کم ہورہی ہیں؟

    مالک نے ایک چالاک لومڑی کو اس کا کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی۔

    چالاک لومڑی ایک رات بکریوں کے باڑے میں گئی۔ اس وقت سب بکریاں آرام کررہی تھیں۔ وہ دور بیٹھ کر ایک ایک بکری کو بغور دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی نظر ایک ایسی بکری پر پڑی جو ایک آنکھ سے سو رہی تھی اس طرح کہ ایک آنکھ کھولے دوسری بند کر لے اور دوسری کھولے تو پہلی آنکھ بند کر لے۔ اسے یہ بہت عجیب لگا۔ وہاں سے نکل کر لومڑی نے ساری بات مالک کو بتا دی۔ مالک جانوروں کی عادات سے خوب واقف تھا، اس نے جان لیا کہ اس طرح تو بھیڑیا سوتا ہے۔ اس نے اگلی رات اس دھوکے باز بھیڑیے کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے انجام تک پہنچا دیا۔

    سچ کہتے ہیں دھوکے بازی اور فریب سے چند روز کا فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے، مگر دائمی اور مستقل کام یابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ عارضی فائدے کے لیے ایسی کوئی کوشش نہ کریں جس کے بعد پچھتانا پڑے۔

    (جانوروں کی حکایات سے انتخاب)

  • کام یاب یتیم خانہ

    کام یاب یتیم خانہ

    یتیم خانے کے انچارج نے مجھے بتایا، ’’ان سب بچّوں کے ماں باپ مَر چکے ہیں۔‘‘

    ’’افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں پالیں پوسیں گے۔ انہیں کام سکھائیں گے، انہیں با روزگار بنائیں گے، ان کی شادیاں کریں گے۔ ان کے بچّے پیدا ہوں گے۔‘‘

    ’’اور پھر ان میں سے کئیوں کے بچّے یتیم ہوجائیں گے۔ افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ ہم انہیں پھر یتیم خانے میں داخل کر دیں گے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ ہمارا یتیم خانہ گزشتہ ایک سو سال سے قائم ہے اور بڑی کام یابی سے چل رہا ہے۔‘‘

    (اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار فکر تونسوی کے قلم سے)