Tag: اردو کہاوتیں

  • چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    یہ سرزمینِ عرب کے ایک بادشاہ اور اس کے مصاحبِ خاص کا قصّہ ہے جس میں‌ ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں ایک روز کسی طرح ایک شخص دربار میں‌ داخل ہونے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے۔ اندر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بادشاہ آج کسی بات پر خوش ہے اور دربار کا ماحول بہت اچھا ہے۔

    اس شخص نے بادشاہ کو سلام کرکے عاجزانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس نے کہا کہ میں بے روزگار ہوں، جو کام مل جاتا ہے، کر لیتا ہوں اور محنت سے جی نہیں‌ چراتا، مگر کچھ عرصے سے قسمت نے یاوری نہ کی اور بہت تنگی سے گزر بسر کرتا رہا، اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

    بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو کہا۔ "سیاسی (یعنی معاملہ فہم اور دانا) ہوں۔”

    بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ کام پر لگ گیا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے اسے طلب کرکے اپنے سب سے چہیتے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔

    اس شخص نے جو اب شاہی سواری کے لیے مخصوص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج تھا، جواب دیا، "حضور، وہ نسلی نہیں ہے۔”

    یہ سن کر بادشاہ کو تعجب ہوا۔ اس نے سائیس کو بلاکر اس بابت دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے، لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر زندہ رہا اور اسی کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔

    بادشاہ نے انچارج سے پوچھا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔؟

    اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سَر نیچے کر لیتا ہے جب کہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سَر کو اٹھا لیتا ہے۔

    بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے داد اور انعام کے طور پر اصطبل کے رئیس کے گھر اناج، بھنے دنبے اور حلال پرندوں کا عمدہ گوشت بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ملکہ کے محل میں تعیناتی کا حکم بھی جاری کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس مصاحب سے اپنی زوجہ کے بارے رائے مانگی۔

    اس نے کہا، طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن "شہزادی نہیں ہے۔” یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصّہ آیا، اور اس نے اپنی ساس جو خود ایک ملک کی ملکہ تھی، کو بُلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے بچّی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ آپ کے لیے مانگ لیا تھا، لیکن وہ ایک بیماری کے سبب سال بھر ہی زندہ رہ سکی اور ہم نے بادشاہ یعنی آپ کے والد سے تعلق اور قرابت داری کے لالچ میں کسی کی بچّی گود لے کر پالی اور اسی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔

    اب بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ "تم نے کیسے جان لیا کہ میری زوجہ کسی شاہی خاندان کی عورت نہیں ہے۔”

    اس نے کہا، "وہ اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی میں کسی جاہل سے بھی بدتر ہیں۔”

    اب تو بادشاہ نے اس شخص کو دانا اور نہایت عقل مند مان لیا۔ اس نے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام بھی دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں خاص منصب عطا کیا۔

    کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا کہ میرے بارے میں کچھ بتاؤ۔

    اس مصاحبِ خاص نے کہا، "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔” بادشاہ نے امان کا وعدہ کیا، اس نے کہا: "آپ کا طور طریقہ اور چلن بتاتا ہے کہ آپ بادشاہ زادے نہیں‌ ہیں۔”

    بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا، مگر وہ جان کی امان دے چکا تھا، سو چپ رہا اور سیدھا اپنی ماں کے پاس گیا۔ اس نے اپنے بارے میں ماں سے دریافت کیا تو اس نے بتایا:

    "اس مصاحب کی بات سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو ہم نے تمھیں لے کر پالا اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دی کہ تم ہماری حقیقی اولاد نہیں‌ ہو۔”

    بادشاہ نے مصاحب کو پھر بلایا اور پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ہوا؟”

    اس نے کہا، جب شاہانِ وقت کسی کو انعام و اکرام دینا چاہتے ہیں تو اسے ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں اور اشرفیوں میں‌ تولتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ بکریوں اور بھنا ہوا گوشت عنایت کرتے ہیں جیسے ایک معمولی رئیس کا طور ہوتا ہے۔”

    یہ حکایت اس وقت بیان کی جاتی ہے جب کسی کی خاص عادت اور طرزِ عمل کی بنیاد پر اس کے خصائل اور اخلاقی حالت کے بارے میں رائے دینا ہو۔

  • منہ سے نکلی بات پرائی ہوئی…!

    منہ سے نکلی بات پرائی ہوئی…!

    آپ نے سنا ہو گا کہ منہ سے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بات جو منہ سے نکلی پرائی ہوئی۔ دنیا بھر کی تہذیب و ثقافت اور لوک ادب میں‌ ایسی کہاوتیں، محاورات اور امثال عام ہیں جن سے انسان کو شعور اور آگاہی ملتی ہے۔ ایک ایسا ہی سبق آموز قصہ ہم یہاں آپ کی دل چسپی اور توجہ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    یہ ایک چھوٹی سی ریاست کے بادشاہ اور اس کے وزیرِ خاص کا قصہ ہے۔اس بادشاہ کو کسی نے برہنہ سَر نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت اپنا سَر ڈھانپ کے رکھتا تھا۔ عوام اور خواص سبھی اس کی وجہ جاننا چاہتے تھے، لیکن بادشاہ سے اول تو ہر کوئی اس کی وجہ پوچھ نہیں سکتا تھا اور اگر کسی نے یہ جرات کی بھی تو بادشاہ نے کمال مہارت سے اسے ٹال دیا۔

    ایک روز وزیرِ خاص نے بڑی ہمت کر کے بادشاہ سے سَر کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھنے کی وجہ پوچھ لی۔ حسبِ سابق بادشاہ نے وزیر کا دھیان بٹانے کی کوشش کی اور چاہا کہ کسی طرح وہ اپنے سوال سے پیچھے ہٹ جائے، لیکن وزیر نے بھی بادشاہ کو یہ راز بتانے پر مجبور ہی کر دیا۔ تاہم بادشاہ نے اسے کہا کہ وہ یہ راز اپنی حد تک رکھے گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اس شرط کو توڑا تو اسے سخت سزا بھگتنا ہو گی۔

    بادشاہ نے بتایا کہ اُس کے سَر پر ایک سینگ ہے، اِسی لیے وہ اپنا سر ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے۔

    بادشاہ اور وزیر کے درمیان ہونے والی اس بات کو چند دن ہی گزرے تھے کہ پورے شہر کو یہ بات پتا چل گئی۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور اسے سخت سزا دینے کا حکم جاری کردیا۔

    وزیر بہت سمجھ دار تھا۔ وہ جھٹ سے بولا، "بادشاہ سلامت! جب آپ بادشاہ ہو کر خود اپنے ہی راز کو نہیں چھپا سکے تو پھر آپ مجھ سے یا کسی اور سے کیسے یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کے راز کی حفاظت کرے گا۔ لہٰذا جتنی سزا کا حق دار میں ہوں اُتنی آپ کو بھی ملنی چاہیے۔”

    بادشاہ نے یہ سنا تو اس کا غصہ جاتا رہا اور اس نے وزیر کو معاف کردیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے انعام سے بھی نوازا۔ اس نے وزیر سے سیکھ لیا کہ انسان خود اپنے راز کی حفاظت کرتا ہے اور اگر وہ خود ایسا نہ کرے تو کسی دوسرے سے کیسے اس کی توقع کرسکتا ہے۔