Tag: اردو کے مشہور خاکے

  • گنجے نہاری والے کی دکان

    گنجے نہاری والے کی دکان

    ایرے غیرے نتھو خیرے نہاری کی دُکانیں لے بیٹھے ہیں۔ پہلے گنتی کے نہاری والے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلی قبر اور مٹیا محل کے درمیان۔ ان میں سے ہر ایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔

    سب سے زیادہ مشہور گنجے نہاری والے کی دکان تھی جو گھنٹہ گھر کے پاس قابل عطّار کے کوچے اور سیدانیوں کی گلی کے بیچ میں بیٹھتا تھا۔ جب تک یہ زندہ رہا، نہاری اپنے اصلی معنوں میں نہاری رہی۔ یہ کیا مرا کہ نہاری کا مزہ ہی مرگیا۔ نہاری کیا کھاتے ہیں کلیجا جلاتے ہیں۔

    یہ دکان ہم نے دیکھی ہے، بلکہ وہاں جاکر نہاری بھی کھائی ہے۔ شوقین دور دور سے پہنچتے تھے۔ گرم گرم روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ جتنی نلیاں چاہیں جھڑوائیں۔ بھیجا ڈلوایا۔ پیاز سے کڑکڑاتا ہوا گھی، بوم کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کا لچھا۔ کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائی اور کھٹے کی پھٹکار۔ سبحان اللہ نواب رام پور کا پورا دستر خوان صدقے تھا۔ گھروں میں اِس سامان کے لیے پورے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطف اٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا تھا۔

    شہر کے نہاری بازوں کی آج بھی نہاری والوں کے ہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ صبح سے دس بجے تک تانتا نہیں ٹوٹتا، تو اس کا ذکر ہی کیا خصوصاً گنجے کی دکان پر۔ سورج نکلا نہیں کہ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ دس اندر بیٹھے کھا رہے ہیں تو بیس پیالے، کٹورے بادیے، پتیلیاں لیے کھڑے ہیں۔ ایک پیسے سے لے کر دو روپے کے گاہک ہوتے تھے۔ لیکن مجال ہے کوئی ناراض ہو یا کسی کو اس کی مرضی کے مطابق نہ ملے۔ زیادہ سے زیادہ نو بجے دیگ صاف ہوجاتی تھی۔ اجلے پوشوں کے لیے بالاخانے پر انتظام تھا جہاں سب طرح کی آسانیاں تھیں۔

    یہ دکان دار گنجے نہاری والے ہی کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی آن کا کیا کہنا۔ سنا ہے کہ چھنّا مل والے دہلی کے رئیسِ اعظم اس کی دکان کو خریدنا چاہتے تھے۔ ہزار کوششیں کیں۔ روپے کا لالچ دیا۔ جایداد کی قیمت دُگنی اور چوگنی لگا دی، یہاں تک کہ دکان میں اشرفیاں بچھا دینے کو کہا۔ دوسرا ہوتا تو آنکھیں بند کر لیتا۔ وہیں کہیں قابل عطّار کے کوچے میں، بلی ماروں میں یا رائے مان کے کوچے میں جا بیٹھتا۔ لیکن میاں گنجے مرتے دم تک اپنی اسی آن سے وہیں بیٹھے رہے۔

    ہم پانچ چار دوست پیٹ بھر کر نہاری کے شوقین تھے۔ جاڑا آیا اور نہاری کا پروگرام بنا۔ یوں تو اتوار کے اتوار باری باری سے کسی نہ کسی کے گھر پر نہاری اڑا ہی کرتی تھی لیکن ہر پندرہویں دن اور اگر کوئی باہر کا مہمان آگیا تو اس معمول کے علاوہ بھی خاص دکان پر جاکر ضرور کھا لیا کرتے تھے۔

    ہمارا دستور تھا۔ ہم پر کیا منحصر ہے نہاری بازوں کے یہ بندھے ہوئے قاعدے ہیں کہ صبح کے لیے رات سے تیاری ہوتی تھی۔ تازہ خالص گھی دو چھٹانک فی کس کے حساب سے مہیا کیا جاتا تھا۔ گاجر کا حلوا حبش خاں کے پھاٹک یا جمال الدین عطّار سے لیتے تھے۔ اور تو کیا کہوں اب ویسا حلوا بھی کھانے میں نہیں آتا۔ گندے نالے کی پھکسی ہوئی نیلی سفید، پھیکی سیٹھی، کچی یا اتری ہوئے گاجروں کی گلتھی ہوتی ہے۔ اب اور کیا تعریف کروں۔ خیر! صبح ہوئی، موذّن نے اذان دی اور نہاری نے پیٹ میں گدگدیاں کیں۔

    ہمارے دوستوں میں خدا بخشے ایک سید پونیے تھے۔ بڑے زندہ دل، یاروں کے یار، نہایت خدمتی۔ یہ ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ اندھیرے سے اٹھ کر ایک ایک دوست کے دروازے کی کنڈی پیٹیں، گالیاں کھائیں، کوسنے سنیں اور ایک جگہ سب کو جمع کر دیں۔ سامان اسی غریب پر لادا جاتا۔

    جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے۔ رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔

    (یہ پارہ اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے مضمون سے لیا گیا ہے، جنھوں نے دلّی کی تہذیب و ثقافت کو اپنے دل نشیں‌ انداز میں تحریر کیا ہے)

  • دماغ چوئٹّا

    دماغ چوئٹّا

    سَن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں پندرہ سولہ سال ادھر کی بات ہے، میں حسبِ معمول لاہور گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ‘‘نیرنگِ خیال’’ گر رہا تھا اور ‘‘ادبی دنیا’’ ابھر رہا تھا۔ کرشنؔ چندر، اور راجندرؔ سنگھ بیدی خوب خوب لکھ رہے تھے۔ صلاحؔ الدین احمد اور میراجیؔ کی ادارت میں ‘‘ادبی دنیا’’ اِس نفاست سے نکل رہا تھا کہ دیکھنے دکھانے کی چیز ہوتا تھا۔

    میرا جیؔ کی شاعری سے مجھے کچھ دل چسپی تو نہیں تھی، مگر ایک عجوبہ چیز سمجھ کر میں اِسے پڑھ ضرور لیتا تھا۔ اسے سمجھنے کی اہلیت نہ تو اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔ اس کے مختصر سے مختصر اور طویل سے طویل مصرعے خواہ مخواہ جاذبِ نظر ہوتے تھے۔ چھوٹے سےچھوٹا مصرع ایک لفظ کا اور بڑے سے بڑا مصرع اتنا کہ ‘‘ادبی دنیا’’ کے جہازی سائز کی ایک پوری سطر سے نکل کر دوسری سطر کا بھی آدھا پونا حصہ دبا لیتا تھا۔

    خیر تو مطلب وطلب تو خاک سمجھ میں آتا نہ تھا۔ البتہ میرا جیؔ کی نظم میں وہی کشش ہوتی تھی جو ایک معمّے میں ہوتی ہے، مگر ان کی نثر میں بَلا کی دل کشی ہوتی تھی۔ مشرق کے شاعروں اور مغرب کے شاعروں پر انہوں نے سلسلے وار کئی مضامین لکھے تھے اور سب کے سب ایک سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کے علاوہ ادبی جائزے میں جس دقّتِ نظر سے میرا جیؔ کام لیتے بہت کم سخن فہم اس حد کو پہنچتے۔

    ہاں تو میں لاہور گیا تو مال روڈ پر ‘‘ادبی دنیا’’ کے دفتر بھی گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو صلاح الدین احمد نظر نہیں آئے۔ سامنے ایک عجیب وضع کا انسان بیٹھا تھا۔ زلفیں چھوٹی ہوئی، کھلی پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، استواں ناک، موزوں دہانہ، کترواں مونچھیں، منڈی ہوئی ڈاڑھی، تھوڑی سے عزم ٹپکتا تھا۔ نظریں بنفشی شعاعوں کی طرح آر پار ہوجانے والی۔ خاصی اچھی صورت شکل تھی، مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ موانست کی بجائے رمیدگی کا احساس ہوا۔

    گرمیوں میں گرم کوٹ! خیال آیا کہ شاید گرم چائے کی طرح گرم کوٹ بھی گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتا ہو گا، دل نے کہا ہو نہ ہو میرا جیؔ ہو۔ یہ تو اس شخص کی شاعری سے ظاہر تھا کہ غیرمعمولی انسان ہوگا۔

    پوچھا ‘‘صلاحؔ الدین احمد صاحب کہاں ہیں؟’’ بولے ‘‘کہیں گئے ہوئے ہیں۔’’ پوچھا ‘‘آپ میرا جی ہیں؟’’ بولے ‘‘جی ہاں۔’’ میں نے اپنا نام بتایا۔ تپاک سے ملے۔ کچھ دیر ان سے رسمی سی باتیں ہوئیں۔ ان کے بولنے کاانداز ایسا تھا جیسے خفا ہو رہے ہوں، نپے تلے فقرے ایک خاص لہجے میں بولتے اور چپکے ہوجاتے۔ زیادہ بات کرنے کے وہ قائل نہ تھے، اور نہ انہیں تکلف کی گفتگو آتی تھی۔ پہلا اثر یہ ہوا کہ یہ شخص اکھل کھرا ہے، دماغ چوئٹا ہے۔

    مختصر سی بات چیت کے بعد اجازت چاہی۔ باہر نکلے تو میرے ساتھی نے کہا ‘‘ارے میاں یہ تو ڈاکو معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ضرور کوئی خون کیا ہے، دیکھا نہیں تم نے؟ اس کی آنکھیں کیسی تھیں؟’’ میں نے کہا ‘‘یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ کیا ہے۔ مگر آدمی اپنی وضع کا ایک ہے۔’’

    تھوڑے ہی عرصہ بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اب کے دلّی میں۔ ریڈیو پر وہ تقریر کرنے آئے تھے۔ مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ جب گئے تو بہت کچھ پہلا اثر زائل کرگئے۔ آدمی تو برا نہیں ہے۔ دماغ چوئٹّا بھی نہیں ہے ورنہ ملنے کیوں آتا؟

    پھر ایک دفعہ آئے اور بولے کہ ‘‘ریڈیو میں مُلازمت کے لیے بُلایا ہے۔’’ مجھے کچھ تعجب سا ہوا کہ یہ شخص ریڈیو میں کیا کرے گا؟ بہرحال معلوم ہوا کہ گیت لکھیں گے اور نثر کی چیزیں بھی۔ تنخواہ ڈیڑھ سو ملے گی۔ میں نے کہا ‘‘تنخواہ کم ہے۔ ادبی دُنیا میں آپ کو کیا ملتا تھا؟’’ بولے ‘‘تیس روپے’’۔ میں نے حیرت سے کہا ‘‘بس!’’ کہنے لگے‘‘مولانا سے دوستانہ تعلقات تھے۔’’ میں نے کہا ‘‘تو ٹھیک ہے۔ حسابِ دوستاں درِ دل۔’’

    معلوم ہوا کہ بیوی بچے تو ہیں نہیں کیوں کہ شادی ہی نہیں کی۔ اپنے خرچے بھر کو ڈیڑھ سو روپے بہت تھے۔ چنانچہ میراجیؔ ریڈیو میں نوکر ہوگئے اور ان سے اکثر ملاقات ہونے لگی۔

    (معروف ادیب، انشا پرداز، خاکہ و سوانح نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے ایک پارہ)