Tag: اردو کے معروف نقاد

  • اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    آج دنیائے ادب کے معروف نقاد، انشائیہ نگار، محقق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات اور نئے زاویوں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922 کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متمول علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956 میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول ثابت ہوا جریدہ ثابت ہوا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مضامین "نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا اور اسی طرح انشائیے بھی کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور ان کے متعدد شعری مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    7 ستمبر 2010 کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گائوں میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

    صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

    ممتاز شاعر، نقاد اور ڈراما نویس سلیم احمد اپنے بے لاگ اور کھرے انداز میں لکھے گئے تنقیدی مضامین کی وجہ سے دنیائے ادب میں‌ متنازع تو رہے، لیکن‌ اسی تنقید اور کھرے پن نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز بھی کیا۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983 کو کراچی میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور 1950 میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقید کی زد پر رہے۔

    سلیم احمد کو ایک اچھا ڈراما نویس بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، جب کہ اخبارات میں ان کے کالم بھی شایع ہوتے رہے جنھیں‌ بہت پسند کیا جاتا تھا۔

    ان کے شعری مجموعوں‌ میں‌ بیاض، اکائی، چراغ نیم شب جب کہ تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب میں‌ نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت اور اقبال ایک شاعر شامل ہیں۔

    ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا یہ شعر تحریر سے تقریر تک خوب برتا گیا

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں