Tag: اردو کی افسانہ نگار

  • عزیز احمد: افسانہ نگار اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کا تذکرہ

    عزیز احمد: افسانہ نگار اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کا تذکرہ

    افسانہ نگار، بہترین مترجم اور عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کی حیثیت سے عزیز احمد کا نام ان کی مختلف اصنافِ ادب میں عمدہ تصانیف کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ آج عزیز احمد کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد نے جہانِ ادب کے لیے اردو اور انگریزی زبانوں میں علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا۔ ایک نہایت قابل استاد اور ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے عزیز احمد نے کئی سال تدریس اور ادب کے شعبہ کو دیے اور 16 دسمبر 1978ء کو وفات پائی۔ حیدر آباد دکن کے ضلع تلنگانہ میں 11 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولنے والے عزیز احمد کی ابتدائی تعلیم اور بعد کے درجات کی تعلیم اس دور کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ میں مکمل ہوئی۔ عزیز احمد کے اساتذہ میں مولوی عبدالحق، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولوی وحید الدین سلیم، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور پروفیسر عبدالقادر سروری جیسے ممتاز ادبا شامل تھے۔ عزیز احمد ادب کا ذوق اپنی خاندانی فضا سے لے کر آئے تھے اور ان اساتذہ نے انہیں کندن بنا دیا۔ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے عزیز احمد کو نظامِ دکن نے مولوی عبدالحق کی سفارش پر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجا۔ عزیز احمد نے وہاں تعلیم مکمل کرنے کے دوران چند بڑے ادیبوں اور دانش وروں کے درمیان رہ کر ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ای، ایم، فورسٹر ان میں سے ایک ہیں۔ انگریزی اور فارسی میں ”آنرز“ کر کے عزیز احمد دکن واپس آئے تو جامعہ عثمانیہ میں ان کو انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ 1940ء میں ان کی شادی ہوگئی اور اسی دور میں اپنی قابلیت اور لیاقت کی بنیاد پر 1942 میں وہ نظام حیدرآباد کی بہو شہزادی در شہوار کے اتالیق مقرر ہوئے۔ عزیز احمد چار سال تک اس خانوادے سے منسلک رہے۔ اس خدمت کے بعد عزیز احمد نے 1946 میں دوبارہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر 1949میں ہجرت کرکے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی آگئے۔ یہاں عزیز احمد نے محکمہ اطلاعات 1957 تک خدمات انجام دیں۔ 1958ء میں انھوں نے لندن میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا جہاں وہ اپنی وفات تک مقیم رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔ وہ ایک محقّق اور نقّاد بھی تھے اور اسلامی علوم و ثقافت پر ان کی انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی سے متعلق گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ عزیز احمد کی انگریزی زبان میں‌ تحریر کردہ ان کتابوں کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ انور سدید لکھتے ہیں کہ عزیز احمد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی زبان کے علمی اور ادبی سرمائے میں اضافے کے لئے دوسری زبانوں کی ممتاز کتابوں کا ترجمہ ضروری ہے۔ انہوں نے نظریاتی تنقید کی قدیم ترین کتاب ارسطو کی ”بوطیقا“ کا ترجمہ سلیس اردو میں کیا۔ ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی اور شیکسپئر کے ڈرامے رومیو جیولیٹ کے علاوہ ابسن کے ایک ڈرامے کا ترجمہ معمار اعظم کے عنوان سے کیا۔ عزیز احمد کو شاعری پر بھی تخلیقی دسترس حاصل تھی۔

  • نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات

    نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات

    اردو ادب میں خدیجہ مستور کا نام ان کی تخلیقات کے سبب ہمیشہ زندہ رہے گا۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انھوں نے ناول بھی لکھے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد سماجی اور اخلاقی اقدار پر ہے اور ان میں سیاسی ماحول کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

    خدیجہ مستور کے افسانے’’محافظ الملک‘‘ کو اردو کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح آزادی کی تحریک اور قیامِ پاکستان پر ان کے ناول ’’آنگن‘‘ کو بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔

    آج خدیجہ مستور کی برسی ہے۔ خدیجہ مستور 26 جولائی 1982 کو لندن میں انتقال کرگئی تھیں۔

    اردو زبان کی اس نام ور افسانہ نگار نے 11 دسمبر 1927 کو بریلی (بھارت) میں آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والی خدیجہ مستور نے لاہور کو اپنا مستقر ٹھہرایا۔ خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن بھی اردو ادب میں صف اوّل کی افسانہ نگار شمار ہوتی ہیں۔ ان کا نام ہاجرہ مسرور ہے۔

    خدیجہ مستور نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942 میں کیا۔ ان کے ابتدائی افسانوں کے دو مجموعے ’’کھیل‘‘ اور ’’بوچھاڑ‘‘ کے نام سے منظرِ‌عام پر آئے اور پاکستان آنے کے بعد تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔

    خدیجہ مستور کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ نے بھی ناقدین اور قارئین کو متاثر کیا۔ آنگن وہ نامل ہے جسے اردو کے صفِ اول کے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس تخلیق پر انھیں آدم جی انعام بھی دیا گیا۔