Tag: اردو کے مشہور شاعر

  • اردو شاعری میں‌ گیت نگاری

    اردو شاعری میں‌ گیت نگاری

    اردو شاعری کا بیش تر سرمایہ فارسی اور عربی سے حاصل ہوا ہے، مگر گیت اردو میں ہندی شاعری کے اثر سے وجود میں آیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیت خالص ہندوستانی صنفِ سخن ہے۔

    گیت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راگ ، سرود اور نغمہ کے ہیں۔ گیت کسی خاص موضوع یا ہیئت کے پابند نہیں ہاں مگر گیت میں محبوب مرد اور عاشق عورت ہوتی ہے۔ جس میں عاشق یعنی عورت اپنے محبوب یعنی مرد سے جذبۂ محبت، نغمگی، نسوانیت، غنائیت اور ترنم ریزی کے ساتھ اپنے والہانہ انداز میں اپنے عشق کا اظہار کرتی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ گیت صرف ان ہی موضوعات کے لیے ہوتے ہیں۔

    گیت کے موضوعات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے کی وجہ سے عشق، بھگتی، عبادت، محبّت، رزم، بزم غرض وہ ہر شے جو انسانی احساس کا حصہ ہے گیت میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ گیت کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

    ’’ اگر گیت مرد کی طرف سے کہا جائے تو بھی اُس کے مزاج میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ ویسے مرد کے کردار کا ایک نسوانی رخ بھی ہوتا ہے جو اگر گیت میں اپنا اظہار کرے تو اس میں کوئی مزاج بھی نہیں۔ اس سب کے باوجود گیت بنیادی طور پر عورت کے اظہارِ محبّت کی ایک صورت ہے اور اس کے معتدبہ حصّے میں مرد ہی مخاطب اور محبوب ہے۔‘‘

    گیت اپنے منفرد تہذیبی ورثے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے جس میں محبّت اور نغمے کی آمیزش سے پیدا ہونے والی نہایت لطیف و دل کش روایت شامل ہے۔ چوں کہ گیت کا موسیقی سے گہرا ربط ہے، ترنّم اور لَے اور جھنکار اور تھاپ وغیرہ اس کے گائے جانے میں استعمال ہوتے رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گیت پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے۔ جو موسیقی کے ساتھ نمودارہوتا ہے۔

    گیت کے متعلق شمیم احمد لکھتے ہیں: ’’گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبّت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

    گیت کی کوئی خاص ہیئت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی بھی ہیئت میں لکھا جاسکتا ہے۔ ویسے عموماً گیت کا مکھڑاہوتا ہے جو دراصل گیت کا پہلا شعر یا پہلا مصرع ہوتا ہے۔ اس کے بعد گیت کے کچھ بند ہوتے ہیں جن کی تعداد عموماً چار یا پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر بند کے بعد گیت کے مکھڑے کا ہم قافیہ ایک مصرع نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ مکھڑے ہی کو دہرایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ہر بند کے بعد مکھڑے کا ہم قافیہ مصرع نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ مکھڑا ہی کو دہرایا جاتا ہے۔ گیت کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے لیکن عموماًچھوٹی بحریں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی گیت کا مکھڑا ایک بحر میں اور بول مختلف بحر میں ہوتے ہیں۔

    گیت کے تمام بند خیال یا مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ پورے گیت میں ایک ہی خیال کو پیش کیا جاتا ہے۔ گیت کی ہیئت غزل کی ہیئت کی طرح کسی کسائی اور متعین نہیں ہوتی بلکہ ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے۔ اس کا مکھڑا ایک مصرعے کا بھی ہو سکتا ہے یا ایک شعر پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔

    اسی طرح گیت کے جو بند ہوتے ہیں ان میں بھی مصرعوں کی کوئی متعین تعداد نہیں ہوتی۔ کسی گیت میں ہر بند میں چار چار مصرعے ہو سکتے ہیں تو کسی گیت میں تین تین مصرعوں کے بند بھی ہوسکتے ہیں۔ ہر بند کے بعد گیت اپنے مکھڑے کو دہرانے کے لیے فضا ہموار کرتا ہے۔ یہ مصرع مکھڑے کا ہم وزن بھی ہوسکتا ہے یا اس سے کچھ چھوٹا یا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں کہیں ایک ہی مصرعے کو توڑ کر دو سطروں میں لکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کی گیت کی ہیئت میں بڑی لچک ہوتی ہے۔ گیت کی ہیئت کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ گیت کا مکھڑا وہ گیت کے ہر بند کے بعد دہرایا جا سکتا ہے۔

    غزل کی طرح گیت بھی شاعری کی ایک داخلی اور غنائی صنف ہونے کی وجہ سے شخصی جذبات و احساسات کا بے تکلف اور والہانہ اظہار ہوتا ہے۔ گیت میں محبوب سے جدائی کی تڑپ اور وصال کی آرزو مندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ان معنوں میں گیت ایک فراق زدہ عورت کے دل کی صدائے پُر سوز ہے۔ چوں کہ گیت اور سنگیت کا چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے، اس لیے سازوں کی آمیزش گیت کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔

    اردو میں گیت کی روایت امیر خسرو کے عہد سے مانی جاتی ہے۔ امیر خسرو نے راگ راگنیوں کے ساتھ گیت کو پروان چڑھانے کے لیے راگوں کو ایجاد بھی کیا۔ امیر خسرو کے عہد سے تا حال اردو میں جو گیت لکھے گئے اس کا خاص موضوع عشق ہے۔ جدائی غم، اور ملن کی خوشی سے ہمارے گیت بھرے پڑے ہیں۔

    امیر خسرو کی مشہور غزل ’’زحالِ مسکین مکن تغافل‘‘ میں جو مصرعے یا مصرعوں کے ٹکڑے ہندوستانی زبان میں ہیں، انھیں ہم گیت کے اوّلین نقوش کہہ سکتے ہیں۔ ان مصرعوں میں عورت کی طرف سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور فراق کی کیفیت بیان ہوتی ہے جو گیت کی خصوصیت ہے۔

    (ڈاکٹر آفتاب عرشی(بھارت) کے مقالے سے نقل)

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    30 مارچ 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ مشہور ماہ نامہ افکار کے مدیر تھے۔

    لکھنؤ ان کا آبائی وطن تھا۔ تاہم صہبا لکھنوی نے بھوپال میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ بعد میں لکھنؤ اور بمبئی کے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی۔ 25 دسمبر 1919ء کو پیدا ہونے والے صہبا لکھنوی کا اصل نام سیّد شرافت علی تھا۔

    انھوں نے 1945ء میں ماہ نامہ افکار کا اجرا بھوپال سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں 1951ء میں دوبارہ ماہ نامہ افکار جاری کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی وفات تک جاری رہی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شایع کیا۔

    صہبا لکھنوی کے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیرِ آسماں کے نام اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی نثری کتب میں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی، فن و شخصیت اور منٹو ایک کتاب شامل ہیں۔

    صہبا لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کتنے دیپ بجھتے ہیں، کتنے دیپ جلتے ہیں
    عزمِ زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

    کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
    منزلیں نہیں یارو، راستے بدلتے ہیں

    موج موج طوفاں ہے، موج موج ساحل ہے
    کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے بچ نکلتے ہیں

    اک بہار آتی ہے، اک بہار جاتی ہے
    غنچے مسکراتے ہیں، پھول ہاتھ ملتے ہیں

  • سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    انگریز برِصغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے، یہ کپاس انگلستان جاتی، وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے۔

    پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

    ایک کپاس ہی کیا، برِصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برِصغیر میں کارخانے بھی کم تھے۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

    برِصغیر کے راہ نماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کے لیے سودیشی تحریک شروع کی۔ سودیشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برِصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

    دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔ یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

    سودیشی تحریک کو لوگوں نے کام یاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہے۔

    ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے۔ رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔”

    مولانا سیّد صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سیّد صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے تو ہیں۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے۔

    ہُوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے، مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچّے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

    اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی” سے نثر پارے)

  • سیماب اکبر آبادی: اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    سیماب اکبر آبادی: اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    آج اردو کے قادرُ الکلام شاعر سیماب اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 31 جنوری1951ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ سیماب اکبر آبادی کراچی میں قائدِاعظم کے مزار کے نزدیک آسودہ خاک ہیں۔

    اکبر آباد، آگرہ میں‌ 5 جون 1880ء کو پیدا ہونے والے سیماب کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ مشقِ سخن کے بعد ایک وقت آیا جب خود سیماب کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔

    وہ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہے، لیکن زبان و ادب کی خدمت کے خیال سے مستعفی ہوکر آگرہ میں ’’قصرُ الادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تاج‘‘ اور ایک ماہ نامہ پرچہ ’’شاعر‘‘ نکالا اور شعروادب کو فروغ دیا۔

    علّامہ سیماب اکبر آبادی کو اردو، فارسی اور ہندی زبان کے قادرُ الکلام شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جن کی تصانیف کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ وحئ منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا۔

    ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف اصنافِ سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام، نوحہ اور حمد و نعت میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کام یاب اور بامقصد تجربے کیے اور مقبولیت حاصل کی۔ سیماب اکبر آبادی کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور ان کا کلام اپنے زمانے کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا۔

    سیماب اکبر آبادی کی شاعری ان کے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کے سبب اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ خاصی مقبول ہوئی اور وہ ہر خاص و عام میں‌ پہچانے جاتے تھے۔ نیرنگیِ خیال، شستہ و پاکیزہ، پُراثر اور زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے آراستہ ان کا کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

    ان کی تصانیف میں ’’کلیمِ عجم‘‘، ’’سدرۃُ المنتہیٰ‘‘، ’’لوحِ محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کارِ امروز‘‘، ’’ساز و آہنگ‘‘، ’’الہامِ منظوم‘‘(مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالمِ آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیّرِ غم‘‘(سلام و مراثی)، ’’شعر انقلاب‘(انقلابی نظمیں) شامل ہیں۔

    سیمابؔ کے اشعار موجودہ دور اور آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انہی کا ایک شعر دیکھیے۔

    کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
    جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

  • ‘سخن کے معبدِ بے سائباں’ کے مکیں عبد العزیز خالد کی برسی

    ‘سخن کے معبدِ بے سائباں’ کے مکیں عبد العزیز خالد کی برسی

    اردو کے نام ور شاعر عبدالعزیز خالد 28 جنوری 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں شاعری میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کیا جس نے اس صنفِ ادب میں مشرقی روح اور طرزِ بیاں کو زندہ کیا۔

    عبدالعزیز خالد 14 جنوری 1927ء کو تحصیل نکو در ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے فارغ التّحصیل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں کالج کے مجلّے کی ادارت کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    1950ء میں انھوں‌ نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس افسر مقرّر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ ملازمت کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور ان کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں۔

    عبد العزیز خالد کو اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اپنی اسی قابلیت کی بنیاد پر انھوں نے غیر ملکی زبانوں کے شعری تراجم بھی کیے۔

    عبدالعزیز خالد کی تصانیف میں ماتم یک شہرِ آرزو، زرِ داغِ دل، خروشِ خم، فارقلیط، غبارِ شبنم، سرابِ ساحل، کلکِ موج، برگِ خزاں، دکانِ شیشہ گر، کفِ دریا، غزلُ الغزلات کے علاوہ سیفو، ٹیگور اور ہوچی منہ کی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔

    عبد العزیز خالد کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    آج اردو زبان کے نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور اردو زبان میں‌ تعلیم و تدریس کے لیے دنیا بھر میں‌ مشہور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد رضی اختر شوق کراچی آگئے جہاں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنے جدید اور منفرد لب و لہجے کے سبب پہچان بنائی۔ وہ ایک اچّھے ڈراما نگار بھی تھے اور ان کے ڈرامے ریڈیو پر پسند کیے گئے۔

    رضی اختر شوق کے شعری مجموعوں میں مرے موسم، مرے خواب اور جست شامل ہیں۔ ان کے متعدد اشعار میں سے چند یہ ہیں۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

    ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں
    میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے

  • ایک بد ذوق اور خوش قسمت

    ایک بد ذوق اور خوش قسمت

    حضرت تابش ؔدہلوی کا شمار بھی اساتذۂ فن میں ہوتا ہے، لیکن ان کی خوش گوئی اور خوش فکری میں کلام نہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول شاعروں میں سے ہیں۔ ہمارے دل میں ان کا بے حد احترام ہے۔ اسی لیے ہم نے ان کے مجموعہ ہائے کلام کو ادباً دُور ہی سے دیکھا ہے۔

    ان کے نئے مجموعے کو قریب سے دیکھنے کی اتفاقی صورت یوں پیدا ہوگئی ہے کہ پچھلے دنوں ہم حیدر آباد سندھ جا رہے تھے، بس میں ہمارے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک کتا ب تھی، جسے وہ بڑے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔ ہمیں ان صاحب کی بد ذوقی پر حیرت ہوئی کہ بس کے تمام مسافر تو ڈرائیور کے ذاتی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے نازیہ اور زوہیب کے نئے گانوں سے محظوظ ہو رہے ہیں اور یہ صاحب کتاب پڑھ رہے ہیں۔

    اسی دوران بلا ارادہ ہماری نظر اس صفحے پر پڑی جو موصوف کے سامنے کھلا تھا۔ اس پر جلی حرفوں میں یہ عنوان درج تھا: ’’شان الحق حقی کی شادی پر غالبؔ سے معذرت کے ساتھ‘‘ ہم شان صاحب کے پرانے نیاز مند ہیں۔ اس لیے اس عنوان پر ہمیں بے حد تعجب ہوا۔ شان صاحب کی شادی پر غالب سے معذرت کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہ آئی۔

    شان صاحب غالبؔ کے دیوان کی شرح لکھتے یا تضمین کرتے تو معذرت کی گنجائش تھی، مگر شادی تو بالکل ایک مختلف کام ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہم سفر سے کتاب دیکھنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے فوراً اسے ہمارے حوالے کر دیا، جیسے وہ اسی انتظار میں ہوں کہ کوئی ان سے کتاب لے لے۔

    اس کے بعد وہ تو گانے سننے میں اور ہم کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے اور یوں ہم نے جناب شان الحق حقی سے نیاز مندی کا رشتہ رکھنے کی پاداش میں حضرتِ تابش دہلوی کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’غبارِ انجم‘‘ سے استفادہ کیا۔ اسے ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔

    (خامہ بگوش کے قلم سے از مشفق خواجہ)

  • نام وَر شاعر اور ادیب صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات

    نام وَر شاعر اور ادیب صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات

    اردو کے نام ور شاعر، ادیب اور مترجم صبا اکبر آبادی 29 اکتوبر 1991ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج نظم و نثر کی آبیاری کرنے اور اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کرنے والے اس نام وَر تخلیق کار کی برسی ہے۔

    صبا اکبر آبادی کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ وہ 14 اگست 1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے شاعری کا آغاز کیا تو استاد خادم علی خاں اخضر سے اصلاح لی۔ 1928ء میں صبا اکبر آبادی نے ادبی ماہ نامہ ’’آزاد‘‘ نکالا۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور سندھ کے شہر حیدرآباد میں‌ قیام کیا، بعد میں‌ کراچی میں سکونت اختیار کرلی اور یہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراقِ گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغِ بہار، خوں ناب، حرزِ جاں، ثبات اور دستِ دعا شامل ہیں۔ مرثیہ نگاری بھی صبا اکبر آبادی کا ایک مستند حوالہ ہے اور ان کے لکھے ہوئے مرثیوں‌ کے مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاسِ الم شائع ہوئے۔

    انھوں نے فارسی ادب سے عمر خیام، غالب، حافظ اور امیر خسرو کا کلام منتخب کر کے اردو میں‌ منظوم ترجمہ کیا۔ صبا اکبر آبادی نے ایک ناول بھی لکھا اور وہ ’’زندہ لاش‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    صبا اکبر آبادی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

    یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
    کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

    اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
    عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں

    اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
    رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

    سونا تھا جتنا عہدِ جوانی میں سو لیے
    اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے