Tag: اردو کی مشہور کتابیں

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)

  • "کون کیا ہے؟”

    "کون کیا ہے؟”

    "کون کیا ہے” (who Is Who) کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالاتِ زندگی اکثر چھپتے ہیں، جنہیں بیش تر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ فقط اُن ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے، یا اس لیے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔

    زمانہ بدل چکا ہے۔ قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے۔ وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔

    چناں چہ نئے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے "کون کیا ہے” کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے:

    ذکی الحِس۔ نئی دہلوی

    اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چائے نوشی سے) کافی بیزار رہے۔ پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔

    60ء میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چائے خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔

    ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلباء کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے۔)

    67ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔

    یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیش تر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔

    ان دنوں پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیش تر موضوع مصحفی سے اخذ کیے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چوں کہ مقالہ رسائل کے لیے نہیں، یونیورسٹی کے لیے ہے، اس لیے آپ نے شعرا کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں۔)

    اگر چائے اور سگرٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔

    دراصل آپ کے رویّے (اور تنقید) کا دار و مدار سگرٹوں اور چائے کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچیس پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔

    68ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں، لیکن چھان بین کرنے کے بعد 69ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ، جو اِنہیں اچھی طرح نہیں جانتے، اِنہیں نظر انداز کرتے ہیں، لیکن جو جانتے ہیں، وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔

    اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان (کافی ہاؤس میں) سنایا کرتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے : پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے)۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں، فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔

    کھیل کُود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔


    (مشہور مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے ایک شگفتہ پارہ)

  • فرشتۂ اجل اور دو آرزوئیں

    فرشتۂ اجل اور دو آرزوئیں

    لبنانی نژاد امریکی خلیل جبران کو دنیا ایک ایک عظیم مفکر اور تخلیق کار کی حیثیت سے جانتی ہے جس نے نثر اور شاعری دونوں اصناف میں اپنی تخلیقات اور اختراع سے نام کمایا۔

    لبنان کے اس نوجوان نے اپنے خاندان کے ساتھ امریکا ہجرت کی تھی جہاں فنونِ لطیفہ کی تعلیم مکمل کی اور ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران کے فلسفیانہ خیالات اور تخلیقات کا مغرب میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بعد میں ان کے مضامین اور شاعری کا کئی زبانوں‌ میں‌ ترجمہ کیا گیا، انھیں‌ دنیا کے چند سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔

    خلیل جبران کی یہ تمثیل ان کی کتاب آنسو اور ایک مسکراہٹ (1914) سے لی گئی ہے جو آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    دو آرزوئیں
    رات کی گہری خاموشی میں فرشتۂ اجل، خداوند کے حضور سے زمین کی طرف اترتا ہے۔ شہر پر منڈلاتے ہوئے، وہ گھروندوں پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتا ہے۔ اور خوابوں کے دوش پر اڑتی ہوئی روحوں کی پرواز ملاحظہ کرتا ہے اور نیند کے مزے لوٹتے فانی انسانوں کو دیکھتا ہے۔

    جب ماہتاب افق پر سے روپوش ہوتا ہے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو فرشتۂ اجل گھروں میں سے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے گزرتا ہے کہ کسی شے کو بھی نہ چھوئے، بالآخر وہ ایک عالی شان محل میں آن پہنچتا ہے۔

    مقفل دروازوں کو بغیر چھیڑے عبور کرتے ہوئے وہ ایک امیر آدمی کے سرہانے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اور پھر اپنی پیشانی پر موت کے سرد ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی نیند میں ڈوبا ہوا شخص دہشت کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دیتا ہے۔

    اور جب اس نے اپنے سرہانے اس عفریت کو دیکھا، تو وہ خوف اور غصہ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولا،” دفعہ ہو جاؤ، میرے ڈراؤنے خواب؛ میرا پیچھا چھوڑ دو اے بھیانک بھوت۔

    کون ہو تم ؟ اور اس جگہ پر گھسے کیسے ہو؟ کیا چاہیے ہے تمہیں؟ میرے گھر سے فورا نکل جاؤ۔ میں اس گھر کا مالک ہوں اور میں اپنے غلاموں اور محافظوں کو بلا لوں گا اور انہیں تمہیں مارنے کا حکم دے دوں گا۔

    فرشتۂ اجل نرم لیکن گرج دار آواز میں بولا، ” میں موت کا فرشتہ ہوں، اٹھو اور چلو میرے ساتھ!”

    وہ شخص بولا، کیا چاہتے ہو تم؟

    ابھی تک جب کہ میں نے اپنے دنیاوی کام دھندے ختم نہیں کیے ہیں تم کس لیے یہاں آن دھمکے ہو؟

    میرے جیسے طاقت ور شخص کے پاس تم کیوں کر آئے ہو، جاؤ اور کسی کم زور اور لاچار شخص کے پاس جاؤ اور اسے اپنے سنگ لے جاؤ۔

    ”مجھے تمہارے خونی پنجوں اور کھوکھلے چہرے سے گھن آتی ہے، اور میری آنکھیں تمہارے مہیب استخوانی پروں اور مردار جسم کو دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔”

    خوف و اضطراب کی اسی کیفیت میں تھوڑی دیر بعد وہ پھر گڑگڑایا، نہیں، نہیں، اے مہربان موت! میری اول فول باتوں کا برا نہ ماننا، کہ خوف کے عالم میں وہ سب بھی عیاں ہو جاتا ہے جس کو ہمارا دل چھپانا چاہتا ہے۔

    میرے سونے چاندی کے خزانوں میں سے جو دل چاہے لے لو، یا میرے کچھ غلاموں کی روحیں قبض کر لو، پر خدارا! میری جاں بخشی کر دو۔ ابھی میری زندگی میں بہت سے کام کرنے باقی ہیں؛ ابھی بہت سے لوگوں نے میرے مال و اسباب لوٹانے ہیں؛ میرے جہاز میرا سامان لے کر ابھی بندرگاہ پر نہیں اترے؛ میری بس اتنی سی خواہش ہے کہ میری جان بخش دو۔”

    اے موت! میرے حرم میں دنیا کی حسین ترین عورتیں موجود ہیں؛ ان میں سے تمہاری پسند کی کنیز میری طرف سے تمہارے لیے ایک تحفہ ہوگا۔ سنو اے موت میرا بس ایک ہی بیٹا ہے اور میں اسے بے حد چاہتا ہوں کہ زندگی میں میری خوشی صرف اسی سے وابستہ ہے۔میں اپنی سب سے قیمتی شے قربان کرتا ہوں۔ یوں کرو، میری جگہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ، پر مجھے چھوڑ دو۔

    موت کا فرشتہ بولا،” تم امیر نہیں بلکہ قابلِ رحم حد تک غریب ہو۔”

    پھر موت نے دنیا کے اس غلام کا ہاتھ پکڑا، اس کو فرشتوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے اصل حقیقت کا مزہ چکھائیں۔

    اور پھر فرشتۂ اجل غریبوں کی جھونپڑ پٹیوں میں سے چلتا ہوا سب سے مفلس شخص کے مکان پر پہنچا۔ گھر میں داخل ہو کر وہ ایک جوان کے بستر کے قریب پہنچا جو کہ دہرا ہو کر اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ موت نے اس کی آنکھوں کو چھوا، جب اس جوان نے موت کو اپنے سرہانے دیکھا تو وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا اور بھرپور محبت سے بولا،

    ” اے حسین موت! میں حاضر ہوں۔ میری رو ح کو قبول کرو۔

    کیوں کہ تم میرے خوابوں کی آس ہو۔ ان کی تکمیل بنو! مجھے اپنے سینے سے لگا لو،
    اے میری محبوب موت! تم بہت مہربان ہو؛ مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔

    تم خداوند کی نامہ بر ہو، مجھے اس کے پاس لے چلو۔ تم صداقت کا سیدھا رستہ ہو اور دردمندی کا قلب ہو؛ مجھ سے غافل مت بنو۔

    ” میں نے بیسیوں بار تمہاری تمنا کی ، لیکن تم نہ آئیں؛ میں نے تمہاری چاہت کی مگر تم مجھ سے گریزاں ہی رہیں؛ میں تمہیں صدائیں لگاتا رہا مگر تم نے میری ایک نہ سنی لیکن اب تم نے میری عرض سن لی ہے- میری روح کو اپنے سینے سے لگا لو، محبوب موت!”

    موت نے اپنے مہربان ہاتھ اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر رکھے، اس کی تمام تلخیوں کا خاتمہ کیا اور حفاظت سے لے جانے کے لیے اسے اپنے پروں میں سمیٹ لیا۔ اور آسمان کی طرف جاتے ہوئے ایک خاموش نصیحت کی۔

    ”صرف وہ لوگ ہی ابدیت حاصل کر پاتے ہیں ، جو زمین پر ابدی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔”

    (اس تمثیل کے مترجم خلیل الرحمان ہیں)

  • حمق کا عارضہ….

    حمق کا عارضہ….

    ادب نگری میں فسانہ آزاد کو ناول اور بعض ناقدین نے داستان شمار کیا ہے۔ اسے اردو ادب کے عہدِ اولین کا ایک خوب صورت نقش ضرور تسلیم کیا جاتا ہے جس کے مصنف پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری ہیں۔ کہتے ہیں یہ 1878 کا ناول ہے جو 1880 میں پہلی بار کتابی شکل میں شایع ہوا۔

    اس کا ہیرو ’’آزاد‘‘ ایک ذہین بانکا اور خو برو نوجوان ہے جو علم و فن میں یکتا ہے۔ جہاں گشت ہے اور ایک دوشیزہ پر دل و جان سے فدا ہوجاتا ہے جو اسے دنیا میں نام ور اور مشہور ہونے کو کہتی ہے، تب یہ نوجوان میدانِ جنگ میں شجاعت اور جواں مردی دکھاتا ہے اور بدیس میں اس کا چرچا ہوتا ہے۔

    اس داستان کو مختلف عنوانات کے تحت سمیٹا گیا ہے جس کا یہ ٹکڑا آپ کی دل چسپی اور توجہ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس داستان کے ہیرو کا غم کے ایک موقع پر دوسرے کردار سے مکالمہ ہے۔

    حمق کا عارضہ

    ۔۔۔۔میاں آزاد کا دل بھر آیا۔ رقیق القلب تو تھے ہی آٹھ آٹھ آنسو روئے۔ ایک مرد آدمی سے جو قریب بیٹھے تھے، پوچھا: یاحضرت! بھلا یہ پیر مرد کس عارضے میں مبتلا تھے۔

    اس نے آہ سرد کھینچ کر کہا کہ یہ نہ پوچھیے حمق کا عارضہ تھا۔

    کیا حمق، یہ کون سا عارضہ ہے؟

    صاحب قانونچے میں اس کا کہیں پتا نہیں۔ طبِ اکبر میں اس کا ذکر بھی نہیں. یہ نیا عارضہ ہے۔ جی اُمّ العوارض ہے۔

    ذرا اس کے علامات تو بتائیے؟

    اجی حضرت کیا بتاؤں۔ عقل کی مار اس کا خاص باعث ہے۔

  • دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منہ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔

    ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔

    آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔

    اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔‘‘

    بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھویں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوف ناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔‘‘

    لے دے کر سارے گھر میں ایک غم گسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی۔‘‘

    بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔

    بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔

    کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔

    کنہیا لال کپور کے مضمون "مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ” سے انتخاب

  • مولوی سمیع اللہ کی دکان

    مولوی سمیع اللہ کی دکان

    جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے بالمقابل اردو بازار میں مفتی کفایت اللہ صدر جمیعت العلمائے ہند کے داماد مولوی سمیع اللہ کی کتابوں کی دکان ادیبوں، شاعروں اور علم و ادب کا ذوق رکھنے والوں کی بیٹھک تھی۔

    مولوی سمیع اللہ بے حد منکسرالمزاج اور مجسم اخلاق تھے۔ آپ ان کی دکان پر کسی وقت بھی چلے جاتے، کسی نہ کسی علمی، ادبی یا سیاسی شخصیت سے ضرور مڈ بھیڑ ہوجاتی۔ ان میں دلی والے بھی ہوتے اور باہر سے آنے والے بھی۔

    اسی دکان پر میری ملاقات مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا محمد باقر، نخشب جارچوی، شکیل بدایونی، روش صدیقی، انور صابری اور مولانا امداد صابری سے ہوئی۔ غالباً انور صابری کو چھوڑ کر باقی حضرات اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

    حمید ہاشمی سے بھی طفیل احمد جمالی نے مجھے مولوی سمیع اللہ کی دکان ہی پر ملایا تھا۔

    حمید ہاشمی قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے اور روزنامہ ”امروز“ کے ادارتی عملے میں شامل تھے۔ قاہرہ کے الم ناک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی انیس ہاشمی کراچی کی نمایاں سیاسی و سماجی شخصیتوں میں سے تھے۔

    (معروف ادیب، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی دہلی میں قیام کے تذکروں سے ایک ورق)

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    شعرائے متاخرین، ناقدین اور ہر دور میں اردو زبان و ادب کی نادرِ روزگار ہستیوں نے جسے سراہا، جسے ملکِ سخن کا شہنشاہ مانا، وہ میر تقی میر ہیں۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کی ایک مشہور غزل جس کا مطلع اور اکثر پہلا مصرع آج بھی موضوع کی مناسبت سے ہر قول، تقریر، کہانی، قصے، تحریر کا عنوان بنتا ہے اور خوب پڑھا جاتا ہے۔

    یہ غزل باذوق قارئین کے مطالعے کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

  • وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔

    ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشراتُ الارض کا۔

    زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔

    بستی، گھر اور زبان خاموش۔ درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔ مٹی، موسم اور لب خشک۔ ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیں مارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی، جہاں سے مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ لوگ پہلے نڈھال ہوئے پھر بےحال۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔

    زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط میں زمین کا حال تھا۔

    ابر دل کھول کر برسا، چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بھی پانی چڑھ آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا جل تھل ہوا کہ سبھی تر دامن ہو گئے۔ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا بُرد ہوئے اور ہوش و خرد مئے ناب میں غرق۔ دن ہوا و ہوس میں کٹنے لگا اور رات ناؤ نوش میں۔ دن کی روشنی اتنی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں، رات کا شور اتنا بلند تھا کہ ہر آواز اس میں ڈوب گئی۔

    کارواں نے راہ میں ہی رختِ سفر کھول دیا۔ لوگ شاد باد کے ترانے گانے لگے، گرچہ منزلِ مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط الرجال میں اہلِ زمین کا حال تھا۔ شاعر نے جو یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھا:

    بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
    بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں!

    دل گرفتگی نے کہا، ایسی شادابی اس ویرانی پر قربان جہاں مادرِ ایام کی ساری دخترانِ آلام موجود ہوں، مگر وبائے قحط الرجال نہ ہو۔ اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔

    (اس نقشِ دل پزیر کے خالق مختار مسعود ہیں)