Tag: اردو ہندی تنازع

  • اردو، جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا

    اردو، جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا

    مشہور شاعر داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎

    اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
    ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

    اردو ہمارے ملک کی مشترکہ وراثت کی امین ہے۔ یہ خالص ہندوستانی زبان ہے اور ہمارے مشترکہ کلچرکی نمائندگی کرتی ہے۔ اردو ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو کہتے ہیں۔ دراصل اس زبان کی پیدائش اور پرورش فوجی چھاؤنی میں ہوئی جہاں ہر مذہب، ذات اور نسل کے فوجی ہوتے ہیں۔ ان فوجیوں کے آپسی میل جول اور مختلف زبانوں کے تال میل سے اردو زبان وجود میں آئی۔

    ایک غلط فہمی ہمارے معاشرے (ہندوستان) میں عام ہو چکی ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ اس زبان کا فارسی رسم الخط ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آج اردو لکھنے پڑھنے کا دستورعموماً مسلمانوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں ۶۰ فیصد سے زیادہ کھڑی بولی کے الفاظ ہیں جو اردو اور ہندی دونوں کی ماں ہے۔ اس زبان کو ابتدا میں ہندوستانی، ہندوی اور اردو کے نام سے موسوم کیا گیا۔ چودھویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے فوجی سپاہیوں کی زبان ترکی، عربی اور فارسی تھی۔ اس وقت ہندوستان میں سنسکرت، کھڑی بولی، برج بھاشا، مگہی اور ہریانوی زبانوں کا بول بالا تھا۔ مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے باہمی میل جول سے ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زبان وجود میں آئی جس میں مختلف تہذیبوں کی رنگا رنگی اور مختلف زبانوں کے الفاظ و استعارات نے جگہ پائی۔ مشہور تاریخ داں ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:

    ’’مسلم ذہن ہندوانہ رنگ و روپ قبول کرنے لگا اور اس نے فارسی و ترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھنا اور استعمال کرنا شروع کیا۔ ہندوؤں نے عربی، فارسی اور ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں میں جگہ دی۔ اس لین دین کا منافع ہماری تہذیب کے خزانے میں اردو کی شکل میں شامل ہوا۔‘‘

    کرشن چندر نے اردو کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’اردو ادب شروع ہی سے ایک مشترکہ ہند آریائی تہذیب اور کلچر کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت میں ہندوؤں اور مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں نے مل جل کر حصہ لیا ہے۔اردو ایک ہندوستان گیر زبان ہے۔ اس نے اپنے دائرہ اثر میں ہر مذہب و ملت ، ہر رنگ و نسل کے افراد کے محسوسات اور جذبات کو سمو کر ایسا ادبی رنگ و روپ عطا کیا ہے جس سے اس زبان کے ادب اور شاعری پر باہمی میل جول، رواداری، محبت، اخوت اور قومی یکجہتی کے جذبوں کی گہری چھاپ پڑ چکی ہے۔ ان ہی عناصر کی موجودگی نے اردو زبان و ادب کو ایک سیکولر مزاج عطا کیا ہے جو سارے ہندوستانی عوام کے جمہوری جذبے سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

    انہی خیالات کو جگن ناتھ آزاد نے شعری پیکر میں یوں ڈھال کر پیش کیا ہے:

    غلط ہے جو سمجھتا ہے اغیار کی بولی
    یہ ہے اخلاص کی، طرزِ تکلم، پیار کی بولی

    ریاضِ ہند میں اردو وہ اک خوش رنگ پودا ہے
    جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا ہے

    برج لال رعنا نے اردو کے ہندوستانی نژاد ہونے کا یوں اعتراف کیا ہے:

    نام اردو کبھی ہندی کبھی ہندوستانی
    فارسی خالہ مری سنسکرت ہے نانی

    بھارتی اپنا لباس اور سنگھار ایرانی
    لے کے ہر پھول سے رس، کرتی ہوں گل افشانی

    میرا ہر دیس سے پربندھ ہے، ہر قوم سے سمبندھ
    میں کسی دین کی تابع، نہ دھرم کی پابند

    اردو زبان کے اس سیکولر مزاج کے باوجود آج اردو زبان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے محض مسلمانوں کی زبان تعبیر کر لیا گیا ہے۔ زبان تہذیب اور کلچر کی پروردہ ہوتی ہے لیکن اسے مذہب سے جوڑکر دیکھا جانے لگا۔ زبان مذہبی لٹریچر کے مطالعے کا وسیلہ تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی مذہب کسی زبان کو جنم نہیں دے سکتا۔ آج چونکہ اردو لکھنے پڑھنے والا طبقہ بیشتر مسلمانوں پر محیط ہے، اس لئے اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو اردو زبان و ادب کی ترقی اور نشوونما میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والے غیر مسلم ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ہم کیا نام دیں گے؟ کیا اردو زبان و ادب کی تاریخ سینکڑوں غیر مسلم شعرا و ادیب کے ذکر کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے جنہوں نے نہایت پیارسے اردو کی زلفیں سنواری ہیں اور اس زبان کی آبیاری اور نشوونما میں اپنا خونِ جگر شامل کیا ہے۔

    یہ درست ہے کہ اردو کے فروغ اور ارتقائی سفر میں ولی دکنی، میر امن، مرزا ہادی رسوا، داغ دہلوی، بہادر شاہ ظفر، حسرت موہانی، میر، غالب، ذوق، اقبال، فیض، ساحر وغیرہ کا اہم رول رہا ہے لیکن نہال چند لاہوری، درگا سہائے سرور، للو لال جی کوی، دیا شنکر نسیم، لبھو رام جوش ملیسانی، پنڈت بالمکند عرش ملیسانی، موہن دتاتریہ کیفی، برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم وغیرہ بھی وہ شاعر اور ادیب ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں اردو کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ یہ رام بابو سکسینہ تھے جنہوں نے پہلی بار اردو ادب کی تاریخ مرتب کی۔ منشی نول کشور کی خدمات سے صرف نظر ممکن ہی نہیں ہے، جنہوں نے ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ میں نول کشور پرنٹنگ پریس اور بک ڈپو قائم کیا جس کے توسط سے سینکڑوں کتابیں اور رسالے محفوظ ہوئے۔ ان کی اس گراں بہا خدمت کے اعتراف میں حکومت ہند نے ۱۹۷۰ء میں ان پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ راجہ رام نارائن موزوں، مہاراجہ شتاب رائے، کلیان سنگھ عاشق کی سرپرستی اور مربیانہ سلوک کی وجہ سے اردو نے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ ان لوگوں نے نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ اردو کو پاؤں پاؤں چلنا سکھایا۔اردو ادب کی تاریخ منشی پریم چند کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جنہوں نے اردو کا پہلا افسانہ ’سوز وطن‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ یہی نہیں بلکہ منشی پریم چند نے ہی اردو افسانے کو رومان کی وادی سے نکال کر حقیقت کی سنگلاخ زمینوں پر قدم جمانے کا ہنر عطا کیا۔ یہ پریم چند تھے جنہوں نے ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے سے پہلے افسانہ ’کفن‘ لکھ کر اپنی دور اندیشی اور ترقی پسندی کا ثبوت دیا۔

    سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، علی عباس حسینی کے ساتھ ساتھ راجندر سنگھ بیدی، اپندر ناتھ اشک، دیوندر ستیارتھی، بلونت سنگھ، ہنس راج رہبر، رامانند ساگر وغیرہ نے اردو افسانے کو فن کی بلندی تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی طرح شاعری کے میدان میں مجاز، فیض، جگر مراد آبادی، جوش، سردار جعفری، جذبی، کیفی اعظمی، اخترالایمان کے ساتھ رام پرساد بسمل، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کی غزلوں نے اردو عوام کے دلوں پر حکومت کی ہے۔ یہ دور اردو زبان و ادب کا سب سے سنہرا دور کہلاتا ہے جس میں اردو زبان اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور ہر طرح کے موضوعات و مضامین اردو زبان کے وسیلے سے ادا ہونے لگے۔ اردو شاعر و ادیب کی اس نسل سے پیوستہ جو دوسری نسل اردو کی آبیاری کے لئے تیار ہوئی اس میں مسلم ادیب و شاعر کے شانہ بہ شانہ جگن ناتھ آزاد، کنہیا لال کپور، نریش کمار شاد، بششیر پردیپ، دیوندر اسر، برج پریمی، آنند نارائن ملا، حکم چند نیر، گیان چند جین، مالک رام، کمار پاشی، کشمیری لال ذاکر، کنور مہندر سنگھ سحر وغیرہ جیسے عاشقانِ اردو کا نام سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے لائق ہے۔

    اردو کو اپنے قلم کا وسیلہ بنانے والوں کی یہ طویل فہرست اس بات کی ضامن ہے کہ اردو زبان کسی خاص مذہب، فرقے یا علاقے کی زبان نہیں ہے بلکہ اس کی آبیاری اور نشوونما میں ہر مذہب و ملت اور خطے کے افراد نے بھرپور حصہ لیا ہے۔ اردو زبان اسی مشترکہ تہذیب کی نہ صرف نمائندہ ہے بلکہ اس تہذیب کے اظہار کا وسیلہ بھی ہے۔ لیکن آج اس تلخ حقیقت کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اردو کے متوالوں کی تعداد پہلے کے تناسب میں کافی کم ہو چکی ہے۔ اردو کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے شیدائی اب خال خال نظر آتے ہیں لیکن صورت حال مایوس کن بھی نہیں ہے۔

    سلیقے سے ہواوؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
    ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

    کالم نگار شکیل شمسی نے اردو کے ماضی اور موجودہ تشفی بخش صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’اگر ہم اردو کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کسی زمانے میں منشی نول کشور اس کے فروغ میں مصروف نظر آئیں گے، کہیں غالب کی تحریروں میں ہر گوپال تفتہ جا بجا مسکراتے ہوئے ملیں گے، کہیں پنڈت برج نارائن چکبست اور رتن ناتھ سرشاراردو کی راہوں میں پھول بچھاتے ہوئے نظر آرہے ہوں گے۔ شاید کوئی کہے کہ آزادی سے پہلے کی بات کرنے کا کیا فائدہ؟ مگر آزادی کے بعد بھی تو رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کنور مہندر سنگھ بیدی، جگن ناتھ آزاد، نریش کمار شاد، سمپورن سنگھ گلزار، کرشن بہاری نور، شین کاف نظام اور پنڈت گلزار زتشی جیسے نام بھی تو گلستان اردو کو سیراب کرتے رہے اور آج تو نہ جانے کتنے نوجوان لڑکے رنجیت چوہان کی شکل میں اردو کی خدمت کررہے ہیں تو ان کو کیا کہیں گے؟

    دراصل اردو زبان میں محبت کی ایسی خوشبو بسی ہوئی ہے جو ہر کسی کے دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہے۔ اس زبان کی جادوئی قوت نے سب کے دلوں کو مسخر کر رکھا ہے۔ اردو دراصل محبت اور آشتی کی زبان ہے۔ اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کی بڑی قوت ہے۔اس لئے اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ نے جگہ بنائی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تمام لوگ اس زبان کو لکھ یا پڑھ نہ سکیں لیکن ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں اسے سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کا اپنا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہے لیکن یہ سارے علاقے کی زبان ہے۔ اردو زبان کی شیرینی اور مٹھاس کے بغیر فلم، ڈرامے، غزلیں، گانے سب نامکمل ہیں۔ اردو زبان کی فصاحت اور شین قاف کی درستی کی وجہ سے گلوکاروں اور اداکاروں کے لئے اس زبان کو اپنانا لازمی ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے بہترین اعتراف کیا ہے:

    وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
    ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

    (بھارتی ادیب اور مضمون نگار وصیہ عرفانہ کی ایک تحریر سے اقتباسات)

  • جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

    جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

    ہندوستان میں انگریز راج کے دوران اردو اور ہندی زبان کے جس تنازع نے سَر اٹھایا تھا، وہ برس ہا برس سے مختلف شکلوں میں جاری ہے اور بٹوارے کے بعد اب بھی بھارت میں‌ اردو بولنے اور لکھنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے وہاں زبان کو مذہب سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے اور اردو کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اس وقت انگریزوں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے۔ اسی لیے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر اس پر 1867ء میں چند ہندو تنظیموں اور اکابرین نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی جس نے بعد میں اردو ہندی تنازع کو جنم دیا جو آج تک جاری ہے۔

    یہاں ہم اس تناظر میں‌ اردو زبان کلاسیکی طرز کی شاعری اور اپنی شگفتہ اور رواں نثر کے لیے مشہور، متعدد اخبارات اور ادبی رسائل کے مدیر اور فلمی گیت نگار ماہر القادری کا ایک مضمون نقل کررہے ہیں جس سے اردو دشمنی میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور بعض اقدامات کے علاوہ اس وقت کے ہندو قائدین اور انتہا پسند تنظیموں‌ کے بغض و عناد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی فرماں روا کو ہندوستان جیسا بیوقوف اور نا سمجھ ملک حکومت کرنے کے لیے نہیں ملا۔

    ناواقفیت اور کور چشمی کی حالت میں، کنوئیں میں گر جانا قابلِ اعتراض فعل نہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کنوئیں میں گر پڑنا، یقیناً دماغ کی خرابی اور فہم کی کوتاہی کی دلیل ہے۔

    ابھی ہندو، مسلمان حقوق کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور یہ گتھی سلجھنے بھی نہ پائی تھی کہ زبان کا اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس نے رہے سہے اتحاد کا خاتمہ کر دیا اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انشقاق کی گہری اور وسیع خلیج حائل ہوگئی۔ اگر مدبرین ملک نے مسئلہ کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے، زبان کے اس اختلاف کو دور نہ کیا، تو یہ خلیج اور زیادہ وسیع و عمیق ہو جائے گی اور پھر اس کی پایابی کے امکانات شاید باقی نہ رہیں گے۔

    مولوی عبدالحق صاحب معتمد انجمن ترقی اردو نے جو بیان شائع کرایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برادرانِ وطن نے اس اکھاڑے میں کتنی پھرتی اور چالاکی کے ساتھ پینترے بدلے ہیں اور اردو کو مٹانے کے لیے کس قدر منظم کوشش کی جارہی ہے۔ نوعیتِ مسئلہ اب اس منزل میں پہنچ گئی ہے، جہاں خاموش رہنا گناہ نہیں کفر ہے۔ اردو کے جسم پر جب تک خراشیں پہنچائی جاتی رہیں، ہم خاموش رہے، مگر اب جب کہ گلے پر چھری رکھ دی گئی ہے، زبان فریاد کرنے سے کس طرح رک سکتی ہے؟

    ہندو لیڈروں میں تین اصحاب غیرمعمولی اثر و اقتدار رکھتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالویہ! ہندوستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پنڈت مالویہ جی نے ہندو، مسلم اختلاف کی خلیج کو اپنے طرزِ عمل اور روش سے ہمیشہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہم ان سے قریب قریب مایوس ہیں۔ مہاتما گاندھی سے بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں مگر جب سے مہاتما جی ضمیر کی آواز سننے لگے ہیں، مذہبی تعصب نے ان کے دل و دماغ کو گھیر لیا ہے۔ انہوں نے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کرکے، ہریجن تحریک شروع کردی، جو خالص مذہبی تحریک ہے۔

    مہاتما جی کو ہندو مسلمان دونوں اعتماد کی نظر سے دیکھتے تھے مگر ان کی عجیب و غریب روش نے اس اعتماد کو زائل کر دیا، جس کے وزن نے ان کو ’’مسٹر‘‘ سے ’’مہاتما‘‘ بنا دیا تھا۔ اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے کہ کئی برس سے مہاتما جی کا وجود ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کے خیالات مذہبی تعصب کے تنگ دائرہ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ خیال تھا کہ کانگریس کے اجلاس کے بعد ہندو مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے گا اور مہاتما جی اپنی روش بدل دیں گے مگر انہوں نے روش میں تبدیلی پیدا کرنے کے بجائے، ہندی اردو کا فتنہ کھڑا کردیا، جس نے دو قوموں کو اختلافات کی دلدل میں پھنسا دیا۔

    جب مہاتما جی ملک کے خیرخواہ تھے اور ان کے دائرۂ فکر و عمل میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ تھی، اس وقت انہوں نے اردو زبان سیکھی اور اپنے قلم سے مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کو اردو میں خط لکھا مگر آج وہی مہاتما جی اردو سے بیزاری ظاہر فرماتے ہوئے، سنسکرت کے ایسے کٹھن الفاظ استعمال فرما رہے ہیں، جن کو شاید ’’پاننی‘‘ سمجھ سکے تو سمجھ سکے! جو زبان گاندھی جی استعمال کر رہے ہیں وہ اردو کو کھلا چیلنج ہے۔ ان حالات کے تحت مہاتما جی سے بھی ہم مایوس ہی سے ہیں، کیونکہ وہ ارادے کے بہت پکے ہیں، اور ایسا ارادہ، جس کی دیواروں میں تعصب کا سیسہ پگھلایا گیا ہو، اس کو کون جنبش دے سکتا ہے۔
    پنڈت جواہر لال نہرو ایک معقول اور وسیع القلب رہنما ہیں، جن کا مسلمان بھی اب تک احترام کرتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جی فکر و رائے کی اس آزادی کے باوجود، گاندھی جی سے بے حد متاثر ہیں اور بعض وقت گاندھی جی کے ایک انچھر میں پنڈت جی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو خود اچھی اردو بولتے ہیں اور ان کی خواتین بھی اردو کے میٹھے بولوں کے لیے مشہور ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جواہر لال نہرو کی صاحب زادی کو خاص طور پر ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔

    ہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں، اگر کوئی شخص ہندی سیکھتا ہے تو اس میں ہمارا کیا جاتا ہے، مگر پنڈت جواہر لال نہرو کی اس منقلب ذہنیت کا اتا پتا پا کر، شبہ ہوتا ہے کہ کہیں سابرمتی آشرم کے جوگی نے کچھ پڑھ کر پھونک تو نہیں دیا۔ اردو، ہندی کے مسئلہ میں پنڈت جواہر لال نہرو متذبذب سے نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو سے بظاہر ان کو خاص لگاؤ اور رغبت نہیں رہی۔ لیکن اس تمام افسوس ناک صورتِ حال کے باوجود ہم پنڈت جواہر لال نہرو سے مایوس نہیں ہیں۔ پنڈت جی، ملک کے بہی خواہ ہیں اور جب وہ محسوس کریں گے کہ اس اختلاف کے سبب ملک تباہی کے گڑھے میں جارہا ہے تو وہ ضرور اس کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہمارا قیاس ہے، خدا کرے یہ قیاس صحیح ثابت ہو۔

    ایک طرف اردو کے خلاف مورچہ جما ہوا ہے اور دوسری طرف ہز ایکسیلنسی سر مہاراج کشن پرشاد بہادر یمین السطنت، سر تیجؔ بہادر سپرو، مسٹر اینؔ ہسکر، پنڈت برج موہنؔ دتاتریہ کیفی، رائے بہادر امر ناتھ اٹل، مسٹر سروجنی نائیڈو وغیرہ جیسے بہی خواہانِ اردو بھی موجود ہیں، جو اس مسئلہ میں تعصب سے بالکل الگ تھلگ رہ کر، حق کی حمایت کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حق کی یہ حمایت بدستور جاری رہے، اور ورغلانے والوں کے حربے کارگر ثابت نہ ہوں۔

    کانگریس سے دو باتیں
    اس کے بعد ہم ہندوستان کی سب سے بڑی نمایندہ اور منظم جماعت کانگریس سے دو دو باتیں کرنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ ہماری آواز سنی جائے۔ ہماری آواز یقیناً کمزور ہے مگر کانگریس تو کمزوروں کی حمایت کی دعوے دار ہے، ہم بے سرو سامانی کی حالت میں حق کا نعرہ بلند کر رہے ہیں لیکن سنا ہے کہ کانگریس تو حق پرست بے سرو سامانوں کو ہی اپنے آغوشِ شفقت میں لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اگر یہ دعویٰ صحیح اور درست ہے تو پھر ہم کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہماری آواز نہ صرف سنی جائے گی بلکہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور بھی کیا جائے گا۔

    کانگریس کا نصب العین آزادی ہے اور یہ امر بالکل متحقق اور مسلم ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے کانگریس میں شامل ہو کر جو قربانیاں دی ہیں، ان کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور کے شہدا مسلمان ہی تھے، جنہوں نے کانگریس کے اصول کی کامیابی کے لیے اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور خاک و خون میں تڑپ کر جان دے دی۔ ان قربانیوں سے کانگریس کے وقار میں کس قدر اضافہ ہوا، اس کا جواب کانگریس ہی دے گی۔

    اسمبلی کے گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے کانگریس کا بہت کچھ ساتھ دیا مگر اب کانگریس کی روش مشتبہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شاید مسلمانوں سے اشتراکِ عمل کرنا نہیں چاہتی۔ کانگریس کے اکثر ہندو لیڈر اردو کے مخالف ہیں اور مسٹر پٹوردھن جیسے لوگ تو اردو کی بنیادیں کھوکھلی کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ زبان جس کو کروڑوں انسان بولتے ہیں، جو ہزاروں کتابوں کا سرمایہ رکھتی ہے، کسی طرح مٹائی نہیں جا سکتی۔ اس تخریبی کوشش کا ہاں یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوگا کہ ہندو، مسلمانوں کے دل پھٹ جائیں گے اور کانگریس اپنے حصولِ آزادی کے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔

    اگر میرے پاس اطلاعات صحیح پہنچی ہیں، تو مجھے اس کا اظہار کرتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ کانگریس کے اجلاسوں کی کارروائیاں خالص ہندی زبان اور ہندی رسم الخط میں چھپوا کر تقسیم کی گئیں۔ خدا کرے یہ اطلاعات غلط ہوں، لیکن اگر صحیح ہیں تو پھر کانگریس کی اس غیر دانش مندانہ روش پر ماتم کرنا پڑے گا۔

    اس کے بعد کانگریس سے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو رسم الخط اور اردو کا سرحد، کابل، بلوچستان، کاشغر، لداخ، ایران، عراق، شام، فلسطین، شرق اردن، حجاز، یمن، مصر، جنوبی افریقہ، جاوہ وغیرہ ممالک سے گہرا تعلق ہے اور لسانی اعتبار سے ترکستان سے بھی شناسائی ہے، ان تمام ممالک میں اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں جہاں فارسی اور عربی بولی جاتی ہے، اردو جاننے والا کسی نہ کسی حدتک اپنا ما فی الضمیر ادا کرسکتا ہے۔

    اس اعتبار سے آزاد ہندوستان کروڑوں باشندوں سے اپنے تعلقات آسانی کے ساتھ قائم کرسکے گا اور تجارتی اور سیاسی سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ کیا کانگریس اردو کو ختم کر کے ان ممالک سے بیگانہ بننا چاہتی ہے جن سے ہمسایگی، قربت اور ایشیائی ثقافت کے باعث تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔ اردو زبان میں بین الاقوامی شان پیدا ہوگئی ہے، اور دنیا اس کو قبول کرتی جارہی ہے، کانگریس کو تو اردو کے شیوع میں مدد دینی چاہیے تاکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کے خیالات غیرلوگوں تک پہنچیں اور وہ ہمارا وزن محسوس کریں۔

    کانگریس اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہوگی کہ سول نافرمانی کے زمانے میں جن مقررین نے ملک میں آگ لگائی اور ملک میں بیداری پیدا کی، ان میں سے زیادہ تعداد اردو بولنے والوں کی تھی۔ وہ قوت جو کانگریس کا دست و بازو رہ چکی ہے، کیا کانگریس اس کو بیکارکر دینا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اردو زبان اپنے اندر خطابت کی بڑی گنجایش رکھتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ ملک و قوم کی بہت کچھ خدمت کی جاسکتی ہے۔ کیا کانگریس ہمارے اشارات پر غور کرے گی؟

    سنسکرت کا تجزیہ
    اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اردو، ہندی کے بنیادی موضوع پر آتے ہیں۔ جس ہندی زبان کے پرچار کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کی اصل سنسکرت اور پراکرت زبان ہے۔ پہلے ہم کو ہندی یا دیوناگری کے ماخذ (سنسکرت) پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دنیا میں اس کا کیا درجہ رہا ہے اور اس وقت اس کی کیا حیثیت ہے؟ بھارت ورش کی قدیم تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ بھارت باشیوں نے غیرملکوں سے تعلقات پیدا کرنے کی عام طور پر کوشش نہیں کی۔

    بھارت کے رہنے والے اپنے ملک کی چہار دیواری ہی میں امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، اپنے ملک سے باہر جانے کی انہوں نے یا تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ضرورت محسوس کی تو وہ وطن کی جدائی شاید گوارا نہ کرسکے۔ یہ تو معاشرتی اور تجارتی نوعیت تھی۔ اب مذہب باقی رہ جاتا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کے سلسلہ میں دوسری قوموں اورملکوں سے تعلقات قائم ہو جایا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کا قدیم مذہب کسی ایسے شحص کو جو دھرم سماج گھرانے میں پیدا نہیں ہوا، اپنے اندر جذب کرنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔ بھارت کے قدیم باشندوں (اہل ہنود) کے اسی طرزِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی خطہ پر نہ تو ہندو دھرم کا سایہ پڑ سکا اور نہ ہندو تہذیب کا کوئی نقش باقی رہ سکا۔ بھارت باشیوں نے اپنے کو دوسرے خطوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی اور وہ بھارت ورش کے مرغزاروں میں ہی گھوما کیے۔

    سنسکرت ان لوگوں کی مادری زبان تھی، لہٰذا ان کی اس اجنبیت اور الگ تھلگ رہنے کا یہ اثر ہوا کہ ان کی زبان میں ’’بین الاقوامی‘‘ استعداد کبھی پیدا نہ ہوسکی اور شاید دنیا کے کسی لٹریچر کی ایک کتاب بھی سنسکرت میں منتقل نہیں ہوئی۔ ہم سنسکرت کے مصنفین کی علوِ خیالی اور جادو نگاری کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کا طائرِ خیال ہمالیہ کی چوٹیوں سے آگے نہیں اڑ سکتا اور ان کی جادو نگاری کا چشمہ گنگا، جمنا میں گھل مل کر رہ جاتا ہے۔ اس زمانہ میں سنسکرت شباب پر تھی اور ہندو راجاؤں کے اقبال کا چراغ گنگا، جمنا کی لہروں پر جلتا تھا، اس زمانہ میں ہی جب سنسکرت کو وسعت دے کر ’’بین الاقوامی‘‘ زبان نہیں بنایا گیا، تو اس وقت کیا امید ہوسکتی تھی، جب کہ ان کے اقبال کا چراغ گل ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بہت سے پلٹے کھائے، سنسکرت نے بھی بہت سے چولے بدلے اور آخر یہ زبان بالکل مردہ ہو گئی۔

    جس دریا کا منبع ہی خشک ہوگیا ہو، اس کے بہتے رہنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جب ہندی زبان کا ماخذ ہی ’’بین الاقوامیت‘‘ پیدا نہ کرسکا اور آخر کار وہ مردہ ہو گیا، تو پھر ہندی زبان سے ہم اس کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں جب کہ غیرممالک کے تعلقات ہندوستان سے قایم ہو رہے ہیں، افہام و تفہیم، رسل و رسائل اورنامہ و پیام کا ذریعہ بن سکے گی۔

    ہندی زبان کی ساخت کچھ اس نوعیت کی ہے کہ اس میں دوسری زبانوں کے لٹریچر منتقل کیے جانے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی۔ اس کے ثبوت کے لیے سنسکرت، پراکرت، برج بھاشا اور ہندی کی کتابیں اٹھا کر دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ دوسری زبانوں کے لٹریچر سے یہ زبانیں یکسر خالی ہیں۔ ہندی میں خود کوئی جان اور وسعت نہیں ہے، اس کو دوسری زبانوں کے لٹریچر کے ترجمہ کے لیے سنسکرت کے الفاظ سے امداد لینا پڑے گی۔ لیکن اس معاملہ میں سنسکرت تو خود تہی مایہ اور کنگال ہے۔ برخلاف اس کے اردو زبان میں، دنیا کی مختلف زبانوں کی سیکڑوں کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جب کبھی خاص اصطلاحات کے لیے جدید الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے، تو اردو اپنی پشت پر فارسی، عربی کا لامحدود سرمایہ پاتی ہے جو اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ فارسی اور عربی زبان کی ’’بین الاقومیت‘‘ ظاہر ہے، ان ہی زبانوں کے اثر نے اردو میں بھی ’’بین الاقوای استعداد‘‘ پیدا کر دی اور وہ دنیا کے ہر لٹریچر کے ہر مفہوم کو ادا کرسکتی ہے۔

    اردو کی مقبولیت
    اردو زبان میں اس قدر جاذبیت اور دلچسپی ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ جب ہندوستان میں آتے ہیں تو اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ عربوں اورایرانیوں کو چھوڑیے، شاید ہی کوئی ایسا انگریز ملے گا، جس نے ہندی زبان، اور ہندی رسم الخط اختیار کیا ہو، برخلاف اس کے اردو جاننے والے اور اردو لکھنے والے بہت سے انگریز ملیں گے، ایک دو انگریزوں نے تو اردو میں شعر بھی کہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی نے مولوی عبدالکریم صاحب اکبر آبادی کو اردو زبان سیکھنے کے لیے بلایا تھا۔ یہ اس زمانہ کا قصہ ہے جب کہ اردو لٹریچر کو زیادہ وسعت حاصل نہیں ہوئی تھی مگر زبان کی شیرینی، جامعیت اور بین الاقوامی شان تو اس وقت بھی موجود تھی۔

    ہندوستان میں ہندی کے بہت سے اخبار اوررسالے نکلتے تھے لیکن غیر ممالک میں شاید ہی کوئی ہندی رسالہ یا اخبار جاتا ہو، مگر اردو کے بہت سے رسالے اور اخبار، دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں اور اردو لٹریچر کی وہاں بہت کچھ مانگ ہے۔ ایک افریقی صاحب نے ڈربن میں ہوٹل قائم کیا ہے، انہوں نے مجھ سے ایک قطعہ اور اردو تحریر کا ایک نمونہ طلب کیا ہے، جسے وہ ہوٹل میں آویزاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افریقہ میں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی کافی تعداد ہے۔ میں اپنے متعلق اس قسم کی باتیں لکھنے کاعادی نہیں ہوں مگر ضرورت نے مجبور کردیا۔

    اردو کی ہمہ گیری
    اردو کو مٹاکر ہندی کو فروغ دینے کے یہ معنی ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے حافظوں سے وہ الفاظ محو کر دیے جائیں جو زبانوں پر چڑھ چکے ہیں اور خیالات میں سما چکے ہیں۔ کیا یہ کوشش کسی طرح بھی تعمیری کہی جاسکتی ہے؟ کسی عمارت کو اسی وقت مسمار کیا جاتا ہے، یا تو وہ کمزور ہوگئی ہو یا زمانے کے حسین ڈیزائنوں کے مقابلہ میں بھدی اور بدشکل ہو، مگر ایک مستحکم اور حسین عمارت کو مسمار کر دینا تو ایک ایسی شدید حماقت ہے، جس پر انسانوں کو نہیں، بندروں کو ہنسی آنی چاہیے۔

    مگر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کوشش کبھی بارآور نہیں ہوسکتی، کروڑوں انسانوں کی زبان کو مٹا دینا ناممکن ہے۔ ہم ہندی کے پرستاروں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ تخریبی کارروائی کرنے سے قبل، دیہات اور قریوں میں جاکر اردو کی ہمہ گیری، جامعیت اور قبولیت کا پہلے اندازہ لگا لیں، اس کے بعد وہ کوئی اقدام کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دو گھروں کے کھیڑے میں بھی اردو زبان کے میٹھے بولوں کو سنیں گے۔

  • ‘مسلمان ہی اردو کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں!’

    ‘مسلمان ہی اردو کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں!’

    "یوں تو اردو ہندی کا جھگڑا برسوں سے چلا آ رہا تھا، لیکن اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب گاندھی جی نے بھارتیہ ساہتیہ پریشد ناگپور کے جلسے (1936ء) میں برصغیر کی مجوزہ قومی زبان کو "ہندوستانی” کے بجائے ہندی، ہندوستانی کا نام دیا۔”

    اور وضاحت طلب کرنے پر کہا: "ہندی ہندوستانی” سے مراد ہندی ہے۔ اردو کے متعلق فرمایا: "یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے اور مسلمان ہی اس کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں۔”

    جامعہ ملّیہ دہلی کے پروفیسر محمد مجیب نے گاندھی جی کو انگریزی میں طویل خط لکھا جسے پنڈت نہرو نے پریشد کے اجلاس 1936ء میں پڑھ کر سنایا۔ لیکن گاندھی جی نے کوئی توجہ نہ دی۔ یہ خط گاندھی جی کی تصنیف "آوَر لینگوئج پرابلم (Our Language Problem)” میں شامل ہے اور ہندی اردو تنازع کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔

    اس خط کے اردو ترجمہ کو نگار میں‌ جگہ دیتے ہوئے فرمان فتح پوری مزید لکھتے ہیں کہ میں شکر گزار ہوں کہ میری گزارش پر سحر انصاری صاحب نے اسے اردو میں منتقل کرنے کی زحمت فرمائی۔

    اس خط سے یہ اقتباسات علمی و ادبی ذوق کے حامل قارئین کی دل چسپی کا باعث اور بالخصوص متحدہ ہندوستان کی تاریخ اور زبان و ادب کے طالبِ علموں کے لیے معلومات افزا ہوں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میں بالکل شروع سے اپنی بات کا آغاز کروں گا۔”

    "گزشتہ کئی سال سے کانگریس ایک مشترکہ سیاسی مقصد کے لازمی جزو کے طور پر ایک مشترکہ زبان کی حمایت کر رہی ہے۔ ادبی نقطۂ نگاہ سے عوامی مقررین اس باب میں متعدد فروگزاشتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں اس نے سادگی اور بے تکلفی کا ایسا معیار پیدا کر دیا ہے جو اس سے قبل مفقود تھا۔ حتّٰی کہ مولانا سید سلیمان ندوی جیسے ادیب جن کی ساری زندگی عربی کتب کے مطالعے اور ناقابلِ تحریف اصطلاحات کے حامل موضوعات کو برتنے میں گزری ہے، پورے خلوص کے ساتھ اپنی زبان کو آسان کرنے اور ہندوستانی سے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ایک مشترکہ ہندوستانی زبان کا تصور انہیں بے حد عزیز ہے۔”

    "کانگریسی حلقوں میں اس مشترکہ زبان کو "ہندوستانی” کہا جاتا ہے، حالانکہ کانگریس نے اس نام کے سلسلے میں اردو اور ہندی بولنے والوں کے مابین کوئی قطعی مفاہمت پیدا نہیں کی ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں نام اپنے تلازمات کی بنا پر بے پایاں سیاسی و سماجی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنی مشترکہ زبان کا نام تجویز کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔”

    "اب تک اردو ہی ایک ایسی زبان رہی ہے جو کسی ایک صوبے یا مذہبی فرقے تک محدود نہیں، سارے ہندوستان کے مسلمان یہ زبان بولتے ہیں اور شمال میں اس زبان کے بولنے والے ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ رہی ہے۔ اگر ہماری مشترکہ زبان کو اردو نہیں کہا جاسکتا تو کم از کم اس کا ایک ایسا نام ضرور ہونا چاہیے جس سے مسلمانوں کا یہ مخصوص منصب مترشح ہو سکے کہ انہوں نے ایک ایسی زبان کے ارتقا میں حصہ لیا ہے جو کم و بیش ایک مشترکہ زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔”

    "ہندوستانی” سے یہ مقصد حل ہو سکتا ہے، "ہندی” سے نہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے یہ زبان (ہندی) پڑھی ہے، اور اگر زیادہ نہیں تو اپنے ہندو بھائیوں ہی کے برابر انہوں نے بھی اسے ادبی زبان کے مرتبے تک پہنچانے میں حصہ لیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ مذہبی اور ثقافتی تلازمات بھی ہیں جن سے مسلمان من حیث المجموع خود کو وابستہ نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں، اب یہ اپنا ایک الگ ذخیرۂ الفاظ وضع کر رہی ہے ، اور یہ ان افراد کے لیے عمومی طور پر ناقابلِ فہم ہے جو صرف اردو جانتے ہیں۔”

    "اردو اور ہندوستانی کے بجائے اگر ہندی اور ہندوستانی کے مابین خلط مبحث پیدا کرنے کا ایک واضح رجحان نہ پایا گیا ہوتا تو اس امر پر زور دینے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ گزشتہ سال اندور میں آپ کی تقریر نے یہ قطعی تأثر دیا کہ آپ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں اور "ہنس” کے پہلے شمارے کے لیے اپنے پیش نامے میں آپ نے دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے۔”

    "مجھے پورا یقین ہے کہ ہندی سے آپ کی مراد بنیادی طور پر عام لوگوں کی زبان ہے۔ ایک ایسی زبان جو وہ بولتے ہیں اور جو ان کی تعلیم کے بہترین ذریعے کے طور پر کام آ سکتی ہے۔ لیکن متعدد ایسے افراد کے لیے جو اس کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کوشاں ہیں، "ہندی” ایسی کوئی زبان نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ ہندی کو ہندوستانی کا متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں تو وہ دراصل ایک ذخیرۂ الفاظ ایک ذوق اور سیاسی و مذہبی وابستگیوں کو متعارف کرتے ہیں۔ میں اسی رجحان کے خلاف آپ سے اپیل کر رہا ہوں کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بھارتیہ ساہتیہ پریشد بھی اس کا شکار ہو گئی ہے۔”

    "میں پریشد کی تشکیل پر خوش ہونے والوں میں سے ایک تھا، کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ یہ ایک مشترکہ زبان کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرے گی۔ میں نے "ہنس” کی اشاعت کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔ میں پریشد کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اگر "ہنس” کے شمارے اس کے رویے اور حکمت عملی کی ذرا سی بھی غمازی کرتے ہیں تو اس سے بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ منشی پریم چند صاحب اس وقت شاید ہماری سب سے بڑی ادبی شخصیت ہیں، وہ ان کمیاب شخصیتوں میں سے ہیں جن کے لئے ادب ذاتی اظہارِ رائے کا ذریعہ بھی ہے اور خدمتِ خلق کا بھی۔ وہ اردو اور ہندی پر یکساں عبور رکھتے ہیں اور ان میں ہندو مسلم تہذیب کے بہترین ادبی و سماجی روایات کا امتزاج ملتا ہے، "ہنس” کو وہی زبان استعمال کرنی چاہیے تھی جو وہ خود لکھتے ہیں اور اسی روایت کا نقیب بننا چاہیے تھا جس کی وہ خود نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور یہی میرا سارا کرب ہے۔”

    "ہنس” واضح طور پر ایک فرقہ پرست رسالے کا تأثر دیتا ہے۔ دوسرے ہندی رسائل کے مقابلے میں یہ زیادہ سنسکرت آمیز ہندی استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جسے کسی طرح بھی ہندوستانی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے نقطۂ نظر یا انتخاب مضامین سے ہرگز یہ تاثر قائم نہیں ہوتا کہ ہنودستانی قوم مختلف معاشرتوں کا مجموعہ ہے یا یہ کہ ایک کے سوا کوئی اور ثقافت بھی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ اس سے اتحاد کی نہیں بلکہ سامراجیت کی بو آتی ہے۔”

    "ایک چھوٹی سی مثال سے میرا موقف واضح ہو جائے گا، ساہتیہ پریشد کو "بھارتیہ” کہا گیا ہے نہ کہ ہندوستانی۔ ایسا کیوں ہے؟”

    "اگر بھارت کا کوئی مطلب ہے تو صرف یہ کہ یہ آریوں کا ہندوستان ہے جس کی زندگی میں نہ صرف مسلمانوں اور ان کی خدمات کو بلکہ صدیوں کے ارتقاء اور تغیر کو بھی کوئی مقام حاصل نہیں۔ کیا اس سے علیحدگی پسندی اور رجعت پسندی کا اظہار نہیں ہوتا ہے؟ پھر ہمیں جو گشتی مراسلے ہندی میں بھیجے گئے ہیں ان میں بات چیت کی زبان کے دو یا تین سے زیادہ الفاظ نہیں ہیں۔ عام ہندی کے [नीचे लिखे हुए] (نیچے لکھے ہوئے) کی جگہ [निम्न लिखित] (نیمن لکھت) جیسے خالص سنسکرت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ناگری رسمُ الخط سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود میرے لیے بھی یہ ناقابلِ فہم ہیں۔”

    "یہ امر بالکل واضح ہے کہ فنّی اصطلاحات کے لحاظ سے سنسکرت اور عربی دونوں زبانیں بھرپور ہیں لیکن ایک عام ہندوستانی زبان ان میں سے کسی ایک پر بھی مکمل انحصار نہیں کر سکتی کیونکہ اگر عربی ایک بدیسی زبان ہے تو سنسکرت بھی کبھی عام بول چال کی زبان نہیں رہی ہے۔ بول چال کی ہندی کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوگا کہ اس میں شامل شدہ تمام سنسکرت الفاظ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصے تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندوستان کے عام لوگ آسانی سے ان کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے۔”

    "ہندی کے بیشتر حامیوں نے یہ سارے حقائق نظر انداز کر دیے ہیں اور یہ اور کئی دوسرے الفاظ کے اصل سنسکرت متبادل شامل کر دیے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ سب کچھ ادعائے فضیلت کا نتیجہ ہے یا ناواقفیت کا یا تعصب کا؟ کیونکہ سنسکرت کے بول چال کے تو سارے الفاظ اردو میں شامل ہی ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور واضح ہے کہ ان دوستوں کا براہِ راست تعلق زندہ اور بولی جانے والی زبان کی ترویج و اشاعت سے نہیں بلکہ ہندوستانی زندگی کو آریائی طرز پر ڈھالنے سے ہے۔ اگر ہمارے ہندو بھائی اپنے اندر اصلاح یا رجعت کی کوشش کر رہے ہیں تو مسلمانوں کو اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں لیکن مشترک دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس قسم کی تحریکوں کو لسانی مسئلہ سے سختی کے ساتھ دور رکھا جائے۔”

    "عقیل صاحب کے ایک خط کے جواب میں شری کے۔ ایم۔ منشی نے کہا ہے کہ: "گجرات، مہاراشٹر، بنگال اور کیرالا کے لوگوں نے ایسی ادبی روایات استوار کی ہیں جن میں خالص اردو عناصر تقریباً مفقود ہیں۔ اگر ہم ہندی کی طرف متوجہ ہوئے تو فطری طور پر ہم سنسکرتی ہندی کی طرف متوجہ ہوں گے۔”

    "سب سے پہلے تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ گجراتی، مرہٹی اور بنگالی، ان ساری زبانوں میں فارسی کے الفاظ کی خاصی تعداد موجود ہے۔ نیز یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ایک دوسرے سے اور مسلمانوں سے قریب آنے کے لیے گجرات اور بنگال کے ہندوؤں کو سنسکرت آمیز زبان اختیار کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں ہمیں خالص اردو عناصر سے نہیں بلکہ شمالی ہند کی زندہ زبان اور محاوروں سے سروکار ہے۔ اگر اس زندہ زبان اور محاورے کو ایک مشترکہ زبان کی بنیاد بنایا جائے تو مسلمان مؤثر طور پر تعاون کر سکتے ہیں۔ سنسکرت کی سمت مراجعت کا مطلب یہ ہے کہ ہندی، بنگالی اور گجراتی کے سلسلے میں مسلمانوں کی گزشتہ خدمات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ان حالات میں ہم سے تعاون کے لیے کہنا ایسا ہی ہے جیسے ہم سے کہا جائے کہ خودکشی کے لیے رضامند ہو جاؤ۔”

    "یہ امر کہ ہندی اردو کا سوال عنقریب ایک فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر سکتا ہے، اس تقریر سے ظاہر ہے جو مسٹر پرشوتم داس ٹنڈن نے اس ماہ کے پہلے ہفتے میں بنارس میں ہندی میوزیم کی افتتاحی تقریب میں کی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ چینی کے بعد ہندی دوسری زبان ہے جو ایشیا کے طول و عرض میں بولی جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک مشترکہ زبان کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اور وہ ہندی ہوگی، کیونکہ ہندوستانیوں کی اکثریت ہندی بولتی ہے۔ جو لوگ ہندوستانی کا نعرہ بلند کریں انہیں اکثریت دبا دے گی۔ لہذا ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن سروں کا گننا اور سروں کا توڑنا کوئی مداوا نہیں ہے۔ مسٹر ٹنڈن کا حقیقی مفہم خواہ کچھ ہی ہو لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے Cummunal award کی طرح کی ایک اور شرمناک صورت حال کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے۔”

    "اب آپ کا وقار اور آپ کی شخصیت کا عطا کردہ اعتماد ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ میں ذیل میں چند ایسے نکات پیش کر رہا ہوں جو میری ناچیز رائے میں اعتدال پسندانہ ہیں اور ایک مشترکہ زبان کے لیے صحت مند اساس مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نہ صرف اپنے نقطۂ نظر سے بلکہ ایک مقصد کی بجاآوری کے نقطۂ نظر سے ان پر غور کریں اور انہیں کسی قابل سمجھیں تو آپ انہیں دوسروں تک بھی پہنچا دیجیے۔ میرے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ یہ عوام کے سامنے آپ کے کسی اعلان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

    نکات یہ ہیں کہ:

    1۔ ہماری مشترکہ زبان کو "ہندی” نہیں بلکہ "ہندوستانی” کہا جائے گا۔

    2۔ ہندوستانی کا کسی بھی فرقے کی مذہبی روایات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوگا۔

    3۔ "بدیسی” یا "دیسی” کے معیار پر کسی لفظ کو نہیں پرکھا جائے گا بلکہ استعمال کو سند مانا جائے گا۔

    4۔ اردو کے ہندو ادیبوں اور ہندی کے مسلمان ادیبوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سب کو رائج سمجھا جائے گا۔ بلاشبہ، اردو اور ہندی پر الگ الگ زبانوں کی حیثیت سے اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

    5۔ فنی اصطلاحوں بالخصوص سیاسی اصطلاحات کے انتخاب میں صرف سنسکرت ہی کو ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ اردو، ہندی اور سنسکرت کی اصطلاحوں سے فطری انتخاب کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے گا۔

    6۔ دیوناگری اور عربی ہر دو رسم الخط مستعمل اور سرکاری سمجھے جائیں گے۔ ان تمام اداروں میں جن کی پالیسی ہندوستانی کے سرکاری فروغ دہندگان مرتب کریں گے، ہر دو رسم الخط کے سیکھنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

    کچھ ایسے دوست بھی ہوں گے جنہیں یہ تجاویز مسلم مطالبات قسم کی چیز معلوم ہوں گے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ کی اور پریشد کی جانب سے اس قسم کی کسی یقین دہانی کے بغیر، ایک مشترکہ زبان کے سلسلے میں مسلمانوں کی ادبی جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے میں نے یہ تجاویز آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔”

    "میں جانتا ہوں کہ اگر یہ حد سے متجاوز ہیں تو آپ مجھے معاف کر دیں گے اور اگر یہ نامناسب ہیں تب بھی آپ کی اہانت کا باعث نہیں بنیں گی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں صرف اپنا فرض ادا کرنا اور آپ سے ایک درخواست کر کے آپ کے فیصلے کے ضمن میں اپنی بے پایاں عقیدت اور آپ کے گہرے احساسِ انصاف و تحمل پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔”

    (اماخوذ از رسالہ: نگار، اردو ترجمہ: سحر انصاری)

  • للّو لال کوی کے قلم سے نکلی ایک دل چسپ کہانی

    للّو لال کوی کے قلم سے نکلی ایک دل چسپ کہانی

    منشی للّو لال کوی فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہندوستانی مصنّف، مترجم اور فاضل تھا۔ کہتے ہیں اسی نے ایک نئی زبان تشکیل دیتے ہوئے ادب میں اردو ہندی تنازع کا ڈول ڈالا تھا۔ لطائفِ ہندی اسی للّو لال کوی کی تصنیف کردہ ہے جس سے قدیم زبان اور ہمارے لیے ‘اجنبی’ الفاظ کے ساتھ ایک پُر مزاح حکایت یہاں نقل کی جارہی ہے۔ یہ کہانی کتاب کے اوّلین ایڈیشن کا حصّہ تھی جو 1810ء میں شائع ہوا تھا۔

    کسی راجا کے یہاں بکٹ خاں نام کَلاوَنت (گویّا) بہ سبب گانے بجانے کے بہت پیش ہوا۔ ایک دن اس راجا پر کوئی غنیم (فوج کا لشکر) چڑھ آیا تو اس نے بھی لڑنے کی تیاری کی اور اپنے رفیقوں کو ہتھیار گھوڑے بانٹے۔

    اس وقت بکٹ خاں سے راجا نے کہا کہ تم بھی سلح خانے سے ہتھیار اور اصطبل سے گھوڑا اپنی پسند کے موافق لے لو۔ کل تمھیں بھی ہمارے ساتھ لڑنے کو چلنا ہوگا۔ اس بات کے سنتے ہی اس کی جان تو سوکھ گئی، پَر مارے شرم کے “بہت خوب” کہہ کر گھوڑا اور ہتھیار پسند کر کے کسی بہانے سے اپنے گھر آیا اور جورو سے کہنے لگا کہ اس شہر سے ابھی بھاگ چلو۔ نہیں تو راجا کے ساتھ کل مرنے کو جانا ہو گا۔

    اس کی جورو عقل مند تھی، بولی: جو لڑائی میں جاتا ہے سو بے اجل نہیں مرتا۔ یہ کہہ اس نے چکّی میں چنے دَل کر دکھائے اور کہا کہ دیکھ جس طرح اس میں دانے ثابت رہ گئے، ایسے لڑائی میں بھی لوگ بچ رہتے ہیں۔ (یہ سن کر) بکٹ خاں اپنی بیوی سے بولا: (اس میں) جو پِس گیا سو میں ہوں۔ اس کم ہمتّی کو دیکھ اُس کی عورت جھنجھلا کر بولی کہ سُن جو تُو ایسے نمک حرامی کر اُس (راجا) کا ساتھ چھوڑے گا تو میں بھی تیرا ساتھ نہ دوں گی۔

    یہ سن کر شرما کے لاجواب ہو کے راجا کے پاس بھور ہی جا حاضر ہوا اور ہتھیار لگا گھوڑے پر سوار ان کے ساتھ ہو لیا۔ جس وقت میدان میں دونوں دَل تُل کر لڑنے کو تیّار ہوئے اور لگا مارو بجنے (جنگی نغمہ یا طبلِ جنگ) اور گولی گولا بان دونوں اور (طرف) سے چلنے لگے اور اس کا گھوڑا بھڑکنے لگا، تس وقت بکٹ خاں نے مارے ڈر کے راجا سے عرض کی کہ مہاراج! (میں) ہوں گرتُ ہوں۔ پَر راجا سمجھا کہ یہ کہتا ہے میں حریف کی فوج پر گروں۔ بولا ایسا کام بھی نہ کیجیو۔ تم میرے ہاتھی کے ساتھ اپنا گھوڑا رکھو۔ دو تین مرتبہ راجا سے اس نے کہا اور راجا نے یہی جواب دیا۔ نادان گھوڑا اسے حریف کے غول میں لے ہی گیا، تب بکٹ خاں نے کمر سے دُپٹا کھول پھرایا۔

    اُس راجا کے لوگ اِس کے پاس آئے اور پوچھا: تُو کیا پیغام لایا ہے؟

    بولا: مجھے گھوڑے سے اتارو تو کچھ عرض کروں۔ انھوں نے اسے گھوڑے سے اتارا۔ تب یہ(بکٹ خاں) بولا کہ تم کس لیے لڑتے ہو، جس طرح کی معاملت چاہو گے سو ہمارا راجا قبول کرے گا۔ اُس (حریف فوج کی سلطنت کے راجا) نے کہا کہ دس لاکھ رُوپے دے اور اپنی بیٹی ہمارے بیٹے کو بیاہ دے۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔

    وہ بولا: یہ بات ہمارے راجا کو قبول ہے۔ میں اس کا جواب کل دے جاؤں گا، تم خاطر جمع رکھو۔ اس بات کے سنتے ہی خوش ہو کر اُس راجا نے اسے ایک بھاری خلعت اور بہت سے رُوپے دے رخصت کیا اور لڑائی موقوف کی۔

    دوسرے دن بھور(صبح) ہی یہ راجا جب چڑھ کھڑا ہوا تب اُس راجا (حریف) نے کہلا بھیجا کہ کل تو تمھارا وکیل تمھاری طرف سے دس لاکھ رُوپے اور بیٹی دینا قبول کر گیا ہے، اب کیوں لڑنے کو تیار ہوئے ہو۔ یہ سنا تو راجا نے کہا کہ دیکھو کون آدمی ہماری طرف سے وہاں جا کر یہ بات کہہ آیا ہے، وِسے میرے پاس لاؤ۔ غرض تحقیق کر کے لوگ بکٹ خاں کو ہاتھوں ہاتھ راجا کے پاس لے گئے۔ تب کسی مصاحب نے اُس سے پوچھا کہ تو کس کے حکم سے دس لاکھ رُوپے اور لڑکی دینے کا اقرار کر آیا؟

    بکٹ خاں بولا: اسے حکم کیا چاہیے، جو اس گھوڑے پر چڑھے گا سو اقرار ہی کر آوے گا۔ اس بات کے سنتے ہی راجا نے خفا ہو کر اُسے لشکر سے نکال دیا اور اس پر بڑا افسوس کیا۔ اس میں کوئی مصاحب بول اٹھا کہ مہاراج! آپ نے جو اتنا افسوس کیا سو کیا، یہ مثل نہیں سنی؎

    جس کا کام تِسی کو چھاجے
    اور کرے تو ٹھینگا باجے