Tag: اردو کے مشہور ادیب

  • ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ کے بڑے بھائی کو ہم لوگ ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ ہی کہا کرتے تھے، ورنہ محض بخاری صاحب کہنے میں سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کون سے بخاری صاحب، بڑے یا چھوٹے؟

    اور پورا نام لینے میں یعنی احمد شاہ بخاری اور ذوالفقار علی بخاری کہنے میں کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اتنی سی تو عمر ہے اتنے بڑے بڑے نام لے کر اس کی خواہ مخواہ فضول خرچی کیوں کی جائے۔

    لہٰذا ریڈیو والے عموماً ان دونوں بھائیوں کو ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ ہی کہنے میں کفایت شعاری کے زرّیں اصول پر عمل کیا کرتے تھے، لیکن یہ میں نے بیچ دھڑے سے ریڈیو کی بات کہاں شروع کردی۔ ریڈیو سے تو میرا تعلق اس وقت پیدا ہوا ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا لکھنؤ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے اور میں ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ سے بحیثیت پطرس کے اس سے پہلے ہی مل چکا تھا۔

    یعنی اس وقت جو میں لکھنؤ سے بحیثیت ’’ٹاکر‘‘ تقریباً ہر ہفتہ آل انڈیا ریڈیو دہلی جایا کرتا تھا اور تاکے بیٹھا تھا کہ پطرس سے ملاقات ہوتے ہی ان کو بھی اسی طرح پھانس لوں گا (کتاب کا مقدمہ لکھوانے کے لیے) جس طرح مولانا نیاز فتح پوری، عظیم بیگ چغتائی، فرحت الله بیگ اور رشید احمد صدیقی کو پھانس چکا ہوں۔

    اپنے ایک مجموعہ مضامین پر مولانا نیاز فتح پوری سے مقدمہ لکھوا چکا تھا۔ اس مجموعے کا نام ’’بحرِ تبسم‘‘ تھا۔ دوسرے مجموعہ ’’سیلابِ تبسم‘‘ پر مرزا عظیم بیگ چغتائی سے مقدمہ لکھوایا تھا۔ تیسرے مجموعہ ’’طوفانِ تبسم‘‘ پر مرزا فرحت الله بیگ نے مقدمہ لکھا تھا۔ چوتھے مجموعہ ’دنیائے تبسم‘‘ پر رشید احمد صدیقی کا مقدمہ تھا اور اب ایک اور مجموعہ پر مقدمہ لکھنے کو پطرس بخاری پر نشانہ باندھ چکا تھا۔

    چناں چہ ایک مرتبہ جو اپنی تقریر نشر کرنے دہلی گیا تو اس نئے مجموعے سے مسلح ہو کر گیا اور بخاری صاحب کو ان کے دفتر میں جالیا۔ بڑے خلوص سے ملے بلکہ مجھ کو کچھ شبہ سا ہونے لگا کہ میں ان سے پہلی مرتبہ نہیں مل رہا ہوں، یعنی ان سے مرعوب ہونا چاہتا اور وہ اس کا موقع ہی نہ دیتے تھے۔

    ہرچند کہ وہ اس وقت ڈپٹی کنٹرولر براڈ کاسٹنگ کی کرسی پر بیٹھے تھے، مگر مجھ کو اس سے کیا میں تو ایک عظیم مزاح نگار کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند کی حیثیت سے حاضر تھا اور ان کی عظمت کا احساس مجھ پر طاری تھا۔ جس کو وہ اپنے انتہائی یگانگت اور مساوات کے برتاؤ سے غیر محسوس بنائے دیتے تھے۔ آخر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں حرفِ مطلب زبان پر لایا اور بخاری صاحب سے اپنے نئے مجموعہ مضامین پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی تو بڑی خندہ پیشانی سے بولے،

    ’’یہ کیا مقدمہ بازی لے بیٹھے آپ؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں یہ چھوٹا منہ بڑی بات ضرور ہے، مگر میں آپ سے وعدہ لیے بغیر ٹلنے والا نہیں ہوں۔‘‘ کچھ ہنستی ہوئی آنکھوں سے گھورا۔ کچھ سر پر ہاتھ پھیرا اور گویا عاجز آکر مسکراتے ہوئے بولے، ’’اگر آپ اپنے مقدمہ نگاروں کی ٹیم ہی مکمل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے لکھ دوں گا مقدمہ۔‘‘

    وہ وعدہ لے کر میں بڑے فاتحانہ انداز سے واپس آیا، مگر اس ملاقات کے بعد ہی حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ آل انڈیا ریڈیو نے لکھنؤ میں بھی اپنا اسٹیشن کھول دیا اور اس اسٹیشن کے ڈائریکٹر جگل کشور مہر اور پروگرام ڈائریکٹر ملک حسیب احمد نے اپنے محکمہ کو نجانے کیا پٹی پڑھائی کہ مجھ کو بھی صحافت چھوڑ کر ریڈیو سے وابستہ ہوجانا پڑا۔

    اور اس کے چند ہی دن بعد میرا وہ مسوّدہ جو میں بخاری صاحب کے پاس چھوڑ آیا تھا مجھ کو ان کے اس خط کے ساتھ واپس مل گیا کہ ’’اب آپ کو ریڈیو میں ایک منصب حاصل ہوچکا ہے، عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ مجھ سے مقدمہ نہ لکھوائیں اور میں مقدمہ نہ لکھوں۔‘‘ بات بھی ٹھیک تھی لہذا یہ ارمان دل کا دل ہی میں رہ گیا اور بقول بخاری صاحب کے میری مقدمہ نگاروں کی ٹیم مکمل نہ ہوسکی۔

    (نام وَر ادیب اور شاعر شوکت تھانوی نے یوں تو ادب کی مختلف اصناف میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب لکھا، لیکن ان کی وجہِ شہرت طنز و مزاح ہے، پیشِ نظر پارہ ان کی ایک شگفتہ تحریر سے لیا گیا ہے)

  • بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    منٹو کی باتیں بڑی دل چسپ ہوتی تھیں۔ انھیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں، اس لیے وہ اپنے آگے کسی کو گردانتے نہ تھے۔

    ذرا کسی نے دُون کی لی اور منٹو نے اڑ لگایا، خرابیِ صحّت کی وجہ سے منٹو کی طبیعت کچھ چڑچڑی ہو گئی تھی۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے جو لوگ ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے، وہ ان سے بات کرنے میں احتیاط برتا کرتے تھے۔

    اُن کا مرض بقول ان کے کسی ڈاکٹر سے تشخیص نہ ہو سکا۔ کوئی کہتا دق ہے، کوئی کہتا معدے کی خرابی ہے، کوئی کہتا جگر کا فعل کم ہو گیا ہے، اور ایک ستم ظریف نے کہا کہ تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اور انتٹریاں بڑی ہیں، مگر منٹو ان سب بیماریوں سے بے پروا ہو کر ساری بد پرہیزیاں کرتا رہا۔

    منٹو کی زبان پر ’’فراڈ‘‘ کا لفظ بہت چڑھا ہوا تھا۔ میرا جی کے ہاتھ میں دو لوہے کے گولے رہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، ان کا مصرف کیا ہے؟ منٹو نے کہا، فراڈ ہے۔ میرا جی نے سیویوں کے مزعفر میں سالن ڈال کر کھانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ منٹو نے کہا ’’فراڈ‘‘۔ اوپندر ناتھ اشکؔ نے کوئی چیز لکھی، منٹو نے کہا فراڈ ہے۔ اُس نے کچھ چیں چیں کی تو کہا ’’تُو خود ایک فراڈ ہے۔‘‘

    ("سعادت حسن منٹو کی یاد میں” از شاہد احمد دہلوی)

  • زبان، دل کی امین اور روح کی ایلچی!

    زبان، دل کی امین اور روح کی ایلچی!

    اے میری بلبل ہزار داستان! اے میری طوطیِ شیوہ بیان! اے میری قاصد! اے میری ترجمان! اے میری وکیل! اے میری زبان، سب بتا۔ تُو کس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا ہے اور تیرے ہر پھل میں ایک نیا مزہ ہے۔

    کبھی تُو ایک ساحر، فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد، نہ جادو کا اتار۔ کبھی تو ایک افعیِ جاں گداز ہے، جس کے زہر کی دارو، نہ کاٹے کا منتر۔

    تُو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی اور کبھی اپنی شوخیوں سے ماں باپ کا دل دکھاتی تھی۔ تُو وہی زبان ہے کہ جوانی میں کہیں اپنی نرمی سے دلوں کا شکار کرتی تھی اور کہیں اپنی تیزی سے سینوں کو فگار کرتی تھی۔

    اے میری زبان دشمن کو دوست بنانا اور دوست کو دشمن کر دکھانا تیرا ایک کھیل ہے جس کے تماشے سیکڑوں دیکھے اور ہزاروں دیکھنے باقی ہیں۔

    ارے میری بنی بات کی بگاڑنے والی، میرے بگڑے کاموں کو سنوارنے والی۔ روتے کو ہنسانا اور ہنستے کو رلانا، روٹھے کو منانا اور بگڑے کو بنانا نہیں معلوم تُو نے کہاں سیکھا؟ اور کس سے سیکھا؟ کہیں تیری باتیں بِس کی گانٹھیں ہیں۔ اور کہیں تیری بول شرب کے گھونٹ ہیں۔ کہیں تُو شہد ہے اور کہیں حنظل۔ کہیں تو زہر ہے اور کہیں تریاق۔

    اے زبان ہمارے بہت سے آرام اور بہت سی تکلیفیں۔ ہمارے ہزاروں نقصان اور ہزاروں فائدے، ہماری عزت، ہماری ذلّت۔ ہماری نیک نامی، ہماری بدنامی، ہمارا جھوٹ، ہمارا سچ تیری ایک ہاں اور ایک نہیں پر موقوف ہے۔ تیری اس ہاں اور نہیں نے کروڑوں کی جانیں بچائیں اور لاکھوں کا سَر کٹوایا۔

    اے زبان تُو دیکھنے میں تو ایک پارۂ گوشت کے سوا نہیں، مگر طاقت تیری نمونۂ قدرتِ الٰہی ہے۔ دیکھ اس طاقت کو رائیگاں نہ کر۔ اور اس قدرت کو خاک میں نہ ملا۔ راستی تیرا جوہر ہے اور آزادی تیرا زیور۔ دیکھ اس جوہر کو برباد نہ کر اور اس زیور کو زنگ نہ لگا۔

    تُو دل کی امین ہے اور روح کی ایلچی۔ دیکھ دل کی امانت میں خیانت نہ کر۔ اور روح کے پیغام پر حاشیے نہ چڑھا۔

    اے زبان! تیرا منصب بہت عالی ہے اور تیری خدمات نہایت ممتاز۔ کہیں تیرا خطاب کاشفِ اسرار ہے اور کہیں تیرا لقب محرمِ راز۔ علم ایک خزانہ غیبی ہے۔ اور دل اس کا خزانچی۔ حوصلہ اس کا قفل ہے۔ اور تو اس کی کنجی دیکھ اس قفل کو بے اجازت نہ کھول۔ اور اس خزانے کو بے مواقع نہ اٹھا۔ وعظ و نصیحت تیرا فرض ہے اور تلقین و ارشار تیرا کام۔

    ناصحِ مشفق تیری صفت ہے اور مرشد بَرحق تیرا نام۔ خبردار! اس نام کو عیب نہ لگانا اور اس فرض سے جی نہ چرانا، ورنہ یہ منصب عالی تجھ سے چھن جائے گا اور تیری بساط میں وہی ایک گوشت کا چھچڑا رہ جائے گا۔ کیا تجھ کو یہ امید ہے کہ تو جھوٹ بھی بولے اور طوفان بھی اٹھائے۔ تُو غیبت بھی کرے اور تہمت بھی لگائے۔ تُو فریب بھی دے اور چغلیاں بھی کھائے اور پھر وہی زبان کہلائے۔ نہیں! ہرگز نہیں!

    اگر تُو سچی زبان ہے تو زبان ہے، ورنہ زبوں ہے بلکہ سراسر زیاں ہے۔ اگر تیرا قول صادق ہے تو شہد فائق ہے، ورنہ تھوک دینے کے لائق ہے۔ اگر تو راست گفتار ہے تو ہمارے منہ میں اور دوسروں کے دلوں میں جگہ پائے گی ورنہ گدی سے کھینچ کر نکالی جائے گی۔

    اے زبان! یاد رکھ ۔ ہم تیرا کہا نہ مانیں گے اور تیرے قابو میں ہرگز نہ آئیں گے۔ ہم تیری ڈور ڈھیلی نہ چھوڑیں گے اور تجھے مطلق العنان نہ بنائیں گے۔ ہم جان پر کھیلیں گے، پَر تجھ سے جھوٹ نہ بلوائیں گے۔ ہم سَر کے بدلے ناک نہ کٹوائیں گے۔

    الٰہی! اگر ہم کو رخصتِ گفتار ہے تو زبان راست گفتار دے اور دل پر تجھ کو اختیار ہے، زبان پر ہم کو اختیار دے۔ جب تک دنیا میں رہیں سچّے کہلائیں۔ اور جب تیرے دربار میں آئیں تو سچّے بن کر آئیں (آمین)

    (انشائیہ از خواجہ الطاف حسین حالی)

  • اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

    اردو ادب میں‌ منفرد و ممتاز، ممتاز مفتی کی برسی

    ممتاز مفتی اردو ادب کا وہ معتبر نام ہے جس نے اپنے ناولوں، افسانوں سے تخلیقی ادب میں اپنی پہچان بنائی اور اپنے سفر ناموں کے سبب مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ خاکہ نگاری اور ڈراما نویسی کے علاوہ ان کے مضامین بھی اردو ادب کا نثری سرمایہ ہیں۔

    اپنی فکر و نظر کی گہرائی سے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کی مختلف اصناف کو نئے موضوعات اور نئی معنویت سے ہمکنار کرنے والے ممتاز مفتی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا سوانحی ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ اور ’’الکھ نگری‘‘ قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ اسی طرح ان کے سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی جب کہ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔

    ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • ہر محفل میں جچنے والے ابراہیم جلیس کی برسی

    ہر محفل میں جچنے والے ابراہیم جلیس کی برسی

    اردو کے ممتاز ادیب اور نام وَر صحافی ابراہیم جلیس 26 اکتوبر 1977ء کو دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ طنز و مزاح پر مبنی کالم، ادبی مضامین اور افسانے ان کی پہچان ہیں، صحافت ابراہیم جلیس کا پیشہ تھا۔

    ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ وہ 11 اگست 1922ء کو بنگلور میں پیدا ہوئے لیکن ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ، حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کے بعد لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔

    1948ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، حریت اور مساوات شامل تھے۔ وہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے مدیر بنے اور جب 1977ء میں مارشل کے دوران پابندیاں عائد کی گئیں تو انھوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اسی زمانے میں دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کی موت ہوئی۔ 1989ء میں حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی دینے کا اعلان کیا تھا۔

    ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری کا سفر شروع ہوا تو پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ نے انھیں‌ اپنے شمارے میں جگہ دی۔ انھوں نے طنز و مزاح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے اہم اور معتبر اخبار اور رسائل میں ان کے کالم شایع ہوئے جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ابراہیم جلیس نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے، سفر نامے، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی ان کے قلم سے نکلے تو یادگار ٹھہرے۔ فلمی دنیا اور ریڈیو کے لیے بھی انھوں نے اسکرپٹ اور ڈراما تحریر کیا اور اپنے قلم کو مختلف اصنافِ ادب میں آزمایا۔

    اردو زبان کے اس نام ور ادیب کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس نے انشائیے بھی لکھے اور اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔

    ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں: ’’ابراہیم جلیس ہر محفل میں جچتے تھے۔ بچوں کی محفل میں بچوں کی سی باتیں، ادیبوں اور شاعروں میں ادب اور شاعری کی باتیں، صحافیوں میں صحافت کی باتیں۔ سنجیدہ محفل میں سنجیدہ باتیں اور محفل طرب میں شگفتہ باتیں کرتے تھے۔ وہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کرتے تھے، درد مند انسان تھے، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر انسان اور انسانیت کا احترام کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی غلط راستے کا انتخاب نہیں کیا، مظلوموں کا ساتھ دیا، ان کی زندگی سادگی سے عبارت تھی۔‘‘

  • ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ایک دن آغا عصرِ جدید کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ آغا باتیں کر رہے تھے۔ ہم سب بُت بنے بیٹھے سن رہے تھے۔ اتنے میں سید ذاکر علی جو ان دنوں کلکتہ خلافت کمیٹی کے سکریٹری تھے اور آج کل مسلم لیگ کے جائنٹ سکریٹری ہیں، پھرتے پھراتے آ نکلے۔

    تھوڑی دیر وہ چپکے بیٹھے آغا کی باتیں سنا کیے، لیکن پھر ان کے چہرے سے بے چینی کے آثار ظاہر ہونےلگے۔ کچھ تو انھیں یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شخص بیٹھا باتیں کیے جارہا ہے اور کسی دوسرے کو بات نہیں کرنے دیتا کیوں کہ سید صاحب خود بھی بڑے بذلہ سنج اور لطیفہ گو بزرگوار ہیں اور انھوں نے اگلے پچھلے ہزاروں لطیفے یاد کر رکھے ہیں اور غالباً اس وقت انہیں کوئی نیا لطیفہ یاد آگیا جسے سنانے کے لیے وہ بے قرار تھے۔ دوسرے آغا کی گفتگو میں خود ستائی کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اور وہ اپنی شاعری کا تذکرہ کر رہے تھے اور اپنے بعض ہم عصر شعرا پر چوٹیں بھی کرتے جاتے تھے۔

    سید ذاکر علی کو ان کی باتوں پر غصہ بھی تھا اور حیرت بھی۔ جی ہی جی میں کہہ رہے تھے کہ خدا جانے یہ کون شخص ہے جو اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں کا ذکر اس انداز میں کر رہا ہے گویا سب ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست اور بچپن کے رفیق ہیں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور کہنے لگے۔ ‘‘یہ کون بزرگوار ہیں، ذرا ان سے میرا تعارف تو کرادیجیے۔’’

    مولانا شائق بولے۔ ‘‘آپ ان کو نہیں جانتے۔ آغا حشر یہی ہیں، آغا صاحب یہ سید ذاکر علی ہیں کلکتہ خلافت کمیٹی کے نئے سکریٹری۔ مولانا شوکت علی نے ان کو بمبئی سے بھیجا ہے۔’’

    ہم سمجھتے تھے کہ اس معرفی کے بعد سید ذاکر علی کا استعجاب دور ہوجائے گا، لیکن وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے۔ ‘‘آغا حشر! کون آغا حشر؟’’ بس ان کا یہ کہنا قیامت ہوگیا۔

    آغا صاحب کڑک کر بولے: ‘‘آپ نے آغا حشر کا نام نہیں سنا۔’’ سید ذاکر علی نے جواب دیا ‘‘نہیں صاحب! میں نے آج پہلی مرتبہ جناب کا نام سنا ہے۔’’ پھر پلٹ کے مولانا شائق سے پوچھنے لگے:

    ‘‘آغا صاحب کا شغل کیا ہے؟ ’’مولانا شائق نے فرمایا: ‘‘ہائیں سید ذاکر علی صاحب! آپ نے واقعی آغا حشر کا نام نہیں سنا۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟’’ انہوں نے بڑی مسمی صورت بنا کے کہا:

    ‘‘مجھ سے قسم لے لیجیے، میں نے آج تک یہ نام نہیں سنا۔’’ خدا جانے وہ بَن رہے تھے یا واقعی انہوں نے آغا کا نام نہیں سنا تھا۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ یہ شخص کلکتہ خلافت کمیٹی کا سکریٹری، مدتوں اہلِ ذوق کی صحبت میں رہ چکا ہے۔ شعر و شاعری کا بھی مذاق رکھتا ہے، لیکن آغا حشر کو نہیں جانتا۔

    خیر مولانا شائق احمد نے انہیں سمجھایا کہ دیکھیے یہ آغا حشر ہیں۔ بہت بڑے شاعر، بہت بڑے ڈراماٹسٹ، لوگ انھیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے ہیں۔ تو ان کی سمجھ میں بات آگئی اور کہنے لگے:

    ‘‘اچھا تو آپ شاعر ہیں۔ میں اب سمجھا۔ خیر اب اس بحث کو جانے دیجیے، اپنا کوئی شعر سنائیے۔’’ آغا بھرے بیٹھے تھے۔ یہ سن کے آگ بگولا ہوگئے، اور کہنے لگے:

    ‘‘سنیے جناب! آپ کو شعر سننا ہے تو خلافت کمیٹی کے لونڈوں سے سنیے۔ میں ایسا ویسا شاعر نہیں کہ ہر ایرے غیرے پچ کلیان کو شعر سناتا پھروں۔’’ پھر جو انھوں نے تقریر شروع کی تو اللہ دے اور بندہ لے۔

    ہمارا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور سید ذاکر علی پر تو سیکڑوں گھڑے پانی کے پڑ گئے۔

    (اردو کے نام وَر ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر سے متعلق چراغ حسن حسرت کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • مٹھّو بھٹیارا

    مٹھّو بھٹیارا

    ناشتہ بیچنے والے کو بھٹیارا کہا جاتا تھا۔ میاں مٹّھو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا، کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں، ڈھائی ڈھوئی کے مینہ سے پہلے کی بات ہے، ساٹھ برس سے اوپر ہی ہوئے ہوں گے، مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انھیں پکارتا میاں مٹّھو کہہ کر اور انھیں بھی اسی نام سے بولتے دیکھا۔

    میاں مٹّھو بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں، دلّی میں محلے محلے جن کی دکانیں ہوتی ہیں، تنور میں روٹیاں لگتی اور شوربا، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے۔ نان بائی اور نہاری والوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تنور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کے پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گندھا اور ادھر روٹیاں پکانی شروع کر دیں۔

    پراٹھے تو ان کا حصہ ہے۔ بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ۔ دیکھنے سے مُنھ میں پانی بھر آئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھائیے۔ سبحان اللہ۔ بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ۔

    شاہ تارا کی گلی میں شیش محل کے دروازے سے لگی ہوئی میاں مٹّھو کی دکان تھی۔ شیش محل کہاں؟ کبھی ہو گا۔ اس وقت تک آثار میں آثار ایک دروازہ وہ بھی اصلی معنوں میں پھوٹا ہوا باقی تھا۔ نمونتہً بہ طور یادگار۔ اب تو ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بھی صاف ہو گیا۔ اس کی جگہ دوسری عمارتیں بن گئیں۔ دروازہ تو کیا رہتا، دروازے کے دیکھنے والے بھی دو چار ہی ملیں گے۔

    سنا ہے جاڑے، گرمی، برسات محلّے بھر میں سب سے پہلے میاں مٹھو کی دکان کھلتی۔ منھ اندھیرے، بغل میں مسالے کی پوٹلی وغیرہ سر پر پتیلا، پیٹھ کے اوپر کچھ چھپٹیاں کچھ جھانکڑ لگنی میں بندھے ہوئے گنگناتے چلے آتے ہیں۔ آئے دکان کھولی، جھاڑو، بہارو کی، تنور کھولا، ہڈیوں گڈیوں یا اوجھڑی کا ہنڈا نکالا۔ ہڈیاں جھاڑیں۔ اس کوٹھی کے دھان اس کوٹھی میں کیے۔ یعنی گھر سے جو پتیلا لائے تھے۔ ہنڈے کا مال اس میں ڈالا۔ مسالہ چھڑکا اور اپنے دھندے سے لگ گئے۔

    سورج نکلتے نکلتے سالن، نہاری، شروا جو کہو درست کر لیا۔ تندور میں ایندھن جھونکا۔ تندور گرم ہوتے ہوتے غریب غربا کام پر جانے والے روٹی پکوانے یا لگاون کے لیے شروا لینے آنے شروع ہو گئے۔ کسی کے ہاتھ میں آٹے کا طباق ہے تو کوئی مٹّی کا پیالہ لیے چلا آتا ہے اور میاں مٹّھو ہیں کہ جھپا جھپ روٹیاں بھی پکاتے جاتے ہیں اور پتیلے میں کھٹا کھٹ چمچ بھی چل رہا ہے۔

    مٹھو میاں کی اوجھڑی مشہور تھی۔ دور دور سے شوقین منگواتے۔ آنتوں اور معدے کے جس مریض کو حکیم اوجھڑی کھانے کو بتاتے وہ یہیں دوڑا چلا آتا۔ کہتے ہیں کہ پراٹھے بھی جیسے میاں مٹھو پکا گئے پھر دلّی میں کسی کو نصیب نہ ہوئے۔

    ہاتھ کچھ ایسا منجھا ہوا تھا، تندور کا تائو ایسا جانتے تھے کہ مجال ہے جو کچا رہے یا جل جائے۔ سرخ جیسے باقر خانی، سموسے کی طرح ہر پرت الگ نرم کہو تو لچئی سے زیادہ نرم بالکل ملائی۔ کرارا کہو تو پاپڑوں کی تھئی۔ کھجلے کو مات کرے۔ پھر گھی کھپانے میں وہ کمال کہ پائو سیر آٹے میں ڈیڑھ پائو کھپا دیں۔ ہر نوالے میں گھی کا گھونٹ اور لطف یہ کہ دیکھنے میں روکھا۔ غریبوں کے پراٹھے بھی ہم نے دیکھے۔ دو پیسے کے گھی میں تر بہ تر۔

    بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا کہ ڈیڑھ پائو گھی والے سے دو پیسے والے پر زیادہ رونق ہے، اس ہنر کی بڑی داد یہ ملتی کہ غریب سے غریب بھی پراٹھا پکوا کر شرمندہ نہ ہوتا۔ پوسیری اور چھٹنکی پراٹھے دیکھنے والوں کو یکساں ہی دکھائی دیتے۔ مال دار اور مفلس کا بھید نہ کھلتا۔

    (مغلیہ دور اور برطانوی راج کی دلّی کے مختلف مقامات کا احوال اور وہاں کے لوگوں کے شب و روز کو اپنے منفرد اسلوب میں بیان کرنے والے اشرف صبوحی کے مضمون سے اقتباس)

  • ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    آج اردو کی ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ وہ 15 ستمبر 2012 کو کراچی میں‌ وفات پا گئی تھیں۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ مسرور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان آگئیں اور یہاں‌ لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے جو 17 جنوری 1929 کو پیدا ہونے والی ہاجرہ مسرور کو کم عمری میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد کنبے کی کفالت کی ذمہ داری والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ یوں اس خاندان اور ہاجرہ مسرور نے سخت اور مشکل حالات دیکھے۔ ہاجرہ مسرور کی بہن خدیجہ مستور بھی اردو کی معروف ادیب تھیں۔

    پاکستان میں ہاجرہ بطور کہانی و افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ ہاجرہ مسرور نے معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شایع کرنا شروع کیا جب کہ کے ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    ہاجرہ مسرور نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئیں۔ بعد میں‌ ہاجرہ مسرور کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • "مخربِ زبان….”

    "مخربِ زبان….”

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی، غیرمذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔ حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سید سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سرسید کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سید صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔

    حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے مگر زین العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کرکے حسرت اور اُردوئے معلیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے۔

    حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔ اتنے میں سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ” ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کر دیتی تھی۔“

    جب حالی کی شاہ کار کتاب ’حیاتِ جاوید‘ شائع ہوئی تو شبلی نعمانی نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مولوی عبدالحق ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں جب میں نے حیاتِ جاوید کا ایک نسخہ ان کو دیا تو دیکھتے ہی فرمایا۔

    ”یہ کذب و افترا کا آئینہ ہے۔“ یہ جملہ سن کر عبدالحق دم بخود رہ گئے کیوں کہ پڑھنے سے پہلے ایسی سخت رائے کیا معنیٰ رکھتی تھی۔

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباس)

  • تاریخ عندلیب شادانی کا خوابِ جوانی نہ دہرا سکی!

    تاریخ عندلیب شادانی کا خوابِ جوانی نہ دہرا سکی!

    اردو زبان کے نام ور شاعر، ادیب، نقاد، محقق اور مترجم ڈاکٹر عندلیب شادانی 29 جولائی 1969 کو ڈھاکا میں انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عندلیب شادانی کا تعلق رام پور سے تھا جہاں‌ انھوں نے یکم مارچ 1904 کو آنکھ کھولی تھی۔

    ڈاکٹر عندلیب شادانی ڈھاکا یونیورسٹی میں شعبہ اردو اور فارسی کے سربراہ رہے۔ حکومت پاکستان نے اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر عندلیب شادانی کو ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ان کا مجموعہ کلام ’’نشاط رفتہ‘‘اور دیگر تصانیف میں نقش بدیع، نوش و نیش، سچی کہانیاں شامل ہیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
    اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو…..