Tag: اردو کے مزاح نگار

  • "گفتگو کا آرٹ”

    "گفتگو کا آرٹ”

    جو کچھ کہنے کا ارادہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے، وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر جی چاہے باتیں کیجیے۔

    اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا، تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا (بور وہ شخص ہے جو اس وقت بولتا چلا جائے، جب آپ بولنا چاہتے ہوں)

    چناں چہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کردیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجیے۔

    اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا، تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔ ’’ابھی آیا۔۔۔‘‘ کہہ کر باہر چلے جائیے یا وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہوجائے گا۔ مجلسی تکلفات بہتر ہیں یا اپنی ذہانت پر شبہ کروانا؟ البتہ لڑائیے مت، کیوں کہ اس سے بحث میں خلل آسکتا ہے۔

    کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے کبھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کرکے انہیں خاموش کرادیجیے، ورنہ وہ خواہ مخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔

    دورانِ گفتگو لفظ ’آپ‘ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز ’میں‘ ہے۔ اگر آپ نے آپ اپنے متعلق نہ کہا، تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔

    تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کیجیے۔ کبھی کسی کی تعریف مت کیجیے۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ اسے کسی کام کے لیے کہنا چاہتے ہیں۔

    اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا مطلوب ہو، جسے وہ چھپا رہا ہو، تو بار باراس کی بات کاٹ کر اسے چڑا دیجیے۔ وکیل اسی طرح مقدمے جیتتے ہیں۔

    (اردو زبان کے مشہور مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمان کے مضمون کلیدِ کامیابی سے اقتباس)

  • جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    ہم پاکستان کے ممتاز اور نام ور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے دیکھا ہے۔ وہ صرف رات کو اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد پینٹ کرتے ہیں۔ کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن جب سے خود ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا ہم سائے کے بارے میں بدگمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔

    کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے

    انہیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ ان کی تصویریں بنا کے لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے (ہم نے نہیں) مذاق میں کہہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں اس میں تو تین زندہ گھوڑے باآسانی آسکتے ہیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ اس کے بعد وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔

    یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار موشماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دُم بناتے ہیں اس کا سو واں حصہ بھی گھوڑے اور سوار پر صرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنالٹی کھچ کر دُم میں آجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ایک ایک بال پر مالکانہ شفقت سے ہاتھ پھیر کے دُم بنائی ہے۔

    چناں چہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیے تو وہ فقط دُم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لیے طوعاً وکرہاً بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی ہے تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے تھے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہوجائے۔

    بلبل فقط آواز ہے طاﺅس فقط دُم

    یوں بنانے کو تو انہوں نے البیلے اونٹ بھی بکثرت بنائے ہیں اور الٹے بانس بریلی بھیجے ہیں۔ یعنی درجنوں کے حساب سے عرب ممالک کو روغنی اونٹ ایکسپورٹ کیے ہیں۔ ان کے بعض اونٹ تو اتنے منہگے ہیں کہ صرف بینک، شیوخ، غیر ملکی سفارت کار اور مقامی اسمگلر ہی خرید سکتے ہیں۔

    یونائیٹڈ بینک نے ان سے جو نایاب اونٹ خریدے وہ اتنے بڑے نکلے کہ ان کے ٹانگنے کے لیے ہال کے بیچوں بیچ ایک دیوار علیحدہ سے بنوانی پڑی لیکن انہیں دیکھ کر شیوخ اتنے خوش ہوئے کہ بعض نے اصل یعنی بالکل انہی جیسے اونٹوں کی فرمائش کردی۔ اب بینک اس مخمصے میں پڑگیا کہ:

    ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے

    جب ہم بینک سے متعلق و منسلک ہوئے تو ایک دن ہمت کرکے گل جی سے کہا کہ حضور اگر آپ آیندہ ایسے اونٹ بنائیں جو اس عالمِ آب و گل میں با آسانی دست یاب ہوجایا کریں تو بینک کو شیوخ کی فرمائش پوری کرنے میں آسانی رہے گی۔ نوکری کا سوال ہے۔

    بہرکیف گل جی کے اونٹ میں وہ گھوڑے والی بات پیدا نہ ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے، کہاں گھوڑے کی تابہ زانو گھنیری چنور شاہی دُم، کہاں اونٹ کی پونچھڑی!

    دُم نہیں دُم کا ٹوٹا کہیے۔ مرزا کہتے ہیں کہ اس سے تو ڈھنگ سے شُتر پوشی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہر جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم“ سے اقتباس)