Tag: اردو

  • احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    اردو ادب کے نامور شاعر اورادیب احمد ندیم قاسمی کی آج تیرویں برسی منائی جارہی ہے، آپ لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔

     احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ  پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

    احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

    قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔

    یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی

    وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’پھول‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لیِ، پھول بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔

    قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’سیاست‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’انقلاب‘ لاہوراور ’زمیندار‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ جوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

    اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    ان کے شعری مجموعات میں میں بے گناہ، رم جھم، دھڑکنیں، جلال وجمال، لوح وخاک اوردشتِ وفا بے حد معروف ہیں جبکہ افسانوں میں چوپال، آنچل، آبلے درو دیواراور برگ حنا بے پناہ شہرت کے حامل ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصرعلالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے سبب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا  ، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکے اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہوگیا۔

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

  • اردو کے دو اہم تاریخی اداروں کی تباہی کا وقت آن پہنچا

    اردو کے دو اہم تاریخی اداروں کی تباہی کا وقت آن پہنچا

    وفاقی حکومت نے سادگی اور اداروں کی اصلاح کے لیے وطنِ عزیز کے دو اداروں کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ دونوں ادارے اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ ہیں اور دونوں ہی قومی زبان کو عالمی زبان بنانے کے لیے شب و روز کوشاں ہیں ۔ حکومت کے اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹرعشرت حسین کی سربراہی میں قائم کردہ ٹاسک فور س برائے سادگی اور ادارہ جاتی اصلاح نے اردو زبان کے دو اہم ترین اداروں کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں اردو سائنس بورڈ کی سفارشات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ یا کسی اور نمائندے کو اجلاس میں مدعو کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔

    سوشل میڈیا پر اردو سے وابستہ افراد کی جانب سے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اہم اسکالرز کا موقف ہے کہ یہ دونوں ادارے انتہائی کم بجٹ میں بیش بہا علمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایسے اداروں کی خود مختاری ختم کرتے ہوئے انہیں کسی اور ادارے میں ضم کرنا ، انہیں ختم کردینے کے مترادف ہے۔

    حکومت کے اس فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ کی گزشتہ چند برسوں کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تاکہ فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے کہ آیا یہ حکومتی اقدام دانش مندی پر مبنی ہے، یا پھر سراسر غلط فیصلہ ہے۔

    اردو لغت بورڈ – قیام اورخدمات


    اردو لغت بورڈ کا قیام سنہ 1958 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سربراہی میں عمل میں آیا اور اس ادارے نےبر صغیر کی اس عظیم زبان جو کہ ہماری قومی زبان بھی ہے، اس کی ایک مفصل لغت مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھا یا۔ باون سالہ محنت شاقہ کے نتیجے میں اس ادارے نے تاریخی اصول پر مبنی 22 ہزار صفحات پر مشتمل ایک عظیم الشان لغت مرتب کی ، جس نے اسے دنیا کی تیسری بڑی زبان کا درجہ دیا۔ اس سے پہلے یہ کام صرف انگریزی اور جرمن زبان میں انجام دیا گیا تھا اور دیگر تمام زبانیں تاحال ایسی کسی لغت ےسے محروم ہیں۔

    لغت کی تدوین میں آکسفور ڈ ڈکشنری کا ماڈل سامنے رکھا گیا تھا جس نے تما م تر وسائل ہوتے ہوئے اپنا پہلا ایڈیشن 70 سال بعد شائع کیا تھا جو کہ بارہ جلدوں پر مشتمل تھا۔

    کام ابھی بھی ختم نہیں ہوا جناب، ادارے کے موجودہ سربراہ عقیل عباس جعفری نے اس ضخیم لغت کو ڈیجیٹل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور جلد ہی مکمل 22 جلدوں کو آن لائن کردیا گیا۔ دوسرا مرحلہ تلفظ کی درستی تھا جسے تاریخی اصول پر ریکارڈ کرایا گیا اور اپ لوڈ کیا گیا جس سے املا کے مسائل حل ہوگئے۔

    ساتھ ہی ساتھ بائیس جلدوں کا خلاصہ عام صارف کے لیے دو جلدوں میں تیار کیا گیا۔میڈیا ہاؤسز کے لیے الفاظ کے درست املا اور تلفظ کا ایک مینوئل بھی تیار کیا گیا ہے جبکہ طلبہ و طالبات کے لیے ایک درسی لغت بھی تیار کی گئی ہے جس میں پاکستان کے تمام سرکاری بورڈز کی کتب، اواوراے لیولز، اور آغا خان بورڈ کی کتابوں کے الفاظ جمع کیے گئے ہیں۔

    اردو ادب کے کلاسیکی شعرائے کرام کے کلام کی فرہنگیں بھی تیار کی گئی ہیں جبکہ اردو لغت بورڈ کے رسالے اردو نامہ کا دوبارہ اجرا کیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ محکمہ ڈاک کی مدد سے ادارے کی ساٹھ سالہ اور مرزا غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کے موقع پر یادگاری ٹکٹوں کا اجراء، لغت بورڈ کے دفتر میں دیوار ِ رفتگاں اور گوشہ تبادلہ کتب کا قیام، قدرت نقوی، محسن بھوپالی اور فہمیدہ ریاض کے کتب خانوں کا حصول اور ادارہ کے کتب خانہ میں گوشہ قدرت نقوی، گوشہ محسن بھوپالی اور گوشہ فہمیدہ ریاض کا قیام اور ادارہ کے کتب خانے میں دس ہزار کتابوں کا بلا معاوضہ اضافہ۔ یہ گراں قدر کام لغت بورڈ نے انجام دیے۔

    یہ وہ تمام کام ہیں جو اردو لغت بورڈ نے اپنے انتہائی محدود وسائل میں گزشتہ ۳ سال میں انجام دیے ہیں اور لغت کے مدیر اعلیٰ عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ یہ تو محض اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں داخل کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے جو کہ طے کرلیا گیا ہے، ابھی تو بہت کام باقی ہے۔

    اردو سائنس بورڈ کی خدمات


    اب ذرا جائزہ لیتے ہیں اردو سائنس بور ڈ کا جس کاقیام سنہ 1962 میں لاہور میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کرنل (ر ) عبد المجید تھے جبکہ موجودہ ڈی جی نیئر عباس ہیں۔ اپنے قیام سے آج تک اردوسائنس بورڈنے اب تک آٹھ سوسے زائد کتابیں ،انسائیکلوپیڈیاز، لغات اورتعلیمی چارٹس شائع کیے ہیں ۔

    بورڈنے دس جلدوں پر مشتمل اردوسائنس انسائیکلوپیڈیاتیارکیا۔ اس میں خوبصورت تصاویر، ڈایاگرامزاورسائنسی معلومات شامل ہیں ۔یہ ثانوی اوراعلیٰ ثانوی سطح کے طلبا، اساتذہ اورتحقیق دانوں کے ساتھ ساتھ عام افرادکے لیے بھی یکساں مفید ہے ۔اردوسائنس بورڈسہ ماہی اردوسائنس میگزین بھی باقاعدگی سے شائع کرتاہے۔

    حال ہی میں ا س ادارے نے کوئٹہ جیسے پسماندہ علاقے کی ایک طالبہ کتاب اشاعت کےلیے منتخب کی ہے جو کہ نامور ماہر طبعیات اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب’گرینڈ ڈیزائن ‘ کا انتہائی عمدہ اردو ترجمہ ہے۔

    اردوسائنس بورڈ کے اغراض ومقاصد


    سائنس، ریاضی اورٹیکنالوجیز کے میدان میں اردوزبان میں موجود کمیوں کو دُورکرنا اورابتدائی ، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے سکولوں ، خواندگی اوربالغ خواندگی کے مراکز کے علاوہ ٹیکنالوجیزکے اداروں کے لیے تعلیمی موادتیارکرنااورشائع کرنا۔

    ملک بھر میں اساتذہ کے تربیتی اداروں میں پڑھائے جانے والے سائنس، ریاضی اورٹیکنیکل مضامین کے لیے تعلیمی مواد تیارکرنااورشائع کرنا۔

    قومی مرکزبرائے آلات تعلیم کے لیے تیارکردہ تمام آلات کے لیے اردومیں مواد تیارکرنے میں اس ادارے سے تعاون کرنا۔

    ملک میں اردوسائنسی اورفنی تعلیم کی ترقی کے لیے کام کرنے والے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا۔

    دنیا کہاں جارہی ہے؟


    ہمارا پڑوسی ملک ایران جسے اپنی زبان کی قدامت اور استقامت پر بے پناہ ناز ہے، اس کی اب تک کی سب سے مستند لغت کا نام ’لغت نامہ دھخدا‘ ہے جسے علی اکبر دھخدا نے تشکیل دیا تھا ۔ اپنی زبان سے محبت کرنے والےایرانی اس شخص اوراس کے ادارے کے اس حد تک شکرگزار ہیں کہ ایران میں کئی مقامات پر ان کے مجسمے نصب کیےگئے ہیں اور ان کے نام پر تحقیقاتی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اس پر بھی بس نہیں کی گئی بلکہ جدید خطوط پر فارسی لغت کی تدوین مسلسل جاری ہے۔

    آکسفورڈ ڈکشنری جسے تاریخی اصول پر مرتب کیا گیا ہے، اس نے اپنے کام کا آغاز سنہ 1857 میں کیا اور دس جلدوں پر مشتمل پہلی لغت سنہ 1928 میں شائع کی اور اس کے بعد اس کا اگلا ایڈیشن 1989 میں نکالا گیا جبکہ تیسرے ایڈیشن پر کام جاری ہے۔ جس وقت ادارے نے کام شروع کیا ، آج کی نسبت اس کے پاس محدود وسائل اور اختیارات تھے( حالانکہ وہ پاکستان سے کہیں زیادہ تھے) اور آج ادارہ بے شمار وسائل اور اختیارات کا حامل ہے اور اپنے کام کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے۔

    جرمن زبان میں لغت سازی کا ابتدائی کام آٹھویں صدی میں شروع ہوا اور تاحال یہ کام جاری ہے ، جرمن زبان دنیا کے چھ ممالک کی سرکاری زبان ہے اور اس کے معاملات کونسل آف جرمن آرتھو گرافی کے سپرد ہیں جو کہ ایک غیر سرکاری خود مختار ادارہ ہے ۔

    یہی صورتحال اگر سائنس کے میدان میں دیکھی جائے تو ناسا کے قیام کا بنیادی مقصد خلا کی تسخیر تھا، جو کہ جولائی 1969 میں چاند پر پہلے انسان کے قدم رکھتے ہی حاصل ہوگیا تھا۔ اب کیا ناسا کو بند کردیا جائے، نہیں! ان کے سائنسدان ستاروں سے آگے کے نئے جہاں کھوجنے چل پڑے۔

    ہم کیا کررہے ہیں؟


    دنیا میں کئی بڑے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو کبھی کسی ادارے کے ماتحت ہوا کرتے تھے اور آج ان کا بجٹ پاکستان جیسے غریب ممالک سے کہیں زیادہ ہے، اور اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی زبان کو عزت اور اہمیت دی اور اس کے فروغ پر کام کیا۔ ہمارے ہاں وہ تمام افراد جو ہر طرح کے نامساعد حالات میں بھی اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ سے وابستہ رہے، اپنی زندگیوں کا آرام تج کر دن رات جدو جہد میں لگے رہے، آج ان کی خدمات کا یہ صلہ دیا جارہا ہے کہ انہیں ایک ایسے ادارے میں ضم کیا جارہا ہے جس کا براہ راست ان کے کام سے لینا دینا نہیں ہے۔

    سادگی ، کفایت شعاری اور اداروں کی اصلاح جیسے تمام نعروں سے صد فیصد متفق لیکن جہاں پہلے ہی بجٹ اتنا کم ہے کہ اس سے زیادہ خرچہ تو وفاقی حکومت کسی غیر ملکی مہمان کی آمد پر ہی کردیتی ہے۔ ایسے شعبہ جات کو بچت کی فہرست میں شامل کرنا سراسر بددیانتی اور بدنیتی کے مترادف ہے۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ فیصلے پہلے لیے جاتے ہیں اور بعد میں عوامی ردعمل کی بنیاد پر انہیں تبدیل کیا جاتا ہے جیسے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں تنخواہوں کے اضافے کی اطلاعات تھیں، پھر وزیر اعظم نے نوٹس لے کر وہ اضافہ رکوایا۔

    جناب ِ وزیر اعظم ! آپ جب اپوزیشن میں تھے تو اکثر کہا کرتے تھے کہ ترقی یافتہ اقوام نے تمام تر قی اپنی زبان میں کی اور اپنی زبان ترقی کا واحد راستہ ہے تو ذرا اپنی سادگی ٹاسک فورس کے اس فیصلے پر ایک نظر کیجئے کہ یہ دونوں اداروں ادب اور سائنس سے وابستہ معتبر ناموں کی کئی دہائیوں کی محنت کے نتیجے میں یہاں تک پہنچے ہیں اور اب جب کہ یہ ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہیں تو ان میں کسی بھی طرز کی چھیڑ چھاڑ انہیں تباہ کرنے کے مترادف ہوگی۔

  • گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    ورجینا وولف نے کہا تھا،”ناول ایک ایسی صنف ہے، جس میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔”

    یہ سچ ہی تو ہے۔ پھر یہ صنف اتنی پرقوت ہے کہ بیانیہ کی الگ الگ تکنیکس، جیسے واقعات نگاری، تجریدی ڈھب، تجزیاتی انداز ، یہاں تک کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی بوجھ ڈھو لیتی ہے۔

    صدیوں سے یہ کتاب ہی تھی، جو کسی مسئلے کی نشان دہی اور  عوام میں شعور پیدا کرنے کا موثر  ترین ذریعہ ٹھہری۔ ممکن ہے، نشان دہی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کتاب سے آگے نکل گئے ہوں، مگر اثر پذیری میں کتاب اب بھی غالب ہے۔ اور ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔

    موضوع کیا ہے؟

    یہ ناول گھریلو تشدد کے ٹول کے ذریعے ایک ایسے مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے، جس کی جانب شاید کم ہی توجہ دی گئی۔ اور یہ ہے: ذہنی امراض۔

    مصنف کیوں کہ ذہنی معذوری ڈسلیکسیا کا شکار ہے، اسی باعث وہ ان امراض کے اثرات کو، بالخصوص گھریلو تشدد کے تناظر میں زیادہ موثر انداز میں بیان کرسکتا تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

    کیا اس نے یہ عمل کاملیت کے ساتھ انجام دیا؟ کسی بھی فکشن نگار کے پہلے ناول اسے اس نوع کی توقع کرنا اپنی اساس ہی میں غیرفطری ہے۔

    احساسات اور رویے، جنھیں قلم بند کیا گیا؟

    ناول نگار نے  ذہنی امراض سے متعلق لاعلمی، عدم توجہی، مریض کے اہل خانہ کی ٹال مٹول جیسے رویے کو  خوبی سے منظر کیا۔

    ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ میں مجبوری کے ایک ایسے احساس کو پیش کیا گیا، جو  معاشرہ افراد، بالخصوص عورت پر عائد کر تا ہے۔ پہلے شادی، پھر بچوں کو پیدایش، اس پر مستزاد مالی طور پر شوہر اور سسرال پر انحصار، یوں وہ کلی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ اس محدودیت کا کرب ہم تک ان صفحات کے ذریعے پہنچتا ہے۔

    کہانی پلاٹ اور کرداروں کی

    یہ حنا کی کہانی ہے، جو مہندی آرٹسٹ ہے، جس کی شادی ماجد سے ہوتی ہے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ آدمی چونک اٹھے۔

    البتہ دھیرے دھیرے پریشان کن واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ تشدد کا عنصر بڑھتا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہم ان واقعات، سانحات کے روبرو ہوتے ہیں، جو ہماری یادوں میں محفوظ ہیں کہ یہ کہانی 2017 تک آتی ہے۔

    بنیادی کردار تو حنا اور ماجد ہی ہیں، باقی کردار ان ہی دو سے جڑے ہوئے ہیں۔ کردار نگاری موثر ہے، کہیں کردار مصنوعی نہیں لگتا۔

    ناول کے آخر تک ہم حنا سے تو ہمدردی محسوس کرتے ہیں، مگر جو ذہنی مریض ہے، یعنی ماجد، اس کے لیے ہم میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور بیانیہ میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو، مگر وہ ناول، جو اسی موضوع پر ہو، اس میں قاری یہ تقاضا ضرور  کرتا ہے۔

    تکنیک اور زبان

    چند صفحات پڑھ کر ہی آپ کو انداز ہوجاتا ہے کہ ناول نگار عصری ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتامیے سے شروع ہوتا ہے، ایک معصوم بچی، خون، مہندی، ایمبولینس اور پھر ایک فائر۔ یہ ایک موثر  آغاز ہے۔

     ہر حصے پر ایک عنوان ٹکایا گیا ہے، چند قارئین کو اس سے الجھن ہوتی ہے، مگر راقم کے نزدیک یہ پڑھت کے عمل کو سہل بناتا ہے، البتہ گرفت کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔  بے شک اِسے مزید موثر بنایا جاسکتا تھا۔

    ناول میں برتی جانے والی زبان کہانی کے تقاضے بڑی حد تک نبھاتی ہے۔ عام بول چال بھی گرفت کیا گیا ہے۔ البتہ رموز و اوقاف کے استعمال اور جملے کو لکھنے کے ڈھب میں بہتری کی گنجایش ہے۔

    جہاں جہاں جزئیات بیان کی گئیں، وہ قاری تک وہ احساس پہنچانے میں کامیاب رہیں، جو لکھاری کا مقصد تھا، چند مناظر واقعی متاثر کن ہیں، جن اضافی معلوم ہوتے ہیں۔

    حرف آخر

    ابھی جان باقی ہے مطالعیت سے بھرپور ناول ہے، یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک حساس موضوع کو منظر کرتا ہے، جس کی بابت ہم کم ہی بات کی اور یہ صرف مسئلہ کو اجاگر کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کامیابی سےایک کہانی بھی بیان کرتا ہے۔

    ہاں، اسے مزید ایڈٹ کیا جاسکتا تھا،223 صفحات زیادہ تو نہیں، مگر یہ بیانیہ دو سو صفحات میں زیادہ موزوں لگتا۔

    ہم چنگیز راجا کے اگلے ناول سے کیسی امیدیں باندھ سکتے ہیں، اس کی خبر ہم اس ناول سے مل جاتی ہے۔

    علم و عرفان پبلشرز کے زیر اہتمام، اچھے گیٹ اپ میں شایع ہونے والے اس ناول کی قیمت چھ سو روپے ہے۔

  • اردو کے ممتاز مترجم اور سینئر شاعر باقر نقوی انتقال کر گئے

    اردو کے ممتاز مترجم اور سینئر شاعر باقر نقوی انتقال کر گئے

    لندن: اردو کے ممتاز  مترجم، سینئر  شاعر اور ماہر نوبیلیات باقر نقوی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے.

    تفصیلات کے مطابق نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کو اردو روپ دینے والے ممتاز مترجم گذشتہ روز لندن میں انتقال کر گئے. ان کی عمر 83 برس تھی.

    ادبی سفر پر ایک نظر

    باقر نقوی کی شعرگوئی کا سلسلہ عشروں پر محیط تھا، پھر تخلیقی سفر میں موڑ آیا، وہ ترجمے کے میدان میں آئے، پہلے مصنوعی ذہانت کے موضوع پر قلم اٹھایا، پھر نوبیل انعام یافتگان جیسا اَن چھوا موضوع منتخب کیا.

    بیسویں صدی میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا ترجمہ نوبیل ادبیات کے نام سے چھپا، کارنامے نے سب کو متوجہ کیا، مشاہیر نے جی کھول کر سراہا۔

    اِس کام میں ایسا لطف آیا کہ امن کے شعبے میں انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا بھی ترجمہ کر ڈالا، اگلی باری نوبیل حیاتیات کی تھی۔ لوگ انھیں اردو کا پہلا ماہرنوبیلیات کہنے لگے.

    فکشن کی سمت بھی گئے۔ ہرٹا میولر اور گنٹر گراس کے منفرد ناولوں کو اردو روپ دے کر ناقدین سے داد سمیٹی۔ وکٹر ہیوگو کے شہرۂ آفاق ناول Les Misérables کا ترجمہ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے جاپانی ادیبوں کے کام کو بھی اردو روپ دیا.

    حالات زندگی

    باقر نقوی 1936 میں الہ آباد اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 55ء میں والد کے انتقال کے بعد جدوجہد کا سفر شروع ہوا۔ ہجرت کے بعد کئی معاشی مسائل کا سامنا کیا، انشورنس کے کاروبار میں آنے کے بعد کیریر کو سمت ملی. آنے والے برسوں میں کئی ممتاز انشورنس فرم میں اعلیٰ عہدوں‌ پر فائز ہوئے.

    تذکرہ کتابوں‌ کا

    ان کے شعری مجموعے تازہ ہوا، مٹھی بھر تارے، موتی موتی رنگ، دامن (کلیات) کے زیر عنوان شایع ہوئے.

    نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کے علاوہ الفریڈ نوبیل کی حیات، خلیے کی دنیا، برقیات، مصنوعی ذہانت کے عنوان سے بھی کتابوں‌کو اردو روپ دیا.

  • کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا: ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا خصوصی انٹرویو

    کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا: ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا خصوصی انٹرویو

    کراچی: عہد ساز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے لکھتے ہیں، لکھتے ہوئے کبھی شہرت کا دباؤ محسوس نہیں‌ ہوا، کیوں‌ کہ انھوں نے کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں‌ نے کراچی میں اے آر وائی نیوز کی ویب سائٹ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا.

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا ہے کہ دیگر اصناف کے برعکس وہ ناول لکھتے ہوئے خود کو زیادہ مطمئن محسوس کرتے ہیں.

    انھوں نے اپنے عصروں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اشفاق احمد کو پاکستانی ٹیلی ویژن کی تاریخ‌ کا سب سے بڑا ڈراما نگار قرار دیا. ان کا کہنا تھا کہ انتظار حسین کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی. عبداللہ حسین کے پاس وہ تمام تجربات تھے، جو بڑے ادیب تخلیق کرنے کے لیے درکار ہوسکتے ہیں.

    انھوں نے روحی بانو کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خلا واقعی کبھی پورا نہیں ہوگا.

    مزید پڑھیں: ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    ان کا اپنی تخلیقات سے متعلق کہنا تھا کہ ’’بہاؤ‘‘  جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا، اپنا آخری ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ لکھتے ہوئے اسی تخلیق تجربے سے گزرا، جس سے بہاؤ کے وقت گزرا تھا۔

    تفصیلی انٹرویو ویڈیو میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

    https://www.facebook.com/arynewsud/videos/554215328412841/

  • نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 23 برس بیت گئے

    نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 23 برس بیت گئے

    آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی غزل گواورسلام گو شاعر ہیں آپ کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ بہت خوبصورتی سے جھلکتے ہیں۔

    محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو پیدا ہوئے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن تلفظ کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر ’محسن نقوی‘کے نام سے مشہور ہوئے۔

    انہوں نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذوو شوق سے پڑھتے تھے۔

    محسن نقوی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم وبیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

    بعد ازاں تعلیم کو خیرباد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہوگئے اورانیس سوسڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

    محسن نقوی گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوگیا۔

    کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔

    چاندنی کارگر نہیں ہوتی
    تیرگی مختصر نہیں ہوتی
    ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
    احتراماً سحر نہیں ہوتی

    انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انہیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

    محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہوگیا۔

    اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
    کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
    نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
    حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟

    ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔

    محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے
    شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے

    پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کرب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہوسکے گا۔

  • میر انیس کی 144 ویں برسی

    میر انیس کی 144 ویں برسی

    ٓج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخن میر ببر علی انیس کا 144 واں یوم وفات ہے، انہوں نے صنف مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803 میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔

    انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنؤی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 سال کی عمر میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291 مطابق 10 دسمبر 1874 کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963 میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    مرزا دبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    یہی شعر ان کے لوح مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔

    انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

  • جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھے مصرعوں اور نت نئی تاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو  پیوند خاک ہوئے سولہ برس بیت گئے، ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر 1937 کو امروہہ، اترپردیش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی، انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا، اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏:

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے، یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے، چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔ سعید کہتے ہیں،’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔‘‘

    جون ایلیا نے 1957 میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی مکتبہ فکر کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا، میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔

    1980 کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    آمنہ احسن

    یہ ناول ہے نعیم بیگ کا۔ اور یہ کہانی ہے علی کی۔ ایک ambitious ، خواب دیکھنے والا اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی۔

    یہ کہانی ہے علی کے زندگی میں آنے والے ان تمام کرداروں کی جنہوں نے علی کی زندگی کو ہر بار ایک نئے موڑ پر لا کر چھوڑ دیا ۔

    یہ کہانی ہے بھر پور زندگی گزارنے والوں کی، یہ کہانی ہے ہر اس شخص کی جو زندگی میں بروقت فیصلے نہیں کر پاتا اور ساری زندگی ان لمحات کو کوستا رہتا ہے، جب منزل نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو اور وہ زندگی میں اس سے بہتر منزل کی خواہش میں آگے بڑھ گیا ہو۔

    یہ کہانی ہے ایک عام انسان کے ساتھ طاقتور  افراد کے رویے کی، معاشرے میں پھیلے انتشار کی ۔

    یہ کہانی ہے محبت کی، دیوی سے داسی کے سفر کی، معاشرے اور حالات کی تلخی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی محبت کی۔

    اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے، انسان یا تلخی بیان کر سکتا ہے یا محبت، لیکن ایک تلخ سفر میں کہیں کہیں محبت کا رنگ بھرنا اور بے حد خوبصورتی سے اسے کہانی کے ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایک باکمال لکھاری ہی کے بس کی بات ہے ۔

    یہ ناول شاید قاری کو اس لئے بھی مختلف لگے کہ یہ ناول آج کل کے پاپولر ادب کے طرز پر نہیں لکھا گیا۔ اس کا کوئی کردار پرفیکٹ نہیں۔ ماں باپ کی آنکھ کا تارا، پڑھنے میں سب سے آگے، نیک، دین دار یا بیوی بچوں کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے والا جیسا اس ناول میں کوئی کردار نہیں ۔


    مزید پڑھیں: منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق


    اس ناول کے کردار کچھ کچھ ہم سب جیسے ہیں۔ غلطیاں کرتے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش لئے کسی لیڈنگ اسٹوری کے پیچھے بھاگتے ہوۓ، محبت کو شدت سے پانے کی خواہش کے باوجود حالات کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے۔

    ہار کر رو پڑنے والے، ہار مان جانے والے اور پھر نئے سرے سے جیت کے لئے پر جوش نظر آنے والے کردار۔

    راقم کے نزدیک چاہے معاشرے کی ہر سختی نے علی کو چنا اور اس کی زندگی کو مزید مشکل کیا، لیکن اس کے باوجود علی کی زندگی کے آخری لمحات کو اس سے بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔

    یہ ناول آپ کو کیوں پڑھنا چاہیے؟

    سب سے بڑی وجہ یہ آج کل کے پاپولر ادب سے مختلف ہے۔ بے حد مختلف۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ناول ایک نہایت ہی سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا ہے، لیکن نعیم بیگ صاحب نے اس میں قاری کی تفریح ایسا سامان رکھا ہے کہ بات قاری تک پہنچ بھی جاتی ہے اور اسے بوریت کا احساس بھی نہیں ستاتا۔

    ایک اور وجہ جس نے اس ناول کی دلچسپی کو بڑھا دیا، وہ ہے اس میں موجود سیاحتی رنگ۔ ناول کے مختلف کردار دنیا کے مختلف کونوں میں سفر کرتے ملیں گے اور اس سفر کی داستان بے حد دل فریب ہے۔

    ناول کا پلاٹ بھی نیا ہے اور انداز بیاں بھی، ممکن ہے اس سے ملتا جلتا کوئی پلاٹ قاری کی نظر سے گزرا ہو، لیکن اس پلاٹ کو بیان کرنے کا انداز مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

    پھر اگر قاری اس ناول کے لکھنے کی وجہ تک پہنچ جاۓ، تو معاشرے میں بڑھتی ناانصافی اور انتشار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو جاۓ، تو سمجھ لیجئے ادب نے معاشرے کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔

  • نامور شاعر ساحر لدھیانوی کی 38 ویں برسی

    نامور شاعر ساحر لدھیانوی کی 38 ویں برسی

    اپنی شاعری سے سحر طاری کردینے والے نامور شاعر ساحرلدھیانوی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 38 برس بیت گئے۔

    رومان اور انقلاب کے حسین امتزاج کے شاعر ساحر لدھیانوی 8 مارچ 1921ء کو بھارتی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے، ان کا حقیقی نام عبدالحئی تھا لیکن وہ ساحر کے نام سے مشہور ہوئے، انہوں نے بیک وقت ہندی اور اردو میں شاعری کی اور فلمی گیت لکھے۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا اور اسی دور سے شاعری شروع کردی، کالج میں ان کے ساتھ امریتا پریتم بھی تھیں اور ان ہی کے عشق کی پاداش میں ساحر کو کالج سے نکال دیا گیا۔

    ساحر لدھیانوی کو اصل شہرت اس وقت ملی جب ان کے گیت بالی ووڈ انڈسٹری میں شامل ہوئے اور متعدد لیجنڈ اداکاروں پر فلمائے گئے، انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں پر بھی قلم اٹھایا اور اس موضوع کا حق ادا کردیا۔

    انہوں نے اپنی فنی زندگی میں دو بار فلم فیئر ایوارڈ جیتے جس میں پہلا 1964 میں فلم ’تاج محل‘ کے گیت جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا اور دوسرا کبھی کبھی کی شاعری پر1977 میں اپنے نام کیا۔

    ساحرلدھیانوی کے معروف گیتوں میں ’’ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘، ’’ میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘، ’’ گاتا جائے بنجارا‘‘، ’’گیت گاتا چل‘‘ شامل ہیں۔

    38 برس گزر جانے کے باوجود ان کے نغمے آج بھی عوام میں مقبول ہیں، اس البیلے شاعر کا انتقال 25 اکتوبر1980 کو ممبئی میں ہوا ۔