Tag: اردو کے مشہور مزاح نگار

  • باتوں‌ کے بھوت!

    باتوں‌ کے بھوت!

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا:
    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔

    ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفت گو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دورانِ گفت گو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک۔“ یا ”خیریت سے ہو۔“

    اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفت گو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفت گو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متموّل یا نو دولتیے، بھائی اچھّن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھّن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“
    شبّو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“
    بھائی اچھّن:”کہاں نوکری کرتے ہیں۔“
    شبّو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“
    بھائی اچھّن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہوجاتا ہے؟“
    شبّو میاں: ”بڑی مشکل سے۔“
    بھائی اچھّن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے؟“
    اس سوال پر شبّو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھّن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھّن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبّو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگا دیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھّن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب “ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔

    یہ ہر وقت بیتاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادرونایاب مشورہ دیا جاسکے، بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کردیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے رُو بَرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہرِ معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں۔

    (معروف صحافی، ادیب اور شاعر عثمان جامعی کے طنز و مزاح پر مبنی کالموں‌ کے مجموعے "کہے بغیر” سے اقتباس)

  • "کون کیا ہے؟”

    "کون کیا ہے؟”

    "کون کیا ہے” (who Is Who) کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالاتِ زندگی اکثر چھپتے ہیں، جنہیں بیش تر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ فقط اُن ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے، یا اس لیے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔

    زمانہ بدل چکا ہے۔ قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے۔ وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔

    چناں چہ نئے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے "کون کیا ہے” کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے:

    ذکی الحِس۔ نئی دہلوی

    اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چائے نوشی سے) کافی بیزار رہے۔ پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔

    60ء میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چائے خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔

    ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلباء کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے۔)

    67ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔

    یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیش تر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔

    ان دنوں پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیش تر موضوع مصحفی سے اخذ کیے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چوں کہ مقالہ رسائل کے لیے نہیں، یونیورسٹی کے لیے ہے، اس لیے آپ نے شعرا کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں۔)

    اگر چائے اور سگرٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔

    دراصل آپ کے رویّے (اور تنقید) کا دار و مدار سگرٹوں اور چائے کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچیس پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔

    68ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں، لیکن چھان بین کرنے کے بعد 69ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ، جو اِنہیں اچھی طرح نہیں جانتے، اِنہیں نظر انداز کرتے ہیں، لیکن جو جانتے ہیں، وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔

    اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان (کافی ہاؤس میں) سنایا کرتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے : پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے)۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں، فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔

    کھیل کُود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔


    (مشہور مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے ایک شگفتہ پارہ)

  • جب سالک کے قلم نے لارڈ  ویول کی خبر لی!

    جب سالک کے قلم نے لارڈ ویول کی خبر لی!

    عبد المجید سالک اردو کے ممتاز شاعر، جیّد صحافی، افسانہ نگار اور کالم نویس تھے جنھوں‌ نے اپنے وقت کے مقبول ترین اخبار’زمیندار‘ کی ادارت کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔ اس سے قبل وہ تہذیبِ نسواں‌ اور پھول جیسے معتبر رسائل کے مدیر رہے۔ ان کی مشہور تصانیف میں‌ ’ذکرِ اقبال‘، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خودکشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاریگری‘ شامل ہیں‌۔

    عبدالمجید سالک ایک مقبول کالم نویس تھے۔ انھوں‌ نے لارڈ ویول کے ہندوستان کا وائسرے مقرر ہونے پر اپنے ایک فکاہیہ میں‌ زور دار جملہ لکھا۔

    واضح کرتے چلیں‌ کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ ادھر مولانا عبدالمجید سالکؔ جو خود بھی ہشاش بشاش رہنے کے عادی تھے، ان کی تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی ہوتی تھی۔ لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں‌ نے ہندوستانیوں‌ انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔ سالک نے اپنے کالم میں‌ شگفتہ پیرائے میں‌ زبردست طنز کیا اور لکھا:

    ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

  • حلیم اور مہربان دیوتا

    حلیم اور مہربان دیوتا

    میں انسانی زندگی کی الجھنوں پر جس قدر غور کرتا ہوں اتنا ہی مجھ پر روشن تر ہوتا جاتا ہے کہ جس طرح قدیم مصر کے لوگ بخشش اور نجات کے لیے آئیس اور نیفتیس کا دامن پکڑتے تھے اسی طرح ہمیں اپنی مشکلات کے حل کے لیے طنز اور رحم کا دامن پکڑنا پڑتا ہے۔

    طنز اور رحم سے بڑھ کر کوئی چیز ہماری مشکل کشا نہیں ہو سکی۔ طنز سے زندگی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اور رحم اپنے آنسوؤں سے زندگی کو مقدس بناتا ہے۔

    جس طنز کو میں اپنا دیوتا بنانا چاہتا ہوں، وہ کوئی سنگ دل دیوتا نہیں۔ وہ محبت اور حسن کا مضحکہ نہیں اڑاتا، وہ حلیم اور مہربان دیوتا ہے۔ اس کا تبسم دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ احمقوں اور ظالموں پر ہنسو، ان سے نفرت مت کرو۔ کیوں کہ یہ کم زوری کی نشانی ہے۔

    ایک بہت بڑے فرانسیسی کے ان دانش مندانہ الفاظ پر میں اس کتاب کو ختم کرتا ہوں اور رخصت چاہتا ہوں…. خدا حافظ ۔

    (ماخوذ از ”نوع انسان کی کہانی“ مصنف ہنڈرک فان لون، مترجم پطرس بخاری)