Tag: اردو کہاوت

  • ٹیڑھی کھیر ہے!

    اونٹ کے گلے میں بلی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے، اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا، اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔

    ایسے جملوں کو کہاوت یا ضرب المثل یا مختصراً صرف مثل کہا جاتا ہے۔ کہاوت کسی واقعے یا بات میں چھپی ہوئی سچائی یا عقل کی بات کو سمجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔

    کہاوتیں بڑی دل چسپ اور مزے دار ہوتی ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی بھی ہوتی ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے گا، یہ کہانیاں ضروری نہیں کہ سچ ہی ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کہاوت مشہور ہوئی تو لوگوں نے اس کی کہانی بنا لی، ہاں ان کہانیوں سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ کہاتوں کا مطلب، ان کا صحیح استعمال اور ان میں چھپا ہوا سبق یا دانش مندی کی بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے۔

    یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔

    اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، ’’کھیر کھاؤ گے؟‘‘

    تو فقیر نے سوال کیا، ’’کھیر کیسی ہوتی ہے؟‘‘

    اس شخص نے جواب دیا، ’’سفید ہوتی ہے۔‘‘

    اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، ’’سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟‘‘

    اس شخص نے کہا، ’’بگلے جیسا۔‘‘

    فقیر نے پوچھا، ’’بگلا کیسا ہوتا ہے؟‘‘

    اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، ’’بگلا ایسا ہوتا ہے۔‘‘

    نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، ’’نہ بابا یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔‘‘

    (کہاوتوں کی کہانیاں سے ایک کہانی جس کے مصنّف رؤف پاریکھ ہیں)

  • دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی ایک مشہور کہاوت ہے اور ایسے موقع پر سنی جاتی ہے، جب کسی کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے یا کسی کو اس کے اچھے یا برے فعل کا بدلہ مل جائے۔

    اس کہاوت کے پس منظر میں جائیں تو ہمیں ایک قصہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے جو یہاں‌ آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    ایک گوالا تھا جو زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر پیسے جمع کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی اور وہ لالچ میں اندھا ہو چکا تھا۔

    اس کے ذہن میں دولت کمانے کا سیدھا اور آسان طریقہ یہ آیا کہ وہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ شہر میں رہ کر اس نے ناجائز طریقے سے بہت جلد مال بنا لیا۔ جب اس کے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو گئی تو وہ اپنے گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا۔

    گوالے نے ایک روز اپنی ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔

    گوالا بھی گرمی کی وجہ سے نڈھال تھا۔ اس کے راستے میں ایک دریا پڑا تو اس نے نہانے کا ارادہ کیا اور رپوں کی تھیلی ایک درخت کے نیچے رکھ کر دوسروں کی نظر میں آنے سے چھپانے کی غرض سے اس پر کپڑے ڈال دیے۔ اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس نے لنگوٹ کس لیا اور پانی میں کود پڑا۔

    گوالا جس علاقے میں نہانے کے لیے رکا تھا، وہاں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق سے ایک بندر اسی درخت پر بیٹھا ہوا تھا جس کے نیچے گوالے نے رقم کی تھیلی رکھ کر اس پر کپڑے ڈال دیے تھے۔ اس نے یہ سارا ماجرا دیکھ لیا تھا۔ بندر بہت شراتی تھا۔ اس نے گوالے کو دریا میں نہاتے دیکھا تو درخت سے اترا اور رپوں کی وہ تھیلی اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔

    گوالا پانی سے نکلا تو اس کی نظر بندر پر پڑی جس کے پاس رقم والی تھیلی تھی۔ اس نے بندر کو ڈرانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تھیلی نیچے پھینک دے، لیکن بندر اس سے ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے تھیلی کھولی اور رُپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا، کچھ زمین پر اور کچھ دریا میں گرنے لگے۔ گوالا رُپوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن یہ آسان نہ تھا۔

    اس دوران وہاں لوگ جمع ہو گئے اور تماشا لگ گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اس گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے۔ انھوں نے جب گوالے کو یوں روتا پیٹتا دیکھا تو کہنے لگے، ‘‘دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔’’
    یعنی اس نے جو پیسے دودھ میں پانی ملا کر ناجائز طریقے سے کمائے تھے وہ پانی ہی میں مل گئے۔

  • یک نہ شد  دو  شُد!

    یک نہ شد دو شُد!

    آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہی ہو گی، اور اس کے لفظی معنیٰ بھی جانتے ہوں‌ گے۔

    یہ کہاوت اس وقت سننے کو ملتی ہے جب کوئی شخص ایک مسئلے یا مصیبت میں‌ گھرا ہوا ہو اور اسی وقت دوسری افتاد بھی ٹوٹ پڑے۔ یعنی جب کوئی ایک مسئلہ حل نہ ہوا ہو یا کسی ایک مصیبت سے نجات ملی نہ ہو اور اسی وقت دوسری مصیبت سَر پر آجائے تو اس کیفیت کا اظہار کرنے لیے اردو میں اس کہاوت سے کام لیا جاتا ہے۔

    ہر کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، اس کی وجہ یا اس کا پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتی ہیں‌ اور داستان یا گھڑی ہوئی باتیں‌ بھی۔ ہماری اس کہاوت سے متعلق زیادہ مشہور بات یقینا غیر حقیقی اور من گھڑت ہے، مگر ہمارے ہاں‌ یہ قصہ اس طرح‌ مشہور ہے:

    کہتے ہیں‌ کہ ایک شخص ایسا منتر جانتا تھا جس سے وہ مُردوں کو اٹھا کر ان سے سوالات کرتا اور اپنا مطلب پورا ہو جانے پر انھیں‌ دوبارہ جادو کے زور پر قبر میں جانے پر مجبور کر دیتا۔ وہ شخص جب مرنے لگا تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا۔

    اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔

    اب وہ بہت گھبرایا اور اسی گھبراہٹ میں اچانک اسے قبرستان سے بھاگنے کا خیال آیا، اس نے سوچے سمجھے بغیر اچانک دوڑ لگا دی، مگر کچھ دور جانے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آرہا تھا جسے اس نے منتر کے زور سے جگایا تھا۔ وہ جہاں جہاں‌ جاتا مردہ اس کے پیچھے ہوتا۔ اس دوران اس نے استاد کا سکھایا ہوا وہ منتر یاد کرنے کی بہت کوشش کی، جس سے مردے کو واپس قبر میں‌ بھیجا جاسکتا تھا، لیکن ناکام رہا۔

    تب اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو اٹھانے کا منتر پڑھا، استاد کے قبر سے نکلنے پر اس نے وہ دوسرا منتر پوچھا جو مردے کو قبر میں‌ بھیجتا، لیکن معلوم ہوا کہ مرحوم استاد جس دنیا میں پہنچ چکے تھے، وہاں ایسا کوئی منتر اور جادو یاد نہیں‌ رہتا تھا۔

    شاگرد نے دیکھا کہ ایک طرف وہ پہلا مردہ کھڑا ہے اور دوسری طرف استاد جسے اس نے دوسرا منتر پوچھنے کے لیے جگایا تھا۔ اب تو وہ بہت پچھتایا، مگر اس بار بھاگنے کے سوا واقعی کوئی راستہ نہ بچا تھا۔

    شاگرد "یک نہ شد دو شد” کہتا ہوا ایک بار پھر بھاگ کھڑا ہوا۔