Tag: اردو کے مشہور افسانے

  • دلیپ کمار کا نائی

    دلیپ کمار کا نائی

    میں اپنی لانڈری میں لالہ ہر پرشاد کے لڑکے ہنسی پرشاد کی نئی ریشمی قمیص پر استری پھیر رہا تھا جو اس نے پچھلے ہفتے اپنی شادی کے موقع پر سلوائی تھی، کہ اتنے میں میرا نوجوان ملازم فضلو آہستہ آہستہ سیٹی بجاتا ہوا دکان کے اندر داخل ہوا۔

    میں اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گیا۔ کیوں کہ فضلو بہت ہی سیدھا سادہ احمق لڑکا ہے جیساکہ لانڈری والے کے ملازم کو بلکہ ہر ملازم کو ہونا چاہیے۔ اسی لیے تو جب میں نے فضلو کے سر کی طرف دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔

    "فضلو یہ تمہارے سر کو کیا ہوا ہے ؟” آخر میں نے چلّا کے پوچھا۔
    فضلو نے مسکرا کے کہا۔ "شہر میں دلیپ کمار کا نائی آیا ہے۔ ” یہ کہنے کے بعد فضلو نے بہت محبت سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھے پر جھکی ہوئی لٹ کو اور لٹکا لیا۔ اس کے سر کے بال چھدرے چھدرے کٹے تھے۔ اور چھوٹے کر دیے گئے تھے۔

    صرف بائیں جانب بالوں کا ایک گچھا لانبا رہ گیا تھا جو باقی بالوں سے لانبا ہونے کی وجہ سے خود بخود ایک کٹی ہوئی بیل کی طرح ماتھے پر آپڑا تھا۔ اور دور سے دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سریش سے ماتھے پر چپکا دیا گیا ہو۔ پیچھے سے سر کی ڈھلوان سے بال یوں کاٹے گئے تھے جیسے کسی پہاڑی ڈھلوان سے گھاس کاٹ لی گئی ہو۔ بہ حیثیت مجموعی فضلو کا سر دور سے ایک منڈی ہوئی بھیڑ کی طرح نظر آ رہا تھا۔

    میں نے حیرت سے پوچھا: "کون ہے وہ نائی؟”

    "اپنا شدو۔ ”

    وہ گھیسو قصاب کا لونڈا جو دو سال ہوئے گھر سے بھاگ گیا تھا؟” فضلو نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    "کہاں ہے اس کی دکان؟”

    فضلو بولا "تیلیوں کے بازار سے آگے چوک میں۔ ”

    میں جلدی سے اپنی لانڈی سے باہر نکلا تو فضلو نے پکار کے کہا۔ "مگر جمن چاچا، بال بنوانے ہیں، تو ڈیڑھ روپیہ ساتھ لیتے جاؤ، وہ اس سے کم میں بال نہیں کاٹے گا، دلیپ کمار کا نائی ہے۔”

    "چپ بے نامعقول۔ "میں نے چوک کی طرف بھاگتے ہوئے کہا۔ ” اس بھیڑ منڈائی کا میں ڈیڑھ روپیہ دوں گا؟”

    لیکن شدو کی دکان پر بہت بھیڑ تھی۔ میں ذرا دیر میں پہنچا، بال بنوانے والوں کا پہلے ہی سے ایک لمبا کیو لگ چکا تھا۔ دکان کے باہر جلی حروف میں بورڈ پرلکھا تھا۔

    ‘دلیپ کمار کا نائی’، بمبئی ٹرینڈ، ماسٹر شدو حجام۔ اور اس بورڈ کے نیچے ایک دوسرے بورڈ پر ریٹ لکھے تھے۔

    دلیپ کمار ہیئر کٹ = ڈیڑھ روپیہ
    دلیپ کمار شیو = ایک روپیہ
    دلیپ کمار شمپو = دو روپیہ آٹھ آنے
    دلیپ کمار مالش = پانچ روپے

    شدو نے مجھے آتے ہی پہچان لیا۔ وہ میرے گھٹنوں کو چھو کر بولا” چاچا جمن مجھے پہچانتے ہو؟” شدو کو کون نہیں پہچانے گا۔ محلے کا سب سے شریر لونڈا دبلا، پتلا، کالا، چیچک رو، ایک آنکھ سے کانا۔ مگر زبان جیسے لال مرچ، جیسے کترنی، جیسے گالیوں کا فوارہ بار بار چنے پر بھی شرارت سے باز نہ آئے۔ ایک روز سویرے فضلو کو پھسلا کر اس سے شیخ غلام رسول بیرسٹر کے لڑکے کا ہنٹنگ کوٹ جو میری لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کو آیا تھا، ایک روز کے لیے پہننے کو لے گیا تھا۔ بس اسی دن سے غائب تھا۔

    ناچار کوٹ کی قیمت مجھے ادا کرنی پڑی، میں شدو کو بھول سکتا تھا۔ میں نے زور سے ایک دھپ اس کی پیٹھ پر جمائی، شدو کے ہاتھ سے قینچی گر کر زمین پر جا پڑی، شدو کچھ ہنس کر کچھ رونکھا سا ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔

    میں نے غصے سے کہا۔ ” میری طرف کیا دیکھتے ہو، کدھر ہے وہ کوٹ؟”

    شدو کو یکایک یاد آیا، ہنستے ہنستے بولا: "واہ چاچا۔ تم بھی دو سال کے بعد اس زٹیل کوٹ کا ذکر کرتے ہو۔ ارے چاچا، جتنے کوٹ کہو اس بیرسٹر کے لونڈے کو بنوا دوں، کیا سمجھتے ہو، دلیپ کمار کانائی ہوں، دلیپ کمار کا۔”

    (معروف افسانہ نگار اور ادیب کے مضمون سے اقتباسات)

  • آغا بابر جو اپنی سوانحِ حیات مکمل نہ کرسکے!

    آغا بابر جو اپنی سوانحِ حیات مکمل نہ کرسکے!

    آغا بابر اردو کے اہم افسانہ نگار اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ 25 ستمبر 1998 کو وفات پانے والے آغا بابر 31 مارچ 1919 بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن دنیائے ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے پہچانے گئے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ انھوں‌ نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی سے اپنی عملی زندگی شروع کی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کی ادارت انجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے اور وہیں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن تشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق کے نام سے شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے زندگی کے آخری ایّام میں اپنی سوانحِ حیات بھی لکھنا شروع کی تھی، لیکن اجل نے انھیں‌ یہ کام انجام تک پہنچانے کا موقع نہ دیا اور وہ دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ نیویارک میں‌ مدفون ہیں۔

  • گُم شدہ رجمنٹ

    گُم شدہ رجمنٹ

    ایک طاقت وَر فوج کی ایک رجمنٹ کو شہر کی گلیوں میں پریڈ کرنا تھی۔ دستے صبح ہی سے بیرک کے احاطے میں پریڈ کی ترتیب میں کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔

    سورج بلند ہوتا گیا اور اب سائے احاطے میں اگنے والے نوخیز پودوں کے قدموں تلے مختصر ہونے لگے۔ اپنے تازہ پالش کردہ ہیلمٹوں کے اندر فوجی اور حکام پسینے سے شرابور ہونے لگے۔ سفید گھوڑے پر سوار کرنل نے اشارہ کیا، نقاروں پر ضربیں پڑیں، بینڈ نے مل کر ساز بجانا شروع کر دیے اور بیرک کے دروازے اپنی چُولوں پر آہستگی سے ہلنے لگے۔

    اب آپ دور کہیں کہیں نرم بادلوں کی دھاریوں والےنیلے آسمان کے تلے شہر دیکھ سکتے تھے جس کی چمنیاں دھویں کے لچھے چھوڑ رہی تھیں، اس کی بالکونیاں جہاں کپڑے سکھانے والی چٹکیوں سے اٹی تاریں، سنگھار میزوں کے آئینوں میں منعکس ہوتی سورج کی جگمگ کرنیں، مکھیاں دور رکھنے والے جالی دار پردوں میں خریداری کے سامان سے لدی خواتین کی الجھتی بالیاں، ایک چھتری والی آئس کریم گاڑی کے اندر کون رکھنے والا شیشے کا بکس، اور ایک لمبی ڈور کے سرے پر بچوں کا ایک گروہ سرخ کاغذی چھلوں پر مشتمل دُم والی پتنگ کھینچتے ہوئے جو زمین کو چھوتے ہوئے ڈگمگاتی ہے، پھر جھٹکوں جھٹکوں میں اٹھ کر آسمان کے نرم بادلوں کے مقابل بلند ہو جاتی ہے۔

    رجمنٹ نے نقاروں کی تھاپ میں پیش قدمی شروع کی، سڑکوں پر بوٹ بجنے لگے اور توپ خانے کی گھرگھراہٹ گونجنے لگی، لیکن اپنے سامنے خاموش، شریف طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شہر دیکھ کر فوجی خود کو تھوڑا بدلحاظ اور دخل انداز محسوس کرنے لگے، اور دفعتاً پریڈ بےمحل لگنے لگی۔ جیسے کوئی ساز کا غلط تار چھیڑ دے۔ جیسے اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔

    پری جیو باتا نامی ایک نقارچی نے ظاہر کیا جیسے وہ اسی تاب سے نقارہ بجا رہا ہے حالانکہ وہ صرف نقارے کی سطح کو چھو رہا تھا۔ اس سے جو آواز نکل رہی تھی وہ ایک مغلوب سی دھم دھم تھی، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ کیوں کہ عین اسی لمحے دوسرے تمام نقارچی اسی کی پیروی کررہے تھے۔ پھر بگل والے گزرے لیکن ان کے بگلوں سے محض ایک آہ نکل رہی تھی کیوں کہ کوئی بھی ان میں زور سے نہیں پھونک رہا تھا۔ سپاہی اور حکام بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاتے، پھر اسے بہت نرمی سے نیچے رکھ دیتے اور یہ پریڈ گویا پنجوں کے بل آگے بڑھتی گئی۔

    سو کسی کے حکم دیے بغیر ایک لمبی، بہت لمبی قطار پھونک پھونک کر قدم رکھتی، پنجوں کے بل دبی دبی چال سے چلی۔ شہر کے اندر توپیں اس قدر بےجوڑ لگنے لگیں کہ ان کے ساتھ چلنے والے توپچیوں پر یکایک خجالت طاری ہو گئی۔

    بعض نے بےاعتنائی کا وطیرہ اپنایا اور توپوں کی طرف دیکھے بغیر چلتے گئے، جیسے وہ وہاں محض اتفاق سے آ گئی ہوں۔ دوسرے توپوں سے لگ کر چلنے لگے، جیسے وہ انھیں چھپانا چاہتے ہوں، تاکہ لوگوں کے ان کے اکھڑ اور ناگوار نظارے سے بچایا جا سکے۔ کچھ نے ان پر غلاف ڈال دیے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، یا کم از کم وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچیں۔

    کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے توپوں کی نال یا توپ گاڑی پر ہاتھ مار کر یا ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ لا کر کچھ ایسے شفقت آمیز تمسخر کا رویہ اختیار کیا گویا یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ ان کا ان چیزوں کو مہلک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بس ذرا ہوا لگانا مقصود ہے۔

    یہ پریشان کُن احساس کرنل کلیلیو لیون تومینی کے دماغ میں بھی سرایت کر نے لگا جنھوں نے بےاختیار سر اپنے گھوڑے کی طرف جھکا دیا، جب کہ خود گھوڑے نے بھی ہر قدم کے درمیان وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور اب وہ کسی ریڑھے والے گھوڑے کی سی احتیاط سے چل رہا تھا۔ لیکن کرنل اور ان کے گھوڑے کو دوبارہ جنگی چال اختیار کرنے میں بس ایک لمحے کا غور و فکر ہی کافی تھا۔ صورتِ حال کا تیزی سے جائزہ لے چکنے کے بعد کرنل نے تیز حکم دیا: ’پریڈ چال!‘

    نقارے متوازن تال پر بجنا شروع ہوئے۔ رجمنٹ نے تیزی سے اپنی دل جمعی دوبارہ حاصل کی اور اب وہ جارحانہ خوداعتمادی سے آگے قدم بڑھانے لگی۔

    ’یہ ہوئی نا بات،‘ کرنل نے صفوں پر تیزی سے نظریں دوڑاتے ہوئے خود سے کہا، ’اس کو کہتے ہیں مارچ کرتی ہوئی اصل رجمنٹ۔‘

    چند راہ گیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایسے لوگوں کے انداز سے پریڈ دیکھنے لگے جو اس قدر طاقت کی صف آرائی میں دل چسپی رکھتے ہوں اور شاید انھیں اس میں مزہ بھی آتا ہو، لیکن کوئی ناقابلِ تفہیم احساس انھیں ستا رہا ہو۔ ایک مبہم خطرے کا احساس۔ اور ویسے بھی ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے کئی اہم چیزیں گردش کر رہی تھی کہ وہ تلواروں اور توپوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے۔

    خود پر نظریں جمی دیکھ کر سپاہی اور حکام ایک بار پھر ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔ وہ پریڈ چال کے بےلچک قدموں سے چلتے تو گئے، لیکن انھیں اس خیال سے دامن چھڑا پانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ان بھلے شہریوں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کے باعث بدحواسی سے بچنے کے لیے سپاہی مارانگون ریمیگیو نے نظریں جھکائے رکھیں۔ جب آپ صفوں میں مارچ کرتے ہیں تو آپ کو صرف سیدھی لکیر میں رہنے اور قدم ملانے کی فکر ہوتی ہے، دستہ باقی ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سپاہی وہی کچھ کر رہے تھے جو سپاہی مارانگون کر رہا تھا۔

    درحقیقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب، حکام، پرچم بردار، خود کرنل اپنی نظریں زمین سے اٹھائے بغیر، صف کا پیچھا کرتے چلے جا رہے تھے۔ بینڈ کے پیچھے پریڈ چال چلتے چلتے رجمنٹ ایک طرف کو کنی کھا گئی اور پارک کے اندر پھولوں کے تختے میں جا گھسی، اور پھر استقامت سے گلِ اشرفی اور بنفشے کے پھول روندتی چلی گئی۔

    باغبان گھاس کو پانی دے رہے تھے اور انھوں نے کیا دیکھا؟ ایک رجمنٹ آنکھیں بند کیے، نازک گھاس میں ایڑیاں پٹختے ان پر چڑھی چلی آ رہی ہے۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنے فوارے کس طرح تھامیں کہ پانی کہیں سپاہیوں پر چھڑکاؤ نہ کر دے۔ آخرکار ہوا یہ کہ انھوں نے اپنے فوارے سیدھے اوپر کر لیے، لیکن طویل دھاریں دوبارہ بے قابو سمتوں میں آ، آ کر نیچے گرنے لگیں۔ ایک نے آنکھیں میچے کمر سیدھی رکھے مارچ کرتے ہوئے کرنل کلیلیو لیون تومینی کو سر سے پاؤں تک شرابور کر دیا۔
    پانی سے نچڑ کر کرنل اچھل کر پکارے:

    ’سیلاب! سیلاب! بچاؤ کی کارروائی شروع کی جائے!‘ پھر انھوں نے فوری طور پر خود پر قابو پایا اور رجمنٹ کی کمان سنبھال کر اسے باغات سے باہر لے گئے۔ تاہم وہ تھوڑے سے بے دل ہو گئے تھے۔

    ’سیلاب! سیلاب!‘ کی پکار نے ایک راز اور ایک لاشعوری تمنا کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ قدرتی آفت اچانک آ سکتی ہے، اور کسی کو ہلاک کیے بغیر اس قدر خطرناک ہو سکتی ہے کہ پریڈ منسوخ کرا دے اور رجمنٹ کو لوگوں کے لیے ہر قسم کے مفید کام کرنے کا موقع مل سکے، مثلاً پلوں کی تعمیر یا بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینا۔ صرف اسی بات سے ان کا ضمیر مطمئن ہو سکتا تھا۔

    پارک سے نکلنے کے بعد رجمنٹ شہر کے ایک مختلف حصے میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ وہ کھلی سڑکیں نہیں تھیں جہاں انھیں پریڈ کرنا تھی، بلکہ یہ علاقہ تنگ، خاموش اور بل کھاتی ہوئی گلیوں پر مشتمل تھا۔ کرنل نے فیصلہ کیا کہ وہ ان گلیوں کو عبور کر کے سیدھا چوک تک جا پہنچیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔

    اس علاقے میں ایک انوکھا جوش و خروش بیدار ہو گیا۔ الیکٹریشن لمبی سیڑھیوں پر چڑھے گلی کے بلب ٹھیک کر رہے تھے اور ٹیلی فون کی تاریں اوپر نیچے کر رہے تھے۔ سول انجینیئرنگ کے سرویئر آلات اور فیتوں سے سڑکیں ناپ رہے تھے۔ گیس والے فٹ پاتھ پر بڑے گڑھے کھود رہے تھے۔ اسکول کے بچے ایک طرف قطار میں چلے جا رہے تھے۔ راج مزدور کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف ’یہ لو! یہ لو!‘ کہتے ہوئے اینٹیں اچھال رہے تھے۔ سائیکل سوار اپنے کندھوں پر لکڑی کی گھوڑیاں اٹھائے، تیز آواز میں سیٹیاں بجاتے گزرے۔ ہر کھڑکی میں ایک ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی اور بڑی بالٹیوں میں کپڑے نچوڑ رہی تھی۔

    چنانچہ رجمنٹ کو ان بَل کھاتی گلیوں میں ٹیلی فون کی تاروں کے گچھوں، فیتوں، لکڑی کی گھوڑیوں، سڑک میں گڑھوں، پُر شباب لڑکیوں اور ہوا میں اڑتی اینٹیں– ’یہ لو! یہ لو!‘ – پکڑ کر اور ہیجان زدہ لڑکیوں کے چوتھی منزل سے گرائے ہوئے بھیگے کپڑوں اور بالٹیوں سے بچ بچا کر اپنی پریڈ جاری رکھنا پڑی۔

    کرنل کلیلیو لیون تومینی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھوڑے سے نیچے جھک کر ایک راہ گیر سے پوچھا: ’معاف کیجیے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ مرکزی چوک کو جانے والا سب سے مختصر راستہ کون سا ہے؟‘

    راہ گیر، جو ایک معنک اور دبلا پتلا شخص تھا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ ’راستہ پیچیدہ ہے۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ایک احاطے سے ایک اور گلی کے راستے لے جاؤں گا جس سے آپ کا کم از کم چوتھائی گھنٹہ بچ جائے گا۔‘

    ’کیا تمام رجمنٹ اس احاطے سے گزر پائے گی؟‘ کرنل نے پوچھا۔

    آدمی نے رجمنٹ پر ایک نظر دوڑائی اور ہچکچاتے ہوئے کہا: ’خیر، کوشش کی جا سکتی ہے،‘ اور انھیں ایک بڑے دروازے سے گزرنے کا اشارہ کیا۔

    عمارت کے تمام خاندان بالکونیوں کے زنگ آلود جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احاطے میں سے توپ خانے اور گھوڑوں سمیت گزرنے کی کوشش کرتی رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے جھک گئے۔

    ’باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے؟‘ کرنل سے دبلے آدمی سے پوچھا۔

    ’دروازہ؟‘ آدمی نے کہا۔ ’شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ آپ کو اوپری منزل تک چڑھنا پڑے گا، وہاں سے آپ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دوسری عمارت میں داخل ہو جائیں گے اور اُس عمارت کا دروازہ گلی میں کھلتا ہے۔‘

    کرنل ان تنگ سیڑھیوں میں بھی اپنے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتے تھے لیکن دو تین منزلوں کے بعد انھوں نے گھوڑے کو جنگلے سے باندھ کر پیدل آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ توپوں کو بھی احاطے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک موچی نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر نظر رکھے گا۔ سپاہی ایک قطار میں چلتے گئے اور ہر منزل پر دروازے کھلتے اور بچے چلاتے:’اماں، جلدی آؤ، دیکھو۔ سپاہی گزر رہے ہیں۔ فوج پریڈ کر رہی ہے!‘

    پانچویں منزل پر ان سیڑھیوں سے بالاخانے کو جانے والی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے انھیں باہر کی طرف بالکونی کے اوپر چلنا پڑا۔ ہر کھلی کھڑکی میں سے سادہ کمرے نظر آتے جن میں جھلنگا چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں بچوں سے بھرے خاندان مقیم تھے۔

    ’اندر آؤ، اندر آؤ،‘ باپ اور مائیں سپاہیوں سے کہتے۔ ’تھوڑا آرام کرو، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے!‘ ادھر سے آؤ، یہ راستہ چھوٹا ہے! لیکن اپنی بندوقیں باہر رکھ دو۔ اندر بچے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔‘

    سو راہداریوں اور گزرگاہوں میں رجمنٹ کی ترتیب ٹوٹ گئی۔ اور اس افراتفری میں وہ دبلا شخص کہیں ادھر ادھر ہو گیا جس نے کہا تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے۔

    شام پڑ گئی اور رسالے اور پلٹنیں اب بھی سیڑھیوں اور بالکونیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سب سے اوپر، چھت کے چھجے پر کرنل لیون تومینی بیٹھے تھے۔ انھیں نیچے بکھرا ہوا شہر دکھائی دے رہا تھا، وسیع و عریض اور تند و تیز، سڑکیں شطرنج کی بساط کی مانند اور خالی چوک۔ ان کے ساتھ ہی رنگین جھنڈیوں، پیغام رسانی والے پستولوں اور رنگ برنگے پردوں سے مسلح دستہ کھپریل پر ہاتھ اور گھٹنے ٹکائے بیٹھا تھا۔

    ’پیغام بھیجو،‘ کرنل نے کہا۔ ’جلدی، پیغام بھیجو: علاقہ ناقابلِ عبور۔۔۔ آگے بڑھنے سے قاصر۔۔۔ حکم کا انتظار۔۔۔‘


    (اٹلی کے معروف ناول نگار اور صحافی اٹالو کالوینو کی اس کہانی کو ظفر سیّد نے انگریزی سے اردو زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے)

  • اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار  ابوالفضل صدیقی کی برسی

    اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کی برسی

    ابوالفضل صدیقی اردو کے ممتاز ادیب، منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں۔ انھیں اردو ادب میں صفِ اوّل کا افسانہ نگار مانا جاتا ہے۔ آج ابوالفضل صدیقی کی برسی ہے۔

    16 ستمبر 1987 کو ابوالفضل صدیقی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق بدایوں‌ سے تھا۔ وہ 4 ستمبر 1908 کو پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔

    ابوالفضل صدیقی نے 1932 میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل تھے اور ان کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے خود کو منوایا۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش اسلوب سب سے جدا تھا جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    ابوالفضل صدیقی نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنا کمال دکھایا اور ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا اور ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔

  • گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    اردو زبان و ادب میں اپنی تخلیقی کاوشوں اور علمی خدمات کی وجہ سے ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں ایک نام مجنوں گورکھپوری کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مجنوں‌ گورکھپوری 1988 میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے تھے۔ وہ اردو کے ممتاز نقاد، محقق، مترجم، شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

    ان کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ 10 مئی 1904 کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے مجنوں گورکھپوری ماہرِ تعلیم بھی تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی سے بحیثیت استاد وابستہ رہے۔

    مجنوں گورکھپوری اردو کے چند بڑے نقادوں میں سے ایک تھے۔ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ وہ افسانہ نگار بھی تھے اور ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    مجنوں‌ گورکھپوری نے جہاں اردو ادب کو تنقید سے مالا مال کیا اور اسے نکھارنے کے لیے دماغ سوزی کی، وہیں انگریزی ادب کو بھی اردو تراجم کے ذریعے قارئین تک پہنچایا۔

    شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو مجنوں گورکھپوری نے اردو کے قالب میں ڈھالا جو ان کا بڑا کام ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کی آخری آرام گاہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ہے۔

  • سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    اپنے معاصرین میں منٹو کیوں ممتاز ہوئے، اور کیا وجہ ہے کہ آج بھی انھیں پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے؟

     


    یوں تو کئی قابل، نہایت باصلاحیت لکھاری اور تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب منٹو کے ہم عصر اور اس دور کے اہم نام شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے نثر کی متعدد اصناف میں اردو ادب کے لیے بہت کچھ لکھا، مگر منٹو سب پر سبقت لے گئے۔

     
    منٹو کا تذکرہ آج بھی ہوتا ہے، اس ادیب کو صرف پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ اس کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

     

     

    شاید ایسا اس لیے ہے کہ سعادت حسن منٹو نے سماجی حقیقتوں، سچائیوں، تلخیوں کو بیان کیا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی۔ آج اسی ادیب کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔

     

     

    گوگل نے اپنے ڈوڈل پر منٹو کو نمایاں کیا ہے جس کا مقصد انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔

     

     

    منٹو کی یہ تصاویر ان کی زندگی کے مختلف برسوں کی ہیں۔

     

     

    منٹو بھی دنیا کے اسٹیج کا ایک کردار تھے، اور ہر کردار کی طرح ان کی زندگی کی کہانی بھی موت کے ساتھ مکمل ہوئی۔ 1955 ان کی وفات کا سال ہے۔

     

     

    افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • تعاون…..

    تعاون…..

    سعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    دفعتا اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔ چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا، آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘ دوسرے نے با آواز بلند کہا۔ ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔۔۔۔ توڑ دو۔‘‘ ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ’’بھائیو ٹھیرو، میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کر کے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے، پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔

    ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو، مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بار پھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہ کر لو بھائی، اسے تہ کر لو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔ بڑی نازک چیز ہے۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔

    ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی، ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف۔‘‘ اور چشمِ زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ’’ٹائیگر ۔۔۔۔۔۔۔ ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘

  • بہروپیا

    بہروپیا

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔

    اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غربا ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے۔

    ان کے ٹھاٹھ تو کچھ ایسے امیرانہ نہ تھے، مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شاید وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔

    گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔

    ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اور انعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔

    جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کر رہا ہے۔ کبھی جٹا دھاری سادھو ہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہا دیو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔

    میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلا کا ضدی۔

    ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔

    ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن، صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔

    یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کر پل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔ میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘

    ’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘

    ’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘

    ’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کر امیر امرا کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا یہ شخص ہر روز آتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار۔ روز روز آئے تو لوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘

    ’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بھلا کتنا انعام ملتا ہو گا انہیں؟‘‘

    ’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ، کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیسِ اعظم صاحب اگر پانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔

    اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکر نہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘

    میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔

    بہروپیے کا پیٹھ موڑنا تھا کہ مدن دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘

    ’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا،’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اور کن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘

    مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ناچار میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

    یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھے کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔

    وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندر داخل ہو جاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی، مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیا تھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔

    ہم نے اب تک بڑی کام یابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔

    ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلد ہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ بہروپیا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جو ذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔

    جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہو گی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔

    بہروپیے نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، پھر ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘

    ’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘

    ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظار کیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔

    ’’یہ وہی ہے‘‘۔ یک بارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘

    اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔

    وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔

    پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابک دستی سے بناتا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔

    اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔ میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔

    ’’اسلم جلدی سے تیارہو جاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

    ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

    ’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘ اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔

    جب ہم کبھی دوڑتے، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا۔ ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گئے۔

    دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔

    ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہوئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولا رنگ، اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔

    وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ آگے ایک باڑا آیا، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔

    اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا۔ اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ ایک بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔

    جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘

    ’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا۔ وہ تو گوالا تھا گوالا۔ آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ تیزی سے ادھر آتا ہوا دکھائی دیا۔

    یہ جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘

    دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘

    میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتنا ہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔

    ہم لوگ تین بجے سے پہلے ہی پھر بہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

    ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہر نکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھا تھا۔ سر پر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کا سوانگ بھرا ہے۔

    ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں سے گزرا۔ تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گئے جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتا تھا۔ پھیری والے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، مٹھائیاں، چاٹ علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔

    ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکر شامل ہو گیا۔ اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی:’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کم زور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کو نظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجیے۔‘‘

    ’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دست یاب ہوا تھا۔ خدمتِ خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘

    میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کر دی تھی۔

    دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔

    ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔


    (مشہور ادیب اور افسانہ نگار غلام عباس کی ایک شان دار تخلیق)