Tag: اردو کہانیاں

  • بزدل غلام

    بزدل غلام

    ایک بادشاہ اپنے چند درباریوں کے ساتھ دریا کنارے سیر کو گیا۔ دریا کے دونوں کناروں پر دور تک درخت اور سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کررہے ہیں۔ فضا میں پرندوں کی پرواز اور ان کی چہکار سے بادشاہ کا دل شاد ہو گیا۔

    کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرنے کے بعد بادشاہ نے کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ایک بڑی کشتی حاضر کردی گئی۔ بادشاہ اور درباریوں کے ساتھ چند غلام بھی کشتی میں‌ سوار ہوگئے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا۔ دریا کی روانی اور بہتے پانی کے شور میں‌ لہروں پر کشتی کے ڈولنے سے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اسے ڈر ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی اور وہ تیرنا بھی نہیں‌ جانتا، تب کیا ہو گا۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا خوف کے مارے وہ غلام رونے لگا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزرا۔ پہلے تو سب نے اسے سمجھایا، لیکن اس کا رونا دھونا بند نہ ہوا تب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اس پر بھی غلام چپ ہو کر نہ دیا۔

    کشتی میں ایک جہاں دیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے اجازت دی تو اس دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جب وہ غلام تین چار غوطے کھا چکا تو اسی دانا شخص نے دوسرے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لو۔ چنانچہ دو غلام جو اچھے تیراک بھی تھے، فوراً دریا میں کودے اور سَر کے بال پکڑ کر خوف زدہ غلام کو کشتی تک لے آئے اور اس میں‌ گھسیٹ لیا۔ سب نے دیکھا کہ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا، اب بالکل خاموش اور پُر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا ہے۔

    بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

    دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش ہو گیا ہے۔

    جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف، قدر آرام کی وہ کیا جانے
    نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ، جَو کی روٹی کو کب غذا مانے

    سبق: یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے، جس میں انھوں نے انسان کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس راحت اور آرام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں‌ لگا سکتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوّتِ برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ آسودہ، پُرمسرت اور کام یاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جس نے کسی بھی قسم کا رنج اور مشکل دیکھی ہو اور کسی بھی طرح کا راحت بھرا وقت گزارا ہو۔

  • سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    صدیوں پہلے کی بات ہے ملک اطالیہ میں ایک دریا کے کنارے بسے گاﺅں میں ڈیوڈ اور سیموئیل نامی دو بھائی رہتے تھے جو طاقت ور اور خوبرو تھے، لیکن غریب تھے۔

    اکثر ان کے پاس سوائے اس مچھلی کے، کھانے کو کچھ بھی نہ ہوتا جسے وہ دریا سے پکڑ کر لاتے۔ ایک روز وہ بغیر کچھ کھائے طلوعِ آفتاب کے وقت سے ہی دریا میں‌ ڈور ڈالے بیٹھے تھے۔ دن گزرتا رہا اور یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا اور پھر دریا میں غروب ہونے کو آیا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اپنی مچھلی پکڑنے کی ڈور سمیٹیں، گھر جائیں اور سو جائیں کہ بڑے بھائی نے محسوس کیا، اس کی ڈور ہل رہی ہے۔ اور جب انہوں نے اسے باہر کھینچا تو اس کے کانٹے پر ایک ننھی سی سنہری مچھلی اٹکی ہوئی تھی۔

    ”کیا بدبختی ہے۔ اتنی ننھی مُنی سی مچھلی!“ ڈیوڈ چلّایا، ”خیر کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے، میں اسے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ابالوں گا اور ہم رات کے کھانے میں اسے کھائیں گے۔“

    ”اوہ، نہیں مجھے مت مارو!“ مچھلی نے دہائی دی۔ ”میں تمہارے لیے خوش قسمت ثابت ہو سکتی ہوں، واقعی میں ایسا کر سکتی ہوں۔“

    ”تم احمق ہو!“ وہ چلّایا، ”میں نے تمہیں پکڑ لیا ہے، اور میں تمہیں کھاﺅں گا۔“
    لیکن اس کے بھائی سیموئیل کو مچھلی پر ترس آ گیا اور اس کی حمایت میں بولا؛
    ”اِس ننھی سی جان کو زندہ رہنے دو۔ یہ تو ایک لقمے کے برابر بھی نہیں۔ اور ہمیں کیا پتہ کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہو اور ہم اس کی لائی خوش قسمتی کو ٹھکرا رہے ہوں! اسے دریا میں چھوڑ دو۔ یہی مناسب ہے۔“

    مچھلی بولی، ”اگر تم مجھے زندہ رہنے دو گے تو کل صبح تمہیں دریا کے کنارے دو شان دار گھوڑے، جن پر عمدہ اور عروسی کاٹھیاں پڑی ہوں گی ملیں گے اور تم دو سورماﺅں کی طرح مہم جوئی کے لیے دنیا بھر میں جا سکو گے۔“

    ”پیارے بھائی، یہ سب بکواس ہے۔“ ڈیوڈ چھوٹے سے مخاطب ہوا۔ ” ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ مچھلی سچ بول رہی ہے اور اس کی بات پوری ہوگی۔“

    سیموئیل مچھلی کی حمایت میں پھر بولا؛ ”بھائی! اسے زندہ رہنے دو۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا تو ہم اسے کبھی نہ کبھی دوبارہ بھی پکڑ سکتے ہیں۔ اس کی کہی بات پر ایک بار اعتبار کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔“

    ان کے درمیان دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر کار ڈیوڈ مان گیا اور اس نے مچھلی کو دریا میں واپس ڈال دیا۔ اس رات وہ دونوں کچھ کھائے بغیر ہی سوئے اور رات بھر خوابوں میں انہیں یہی خیال آتا رہا کہ اگلا دن ان کے لیے کیا انہونی لے کر آرہا ہے۔

    وہ سورج کی پہلی کرن پھوٹتے ہی جاگ گئے۔ اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ دریا کے کنارے پر موجود تھے۔ وہاں، جیسا کہ ننھی سنہری مچھلی نے کہا تھا، دو زبردست، توانا سفید گھوڑے کھڑے تھے جن پر سجیلی کاٹھیاں پڑی تھیں اور ان پر دو زرہ بکتر اور ان کے نیچے پہننے والے لباس بھی پڑے تھے۔ پاس ہی دو تلواریں، زادِ راہ کے طور پر کچھ چیزیں اور سونے کے سکّوں سے بھرے دو بٹوے بھی تھے۔ یہ سب واقعی ان کے لیے انہونی سے کم نہیں‌ تھا۔

    ”دیکھا بھائی۔“ سیموئیل نے کہا، ”کیا آپ اب شکر گزار نہیں ہیں کہ آپ نے مچھلی کو نہیں کھایا؟ وہ واقعی ہمارے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیا بننے والے ہیں۔ اب ہمیں اپنی اپنی مہم پر نکلنا چاہیے۔ اگر آپ ایک راستہ اختیار کریں گے تو میں دوسرے پر جاﺅں گا۔“

    ”ٹھیک ہے۔“ ڈیوڈ نے جواب دیا۔ ”لیکن ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ہم دونوں زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔“

    ”بھائی، کیا آپ سامنے انجیر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟“ اس نے کہا، ”ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ ہم اس درخت کے پاس آئیں اور اس کے تنے پر تلوار سے ایک گھاﺅ لگائیں۔ اگر اس سے دودھ رِسا تو ہم جان لیں گے کہ ہم ٹھیک ٹھاک ہیں اور خوش حال ہیں لیکن اگر اس میں سے خون نکلا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم میں سے ایک مر چکا یا اس کی جان سخت خطرے میں ہے۔“

    اس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی زرہ بکتر پہنی، سونے کے سکّوں سے بھری چرمی تھیلیاں اور تلواریں کمر پر باندھیں، زادِ راہ لادا، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر گھوڑوں پر بیٹھ کر گاﺅں کے چوراہے تک تو ساتھ ساتھ گئے لیکن پھر ڈیوڈ دائیں طرف مڑ گیا اور سیموئیل نے بائیں کو منہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔

    ڈیوڈ گھوڑا دوڑاتا ایک اجنبی مملکت کی سرحد پر جا پہنچا۔ اس نے سرحد پار کی اور خود کو ایک بڑے دریا کے کنارے پایا۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پر ایک خوبصورت لڑکی ایک چٹان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔ ڈیوڈ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے ساری زمین ایسے جلی ہوئی دکھائی دی جیسے کسی نے اس پر آگ برسائی ہو؛ جلی ہوئی گھاس، ٹنڈ منڈ سوختہ درخت، یہاں تک کہ آگ کی حدّت اور تپش سے دریا کے کنارے پر موجود ریت بھی پگھلی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔

    اس نے لڑکی سے اونچی آواز میں پوچھا؛ ”تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے باندھ کر رکھا ہوا ہے اور تم رو کیوں رہی ہو۔“

    لڑکی نے روتے ہوئے اسے بتایا؛ ”میں اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ اس دریا میں ایک سات سَروں والا اژدہا رہتا ہے جو اپنے ہر نتھنے سے آگ برساتا ہے۔ اسے اس سے باز رکھنے کے لیے میرے والد کو ہر روز کھانے کے لیے ایک جوان دوشیزہ کی بلی دینی پڑتی ہے۔ اس نے میرے باپ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اس ساری مملکت کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے اور اب اس ملک میں کوئی جوان لڑکی نہیں بچی، اس لیے میرے والد نے بے بس ہو کر مجھے ہی اس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ جیسے ہی اس اژدہے کو بھوک لگی، وہ آئے گا اور مجھے کھا جائے گا۔“

    ”میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمہیں نہ کھا پائے۔“ ڈیوڈ نے اسے دلاسا دیا۔

    ”نہیں، نہیں، یہاں مت رکو، ورنہ وہ تمہیں بھی ہڑپ کر جائے گا۔“ ، شہزادی تڑپ کر بولی۔

    ”نہیں لڑکی، میں یہیں رہوں گا۔“ ڈیوڈ بولا، ”اور تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا۔“

    ”یہ ممکن نہیں ہے۔ اسے آج تک کوئی نہیں مار سکا حالانکہ میرے والد نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ جو کوئی بھی اسے مارے گا، اس سے میری شادی کر دی جائے گی۔ تم اس خوف ناک بلا کو نہیں جانتے۔ یہ پہلے بھی بہت سے خوبرو جوانوں کو جو میرے ساتھ شادی کے لالچ میں اسے مارنے آئے تھے ہلاک کر چکی ہے۔“

    ”لیکن میں تو تم سے شادی کے لالچ میں یہاں نہیں آیا۔“

    ”ٹھیک ہے لیکن پھر بھی تم یہاں سے چلے جاﺅ تاکہ تم پر کوئی مصیبت نہ آئے۔“

    ”لیکن میں تمہیں یوں مصیبت میں گھرا چھوڑ کر بھی تو نہیں جا سکتا۔ تم مجھے بس اتنا بتاﺅ کہ سات سَروں والا یہ اژدہا کس طرف سے آئے گا؟“

    ”وہ دریا کی پاتال سے اوپر ابھرے گا۔ ویسے اگر تم نے مجھے بچانے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو میرا مشورہ مانو، ایک طرف ہٹ کر اس بڑے پتھر کی اوٹ میں چلے جاﺅ جو تمہارے دائیں ہاتھ ہے۔ جب اژدہا اوپر ابھرے گا تو میں اس سے کہوں گی، ’اے اژدہے تم آج دو انسانوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیروں میں بندھی ہوں۔‘ یہ سن کر وہ یقیناً تمہاری طرف لپکے گا۔“

    ڈیوڈ پتھر کی اوٹ میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دریا میں تلاطم کی آواز سنی۔ اس نے دیکھا کہ ایک بڑی سات سَروں والی بلا اس طرف بڑھی جہاں شہزادی چٹان کے ساتھ بندھی تھی۔ وہ بھوکی تھی اور جلد ہی کچھ کھانا چاہتی تھی۔ شہزادی چلّا کر بولی ”اے اژدہے تم آج دو لوگوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو، کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیر میں جکڑی ہوئی ہوں۔“

    یہ سن کر اژدہا منہ کھولے ڈیوڈ کی طرف بڑھا تاکہ ایک ہی بار اسے ہڑپ کر لے۔ ڈیوڈ نے اچھلتے ہوئے میان سے تلوار نکالی اور تب تک اژدہے سے لڑتا رہا جب تک اس نے اس کے ساتوں سر قلم نہ کر لیے۔ اژدہا جب مر گیا تو اس نے شہزادی کو آزاد کیا۔ شہزادی نے اسے کہا؛

    ”اب جب کہ تم نے بلا کو مار دیا اور مجھے بچا بھی لیا ہے تو تم میرے والد کے اعلان کے مطابق میرے خاوند بنو گے۔ چلو محل چلتے ہیں۔“

    ”لیکن میں تو ابھی تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے ابھی دنیا میں اور بھی گھومنا پھرنا ہے۔ لیکن اگر تم میرا سات سال اور سات مہینے تک انتظار کر سکو تو ہماری شادی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر تب تک میں واپس نہ آﺅں تو تم کسی کے ساتھ بھی شادی کر سکتی ہو۔ میں بلا کی ساتوں زبانیں کاٹ کر ساتھ رکھ لیتا ہوں کہ بھول جانے کی صورت میں، تم انہیں دیکھ کر پہچان لو کہ یہ میں ہی تھا جس نے اژدہے کو ہلاک کیا تھا۔“

    یہ کہہ کر ڈیوڈ نے عفریت کی ساتوں زبانیں کاٹیں، انہیں شہزادی کے دیے دو شالے میں لپیٹا، کاٹھی کے ساتھ لٹکایا، گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔

    اسے گئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ وہاں بادشاہ کے دیوانِ خاص کا بیٹا پہنچا، شہزادی ابھی اپنے حواس بحال کر رہی تھی۔ اُسے بادشاہ نے یہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس کی بیٹی پر کیا بیتی تھی۔ اس نے جب شہزادی کو اپنے سامنے محفوظ اور آزاد پایا جس کے قدموں میں اژدہا مرا پڑا تھا تو اس کے دل کو بدنیتی نے گھیرا اور اس نے شہزادی سے کہا؛ ”تم اپنے والد سے جا کر کہوگی کہ یہ میں ہی ہوں جس نے اژدہے کو مارا اور تمہیں بچایا ہے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور یہیں اژدہے کے ساتھ زمین میں گاڑ دوں گا۔ اور کوئی نہیں جان پائے گا کہ تمہیں اژدہے نے کھایا یا میں نے تمہاری جان لی۔“

    بیچاری شہزادی کیا کرتی؟ اب تو ڈیوڈ سا سورما بھی جا چکا تھا جو اس کی مدد کرتا۔ اسے دیوانِ خاص کے بیٹے کی بات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے اس کی بات مان لی۔ دیوان خاص کے بیٹے نے بلا کے ساتوں سر کاٹے اور انہیں لیے شہزادی کے ہمراہ بادشاہ کے پاس چلا گیا۔

    بادشاہ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ملک بھر میں جشن کا سماں بندھا۔ ایک شاہی تقریب میں دیوان خاص کے بیٹے نے سب کو بتایا کہ اس نے کس طرح دریائی بلا کو مارا اور شہزادی کو بچا لیا۔ اس پر بادشاہ نے اعلان کیا کہ وہ اسے اپنا داماد بنا رہا ہے۔

    شہزادی جو ڈیوڈ کی بہادری کی قائل ہو چکی تھی اور اپنا دل بھی اس کو دے بیٹھی تھی اس نے اپنے والد کی منت سماجت کی کہ وہ اس شادی کو سات سال اور سات ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔ پہلے تو بادشاہ نہ مانا۔ دیوانِ خاص اور اس کے بیٹے نے بھی بادشاہ سے احتجاج کیا۔ شہزادی بہرحال اپنے موقف پر ڈٹی رہی جس پر بادشاہ نے بیٹی کی بات مان لی۔

    اُدھر ڈیوڈ دنیا بھر کی سیر کرتا کئی اور معرکے سر کرتا رہا اور پھر ایک روز شہزادی کے دیس لوٹا۔ سات سال اور سات مہینے کا عرصہ ختم ہونے میں ایک دن ہی بچا تھا۔ محل میں شادی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے گیا اور بولا: ”بادشاہ سلامت! مجھے آپ کی بیٹی کا ہاتھ چاہیے کیونکہ یہ میں ہی ہوں جس نے سات سروں والی دریائی بلا کو مارا تھا۔“

    بادشاہ اس کی بات سن کر غصے میں آیا اور بولا؛ ”تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو؟“

    ڈیوڈ نے شہزادی کا دو شالہ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا جس میں سات سکڑی ہوئی زبانیں پڑی تھیں۔ بادشاہ نے بیٹی کی طرف دیکھا۔

    ”میرے پیارے بابا، یہ جوان سچ کہہ رہا ہے۔ اسی نے سات سروں والے اژدہے کو مارا تھا اور اس کی زبانیں کاٹی تھیں۔ کڑھائی والا دو شالہ میرا ہی ہے جو میں نے اسے زبانیں لپیٹنے کے لیے دیا تھا۔ یہی میرا خاوند بننے کے لائق ہے۔ میری یہ بھی التجا ہے کہ آپ دیوانِ خاص کے بیٹے کو بھی معاف کر دیں کہ اس پر شیطان غالب آ گیا تھا اور اس نے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے اسی لیے آپ سے شادی ملتوی کروائی تھی کہ اصل سورما نے اسی مدت میں‌ لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔“

    ”اس مکاری کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ دیوانِ خاص کے بیٹے کا سر فوراً قلم کر دیا جائے۔ میں دیوانِ خاص کو اس کے عہدے سے بھی ہٹاتا ہوں اسے اور اس کے پورے خاندان کو بھی تا حیات پابند ِسلاسل رہنا ہو گا۔“ بادشاہ غضب ناک ہو گیا اور اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ڈیوڈ کی شادی شہزادی سے ہو گئی۔ یوں ڈیوڈ اس کے ساتھ بادشاہ کے محل کے پاس ہی ایک دوسرے محل میں ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    ایک شام ڈیوڈ کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا کہ اسے شہر سے دور پہاڑ پر ایک تیز روشنی چمکتی دکھائی دی۔

    ”یہ کیسی روشنی ہے؟“ اس نے بیوی سے پوچھا۔ اس کی بیوی نے ایک آہ بھری اور بولی،”اسے مت دیکھیں۔“ ”یہ اس مکان سے نکل رہی ہے جہاں ایک بہت ہی چالاک جادوگرنی رہتی ہے جسے آج تک کوئی بھی مار نہیں سکا۔“

    بہتر ہوتا کہ شہزادی اسے یہ نہ بتاتی کیونکہ اس کے الفاظ نے ڈیوڈ میں پھر سے یہ خواہش جگا دی تھی کہ وہ اپنی بہادری کو اس چالاک جادوگرنی کے خلاف آزمائے۔ اس رات ڈیوڈ کی خواہش اس کے دل و دماغ میں پلتی رہی اور جب صبح ہوئی تو وہ اپنی بیوی کے آنسوﺅں کی پروا نہ کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر اس پہاڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔

    فاصلہ اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ اندھیرا ہونے تک پہاڑ کے دامن تک ہی پہنچ پایا۔ قلعہ نما مکان سے نکلنے والی روشنی نے آگے کا راستہ ایسے روشن کر رکھا تھا جیسے آسمان پر چمکتا چاند، رات میں راستے روشن کر دیتا ہے۔ وہ جب قلعے کے دروازے پر پہنچا تو اسے اس کی ہر کھڑکی سے روشنی پھوٹتی نظر آئی جس نے قلعے کے گرد ا گرد ایک شیطانی حصار بنا رکھا تھا۔ وہ اپنی تلوار کی مدد سے اس حصار کو چیرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ایک وسیع کمرے میں ایک سیاہ آبنوسی کرسی پر ایک مکروہ بُڑھیا بیٹھی تھی۔ اس کی کرسی سیاہ تو تھی لیکن یہ نیلے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔

    ”آگے مت بڑھنا ورنہ میں اپنے سَر کے بالوں میں سے ایک بال توڑوں گی اور تم نیلی آگ کے ہاتھوں پتھر ہو جاﺅ گے۔“ وہ بولی۔

    ”کیا بکواس ہے!“ ڈیوڈ غصّے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ” خاموش رہ بڑھیا، ایک بال میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“اس نے کہا۔

    یہ سن کر بڑھیا نے اپنا ایک بال توڑا اور اسے ہوا میں ڈیوڈ کی طرف اچھالا۔ یہ نیلی آگ کے ایک تیر میں بدلا اور ڈیوڈ کی طرف لپکا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنی تلوار سے کاٹنا چاہا لیکن اس کی تلوار چُوک گئی اور تیر اس کے کندھے سے ٹکرایا۔ ساتھ ہی اس کا کندھا ٹھنڈی آگ سے سرد ہوا اور پھر اس کے باقی کے اعضا اور جسم بھی وہیں منجمد ہو گیا۔

    یہی لمحہ تھا جب اس کا بھائی سیموئیل، جسے ڈیوڈ برسوں پہلے ایک موڑ پر چھوڑ آیا تھا، اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اس سوچ میں غلطاں تھا کہ جب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے، ڈیوڈ کیا کرتا رہا ہو گا اور کیا وہ خیریت سے ہے؟

    ”مجھے انجیر کے درخت کے پاس جانا چاہیے۔“ اس نے خود سے کہا، ”اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں۔“
    وہ اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور صحراﺅں، میدانوں اور جنگلوں سے گزرتا انجیر کے درخت کے پاس پہنچا۔ اس نے اس کے تنے میں تلوار سے ایک گھاﺅ لگایا۔ گھاﺅ کا لگنا تھا کہ درخت سے درد بھرا ایک شور اٹھا اور چیرے سے خون ابل پڑا۔

    ”اوہ، میرا بھائی یا تو مر چکا ہے یا پھر اس کی جان خطرے میں ہے۔“ سیموئل غمگین ہوا اور چلّایا۔” اور کیا میں اس کی جان بر وقت بچا لوں گا؟“ اس نے چھلانگ لگائی، گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ خطِ استوا پار کرکے دنیا کے اس حصے میں داخل ہوا جہاں ایک ملک میں ڈیوڈ رہتا تھا۔ مزید کئی دن کے سفر کے بعد بالآخر وہ اس ملک کے دارلخلافہ میں پہنچ ہی گیا۔ وہ اس عالی شان گھر کے پاس سے گزرا جس میں ڈیوڈ اور اس کی بیوی رہتی تھی۔ وہ بالکونی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ اس کی نظر سیموئیل پر پڑی۔ اسے لگا جیسے وہ ڈیوڈ ہو۔ اسے ایسا لگنا ہی تھا کیونکہ ڈیوڈ اور سیموئیل میں اتنی مشابہت تھی کہ اگر وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے تو یہ جاننا آسان نہ ہوتا کہ ان میں سے ڈیوڈ کون ہے اور سیموئیل کون۔ شہزادی کا دل خوشی سے دھڑکنے لگا۔ وہ نیچے اتری اور بولی: ” میری جان، تم بالآخر لوٹ ہی آئے۔ میں مدتوں سے تمہاری یاد میں آنسو بہا رہی ہوں!“

    جب سیموئیل نے یہ سنا تو اس نے خود سے کہا، ” تو یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا بھائی رہتا تھا اور یہ عورت میری بھابی ہے۔“ لیکن وہ خاموش رہا اور شہزادی کو یہ ہی سمجھنے دیا کہ وہ اس کا خاوند تھا۔ شہزادی اسے بوڑھے بادشاہ کے پاس لے گئی جس نے اس کی واپسی کے جشن اہتمام کیا۔

    شہزادی جب بھی سیموئیل کے پاس جاتی اور اسے بانہوں میں لے کر اس سے پیار کرنا چاہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اسے خود سے الگ کر دیتا۔ وہ اس کے اس رویے پر پریشان ہوتی اور اسے سمجھ نہ آتی کہ سیموئیل جسے وہ اپنا خاوند سمجھتی تھی، اسے قریب کیوں نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ اور پھر ایک روز جب وہ بالکونی میں کھڑا تھا تو اس نے پہاڑ پر وہی چمکتی ہوئی روشنی دیکھی جس کے پیچھے ڈیوڈ گیا تھا۔

    ”یہ روشنی کیسی ہے ؟“، اس نے شہزادی سے پوچھا۔
    ”اوہ، اسے مت دیکھو۔“ وہ چلائی ” کیا تم اس کے ہاتھوں پہلے ہی ایذا نہیں بھگت چکے؟ کیا تم اس بوڑھی چڑیل سے ایک بار اور لڑنا چاہتے ہو؟“ سیموئیل نے اپنی بھابی کے الفاظ پر غور کیا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اس کا بھائی کہاں تھا اور وہ کسی مصیبت میں گرفتار تھا۔ اگلی صبح وہ پَو پھٹنے سے پہلے ہی، جب شہزادی ابھی سو رہی تھی، اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اورپہاڑ کی طرف چل دیا۔ پہاڑ اس کے اندازے کے برعکس خاصا دور تھا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا بونا ملا جس نے سیموئیل سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔

    اس نے بونے کو اپنی کہانی بتائی اور یہ بھی کہا؛ ”مجھے کسی نہ کسی طرح اپنے بھائی کو بچانا ہے۔ وہ یقیناً اس چالاک بوڑھی جادوگرنی کی کسی چال میں پھنسا ہوا ہے۔“

    ”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔“ ، بوڑھے بونے نے کہا۔ ” اس جادوگرنی کی ساری طاقت اس کے بالوں میں ہے جیسے سیمسن کے بالوں میں تھی۔ سیمسن تو خیر نیک تھا اور لوگوں کی بھلائی کے لیے اور ظلم کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرتا تھا لیکن یہ چڑیل نہایت خبیث اور ظالم ہے اور یہ لوگوں کو ایذا پہنچانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اسے اس کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ جب تم اس تک پہنچو تو فوراً جھپٹ کر اس کے بال قابو کر لینا اور پھر انہیں کسی طور بھی مت چھوڑنا بلکہ اسے مجبور کرنا کہ وہ تمہیں، تمہارے بھائی کے پاس لے جائے اور اسے اس کی زندگی لوٹائے۔“

    ”لیکن۔۔۔!“ سیموئیل نے کچھ پوچھنا چاہا۔ ”میری بات مت کاٹو اور دھیان سے سنو۔ اس نے یقیناً تمہارے بھائی کو پتھر کر دیا ہو گا۔ وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ لیکن اس کے پاس اس کا توڑ بھی ہے۔ اس کے پاس آبِ حیات کی ایک صراحی ہے۔ یہ ہر طرح کے زخم، گھاﺅ ختم کر دیتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ حق سچ کی خاطر مردوں کو بھی زندہ کر دیتا ہے۔ اور ہاں جب تمہارا بھائی بھلا چنگا ہو جائے تو جادوگرنی کا سَر قلم کرنا نہ بھولنا تاکہ دنیا اس کی بدی سے نجات پا سکے۔“ بونے نے اپنی بات مکمل کی۔

    سیموئیل نے بونے کو اس کے کہے پر عمل کرنے کا یقین دلایا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وہ پھر سے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھا اور قلعہ نما مکان کے دروازے پر پہنچا اور نیلی روشنی کے حصار کو اپنی تلوار سے چیرتا، سیڑھیاں پھلانگتا وسیع کمرے میں داخل ہوا۔ خوف ناک بوڑھی جادوگرنی اپنی سیاہ آبنوسی کرسی پر براجمان تھی۔ اس کے چہرے پر ایک چالاک مسکراہٹ آئی اور اپنی طرف بڑھتے سموئیل سے مخاطب ہوئی۔

    ”میں تمہیں اپنے ایک بال کے ذریعے ہی قابو کر کے پتھر کر سکتی ہوں۔“ اور پھر اس نے اپنا ایک بال توڑا اور اس کی طرف اچھالا، وہ نیلی آگ کے تیر میں بدلا اور سیموئیل کی طرف بڑھا۔ وہ جھکا اور اس تیزی سے جادو گرنی کی طرف لپکا کہ تیر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اتنے میں سیموئیل نے جادوگرنی کو جا لیا اور اس کے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولا؛ ”مجھے بتاﺅ تم نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔“

    اب جب وہ جادوگرنی اپنی طاقت کھو بیٹھی تھی تو چالاکی سے مسکرائی اور بولی؛
    ”میں تمہیں تمہارے بھائی کے پاس لے چلتی ہوں لیکن پہلے تم مجھے چھوڑو تو سہی۔ تم نے مجھے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔“

    ”تمہیں یوں ہی آگے بڑھنا ہو گا۔“ سیموئیل نے اسے آگے دھکیلتے ہوئے کہا۔
    وہ سیموئیل کو لیے اس بڑے کمرے میں گئی جہاں بہت سارے پتھر کے مجسمے موجود تھے جو پہلے کبھی انسان رہے ہوں گے۔ جادوگرنی نے ایک کی طرف اشارہ کیا۔

    ” وہ رہا تمہارا بھائی۔“ سیموئیل نے مجسموں پر نگاہ دوڑائی اور بولا ”ان میں کوئی بھی میرا بھائی نہیں ہے۔“ جادوگرنی اسے اور مجسموں تک لے گئی اور اسے پھر ورغلانے کی کوشش کی۔ جادوگرنی کی یہ چالاکی اس کے کام نہ آئی اور بالآخر وہ اسے لیے وہاں پہنچی جہاں ڈیوڈ پتھر بنا فرش پر لیٹا تھا۔

    ”ہاں یہ میرا بھائی ہے۔ اب تم مجھے آبِ حیات کی صراحی دو، جس سے یہ پھر سے زندہ ہو سکے۔“ سیموئیل نے اس کے گلے پر تلوار کی نوک چبوتے ہوئے کہا۔
    جادوگرنی نے پاس پڑی ایک الماری کھولی جو بوتلوں اور صراحیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے ان میں سے ایک نکالی اور سیموئیل کو تھما دی۔ وہ اب بھی اس سے مکر کر رہی تھی اور اس نے ایسا کئی بار کیا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ سیموئیل کسی طور بھی اس کے فریب میں نہیں آ رہا تو اس نے تنگ آ کر اسے آبِ حیات والی صراحی تھما دی۔ اس نے احتیاط سے ایک ہاتھ استعمال کرتے ہوئے صراحی سے چند قطرے اپنے بھائی کے منہ پر چھڑکے اور دوسرے سے جادوگرنی کے بال مضبوطی سے تھامے رکھے۔ جیسے ہی ڈیوڈ کے چہرے پر آبِ حیات کے قطرے گرے وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ سیموئیل نے تلوار کے ایک ہی جھٹکے سے جادوگرنی کا سَر اڑا دیا۔

    ڈیوڈ اٹھا اور اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ”اوہ، میں کتنا عرصہ سویا رہا۔ میں کہاں ہوں؟“

    ”اس بوڑھی جادوگرنی نے تم پر سحر کر دیا تھا لیکن اب وہ مر چکی ہے، اب تم آزاد ہو۔ ہم اب اُن سب کو جگائیں گے جو اس جادوگرنی کے سحر میں گرفتار ہیں اور یہاں پڑے ہیں۔ پھر ہم یہاں سے چل دیں گے۔“ سیموئیل نے کہا۔

    دونوں بھائیوں نے مل کر باقی مجسموں پر آب ِ حیات چھڑکا۔ یوں وہ سارے سورما جو جادوگرنی کو مارنے آئے تھے پھر سے زندہ ہو گئے۔ وہ ڈیوڈ اور سیموئیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی راہ پر چل دیے۔ ڈیوڈ نے صراحی جس میں ابھی آبِ حیات موجود تھا، اپنی صدری میں سنبھال لی۔ انہوں نے قلعے میں موجود ہیرے جواہرات سمیٹے اور واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔

    راستے میں وہ ایک دوسرے کو اپنا حال سناتے رہے اور جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اچانک سیموئیل نے کہا؛ ”بھائی تم بھی عجیب ہو۔ اپنی پیاری سی بیوی اور شان و شوکت والی زندگی کو چھوڑ کر جادوگرنی سے لڑنے گھر سے نکل پڑے۔ اس بیچاری نے تو مجھے اپنا خاوند سمجھ لیا تھا لیکن میں نے اسے کچھ بھی نہ بتایا۔“

    اتنا سن کر ہی ڈیوڈ کو طیش آیا اور اس نے مزید کچھ سنے بِنا تلوار نکالی اور سیموئیل کے سینے میں گھونپ دی۔ سیموئیل گھوڑے سے گِرا اور اس کا جسم گرد میں لپٹ کر دور لڑھک گیا۔

    ڈیوڈ جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ کھل اٹھی اور اس کی بانہوں میں سما گئی۔ بادشاہ کو جب اس کی آمد کا پتہ چلا تو اس نے واپسی کی خوشی میں دوپہر کو دعوت کا اہتمام کیا۔ شام میں جب وہ اور اس کی بیوی اپنے کمرے میں تنہا تھے تو شہزادی نے اس سے پوچھا؛

    ”جب تم اپنی پہلی مہم سے واپس آئے تھے تو تم نے کبھی بھی مجھے اپنے نزدیک نہیں آنے دیا تھا۔ میں جب بھی تم سے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھتی تو تم کسی نہ کسی بہانے مجھ سے الگ ہو جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیا تم اب بھی مجھ سے بے اعتنائی برتو گے؟“ یہ سن کر ڈیوڈ کو دل میں شرمندگی کا احساس ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پوری بات نہ سنی تھی اور اسے تلوار مار دی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا۔ پھر اچانک اسے آبِ حیات والی صراحی کا خیال آیا۔ وہ جلدی سے اٹھا، اپنی صدری کی طرف بڑھا، اسے پہنا اور بیوی کو کچھ بتائے بغیر گھوڑے پر سوار اس جگہ جا پہنچا جہاں اس کے بھائی کا لاشا پڑا تھا۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سیدھا کیا اور تلوار کے گھاﺅ کو دیکھا، صراحی نکالی اور زخم پر آبِ حیات چھڑکا۔ ساتھ ہی اسے ایک آواز سنائی دی۔

    ” میں سیموئیل کا گھاﺅ اس لیے بھر رہا ہوں اور اس لیے اسے زندہ کر رہا ہوں کہ وہ معصوم ہے۔ اور اس سے کوئی خطا نہیں ہوئی تھی۔ تم سے خطا ہوئی۔ تم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور اس کی پوری بات سنے بغیر تم نے اسے مار ڈالا۔ اب تم اس کی سزا تب تک بھگتو گے جب تک زندہ رہو گے۔ تم اسے دوبارہ نہ دیکھ پاﺅ گے۔ تم خط استوا کے اِس پار سرد علاقے میں رہو گے جب کہ وہ اس خط کے اُس پار گرم علاقے میں اپنی باقی کی زندگی جیے گا کیونکہ اس کا دل سچائی، بھلائی اور معصومیت کی حرارت سے لبریز ہے۔“ یہ آواز صراحی میں آبِ حیات سے ابھر رہی تھی۔

    سیموئیل کا گھاﺅ بھر گیا، اس نے آنکھیں کھولیں، ڈیوڈ کو اجنبی نظروں سے دیکھا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جو پاس ہی گھاس چر رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اسے آواز دی لیکن اس نے مڑ کر نہ دیکھا، ڈیوڈ کی آواز کو کسی غیبی طاقت نے اس کے گلے میں ہی گھونٹ دیا تھا، یہ سیموئیل تک پہنچ ہی نہ پائی۔

    سیموئیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کا رخ اُس راستے کی طرف موڑ دیا جو خطِ استوا کے دوسری طرف دُنیا کے گرم خطوں تک جاتا تھا۔

    (اطالوی لوک ادب سے ماخوذ کہانی)

  • آٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    آٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "جمعے کی یہ صبح کتنی خوش گوار ہے۔” مائری نے فیونا سے کہا جو باورچی خانے میں میز کے سامنے بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ "میں نے رات کو انتہائی عجیب خواب دیکھا۔ میں ایک خوب صورت جزیرے پر تھی۔ میرے پاس گدھے تھے اور آس پاس سفید عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔”

    فیونا کو ایک دم سے پھندا سا لگا۔ "کیا ہوا؟” مائری چونک اٹھیں۔

    "کچھ نہیں… کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں۔” فیونا نے تیزی سے رومال سے منھ صاف کیا۔ دراصل اس کی ممی نے بات ہی ایسی کی تھی جس نے اسے چونکا دیا تھا۔ عین یہی خواب تو اس نے بھی دیکھا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے لیکن پھر چپ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔

    https://urdu.arynews.tv/story-urdu-translation-rafi-ullah-mian/
    "ممی ذرا جئی کا یہ کیک تو دیں۔” مائری نے پلیٹ اس کے آگے سرکا دی۔ میں نے صبح سویرے تمھارے لیے کالے بیر توڑے ہیں، بالکل تازہ ہیں، کیا تم کھانا پسند کرو گی؟”

    "ضرور ممی، کیا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "اس کا مطلب ہے کہ ہمارے باغیچے میں بیری کے درخت نے پھل دینا شروع کر دیا ہے۔”

    مائری نے مسکرا کر کالے بیر سے بھرا پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ "تم اسکول کے بعد کیا کرو گی؟ میں کام سے ذرا دیر سے آؤں گی۔”

    فیونا کچھ کہنے والی تھی کہ اسے بستر کے نیچے رکھی کتاب یاد آ گئی۔ "میں جبران اور دانی کے ساتھ کھیلنے جاؤں گی… اور ہو سکتا ہے کہ راستے میں انکل اینگس کے گھر پر بھی رک جائیں۔”

    "یہ تو تم بہت اچھا کرو گی فیونا۔ انھیں مہمانوں کا آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ان کو بتانا کہ میں کل چند تازہ سبزیاں لے کر ان سے ملنے آؤں گی۔”

    فیونا نے خاموشی سے اپنا ناشتہ ختم کیا اور پھر اسکول بیگ اٹھا کر بھاگتے ہوئے اسکول کی راہ لے لی۔ اسکول سے واپسی پر پہلے تو وہ گھر گئی اور پھر جبران کے گھر کی طرف چل پڑی۔ وہ دونوں گھر ہی پر مل گئے۔ فیونا کو اس کے موزے میں واضح طور پر چاقو پڑا محسوس ہوا۔ "کیا تم رات کو اسی کے ساتھ سو گئے تھے؟” اس نے حیرت سے پوچھ لیا۔ "نہیں، میں نے اسے چھپا لیا تھا۔ دراصل میں اور عرفان ایک کمرے میں سوتے ہیں، اور وہ کوئی بات چھپا نہیں سکتا، کاش میرا کوئی الگ کمرہ ہو۔”

    "چھوڑو یہ باتیں، دیر ہو جائے گی، چلو۔” فیونا بولی۔ "جبران، کیا تمھارے پاپا نے اس بارے میں کوئی ذکر کیا ہے کہ وہ جونی تھامسن کو مچھلیوں کے شکار کے لیے لے کر جائیں گے؟”

    "ہاں، پاپا کے مطابق جونی تھامسن یہاں پر ہے اور ان کا بھائی جلد آ رہا ہے، کیوں؟” جبران نے دانیال کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور پھر تینوں کتاب لے کر انگل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں جبران نے پوچھا۔ "کیا تمھارے انکل اینگس قابل اعتماد ہیں؟”

    فیونا نے بتایا ” وہ سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اور رازوں کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ اور پتا ہے وہ دن بھر صرف اپنی پالتو بلیوں کے ساتھ ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔”

    وہ انکل اینگس کے گھر پہنچ گئے۔ جبران اور دانیال کو دور ہی سے دیواروں پر بلیاں دکھائی دے گئیں۔ فیونا نے اپنی بات جاری رکھی۔ "وہ بہت مختلف انسان ہیں، میری ممی انھیں منفرد کہا کرتی ہیں۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں ہے، وہ کوئلہ جلاتے ہیں۔”

    وہ سب دروازے پر رک گئے، فیونا نے دستک دے دی۔ ذرا دیر بعد دروازہ کھلا اور ادھیڑ عمر کا اینگس نمودار ہو گیا جو فیونا کے چچا تھے۔ اینگس فیونا کے پاپا کے بڑے بھائی تھے اور ان کی عمر پچاس سال تھی۔ جبران کو وہ بہت عجیب سے لگے۔ ان کے بال بھورے اور آنکھیں خاکی مائل نیلی تھیں۔ فیونا نے اسے بتایا تھا کہ انکل اینگس لکڑی کے کھلونے بنا کر برطانیہ میں مختلف شو کر کے انھیں فروخت کرتے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ فیونا نے ان کا پورا نام اینگس روڈرِک مک ایلسٹر بتایا تھا۔

    اینگس فیونا کو دیکھتے ہی چہک اٹھے۔ "اوہو… میری بھتیجی آئی ہے اور ساتھ میں اس کے دوست بھی ہیں۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں یہ تمھارے نئے دوست ہوں گے۔” فیونا یہ سن کر ہنس پڑی۔ "بالکل درست اندازہ لگایا آپ نے انکل۔”

    وہ انھیں لے کر اندر لے گئے۔ آتش دان میں آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اینگس نے انھیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھتے ہی بولے۔ "تو اب بتاؤ، تم میرے پاس کیا لے کر آئی ہو؟ کیوں کہ فیونا، اس سے پہلے تم کبھی اپنی ممی کے بغیر یہاں نہیں آئی ہو۔”

    جبران حیرت سے چونک اٹھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیونا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دی۔ فیونا کے انکل نے دوسری مرتبہ بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔ فیونا نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر دیا۔ "انکل، آپ یہ سیاہ کیتلی آگ پر لٹکائے رکھتے ہیں، آپ چولھا کیوں نہیں خرید لیتے؟”

    وہ مسکرا دیے۔”میری پیاری سی بھتیجی، دراصل میں تکے، سوپ اور اسی طرح کی چیزیں ہی تیار کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی اور چیز کی ضرورت پڑے تو باہر جا کر خرید لیتا ہوں۔ میں بہت پرانے خیالات کا آدمی ہوں۔ دیکھو نا ہر ایک کے گھر میں بجلی ہے، گیس ہے، لیکن میرے ہاں نہیں۔ میں پرانے وقتوں کی طرح اب بھی مٹی کے تیل کے دیے اور لال ٹین جلاتا ہوں۔ اگر کبھی کچھ اور کھانے کو جی کرے تو جھیل کی طرف جاکر مچھلیاں پکڑ لیتا ہوں اور پھر مزے سے بھون کر کھاتا ہوں۔ میں خرگوش بھی بڑے شوق سے شکار کرتا ہوں اور پھر شاید تمھیں معلوم نہیں ہے کہ تمھاری ممی میرے لیے بیکری سے پیسٹری اور ڈبل روٹیاں لے کر آتی ہے۔ اس لیے فیونا، تم میرے بارے میں بالکل پریشان مت ہوا کرو۔ میں اپنے اس گھر اور اپنی حالت پر بے حد خوش ہوں۔” انھوں نے پوری تفصیل سے اپنے شب و روز کے متعلق بتا کر چپ سادھ لی۔ ماحول میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

    "سوری انکل۔” فیونا نے طویل سانس لے کر خاموشی توڑی۔ "میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا چاہ رہی تھی، بس میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔ شاید آپ کی آسانی کے لیے، تاہم آپ خوش ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔”

    انھوں نے جواب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور فیونا کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔ فیونا نے جھجکتے ہوئے کتاب نکالی اور ان کی طرف بڑھا دی۔ "انکل یہ کتاب ملی ہے۔ میں بس اس میں سے ایک ہی لفظ خزانہ پڑھ سکی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ گیلک زبان جانتے ہیں اس لیے آپ کے پاس لائی ہوں اسے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟”

    اینگس نے کتاب ہاتھ میں لی اور ایک ٹک اس کے کتاب پوش کو دیکھنے لگے۔

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشمتل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "افوہ مما … ایک تو یہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔” فیونا نے ممی سے شکایت کی، جیسے وہ اس کا کوئی حل نکال لیں گی۔ "مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پورے سال ایک بھی پورا دن ہم نے خشک دیکھا ہو۔”

    فیونا کی مما مائری مک ایلسٹر کھڑی کے شیشے کے پار دیکھنے لگیں۔ وہ دونوں مک ڈونی کے چائے خانے، جس کی پیشانی پر ٹی روم کا بورڈ آویزاں تھا، میں بیٹھی تھیں۔ چائے خانے کے باہر آس پاس سبزہ نظر آ رہا تھا، یہ سر سبز منظر نگاہوں کو بے حد بھلا محسوس ہوتا تھا۔ مائری نے طویل سانس کھینچ کر کہا۔ "فیونا، تمھیں یہ جگہ پسند ہے تو پھر اس طرح کی شکایتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ان گلابی پھولوں والی سدا بہار جھاڑیوں کو تم کہیں اور دیکھ سکو گی کیا؟” فیونا کی مما نے کرسی سے باقاعدہ اٹھ کر گلی میں ایک طرف روندراں کی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں گلابی رنگ کے بڑے بڑے پھول کھلے تھے۔

    "اوہ مما پلیز، بیٹھ جائیں، ویٹرس چائے لا رہی ہے۔” فیونا نے قدرے غصے سے کہا، اسے ممی کا اس طرح اٹھ کر جھاڑی کی طرف اشارہ کرنا عجیب لگا۔ مائری بیٹھ گئیں۔ ویٹرس نے انگلش چائے کی دو پیالیاں میز پر رکھ دیں جن سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

    "شکریہ فلورا” فیونا نے ویٹرس کا خوش دلی سے شکریہ ادا کیا اور ممی کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہنے لگی۔ "وہ تو ٹھیک ہے، پر ممی، میں بے حد بور ہو جاتی ہوں۔ ہر وقت بارش…بارش…کوئی بھی کام نہیں ہو پاتا۔”

    فیونا نے چائے کا گھونٹ بھرااور مکھن لگے کیک Scone سے ایک ٹکڑا کاٹ کر منھ میں رکھا۔ کیک کا ٹکڑا لینے کے بعد اس نے مک ڈونی کا اپنا تیار کردہ نارنگی کے مربے کے ڈبا اپنی طرف کھسکایا۔

    مائری نے نیپکن سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ "جیسا ذائقہ اس مربے اور سکون کا ہے، ویسا تمھیں کسی بڑے شہر میں بھی نہیں ملے گا۔ میری بھی ساری زندگی یہاں گیل ٹے سے زیادہ دور نہیں گزری، اور دیکھو ہشاش بشاش ہوں، تم بھی یہاں خوش رہو گی۔”

    فیونا نے شیشے کے پار آسمان پر پھیلے ہوئے بادلوں کو دیکھا، جن سے مسلسل بارش کے موٹے موٹے قطرے برس رہے تھے اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے کہا "مجھے غلط مت سمجھیں ممی، گیل ٹے میں رہنا مجھے بھی پسند ہے، لیکن اتنی چھوٹی سی جگہ میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں، اگر میں کسی بڑے شہر میں رہوں گی تو نئے لوگوں سے ملاقات ہوگی۔” فیونا نے کیک سے ایک اور ٹکڑا لیا اور بولنے لگی "اپنے ارد گرد دیکھو نا، یہاں ہم دونوں ہی ہیں، کوئی تیسرا شخص ہمارے ساتھ نہیں، میں بیزار ہو جاتی ہوں مما۔”

    اسی وقت چائے خانے کے دروازے کے سامنے ایک خاتون رُکی، جس کا چہرہ سیاہ چھتری میں چھپا ہوا تھا۔ چھتری تہ ہو گئی تو مائری نے اسے پہچان لیا۔ نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔

    "فیونا، آپ کو میری طرف سے گڈ ڈے اور آپ کو بھی مائری۔” انھوں نے آتے ہی کہا۔ "اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟”

    "کیوں نہیں۔” مائری نے مسکرا کر کہا اور میز کے اندر سے تیسری کرسی کھینچ کر نکال لی۔نیلی نے چھتری میز کے سہارے ٹکا دی اور برساتی اتار کر کرسی کی پشت پر ڈال دی۔کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے گرما گرم چائے اور چھوٹی ڈبل روٹی کا آرڈر دے دیا۔ چائے آئی تو نیلی نے فیونا کی طرف جھک کر کہا۔ "یہاں کی چھوٹی ڈبل روٹی اچھی ہے لیکن اتنی بھی نہیں جیسا کہ میں بناتی ہوں۔” فیونا ہنس پڑی۔”میں جانتی ہوں۔”

    نیلی نے ڈبل روٹی کھاتے ہوئے پوچھا "آج کل کیسا محسوس ہو رہا ہے فیونا؟” اس سے پہلے کہ فیونا جواب دیتی، مائری نے مداخلت کر دی۔ "فیونا یہاں کی مسلسل بارش سے تنگ آ چکی ہے اور اب سوچ رہی ہے کہ کسی بڑے شہر میں جا کر رہا جائے۔”

    نیلی نے چونک کر کہا "ہاں، ہم نے بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہی محسوس کیا ہے لیکن پھر وقت گزر ہی گیا، میں بہت سفر کر چکی ہوں اور ہر مرتبہ جب یہاں گیل ٹے لوٹ آئی تو بے انتہا مسرت ملی۔” یہ سن کر فیونا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "آپ بہت سفر کر چکی ہیں، کیا آپ افریقا یا آسٹریلیا یا امریکا بھی گئی ہیں؟”

    نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ بتانے لگیں "افسوس میں ان ممالک کے سفر پر کبھی نہیں جا سکی، دراصل میں اسکول ٹیچر تھی اس لیے زیادہ سفر نہ کر سکی لیکن پھر میرے پیارے شوہر گیون کی وفات کے بعد میں نے بہت سفر کیے۔ میں برطانیہ کا زیادہ تر حصہ دیکھ چکی ہوں، حتیٰ کہ آئرلینڈ بھی جا چکی ہوں لیکن افریقا نہیں جا سکی۔ اس زمین کے سب سے دور کے گاؤں کارن وال اپنی بہن پینی لوپ سے کئی مرتبہ ملنے گئی ہوں، لیکن ہاں فیونا، آپ کے نانا نانی نے ان علاقوں کا سفر کیا تھا۔” یہ کہ کر انھوں نے مائری کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر اداسی کے سائے پھیل گئے تھے۔ وہ جلدی سے بولیں "معذرت خواہ ہوں، میں نے آپ کے والدین کا ذکر کر دیا ہے، میں جانتی ہوں کہ ایان اور ہیتھر کی کشتی کے اندوہ ناک حادثے میں موت آپ کے لیے بے انتہا دکھ کا باعث ہے۔”

    "کوئی بات نہیں نیلی، اب تو انھیں گزرے بہت وقت ہو چکا ہے، انھیں سفر بہت پسند تھا، ممی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ان کا پسندیدہ مقام مصر ہے، جب کہ ڈیڈ کہا کرتے تھے کہ انھیں جنوبی افریقا پسند ہے۔”

    اگلے ایک گھنٹے تک نیلی اور مائری گفتگو کرتے رہے، انھوں نے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کیں، یہاں تک کہ فیونا بے زار ہو گئی۔ اس کے والد کا انتقال پانچ برس قبل ایک حادثے میں ہوا تھا، اس نے اچانک ممی کو مخاطب کیا۔ "مما، آپ کے دیگر سارے رشتے دار کہاں ہیں؟ نانا نانی کے انتقال کا تو مجھے پتا ہے لیکن آپ کے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہاں تو ہر رشتے دار کا تعلق ڈیڈ ہی سے ہے۔ آخر آپ کے کزنز کے ساتھ میری ملاقات کب ہوگی؟”

    "ہو جائے گی کسی دن۔” مائری نے چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کہا جو بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی، لیکن انھیں ٹھنڈی چائے ہی پسند تھی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ فیونا یہاں بیٹھے بیٹھے بے زار ہو چکی ہے، اس لیے بولیں۔ "میرا خیال ہے بارش رک چکی ہے۔” انھوں نے اٹھ کر باہر جھانک کر دیکھا تو بارش واقعی رک چکی تھی۔ مائری نے بل ادا کیا اور نیلی کو خدا حافظ کہہ کر فیونا کے ساتھ باہر نکل گئیں۔

    "دیکھو فضا کتنی مہک اٹھی ہے، دور دور سے سیاح یہاں آکر ہماری جھیلوں اور دریا میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، پھولوں سے ڈھکے پہاڑوں کی سیر کرتے ہیں۔” یہ کہ کر مائری نے گہری سانس لی، اور اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے کی مہکی ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں بھرا، جو اسکاٹش ہائی لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ انھوں نے کہا ” ذرا دریائے ٹے کو دیکھو، ٹراؤٹ مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے، اور سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دریا میں موتی تیر رہے ہیں، اور ذرا یاد کرو، تم کتنی مرتبہ جھیل لوچ ڈرول میں تیراکی کر چکی ہو، اور نہ جانے کتنی مرتبہ تم وہاں مچھلیاں بھی پکڑنے جا چکی ہو۔ یہ سب کیا ہے، محض اس لیے کہ تمھیں یہ سب پسند ہے، تمھیں یہاں رہنا پسند ہے۔”

    وہ دونوں اس وقت ڈینڈ لون پُل پر کھڑے نیچے دریائے ٹے کے بہتے پانی کو دیکھ رہے تھے۔ مائری پھر بولنے لگیں” اس پُل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال سے قائم ہے، یہ پُل اس وقت بنایا گیا تھا جب قلعہ آذرکی تعمیر عمل میں آئی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ یہ روایت درست نہیں، یہ پل اتنا قدیم نہیں ہو سکتا۔”

    فیونا نے پُل کی قدامت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا اور بولی "میں تو اتنا جانتی ہوں کہ جو حسن یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں۔” اس نے دور نظر آنے والی جھیل لوچ نس پر نظر ڈالی، چھوٹے جزیروں نے اس کے آبنوی پانی پر جگہ جگہ دھبے ڈال دیے تھے۔ یہ جزیرے شاہ بلوط، برچ، صنوبر اور سفیدے سے ڈھکے ہوئے تھے، رنگوں کی ایک بہار جوبن پر تھی۔

    "فیونا، ذرا ان پرندوں کی طرف دیکھو، کیا تم نے اس جیسی نغمگی سنی ہے؟” مائری پرندوں کی بولیوں میں گم سی ہو گئی تھیں۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا "گھبراؤ نہیں ماں، میں بھی مانتی ہوں کہ گیل ٹے رہنے کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے۔” دونوں ماں بیٹی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دریائے ٹے کے کنارے چلتے چلے جا رہے تھے۔ فیونا نے دور ایک بڑے سے جزیرے پر قدیم کھنڈرات پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا "ممی ، کیا آپ قلعہ آذر کبھی گئی ہیں؟”

    "پتا ہے اس جزیرے پر موجود گاؤں سکارا برے تقریباً چھ ہزار سال پرانا ہے۔” ممی بتانے لگیں "قلعہ آذر میں پتا نہیں ایسی کیا بات ہے کہ میں اس کے اندر قدم رکھنے سے گھبراتی ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں جب سے یہاں ہوں، وہاں کبھی نہیں گئی اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم وہاں جاؤ، وہ ایک پراسرار جگہ ہے، اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔”

    فیونا نے اس پر کچھ نہیں کہا، لیکن چند لمحوں بعد اچانک بولی۔ "ممی، میرے چند دوست آنے والے ہیں ابھی، میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی۔ جبران پاکستانی نژاد ہے، پڑوسی گاؤں میں اپنے ممی پاپا کے ساتھ رہتا ہے، اس کا ایک کزن پاکستان سے وزٹ پر آیا ہے، میں نے ان کو گھر پر آنے کی دعوت دے دی ہے۔”

    "یہ تو تم نے بہت اچھا کیا ہے فیونا، بہت اچھی بات ہے، تمھیں یہاں نئے دوست مل گئے ہیں۔ مائری نے خوش ہو کر کہا تو فیونا بولی "ممی کیا آپ مہمانوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر سکتی ہیں؟”مائری نے مسکرا کر کہا "کیوں نہیں، راستے میں مک ایوانز بچر کی دکان سے کچھ چیزیں لے لیتے ہیں۔”

    "لیکن ممی، وہ آنے ہی والے ہوں گے، میں گھر چلی جاتی ہوں، آپ خریداری کر کے آئیں۔” فیونا نے ممی کا ہاتھ پیار سے سہلاتے ہوئے کہا۔ ممی نے کہا "ٹھیک ہے بھئی، ایسا ہی کرتی ہوں۔” فیونا نے ممی سے اجازت لی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی۔

    جاری ہے …..

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • غم کی شادمانی ( چینی ادب سے ماخوذ)

    غم کی شادمانی ( چینی ادب سے ماخوذ)

    چین کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ ہر روز وہ اپنے گھر سے مٹی کے دو برتنوں میں پانی لینے قریبی نہر پر جاتی تھی۔ وہ برتنوں کو لکڑی کے نسبتاً لمبے ٹکڑے کے ساتھ لٹکا کر اس لکڑی کو کندھے پر دھر لیتی، یوں پانی کے بھرے ہوئے برتنوں کا وزن ڈھونے میں اسےآسانی ہو جاتی تھی۔

    اس بوڑھی عورت کا ایک برتن تو صحیح سلامت تھا لیکن دوسرے میں دراڑ پڑ چکی تھی جس سے پانی بہنے لگا تھا، اور نہر سے گھر تک آتے آتے اس میں پانی آدھا رہ جاتا تھا۔

    یہ سلسلہ دو برس تک یوں ہی چلتا رہا۔ گھر لوٹنے تک ایک برتن تو بھرا ہوا رہتا لیکن دوسرے میں آدھا پانی ہی بچتا تھا۔ بوڑھی عورت اتنی مشقت بھی اٹھاتی لیکن مٹی کے برتن میں‌ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے اس کی یہ محنت ضایع ہوجاتی تھی۔ جو برتن صحیح سلامت تھا وہ اس کے اندر تکبر اور رعونت کا احساس پیدا ہو گیا تھا جب کہ ٹوٹا ہوا برتن احساس کمتری کا شکار ہو کر شرمندگی محسوس کرنے لگا تھا۔

    آخر دو سال گزر گئے تو ایک روز دراڑ شدہ برتن کی برداشت جواب دے گئی، اسے بڑی ذلّت محسوس ہوئی کہ بوڑھی عورت اتنی محنت سے پانی لاتی ہے اور اس میں‌ جو شگاف پڑ چکا ہے اس کی وجہ سے اتنا سارا پانی راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔

    آخر یہ شگاف والا برتن اس عورت سے کہنے لگا: "میں بہت شرم سار ہوں کہ تم جو پانی میرے اندر بھرتی ہو اس میں‌ سے آدھا راستے میں بہہ جاتا ہے اور تم اسی طرح‌ گھر پہنچ جاتی ہو، یہ کہہ کر وہ دکھ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔”

    اس کی بات سن کر وہ بوڑھی عورت مسکرائی اور بولی کہ تم نے غور نہیں‌ کیا، میرے کندھے پر رکھی ہوئی لکڑی کے جس کونے سے تم لٹک کر آتے ہو، اس طرف راستے میں سبزہ اور رنگ برنگے پھول ہیں لیکن دوسری جانب کوئی پھول نہیں ہیں۔ میں اس سے آگاہ ہوں کہ تم میں ایک نقص ہے اور اس چھوٹے شگاف سے پورے راستے پانی بہتا رہتا ہے، تم کو یاد ہو گا کہ ایک دن میں نے تمہارے والے راستے میں پھولوں کے بیج ڈال دیے تھے جن سے اگنے والے پھول آج تم دیکھ ہی سکتے ہو، پورے دو سال میں یہ پھول توڑ کر اپنے گھر کو سجاتی رہی اور اب میرا گھر پھولوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ دوسرا برتن تو بس مجھے پانی ہی دیتا رہا جب کہ تم نے تو مجھے پانی بھی پہنچایا اور پھولوں سے میری منزل اور راستہ بھی سجا دیا۔ اس لیے تم کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں‌ ہے تم تو بہت کمال کے برتن ہو۔

    یہ سن کر خود کو کم تر سمجھنے والا اور اپنے نقص پر شرم سار برتن خوشی سے جھوم اٹھا اور فخر سے سالم برتن پر ایک نگاہ ڈالی جو اب اس سے نظریں‌ چرا رہا تھا۔

  • واہ ری بی لومڑی!

    واہ ری بی لومڑی!

    ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آ رہی تھیں۔

    تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آ گیا۔

    اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔

    ’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دو گے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘

    دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا، مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آ گیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کرنا شروع کر دی۔

    ’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوبصورت آدمی ہو، یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ دو دن سے یہیں بند ہوں۔‘‘

    اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ شیر دھاڑ مار کر باہر آ گیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا، ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جا رہے ہو؟

    شیر ہنس کر بولا’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔‘‘

    دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جا رہا تھا شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔ اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘

    پیڑ نے جواب دیا۔ ’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں۔ مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘

    شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا، ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ اس نے راستے سے پوچھا۔

    ’’بھائی راستے! دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکالا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘

    راستے نے کہا۔ ’’ہاں بھائی! کیا کریں دنیا ایسی ہی ہے۔ مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں، میں ان کو تھکن میں آرام دینے کے لیے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔ مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘

    شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہو رہا ہے۔‘‘ لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔

    ’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو‘‘

    ’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جا رہا تھا۔ شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں کھول دو اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھ پر جھپٹ پڑا۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں۔ اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیح ہے اور جب راستے سے پوچھا تو وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ شیر کی بات ٹھیک ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘

    شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اس کو کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔

    لومڑی بولی۔ ’’اچھّا میں سمجھ گئی تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تم کو….‘‘

    ’’ارے نہیں۔۔۔ میں نہیں شیر بند تھا۔‘‘ دیہاتی نے سمجھایا۔

    ’’اچھا۔‘‘ لومڑی بولی

    ’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘

    ’’اففف۔۔ راستے نے نہیں، میں نے اس کو پنجرے سے…‘‘دیہاتی الجھ کر بولا۔

    ’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کون بند تھا۔ کس نے کھولا، کیا ہوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔

    شیر نے سوچا بہت وقت بر باد ہو رہا ہے، وہ بولا۔ ’’ میں پنجرے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر جا کر بولا۔ یوں بند تھا تو…‘‘

    اتنے میں لومڑی تیزی سے آگے بڑھی اور پنجرے کا دروازہ بند کر دیا اور زنجیر چڑھا دی۔

    پھر مڑ کر دیہاتی سے بولی، اب تم اپنے راستے جاؤ۔ ہر کوئی مدد کے لائق نہیں ہوتا۔ دیہاتی نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا راستے سے گزر گیا۔

    (ایک لوک کہانی)

  • سچی دوستی!

    سچی دوستی!

    شہر سے دور گھنے جنگل میں ایک پیڑ پر ایک بندریا اپنے بچّوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس پیڑ کی چھاؤں تلے ایک ہرنی کا اپنے بچوں سمیت بسیرا تھا۔ ہرن اور بندریا دونوں پکی سہلیاں تھیں۔

    دونوں جنگل میں گھوم کر اپنے بچّوں کے لیے پھل پھول اکٹھا کرتیں۔ اچھے پکے پھل ملتے تو دونوں اپنے بچّوں کو بانٹ کر کھلاتیں۔ پیڑ کے قریب سے ایک ندی گزرتی تھی جس کا پانی میٹھا اور صاف تھا۔ بہت سارے چرند و پرند، جنگلی جانور اپنی پیاس بجھانے ندی کے کنارے آتے۔

    ہر روز شام ڈھلے شیروں کے قافلے کی آہٹ پاتے ہی پھڑپھڑا کر سارے پرندے اڑ جاتے۔ بندریا ہرنی کواپنے مخصوص کھیں کھیں کی آواز نکال کر چوکنا کر دیتی۔ پھر ہرنی اپنے بچّوں کو خاموش رہنے کے اشارے کرتی۔

    دن یونہی گزر رہے تھے۔ دونوں کے بچّے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ لیکن بچّے بڑے شریر تھے۔ ہرنی کا ایک بچّہ جس کا نام سونو تھا وہ خوب دھما چوکڑی مچاتا۔ اسے اپنی خوبصورت کھال اور نازک خدوخال پر بڑا گمان تھا اور وہ بہت مغرور بھی تھا۔ بندریا کے شرارتی بچّے مونو سے سونو کی کبھی نہیں بنتی تھی۔ اکثر دونوں میں تیر بھاگنے کا مقابلہ ہوتا۔ مونو ڈالیوں میں جھولتا، ہوا میں ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگا کر دُم لہراتے بہت آگے نکل جاتا۔ پھر ٹھہر کر سونو کا انتظار کرتا۔ سونو کو مونو کی یہ عادت بالکل پسند نہیں آتی۔ وہ ناراض ہوجاتا اور دونوں لڑتے جھگڑتے اپنی اپنی ماں کے پاس واپس آجاتے۔

    اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہرنی کا بچّہ سونو، بندریا کے بچّے مونو کی دُم پیر سے دبا دیتا، پھل چھین کر کھا لیتا، دونوں کی شرارتیں اتنی کہ مونو ڈالیوں پر جھولتے ہوئے سونو کو دھڑام سے دھکیل کر یہ جا وہ جا ہو جاتا۔ اس کی سنہری کھال جس پر سونو کو بڑا غرور تھا، مسل دیتا۔ یہ سب روز کے معمول تھے۔ دونوں کی ماں بچّے کے جھگڑے سلجھاتیں۔ مگر ہرنی اور بندریا کی دوستی میں کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ ہرنی جنگل کی طرف کیا نکلی، کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بندریا کئی دنوں تک اسے ڈھونڈتی رہی۔ پھر تھک ہار کر واپس آگئی۔ خوب روئی۔ اب اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ اپنی ہرنی سہیلی کے بچّوں کا پہلے سے زیادہ وہ خیال رکھتی۔ انہیں بھوکا نہیں چھوڑتی۔ خوب دلار پیار کرتی بالکل اپنے بچّوں کے برابر مگر سونو ہمیشہ مونو سے جھگڑے پر اتاولا رہتا۔ جنگل کے دیگر سبھی جانور دونوں کی شرارتوں سے واقف تھے۔

    جنگل میں ایک دن راج ہنس نے سبھی چرند و پرند کو اکٹھا کر کے کہا کہ بہت دن ہوگئے، کوئی جشن یا کھیل کا مقابلہ نہیں ہوا۔ بہار کے اس موسم میں کچھ تفریحی پروگرام ہونا چاہیے۔ سبھی نے راج ہنس کی بات کی تائید کی۔ راج ہنس ہمیشہ ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرتا جس میں کھانے پینے کا بھی خوب انتظام رہتا۔

    کئی دنوں کی تیاری کے بعد جشن کا آغاز جنگل کے اندر ایک ہرے بھرے میدان میں ہوا۔ سب اکٹھا ہوئے خوب کھیل تماشہ اور مقابلہ ہوا۔ ہر جیتنے والے کو پکے پھل ملتے، خوب تالیاں بجتیں۔ سونو اور مونو کے درمیان حسن اور قابلیت کا مقابلہ ہوا۔ جج راج ہنس کے مطابق سونو حسین اور مونو ذہین قرار دیا گیا۔ شام ہوئی مقابلہ ختم ہوا سب خوشی خوشی اپنے بسیروں کی جانب چل پڑے۔ سونو اس فیصلے سے بالکل متفق نہ تھا وہ تلملایا ہوا تھا۔ اسے حسین اور ذہین دونوں کا خطاب اپنے نام چاہیے تھا وہ ہرگز مونو کو کسی خطاب کا حق دار نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے بسیرے کے قریب پہنچتے ہی مونو نے سونو کو کھیں کھیں کر کے چڑھا دیا۔ اب وہ پیڑ پر جست لگانا ہی چاہتا تھا کہ سونو نے مونو کی لمبی لہراتی دم کو دانت سے پکڑ کر چبا دیا۔ چیخ پکار مچاتا مونو پیڑ پر چڑھ گیا۔ پھر بندریا نے جنگل سے ایک بوٹی لاکر اس کی دُم پر لگائی۔ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا وہ رات بھر درد سے تڑپتا اور یہی سوچتا رہا کہ موقع ملتے ہی وہ سونو سے بدلہ ضرور لے گا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ بندریا جنگل میں کہیں گئی ہوئی تھی۔ بندریا کا زخمی بچّہ مونو پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظر ایک شکاری کے جال پر پڑی۔ وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ کیونکہ سونو بڑی اداؤں کے ساتھ بے فکری سے قریب ہی ٹہل رہا تھا۔ وہ شکاری کے جال کی طرف جا نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے جال میں پھنس گیا۔ شکاری جھٹ پھٹ اسے لے کر نکلنے ہی والا تھا کہ مونو کے دل میں سونو کے لیے ہمدردی کا ایک ایسا جذبہ بیدار ہوا جس میں احسان مندی بھی تھی اور پڑوسی کے حق کی ادائیگی بھی۔ مونو کو یاد آیا کہ وہ ایک دن کیچڑ میں گر گیا تھا تو سونو نے اپنی زبان سے اس کا جسم صاف کیا اور اس کی ماں کے پاس لے کر آیا تھا۔

    دفعتاً بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ ڈالیوں میں جھولتا، ہواؤں میں جست لگاتا شکاری پر حملہ آور ہوا اور غصے میں جال کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر رکھ ڈالا اور اپنے پڑوسی کی جان بچا کر واپس اپنے بسیرے پر لے آیا۔

    مصنّف: شمع اختر کاظمی (بھارت)

  • ’’وصیت‘‘

    ’’وصیت‘‘

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنونِ لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تختِ شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔

    آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلّے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تُو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

  • نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا۔ بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔

    بازار کی پُر ہجوم جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ سکّوں کی جھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکّے وہ بھی سونے کے! یہ کیا ماجرا ہے؟

    دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں۔ اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید لے۔ لوگوں نے اشرفیاں گرتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھیں اور باقی کا قصّہ سن کر ہر کسی کی خواہش یہی تھی کہ یہ گدھا جتنے میں بھی مل جائے سستا ہے۔

    ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے تاجر نے خطیر رقم کے عوض اسے خرید لیا۔ فروخت کرنے والے نے رقم اور زمین پر گرے ہوئے سکّے سمیٹے اور گھر چلا گیا۔

    جس تاجر نے گدھا خریدا تھا، وہ فخر سے گردن اکڑائے ہوئے چل رہا تھا اور اہلِ قریہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچ گئے۔ سارے لوگ مل کر اداس اور پریشان شکلیں بنا کر گدھے کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور بالآخر وہ سچ مچ پریشان ہوگئے۔ اس دوران گدھا جو کب سے بھوکا تھا اس نے خوب چارہ کھایا مگر ایک سکّہ تک نہ گرا۔

    آخر وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔ اس نے بتایا کہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ فروخت کرنے والا بھاگ جائے، فوراً اس دھوکے باز کو پکڑو۔ وہ تاجر اور اہلِ قریہ اکٹھے ہو کر جب اس دھوکے باز کے گھر کے باہر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے متعلق استفسار کیا تو اندر سے اس دھوکے باز کی بیوی نے کہا کہ وہ تو کہیں کام سے دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہیں۔ آپ باہر ہی انتظار کریں میں اپنا پالتو کتّا بھیجتی ہوں، یہ جاکر انہیں آپ کے متعلق بتائے گا اور انہیں ہر صورت ساتھ بھی لے کر آئے گا۔ لوگ دل چسپی سے دیکھنے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کتّا اپنے مالک کو گھر لائے۔

    دراصل اس چالاک شخص نے جب دیکھا کہ تمام لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو کتّے والی پٹی پڑھائی۔ گھر میں پہلے سے بندھے ہوئے کتّے کو آزاد کیا اور خود گھر کی پچھلی سمت سے چپکے سے نکل گیا۔ دور جاکر اس نے کتّے کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ واپس گھر کی طرف چل دیا۔

    تھوڑی دیر گزری تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہی شخص جس نے گدھا فروخت کیا تھا، اسی کتّے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اب سارے لوگ یہ بات بھول کر کہ وہاں کیوں آئے ہیں، کتّے کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ تو بڑے کام کا ہے، بتاؤ یہ کتنے کا ہے؟ اسے تو ہر صورت خریدنا ہوگا۔

    اس دھوکے باز اور چالاک شخص نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں اچھے دام ملنے پر وہ کتّا اسی ہجوم میں سے ایک دوسرے تاجر کو فروخت کر دیا۔ اب لوگ ٹولی کی شکل میں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کتّا گھر سے گئے ہوئے شخص کو کیسے واپس لے کر آتا ہے اس تاجر کے ساتھ چلتے گئے۔

    تاجر نے گھر جاکر غلام کو کہا کہ تم ساتھ والے گاؤں جاؤ تاکہ کتّا تمھیں ڈھونڈ کر واپس لے آئے۔ غلام جیسے ہی دوسرے گاؤں پہنچا وہاں سے بھاگ نکلا اور کتّا بھی کہیں دور چلا گیا جو واپس نہ آیا۔ جب غلام اور کتّا دونوں واپس نہ آئے تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔

    وہ دوبارہ اکٹھے ہوکر جب اسی دھوکے باز کے گھر گئے تو وہ ایک بار پھر گھر کے پچھلے خفیہ دروازے سے بھاگ نکلا، اور اس کی بیوی کہنے لگی وہ ساتھ والے گاؤں کسی کام سے گئے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آج ہم اس کا گھر کے اندر بیٹھ کر انتظار کریں گے، اور یوں دونوں تاجروں سمیت ارد گرد کے تمام لوگ اس کے گھر میں بیٹھ گئے۔

    کافی دیر جب گزر گئی تو وہی دھوکے باز گھر میں داخل ہوا اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے جھک جھک کر آداب بجا لانے لگا اور بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے خاص مہمانوں کی تکریم میں تم نے کیا کیا؟ ان مہمانوں کو کچھ کھانے پینے کو دیا یا بھوکا ہی بٹھایا ہوا ہے؟

    وہ لوگ دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم جسے دھوکے باز سمجھ رہے ہیں وہ تو بڑا سخی اور مہمان نواز بندہ ہے۔ اس کی بیوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ان فضول اور فالتو لوگوں کو کون اپنا مہمان بناتا ہے، میں نے تو انہیں پانی تک نہیں پوچھا۔ یہ سن کر وہ شخص غصے میں پاگل ہوگیا اور جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ فوراً لہو بہہ نکلا اور اس کی بیوی لہرا کر نیچے فرش پر گر پڑی۔

    وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے کہ ہمارے پیسوں کو تو رہنے دو لیکن ہمارے لیے اپنی بیوی کو قتل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ وہ چالاک اور دھوکے باز کہنے لگا، آپ لوگ فکر نہ کرو یہ ہمارا روزانہ کا کام ہے۔ میں اسے غصے میں آکر قتل کر دیتا ہوں تو دوبارہ اس سینگ سے زندہ بھی کر دیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر ٹنگے ہوئے کسی جانور کے بڑے سے سینگ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر وہ سینگ اتارا اور مری ہوئی بیوی کے پاس بیٹھ کر سینگ کو منہ میں دبا کر سپیروں کی طرح جھوم جھوم کر پھونک مار کر بجانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہی مقتولہ جو کچھ دیر پہلے سب کے سامنے خنجر کے وار سے ہلاک ہوچکی تھی۔ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اور ایک بار پھر وہ سب یہ بات بھول کر کہ یہاں کیوں آئے ہیں، اس سینگ کو خریدنے کے درپے ہوگئے۔

    دھوکے باز نے بولی بڑھانے کی خاطر کہنا شروع کردیا کہ یہ طلسماتی سینگ پوری دنیا میں ایک ہی ہے جو صرف میرے پاس ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کروں گا۔ کرتے کرتے ایک بڑے تاجر نے سب سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ سینگ خرید لیا، اور سینگ خرید کر وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

    جس نے سینگ خریدا تھا، کہنے لگا، میں جو اپنی بیوی کی چخ چخ سے تنگ ہوں، آج اگر اس نے لڑائی کی تو مار دوں گا اور رات سکون سے گزار کر صبح سینگ کی مدد سے زندہ کرلوں گا، لیکن درحقیقت اس دھوکے باز نے جب اپنے گھر کے باہر لوگوں کا اکٹھ دوبارہ دیکھا تھا تو فوراً منصوبہ بنا کر اس میں اپنی بیوی کو شامل کرلیا تھا۔ لال رنگ کو ایک تھیلی میں ڈال کر بیوی کے کپڑوں میں چھپا دیا، پھر ایک خنجر لیا جس کے دستہ میں خفیہ خانہ اور ایک بٹن تھا جس کو دبانے سے خنجر کا پھل اپنے دستے میں غائب ہوجاتا تھا۔ اور ایک پرانا بیکار سینگ لے کر دیوار پر ٹانگ دیا اور خود گھر کے خفیہ رستے سے نکل کر تھوڑی دیر روپوش رہ کر واپس آگیا۔ اور پھر بیوی کو زندہ کرنے کا ڈرامہ رچا کر بیکار سینگ فروخت کردیا تھا۔

    جس نے سینگ خریدا تو جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے حسبِ معمول لڑائی شروع کر دی۔ اس نے بے فکر ہو کر خنجر نکالا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، خون نکلا، وہ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس نے اٹھا کر کمرے میں لٹا دیا اور پوری رات ایسے ہی رہنے دیا، صبح اٹھ کر اس نے بہتیرا سینگ کو مختلف طریقوں سے بجایا مگر وہ تو مردہ ہوچکی تھی، دھیرے دھیرے اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہونے لگا، وہ پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گھر سے نکلا تو باہر تمام لوگ اس کے منتظر تھے کہ پتا کریں رات کیا بیتی اور سینگ نے کیا کمال دکھایا۔ وہ شخص دکھ اور شرمندگی کو چھپانا چاہتا تھا مگر کچھ لوگوں نے جب اصرار کیا تو اصل بات اگلوا ہی لی۔ اب کی بار انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس نوسر باز کی کسی بات میں نہیں آنا، اور اس کو دیکھتے ہی قابو کرکے ایک بوری میں بند کرکے سمندر برد کر دینا ہے۔

    سب نے اس پر اتفاق کیا، ایک بار پھر وہ لوگ اکٹھے ہو کر اس دھوکے باز کے گھر پہنچے اور اندر جاکر اسے قابو کرلیا، بڑی سی بوری میں ڈال کر سمندر کی طرف چل دیے۔
    سمندر وہاں سے کافی دور تھا۔ بوری میں بند دھوکے باز شخص کو باری باری اٹھاتے ہوئے وہ سب لوگ تھک گئے تھے۔ سمندر سے نصف فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر سستا لیتے ہیں، اس کے بعد آرام سے اسے پانی میں پھینک دیں گے۔ وہ لوگ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جیسے ہی آرام کرنے کے لیے رکے تو انہیں نیند نے آ لیا اور وہ بے فکر ہو کر سو گئے۔ بوری میں بند شخص نے بھوک اور پیاس سے بے حال ہو کر چیخنا چلانا شروع کر دیا، مگر وہ تمام لوگ تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اسی اثناء میں وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا اس نے دیکھا کہ لوگوں کا جمِ غفیر آڑھا ترچھا ہوکر سو رہا ہے، اور ایک طرف پڑی بوری سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔

    اس نے بھیڑ بکریوں کو ایک طرف کھڑا کیا اور آگے بڑھ کر جب بوری کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر تو کوئی شخص بند ہے۔ چرواہے نے پوچھا کہ ایک شخص تُو کون ہے، یہ ارد گرد سوئے ہوئے لوگ کون ہیں؟ اور تجھے بوری میں کیوں بند کیا ہوا ہے، یہ ماجرا کیا ہے؟

    دھوکے باز نے کہا سنو! یہ تمام لوگ میرے خاندان کے ہیں، یہ میری شادی سمندر پار ایک شہزادی سے زبردستی کرانا چاہتے ہیں، مگر مجھے مال و دولت کی ذرا بھی ہوس نہیں ہے، میں تو اپنی چچا زاد لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ چرواہا اس کی باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا، اور کہنے لگا، بتاؤ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟ دھوکے باز کہنے لگا ہاں ہاں کیوں نہیں، تم میری جگہ اس بوری میں آجاؤ، اور جب شہزادی کے سامنے بند بوری کھلے گی تو پھر اس کا تم سے شادی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چرواہا یہ سن کر خوش ہوگیا اور ہنسی خوشی اس دھوکے باز کی جگہ بوری میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دھوکے باز نے وہاں سے چرواہے کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیا اور واپس اپنے گھر آگیا۔

    وہ لوگ جب نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے بوری کو اٹھایا اور چلتے چلتے آخر کار سمندر میں پھینک دیا، اور مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔

    اگلے دن انہوں نے دیکھا کہ دھوکے باز شخص کے گھر کے باہر تین چار سو کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ بڑے حیران ہوکر جب وہاں گئے تو دیکھا کہ جس کو سمندر میں پھینک کر آئے تھے وہ تو گھر میں بیٹھا اپنی بیوی سے گپیں لڑا رہا ہے۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ، ہم نے تو تمھیں کل سمندر میں پھینکا تھا، اور آج تم صحیح سلامت اپنے گھر میں ہو اور باہر بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی ہے؟

    وہ دھوکے باز شخص کہنے لگا، جب تم لوگوں نے مجھے سمندر میں پھینکا تو وہاں سے ایک جل پری نمودار ہوئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ زیرِ سمندر بنے گھر میں لے گئی، وہاں ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنے ہوئے بے شمار محل اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی تھے۔

    جل پری نے مجھے مہمانوں کی طرح رکھا اور میری خوب خاطر مدارات کی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی اور وہاں کا حاکم بنانا چاہتی تھی، مگر جب میں نے کہا کہ میری پہلے سے ایک بیوی ہے اور میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کوئی بات نہیں اور اپنی طرف سے بھیڑ بکریوں کا تحفہ دے کر کہنے لگی کہ اگر تمھارے علاقے میں کوئی ایسا ہوا جو یہاں کی جل پریوں سے شادی کر کے یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے یہاں لے آنا۔ یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہاں آئے ہوئے تمام بوڑھے اور جوان کہنے لگے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر حاکم بننا چاہتے ہیں۔

    اس دھوکے باز شخص نے کہا کہ تم تو صرف چند افراد ہو اگر اس قصبے کے تمام لوگ بھی وہاں چلے جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قصبے کے ہر شخص کو اپنے ساتھ جانے کے لیے راضی کر لیں گے۔ دھوکے باز نے کہا ٹھیک ہے کل صبح کے وقت سمندر کے کنارے ہر شخص اپنے لیے ایک بوری اور ایک رسی لے کر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کر ہر شخص ایک دوسرے کو بوری میں بند کرنے میں مدد کرے گا۔

    اگلے روز صبح کے وقت دھوکے باز شخص نے سب کو بوری میں بند کیا اور اپنی بیوی کی مدد سے تمام بوریوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیوقوفوں کے قصبے کا تن تنہا مالک بن گیا۔

    (ماخذ: عربی قصص و عبر مِن قدیم زمان، اردو ترجمہ: توقير بُھملہ)