Tag: اردو کے مشہور شاعر

  • کیا آپ جوشش ؔ  کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ جوشش ؔ کو جانتے ہیں؟

    اردو شاعری کے کلاسیکی عہد کے کئی نام ایسے ہیں‌ جن کا نہ تو کلام محفوظ رہا اور نہ ہی ان کے حالاتِ زندگی معلوم ہیں۔ چند سوانحی خاکے ہیں‌ بھی تو نامکمل اور اکثر غیرمستند۔ اسی طرح ان کا بہت کم کلام دست یاب ہوسکا ہے

    جوشش سے بھی بہت سے قارئین واقف نہیں‌ ہوں‌ گے، ان کا کلام بہت کم سنا اور پڑھا گیا ہو گا، لیکن انھیں میر تقی میر کا ہم عصر بتایا جاتا ہے۔ دست یاب سوانحی خاکہ بتاتا ہے کہ 1737 میں‌ عظیم آباد میں‌ آنکھ کھولی اور 1801 تک زندگی کا سفر جاری رہا۔ دبستانِ دلّی کے قائل اور اپنے زمانے میں‌ عظیم آباد کے نمائندہ شعرا میں‌ شمار ہوئے۔ ان کا اصل نام شیخ محمد روشن تھا۔ سخن وری میں‌ کمال رکھتے تھے اور علمِ عروض کے ماہر تھے۔ جوشش کی ایک غزل پیشِ‌ خدمت ہے۔

    غزل
    چشمِ خونخوار، ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
    ہیں جدا لیکن بوقتِ کار دونوں ایک ہیں

    باعثِ آرام یہ، نے موجبِ آزار وہ
    چشمِ وحدت میں ہی گل اور خار دونوں ایک ہیں

    التیامِ زخمِ دل کے حق میں گر کیجے نگاہ
    سبزۂ خط مرہمِ زنگار دونوں ایک ہیں

    میرے اس کے گو جدائی آ گئی ہے درمیاں
    جس گھڑی باہم ہوئے دو چار دونوں ایک ہیں

    جو نہ مانے اُس کو عاشق ہو کے اس پہ دیکھ لے
    ابروئے خم دار اور تلوار دونوں ایک ہیں

    یہ نہیں کہنے کا جوشش ؔ ہو گا جو صاحب دماغ
    زلفِ یار و نافۂ تاتار دونوں ایک ہیں

    (شاعر: شیخ محمد روشن جوشش)

  • علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    جہانِ سخن میں‌ مرزا غالب اور علامہ اقبال کا شہرہ و چرچا آج بھی ہے اور ہوتا رہے گا۔ انھیں آفاقی شاعر، عظیم سخن ور، فلسفی اور مفکر کہا جاتا ہے، لیکن اردو زبان و ادب کے نام ور نقاد ان شعرا کی فکر اور کمالِ فن کا جائزہ لیتے ہیں تو مختلف جہات اور ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو غالب شناسی اور اقبالیات کا موضوع ہیں، تاہم یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ان شعرا کی فکری اساس کا مشترک اور اہم ترین پہلو انسان کی عظمت اور شان ہے۔

    یہاں‌ ہم اقبال اور غالب کے وہ مشہور اشعار قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں جو ان کی فکری اساس اور نکتہ رسی کا مظہر ہیں۔

    اردو کے بعض ناقد کہتے ہیں کہ اقبال کا غالب اور حالی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، لیکن مرزا غالب اپنے مفکرانہ انداز اور فلسفیانہ مضامین کے باوجود صرف غزل گو شاعر ہیں اور ان کے کلام میں‌ کوئی مخصوص پیغام نظر نہیں آتا۔ اقبال نے مفکرانہ شاعری غالب ہی سے سیکھی، لیکن اپنے کلام کے ذریعے مخصوص نظامِ فکر کے پرچارک بنے اور تسلسل کے ساتھ استدلال نے ان کی شاعری کو بامقصد اور پیغام آفریں بنایا۔

    اس ضمن میں‌ یہ اشعار دیکھیے۔

    فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں‌
    موج ہے دریا میں‌ اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (علّامہ اقبال)

    آبرو کیا خاک اس گُل کی جو گلشن میں‌ نہیں
    ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں ‌نہیں (مرزا غالب)

    ستاروں سے آگے جہاں‌ اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (علّامہ اقبال)

    ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
    ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا (مرزا غالب)

  • رجحان ساز شاعر ن۔ م راشد کا یومِ وفات

    رجحان ساز شاعر ن۔ م راشد کا یومِ وفات

    ن۔م۔ راشد دنیائے ادب کا ایک معتبر نام ہے جنھوں نے اردو نظم کو نئی ترنگ، آہنگ دیا اور شاعری کی اس صنف میں نئے اور منفرد موضوعات کو اس خوبی سے سمیٹا کہ ان کا اسلوب اور انداز ان کی پہچان بن گیا۔ آج اردو کے اس ممتاز شاعر کا یومِ وفات ہے۔ وہ لندن میں 9 اکتوبر 1975 کو انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ یکم اگست 1910 کو اکال گڑھ، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا سلسلہ شروع ہوا تو خود کو ن۔ م راشد کے نام سے متعارف کروایا۔ نظم گوئی اس شاعر کا وہ حوالہ ہے جس نے اس صنف کو عہد آفریں تبدیلیوں سے ہم کنار کیا اور روایت سے ہٹ کر ہیئت و اسلوب میں‌ وہ تجربات کیے جس نے نظم کو نئی ترنگ اور آہنگ دیا۔

    ن۔ م راشد کا پہلا مجموعہ ’’ماورا‘‘ 1941 میں شایع ہوا جس نے روایت کی پابند اور مخصوص موضوعات تک محدود نظم گوئی کا سانچہ ہی بدل دیا۔ انھوں نے آزاد نظم کا تجربہ کیا اور اسے مقبول بنایا۔

    ن۔ م راشد نے عالمی ادب سے متاثر ہو کر نظم کو اس کے روایتی سانچے سے باہر نکالا اور جدید اسلوب کو اپنایا جس پر شدید تنقید بھی ہوئی، لیکن انھوں نے پروا نہ کی اور اسی اسلوب اور نظم میں جدت نے بہت جلد دیگر شعرا کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

    اردو شاعری کو راشد نے جہاں نئے ڈھب سے آشنا کیا، وہیں نظم گوئی میں ان کے تجربات نے امکانات کا در بھی کھولا جس کا بعد میں‌ آنے والے شعرا نے بھی تعاقب کیا اور اس صنف کو تازہ خیالات اور نادر موضوعات سے مالا مال کیا۔

    ن۔ م راشد مختلف ممالک میں قیام پزیر رہے اور ان کی زندگی کے آخری ایّام لندن میں گزرے۔ ن۔ م راشد نے غزلیں بھی کہیں، لیکن ان کی وجہِ شہرت ان کی نظمیں ہیں۔

    اس شاعر کی ایک مشہور نظم "زندگی سے ڈرتے ہو” باذوق قارئین کی نذر ہے

    زندگی سے ڈرتے ہو؟
    زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
    زندگی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں
    آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
    اس سے تم نہیں ڈرتے!
    حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
    آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
    اس سے تم نہیں ڈرتے
    ”ان کہی” سے ڈرتے ہو
    جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
    اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
    پہلے بھی تو گزرے ہیں
    دورِ نارسائی کے ”بے ریا” خدائی کے
    پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
    یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خداوندی
    تم مگر یہ کیا جانو
    لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
    ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
    نور کی زباں بن کر
    ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
    روشنی سے ڈرتے ہو
    روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
    روشنی سے ڈرتے ہو
    شہر کی فصیلوں پر
    دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
    رات کا لبادہ بھی
    چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
    اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
    ذات کی صدا آئی
    راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
    اک نیا جنوں لپکے
    آدمی چھلک اٹھے
    آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
    تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
    ہاں ابھی تو تم بھی ہو
    ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں!
    تم ابھی سے ڈرتے ہو

  • مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جو کم عمری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انڈسٹری میں نام اور مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ 17 اگست 1982 کو پاکستان کی فلمی صنعت کے اس خوب صورت نغمہ نگار کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا اور والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ تسلیم فاضلی صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر اپنے دل کش گیتوں‌ کی وجہ سے وہ آج بھی دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • اور نواب تاباں کا ناریل چٹخ گیا!

    اور نواب تاباں کا ناریل چٹخ گیا!

    نواب تاباں نواب سائل کے بڑے بھائی تھے۔ بالکل انھیں کی طرح میدہ و شباب رنگ، ویسا ہی ڈیل ڈول، ناک نقشہ اور لباس، مگر دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی سے نہ جانے کیا کد تھی کہ ہمیشہ برا بھلا ہی کہتے رہتے تھے۔ بلکہ گالیاں دینے سے نہ چوکتے تھے اور گالی بھی ایک سے ایک نئی تراشتے تھے۔ سائل بے چارے سر جھکا کر کہتے ’’بھائی جان آدھی مجھ پر پڑرہی ہیں اور آدھی آپ پر‘‘ اس پر وہ اور بگڑتے اور ایسی سناتے جو دھری جائیں نہ اُٹھائی جائیں۔

    نواب تاباں بھی شاعر تھے۔ اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم اجمل خان کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباں کی تعریف غائبانہ سن چکے تھے۔ ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔ حکیم صاحب نے ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیرمقدم کیا۔ عزت سے بٹھایا۔ خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مُدَمّعِْ آدمی تھے، خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباں نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے،

    ’’ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے اور غزل کا اگلا شعر سنایا۔ مولانا نے فرمایا سبحان ﷲ خوب شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘

    بس پھر تاباں آئیں تو جائیں کہاں؟ بگڑ کر بولے،

    ’’ابے میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے اسے ایک منٹ میں سمجھ لیا، بیٹا یہ شعر العجم نباشد۔ اس کے بعد ان کی گالیوں کا پٹارہ کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہوگیا۔

  • اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے!

    اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے!

    عبدالحمید عدمؔ اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر ہیں۔ عدم نے غزلوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے مختصر بحروں کا انتخاب‌ کیا۔ ان کا سادہ مگر دل کش اندازِ بیاں انھیں دیگر شعرا سے جدا کرتا ہے۔ عدم کا کلام سہلِ ممتنع کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور یہ شعر تو آپ کو بھی یاد ہو گا۔

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں‌ اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ کی ایک غزل آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

    آگہی میں اک خلا موجود ہے
    اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

    ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
    آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے

    بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
    سادگی کی انتہا موجود ہے

    ہے مکمل بادشاہی کی دلیل
    گھر میں گر اک بوریا موجود ہے

    اس لیے تنہا ہوں میں گرمِ سفر
    قافلے میں رہنما موجود ہے

    ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
    ہر لگن میں مدعا موجود ہے

    ہر جگہ، ہر شہر، ہر اقلیم میں
    دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے

    جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ
    وہ ستم گر جا بہ جا موجود ہے

  • ساغر صدیقی: "بُھولی ہوئی صدا ہوں، مجھے یاد کیجیے”

    ساغر صدیقی: "بُھولی ہوئی صدا ہوں، مجھے یاد کیجیے”

    اردو ادب میں ساغر صدیقی کو ایک درویش، خلوت پسند اور فقیرانہ بود و باش والا شاعر کہا جاتا ہے جو 19 جولائی 1974 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اردو کے اس نام ور شاعر کا اصل نام محمد اختر تھا۔ 1928 میں انبالہ میں پیدا ہونے والے محمد اختر کو کم عمری ہی سے شعر و شاعری سے شغف پیدا ہو گیا تھا۔

    شاعری کا آغاز کیا تو ناصر حجازی تخلص کرنے لگے اور بعد میں ساغر صدیقی کے نام سے شہرت کا سفر شروع کیا۔

    ساغر صدیقی نے درد و غم، رنج و الم، حسرت و یاس کے مضامین کو نہایت خوب صورتی سے اپنے شعروں‌ میں باندھا۔ وہ زود گو تھے اور کئی فلموں کے لیے نغمات بھی تخلیق کیے، مگر بدقسمتی سے‌ جذباتی اور ذہنی انتشار نے انھیں نشے کی طرف دھکیل دیا اور وہ سبھی سے کنارہ کش ہوگئے۔

    ساغر صدیقی قبرستان یا کسی مزار پر پڑے رہتے اور اس ماحول میں نشے کی وجہ سے صحت خراب ہوتی چلی گئی اور یوں 46 برس کی عمر میں لاہور میں‌ یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

    ساغر صدیقی کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں خشتِ میکدہ، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور زہر آرزو شامل ہیں۔ ان کی ایک غزل کے دو شعر:

    بُھولی ہوئی صدا ہوں، مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں، مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں، خضر نہیں، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں، مجھے یاد کیجیے

    اور یہ شعر دیکھیے
    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

  • مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    ذوالفقار علی بخاری کو دنیائے ادب اور فنون میں زیڈ اے بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی وجہِ شہرت شاعری اور صدا کاری ہے، لیکن تخلیقی جوہر سے مالا مال زیڈ اے بخاری نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک ماہرِ نشریات اور منتظم، پروڈیوسر اور اسٹیج اداکار کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ 12 جولائی 1975 کو زیڈ اے بخاری اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    وہ 1904 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں سب بخاری صاحب پکارتے جو اردو زبان کی صحت، املا اور ریڈیو پر درست تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    زیڈ اے بخاری کو کم عمری ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی تھے۔

    یہ 1936 کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب بھی اس میڈیم سے منسلک ہوگئے اور زندگی بھر ریڈیو سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لندن سے ریڈیو نشریات کے لیے تربیت حاصل کی اور واپسی پر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

    جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام عمل میں‌ لایا گیا تو بخاری صاحب ہی پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔

    ان کے والد صاحبِ دیوان نعت گو شاعر جب کہ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ایسے علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پروان چڑھنے والے بخاری صاحب کو حسرت موہانی، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی جیسے عظیم شعرا کی صحبت بھی میسر آئی جس نے انھیں‌ شاعری پر مائل کیا۔

    زیڈ اے بخاری کو اردو کے علاوہ فارسی، پنجابی، پشتو، بنگالی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے زمانے میں صحتِ زبان کا بہت خیال رکھا گیا۔

    زیڈ اے بخاری نے اپنے حالاتِ زندگی کو ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیا جو نثر میں ان کے کمال کی یادگار ہے۔ موسیقی کے رسیا ہی نہیں‌ راگ راگنیوں‌ سے بھی واقف تھے اور فنِ موسیقی پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی ان کی یادگار ہے۔

  • خیامُ الہند کی شاعری جگر کے قدموں میں

    خیامُ الہند کی شاعری جگر کے قدموں میں

    ایک دور تھا جب شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی اپنے فن اور تخلیقات کی وجہ سے ہندوستان بھر میں پہچانے جاتے تھے۔ انھیں ادبی محافل اور خاص طور پر مشاعروں میں‌ مدعو کیا جاتا اور بڑی تعداد میں سامعین ان کا کلام سننے کے لیے پنڈال میں جمع ہوتے تھے۔

    آج بھی جگر کا نام اور ان کا کلام ہمارے ذوق کی تسکین کرتا ہے اور جگر کے فن اور ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

    یہ ادبی تذکرہ جگر مراد آبادی کی فنی عظمت اور شعروسخن میں ان کے کمال کی ایک مثال ہے۔

    کہتے ہیں ہندوستان میں ایک مشاعرہ تھا جس میں جگر بھی مدعو تھے۔شعرا کو ردیف "دل بنا دیا” کے ساتھ اپنے تخیل کو باندھنا تھا۔

    سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف میں اپنا شعر پیش کیا:

    اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
    سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا

    اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟

    لیکن پاک و ہند کے مشہور شاعر جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہو گیا۔ جگر کا شعر تھا:

    بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
    جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا

    حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھے اور خیامُ الہند کہلاتے تھے۔ جگر کا کلام سنتے ہی گویا سکتے کی کیفیت میں آگئے، جگر کو گلے سے لگایا، ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی جگر کے پیروں میں ڈال دیے۔

  • لفافے میں لفافہ رکھنے کی کیا وجہ تھی؟

    لفافے میں لفافہ رکھنے کی کیا وجہ تھی؟

    استاد شعرا میں داغؔ دہلوی کا نام و مرتبہ بہت بلند ہے اور اپنے کلام کی وجہ سے وہ اپنے زمانے کے دیگر شعرا میں ممتاز ہیں۔

    شاہی دربار، نواب اور امرا کے یہاں ان کا خوب ذکر ہوتا تھا اور اکثر سے وظیفہ بھی پاتے رہے۔ شعروسخن کے ساتھ سر اور تال، رقص کی محافل بھی اس دور میں خوب جما کرتی تھیں۔ داغ کو بھی اپنے وقت کی مشہور مغنیہ اور طوائفوں سے نہ صرف لگائو تھا بلکہ ان سے خط و کتابت بھی تھی۔

    جب وہ کسی طوائف کو خط لکھتے تو خاص اہتمام کے ساتھ نہ صرف تحریر کرتے بلکہ اس کے لیے خاص لفافہ بھی تیار کرتے۔ اسے بیل بوٹے سے سجاتے اور اس سجے سجائے لفافے کو دوسرے لفافے کے اندر رکھ کر بھیجتے۔

    ایسے ہی ایک خط کا ذکر ان کے شاگردِ عزیز نوح ناروی نے کیا ہے۔ یہ خط داغ نے طوائف نبی جان کو لکھا تھا۔ اس سلسلے میں نوح ناروی کہتے ہیں:

    جب یہ خط بیل بوٹے والے لفافہ میں رکھ کر مجھ سے پتا لکھنے کو کہا گیا تو میں نے تھوڑی دیر تک کچھ نہ لکھا، ارشاد ہوا کیوں نہیں لکھتے۔ میں نے کہا گستاخی معاف ہو، ڈاک خانے کی مہریں پڑ کر اس لفافے کے کام کو خراب کر دیں گی، اگر حکم ہو تو اس لفافے کو ایک دوسرے بڑے لفافے میں رکھ کر، بڑے لفافے پر پتا لکھ دوں، لیکن اس لفافے پر کوئی شعر ہونا چاہیے۔

    پہلے تو استاد مسکرائے، پھر فوراً یہ مطلع کہا:

    شوق کُھلنے نہ دیا، عشق کا پردہ رکھا
    اس لیے ہم نے لفافے میں لفافہ رکھا

    (ڈاکٹر سید محمد علی زیدی، بحوالہ فصیح الملک از نوح ناروی)