Tag: اردو کے مشہور ادیب

  • مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    عبدالحلیم شرر کا مقبول ترین ناول "فردوسِ بریں” تاریخ کے ایک ایسے کردار کو ڈرامائی شکل میں ہمارے سامنے لاتا ہے جسے ہم حسن بن صباح کے نام سے جانتے ہیں۔

    شرر کو ان کی تاریخی داستان اور ‌ناولوں کی وجہ سے خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔

    یہاں‌ہم ان کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں یہ 1899 میں شایع ہوا تھا اور حسن بن صباح وہ کردار ہے جس کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ اس نے زمین پر ایک جنّت بنائی تھی اور بڑا دعویٰ کرتا تھا۔ اس ناول میں‌ شرر نے اسی جنت کا احوال ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔

    اس ناول کو جہاں‌ اردو قارئین نے بہت شوق سے پڑھا اور اس کا چرچا ہوا، وہیں‌ شرر کا نام مغرب اور یورپ تک بھی پہنچا۔

    اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کے علاوہ پچھلے چند برسوں‌ میں یورپ میں اس ناول کی کہانی کو تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ اس ناول کے دو پارے آپ کی توجہ کے لیے پیش ہیں جو شرر کی خوب صورت نثر اور ان کے فنِ ناول نگاری کا نمونہ ہیں۔

    "حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔”

    "لوگ پُرتکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت، خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔”

    عبدالحلیم شرر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور جب تاریخی ناول نگاری کی طرف توجہ دی تو اپنے ناولوں کے ذریعے مغرب کی اسلام دشمنی اور بیزاری کا خوب جواب دیا۔ وہ اصلاحی اور بامقصد تخلیق کے قائل تھے۔

    فردوسِ بریں کو ایک تخلیقی کارنامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد دوسرے ناول اور ڈرامے بھی پسند کیے گئے۔

  • اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہِ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔

    سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟

    یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق، آنتوں کی دق، ہڈی کی دق وغیرہ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔

    مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقتا کشمکشِ جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے۔

    اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے۔ نہ جینے کی خوشی تھی، نہ مرنے کا کوئی غم۔

    "اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے”

    (شوکت تھانوی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • "جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے!”

    "جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے!”

    اجی وہ زمانے لد گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ آج کی کہو۔ جس کو دیکھو بے لوّا کا سونٹا بنا پھرتا ہے۔ نہ بڑوں کا ادب نہ چھوٹوں کی لاج۔ وہی مثل ہوگئی کہ باؤلے گان٘و اونٹ آیا لوگوں نے جانا پرمیشور آئے۔

    حضت ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ جھجّو جھونٹوں میں عمر نہیں گزاری۔ رانڈ کے سانڈ بن کے نہ رہے۔ یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے۔ کیا کہا، بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جھونکا؟

    ہاں صاحب اب تو جو کہو بجا ہے۔ آنکھ پھوٹی پیڑ گئی۔ دلّی کا کوئی ہو تو اس کے پیٹ میں درد اٹھے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پھر جیسا راجا ویسی پرجا، جیسی گندی سیتلا ویسے پوجن ہار۔

    میری کیا پوچھتے ہو، آٹے کا چراغ گھر رکھوں تو چوہا کھائے، باہر دھروں کوا لے جائے۔ انھیں کیوں نہیں دیکھتے جو آدھے قاضی قدوا اور آدھے بابا آدم بنے ہوئے ہیں۔

    آخر کس برتے پر تتا پانی ۔ کرگا چھوڑ تماشے جائے، ناحق چوٹ جولاہا کھائے۔ خیر بھئی ہم تو اپنی کہتے ہیں۔ زن، زر، زمین، زبان قضیہ چاروں کے گھر۔ یہاں کیا دھرا ہے؟ جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔

    پہلے بادشاہی تھی اب انگریزی ہے۔ سُنا نہیں کہ راجا کہے سو نیاؤ، پانسہ پڑے تو داؤ، کالوں کا چراغ بجھ گیا۔ گوروں کی رتّی چڑھی ہوئی ہے۔ خدا سے لڑو، حکومت اس کی جس کے ہاتھ میں تلوار۔ کہتے نہیں کہ رانی کو رانا اور کانی کو کانا۔ دلی اسی قابل رہ گئی تھی۔

    اچھا جناب ‘تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو’ بقول ذوق، یار تو کباب بیچتے ہیں، جس کی زبان سو دفعہ کھجائے، وہ ہمارے نخرے اٹھائے۔

    (اشرف صبوحی دہلوی کے خاکے "گھمّی کبابی” سے اقتباس)

  • مولوی سمیع اللہ کی دکان

    مولوی سمیع اللہ کی دکان

    جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے بالمقابل اردو بازار میں مفتی کفایت اللہ صدر جمیعت العلمائے ہند کے داماد مولوی سمیع اللہ کی کتابوں کی دکان ادیبوں، شاعروں اور علم و ادب کا ذوق رکھنے والوں کی بیٹھک تھی۔

    مولوی سمیع اللہ بے حد منکسرالمزاج اور مجسم اخلاق تھے۔ آپ ان کی دکان پر کسی وقت بھی چلے جاتے، کسی نہ کسی علمی، ادبی یا سیاسی شخصیت سے ضرور مڈ بھیڑ ہوجاتی۔ ان میں دلی والے بھی ہوتے اور باہر سے آنے والے بھی۔

    اسی دکان پر میری ملاقات مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا محمد باقر، نخشب جارچوی، شکیل بدایونی، روش صدیقی، انور صابری اور مولانا امداد صابری سے ہوئی۔ غالباً انور صابری کو چھوڑ کر باقی حضرات اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

    حمید ہاشمی سے بھی طفیل احمد جمالی نے مجھے مولوی سمیع اللہ کی دکان ہی پر ملایا تھا۔

    حمید ہاشمی قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے اور روزنامہ ”امروز“ کے ادارتی عملے میں شامل تھے۔ قاہرہ کے الم ناک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی انیس ہاشمی کراچی کی نمایاں سیاسی و سماجی شخصیتوں میں سے تھے۔

    (معروف ادیب، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی دہلی میں قیام کے تذکروں سے ایک ورق)

  • جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    فرید آباد میں مسلمان اقلیت میں تھے، لیکن مطلبی اور ہاشمی کا اتنا دبدبہ اور اثر تھا کہ وہاں کے ہندوؤں کا فرید آباد کے مسلمان اور بالخصوص خاندان ہاشمی کے افراد کو ”میاں جی“ اور ”مولوی صاحب“ کہتے ہوئے منہ خشک ہوتا تھا۔

    حق یوں ہے کہ یہ ہر سہ برادران گرامی کے اقبال کا کرشمہ تھا کہ فرید آباد جیسی چھوٹی سی بستی میں جناب ہاشمی صاحب کے ہاتھوں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا، ترانے پڑھے گئے۔ اس طرح فرید آباد کی یہ چھوٹی سی سرزمین مسلم لیگ، قائد اعظم، اردو زبان زندہ باد اور ”لے کر رہیں گے پاکستان“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔

    مغرب کی نماز کے بعد فرید آباد کی جامع مسجد میں ایک شان دار جلسہ منعقد ہوا۔ نمازیوں کے علاوہ فرید آباد کے بیشتر مسلمان وہاں پہلو بہ پہلو سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔

    تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد میں نے اقبال کی مشہور نظم ”طلوعِ اسلام، سے ”خدائے لم یزل کا دستِ قدرت، تُو زبان تُو ہے“ والا ایک بند پڑھا، اتفاق سے میں ایک شعر کا مصرع غلط پڑھ گیا۔

    ہاشمی صاحب نے جو پہلی ہی صف میں تشریف رکھتے تھے مجھے نہ ٹوکنے کے انداز میں اس طرح ٹوکا ”واہ سبحان اللہ مکرر پڑھیے۔“ ناخواندہ عوام نے میری اس غلطی کو محسوس کیا یا نہیں، لیکن دوبارہ میں نے اس شعر کو بالکل صحیح اور زیادہ ترنم کے ساتھ پڑھا اور پھر کئی بار اسی شعر کو نعرہ اللہ اکبر کی گونج میں پڑھنا پڑا۔

    دوسرے دن صبح تمام کارکن فرید آباد میں مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑ کر دہلی رخصت ہوئے۔ ہاشمی صاحب، ابو تمیم اور چند اہلِ فرید آباد ہمیں بس اسٹاپ تک چھوڑنے کے لیے آئے۔

    الغرض پاکستان وجود میں آیا، لیکن حروفِ آزادی کی طرح منتشر اور پراگندہ، علم و ادب کے گہواروں، تہذیب و تمدن کے سرچشموں سے محروم، دلی غائب، لکھنؤ ندارد، اکبر آباد گم، حیدرآباد دکن غتر بود، پنجاب و بنگال بود و نابود۔

    (ممتاز علمی و ادبی شخصیت سید ہاشمی فرید آبادی کے متعلق سید یوسف بخاری دہلوی کی یادوں سے ایک ورق)

  • کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    زمانہ بدلتا ہے تو بعض رواج بھی بدل جاتے ہیں، طور طریقے اور رجحان بھی تبدیل ہوتے ہیں۔

    آج کسی لڑکی کا نام اکبری یا اصغری نہیں رکھا جاتا، لیکن ایک دور تھا جب یہ نام یا عرفیتیں عام تھیں۔

    اردو زبان اور ادب کے طالب علم اور باذوق قارئین کو معلوم ہو گاکہ ہمارے یہاں ناول نویسی کے آغاز کا سہرا مولوی نذیر احمد سَر ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے انھیں اردو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔

    1869 میں ان کا مشہور ناول’’مراۃ العروس‘‘ شایع ہوا تھا جس میں دو بہنوں کی عادات و اطوار، سلیقے، پھوہڑ پن کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا تھا جس کا مقصد عام اصلاح، لڑکیوں میں عائلی زندگی اور معاشرت کا شعور اجاگر کرنا تھا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی ملتی اور کرداروں کے مکالموں میں چاشنی بھی۔ لیکن اس ناول کی کم زوریاں بھی نقادوں نے اجاگر کی ہیں۔ اکثر نے انھیں ناصح اور روایتی سوچ والا بھی کہا ہے۔ تاہم ان کا یہ ناول اس دور کی خوب صورت تخلیقی یادگار ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ اس ناول کے مرکزی اور اہم کرداروں‌ کے نام کیا ہیں؟

    اکبری اور اصغری کے علاوہ اس ناول کے دیگر اہم کرداروں میں ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل، سیٹھ ہزاری مل، دور اندیش خان اور خیراندیش خان شامل ہیں۔

  • شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، محقق اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔

    آج شاہد احمد دہلوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے جو علم و ادب کی دنیا کے بڑے نام ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو کا باوقار جریدہ ساقی جاری کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور ادبی دنیا میں متحرک رہے۔

    وہ باکمال نثر نگار اور انشا پرداز تھے۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکوں کے علاوہ مختلف تذکروں اور واقعات کو بھی ادبی پیرائے میں‌ ڈھالا اور کتابی شکل دی۔ دلی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔

    ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی اور ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔

    27 مئی 1966 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • عید کی جوتی…

    عید کی جوتی…

    جناب اکبر نے فرمایا تھا، ڈاسن نے جوتا بنایا، میں نے مضمون لکھا۔ میرا مضمون نہ چلا اور جوتا چل گیا۔

    اب کوئی ان سےعرض کرے، ولایتی جوتوں کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے چلتے پاؤں بھی لنگڑے ہوئے جاتے ہیں۔ عید پر خلقت جوتے خریدنے جاتی تھی اور دو جوتیاں لاتی تھی، جوتا مذکر ہے اور جوتی مؤنث، لڑائی نے مرد ختم کر دیے، عورتوں کو بڑھا دیا تو مذکر جوتے کیوں نہ کم ہوتے۔ مونث جوتیوں کا ڈھیر تھا، مذکر جوتے ناپید تھے۔

    ہائے میری پیاری دلی کی پیاری پیاری نازک اندام وصلی کی جوتی چشمِ بدور، خدا نے اس کا نصیبہ جگایا۔ بارہ برس پیچھے دن پھرے۔ دلی والوں نے اٹھا کر سر پر رکھا۔ وصلی کی جوتی کی کیا بات ہے، درحقیقت جوتی ہے۔ کیسی بھولی بھالی۔ کیسی ہریالی متوالی۔ ولایتی بوٹ کی طرح خراٹ نہیں، یل تل نہیں۔ دیکھنے میں دیدار، پہننے میں سکھ دینے والی۔

    ولایتی جوتوں کے دام پوچھو گیارہ روپے سے بھی کچھ اوپر۔ اس جھجھماتی کی قیمت تین چار، حد سے حد پانچ چھے۔ دام کم، کام بڑھیا۔ پرانی ہو جائے تو آٹھ دس آنے کو آنکھ بند کر کے بک سکتی ہے، مگر یہ بوٹ بگڑے پیچھے کوڑی کام کا نہیں۔

    ذرا نام ہی خیال کرنا۔ ’وصلی۔‘ ہائے ’وصلی‘ میں وصال کا اشارہ ہے، یعنی وصلی کی جوتی پہنو تو دام کم خرچ ہوں گے اور دام کم خرچ ہوں گے تو دل مطمئن رہے گا۔ دل کا اطمینان وصالِ حقیقی ہے، ولایتی جوتا موسمی اور ’فصلی‘ جوتا ہے۔

    (خواجہ حسن نظامی کے مضمون "عید کی جوتی” سے انتخاب)

  • قلم اور کھرپی…

    قلم اور کھرپی…

    اردو ادب اور طنز و مزاح کے میدان میں رشید احمد صدیقی بڑا نام اور مقام رکھتے ہیں۔ یہاں ہم ان پر لکھے گئے ایک شخصی خاکے سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گے۔

    یہ خاکہ رشید احمد صدیقی کی وفات کے بعد ان کے شاگرد مسعود حسین خاں نے لکھا تھا جو ماہرِ لسانیات، نقاد اور محقق بھی تھے۔

    ’’رشید احمد صدیقی کو پھولوں سے بہت رغبت تھی، بالخصوص گلاب کے پھولوں سے۔ یہ ان کا پسندیدہ پھول تھا۔ انھوں نے اپنے مکان کے وسیع اور کشادہ صحن میں گلاب کاشت کر رکھا تھا اور ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے، کھرپی ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔‘‘

    ’’رشید صاحب معاشرتی و جمالیاتی دونوں اعتبار سے بیرونِ خانہ سے زیادہ اندرونِ خانہ کی زیبائش کے قائل تھے۔ چنانچہ جب کہ مکان کے باہری حصے میں خاک، دھول اڑتی تھی، اندر ایک لہلہاتا چمن اور سبزہ زار تھا اور پھولوں کی وہ بھرمار کہ پریاں قطار اندر قطار۔ قلم کے بعد صرف کھرپی کو یہ شرف حاصل تھا کہ ان کے دستِ مبارک میں دیکھی جاتی جس سے وہ کیاریوں میں قلم کاری کرتے۔‘‘

    ’’پھولوں ہی کی نسبت سے انھیں جانوروں سے چڑ تھی۔ میں نے کبھی ان کے مکان پر کوئی کتا پلا ہوا نہیں دیکھا۔ انھیں سالانہ چوریاں گوارا تھیں، لیکن کتا پالنا منظور نہیں تھا۔ اکثر کہتے کہ انسان سے بہتر جانور ہوتا ہے، لیکن سب سے بہتر یہ خاموش پھول پودے ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے قیمتی تحفہ گلاب کا پھول ہوتا اور سب سے بڑی مرحمت گلاب کی پود جسے وہ دوسروں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص مالی سے آپ کے مکان میں لگوا دیتے۔‘‘

  • تعاون…..

    تعاون…..

    سعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    دفعتا اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔ چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا، آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘ دوسرے نے با آواز بلند کہا۔ ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔۔۔۔ توڑ دو۔‘‘ ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ’’بھائیو ٹھیرو، میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کر کے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے، پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔

    ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو، مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بار پھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہ کر لو بھائی، اسے تہ کر لو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔ بڑی نازک چیز ہے۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔

    ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی، ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف۔‘‘ اور چشمِ زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ’’ٹائیگر ۔۔۔۔۔۔۔ ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘