Tag: اردو

  • کراچی میں سجے کا ادب میلہ، آرٹس کونسل اردو کانفرنس شروع ہونے کو ہے

    کراچی میں سجے کا ادب میلہ، آرٹس کونسل اردو کانفرنس شروع ہونے کو ہے

    کراچی: شہر قائد میں اردو ادب کے ستارے جگمگائیں گے، موضوع بنے کا اردو افسانہ،بات ہوگی شاعری کے سفر پر، اظہار خیال کیا جائے گا ناول پر، زیر بحث آئیں گی اردو کی نئی بستیاں۔

    تفصیلات کے مطابق دسویں عالمی اردو کانفرنس 21 تا  25 دسمبر 2017 آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوگی، جس میں پاک و ہند سمیت دنیا بھر کے معروف دانشور، محقق، شاعر اور ادیب شرکت کریں گے۔

    اس کانفرنس کو پاکستان کے 70 ویں جشن آزادی سے منسوب کیا گیا ہے، اس میں گذشتہ 70 برسوں میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، مصوری، رقص، ڈراما، زبانیں، صحافت، فلم اور دیگر شعبوں میں کیا کھویا کیا پایا کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ اس کانفرنس میں ہندوستان سے ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر قاضی افضال حسین، ڈاکٹر انیس اشفاق، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، خوشبیر سنگھ شاد، فرحت احساس، رنجیت سنگھ چوہان، لندن سے رضا علی عابدی، جرمنی سے عارف نقوی، جاپان سے ہیروجی کتاﺅکا، مصر سے ابراہیم محمد ابراہیم، ترکی سے خلیل توقار اور دیگر اسکالرز شرکت کریں گے۔

    آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ایک عشرے تک تسلسل کے ساتھ کسی عالمی کانفرنس کا انعقاد نہ صرف آرٹس کونسل کی انتظامیہ بلکہ کراچی کے شہریوں کے لئے بھی اعزاز کی بات ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کراچی، نویں عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر

    21 دسمبر کو ہونے والے افتتاحی اجلاس کے موقع پر گزشتہ 9 کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے ایسے ادیب اور اسکالرز جو اس دوران انتقال کرگئے ہیں، ان کی زندگی پر دستاویزی فلم پیش کی جائے گی۔

    ملک کے علمی و ادبی حلقوں نے اس کانفرنس کو خوش آئند ٹھہرایا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے زبان و ادب کو فروغ ملے گا۔

    پروگرام کی تفصیل

     


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

  • محمدعامرانگلینڈ کےسابق کپتان الیسٹرکک کواردوسکھائیں گے

    محمدعامرانگلینڈ کےسابق کپتان الیسٹرکک کواردوسکھائیں گے

    لندن : پاکستانی اسٹار فاسٹ باؤلر محمد عامر انگلینڈ کےسابق کپتان الیسٹرکک کو اردو سکھائیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق ایسکس کاؤنٹی کی جانب سے ڈیبیو کرنے والےفاسٹ باؤلرمحمد عامر نے آسٹریلوی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب میں الیسٹر کک سے پہلی مرتبہ ملا توانہوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں انہیں اردو سیکھنےمیں مدد دوں۔

    آسٹریلوی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد عامرنےکہاکہ الیسٹر کک اچھے بیٹسمین ہونے کے ساتھ شاندار انسان بھی ہیں۔

    بھارت کے خلاف فائنل میں کارکردگی سےمتعلق سوال کےجواب میں محمد عامر نےکہاکہ فائنل میں اپنے ملک کےلیے پرفارم کرنے کی خوشی الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

    خیال رہےکہ چیمپیئنرٹرافی کے فائنل میں 16 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے بھارتی بیٹنگ لائن کی کمر توڑنے والے پاکستانی فاسٹ باؤلر کانٹی ونر ایسکس کی جانب سے ڈیبیو کرنےجارہے ہیں۔

    واضح رہے کہ انگلش کرکٹ ٹیم کےسابق کپتان الیسٹر کک اور دیگر کرکٹرز نے محمد عامر کی کرکٹ میں واپسی کی مخالفت کی تھی اور میچ فکسرز پر تاحیات پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • یس آئی ایم پاگل: ڈینی موریسن کی گلابی اردو

    یس آئی ایم پاگل: ڈینی موریسن کی گلابی اردو

    دبئی: پاکستان سپر لیگ کا دوسرا سیزن جاری ہے اور میچ میں ہر لمحہ پرجوش و سنسنی خیز لمحوں کے ساتھ میچ کے علاوہ دلچسپ و مزاحیہ مناظر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

    نیوزی لینڈ کے سابق باؤلر ڈینی موریسن جو لیگ میں کمنٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اپنی حس مزاح کے لیے مشہور ہیں اور اکثر و بیشتر مزاحیہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔

    کبھی وہ چیئر لیڈرز کے ساتھ رقص کرتے نظر آتے ہیں، کبھی شائقین کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں اور کبھی مائیک پکڑے گانا گاتے نظر آتے ہیں۔

    اس بار معروف کمنٹیٹر رمیز راجہ نے ان کی حس مزاح کو آزمانے کا سوچا اور ان کے ساتھ اردو سوال و جواب کا سیشن رکھ لیا جس میں رمیز نے اردو میں سوالات کیے جبکہ ڈینی نے انگریزی میں جوابات دیئے۔

    رمیز نے انہیں زیادہ مشکل میں نہ ڈالتے ہوئے سوالات کے ساتھ اشارے بھی کیے جس سے ڈینی کو اردو میں سوال سمجھنا کچھ آسان ہوگیا اور انہوں نے بآسانی تمام سوالات کے جواب دے ڈالے۔

    رمیز نے ان سے پہلا سوال پوچھا، ’آپ کے کیا حال ہیں؟‘ ڈینی نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا، ’میں ٹھیک ہوں‘ جس پر رمیز بھی حیرت سے ہنس پڑے۔ شاید انہیں توقع نہیں تھی کہ ڈینی اتنی آسانی سے اردو سمجھ لیں گے۔

    مزید پڑھیں: رمیز راجہ کی فلم میں سنجے دت کاسٹ

    جب ڈینی سے پوچھا گیا کہ ان کی پسندیدہ ٹیم کون سی ہے تو انہوں نے کراچی کنگز کا نام لے ڈالا۔ انہوں نے کہا، ’کیونکہ اس میں بابر اعظم، سوئنگ کنگ محمد عامر، سہیل خان اور وہ ایک اور کرس گیل موجود ہے‘۔

    جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا پسندیدہ گانا کون سا ہے تو انہوں نے پی ایس ایل کے آفیشل سانگ پر باقاعدہ رقص کر کے بتایا کہ انہیں یہ گانا پسند ہے۔

    آخر میں رمیز راجہ نے ہنستے ہوئے ان سے کہا ، ’آپ خاصے پاگل ہیں‘ تو ڈینی نے برا مانے بغیر کہا، ’یس آئی ایم پاگل‘۔

    یاد رہے کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل 5 مارچ کو لاہور میں کھیلا جائے گا جس کے ٹکٹوں کی فروخت آج سے شروع کردی گئی ہے۔

  • کیا آپ نےکرس گیل کو اردو بولتے دیکھا ہے

    کیا آپ نےکرس گیل کو اردو بولتے دیکھا ہے

    کراچی : کرکٹ کی دنیا میں چوکوں،چھکوں کے بادشاہ کے نام سے پہچانے جانے والے آل راؤنڈرکرس گیل کو کیا آپ نے اردو بولتے دیکھا ہے؟اگر نہیں تو اب دیکھ لیں۔

    تفصیلات کےمطابق ویسٹ انڈیزکےمایہ نازآل راؤنڈر کرس گیل کے انداز ہی نرالے ہیں۔کرکٹ کا کھیل ہو یا ان کی ذاتی زندگی،وہ ہمیشہ کچھ نیا کرکے اپنے مداحوں کو چونکا دیتے ہیں۔

    باؤلرز کے لیے خوف کی علامت سمجھے جانے والے آل راؤنڈرگرس گیل نے اے آر وائی نیوز کے اینکر وسیم بادامی سے اردو زبان میں گفتگوکرکےمداحوں کو حیران کردیا۔

    کرس گیل کی اردو سننے کےلیےویڈیو کے لنک پرکلک کریں


    ویسٹ انڈیزکےاسٹار آل راؤنڈر کرس گیل اگلےماہ دبئی میں ہونے والی پاکستان سپرلیگ میں کراچی کنگز کی نمائندگی کررہے ہیں۔

    واضح رہےکہ اس سے قبل گزشتہ ماہ دسمبر میں کرسمس کے موقع پرسوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی تصویر اپ لوڈ کی تھی جس میں وہ انہوں نےداڑھی اور مونچھیں رکھی ہوئی ہیں۔

    chris

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    ناصر کاظمی کے مداح   آج  ان کی برسی  منا رہے ہیں

    کراچی: ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

    ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان” اور "پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

  • شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی بارات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

  • میرے  ‘پیارے’  ہمسائے کے نام

    میرے ‘پیارے’ ہمسائے کے نام

    یہ بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی، میں گھر سے باہر تھی۔ مجھے میری بہن کا”ایس-ایم-ایس” موصول ہوا۔ اُس انگریزی ایس-ایم-ایس کا اردو رترجمہ کرنے میںمجھے کافی دِقت محسوس ہو رہی ہے لہٰذا ‘اردو’ مفہوم ہی پیشِ خدمت کئے دیتی  ہوں”ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے کے لیےتشریف فرما ہوئی ، فیملی میں دو بھائی ایسے تھے جنکو ‘اردو’ اور پنجابی لغت کے کچھ ایسے الفاظ پر مہارت حاصل تھی جو ہم اکثر اوقات گھروں میں ماؤں بہنوں کے سامنے بولتے حتٰی کہ سُنتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں”خیر میں نے اپنی بہن کے ایس-ایم-ایس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کافی عرصہ گزر گیا، ایک دن میرے کانوں کو کچھ ایسے الفاظ سُننے کو ملے جو معمول میںآج سے پہلے کبھی نا سنے تھے، اور اگر سُنے بھی ہونگے تو اس قسم کے’کمبینیشن’کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔ مجھے اپنی کمر پر عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہونےلگی۔ میں جو کہ ایک بہت ‘بولڈ’ شخصیت کی مالک ہوں فوراً یہاں وہاں دیکھنے لگی کے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور تو نہیں؟ شکر کا سانس لیا، یہ جان کر کہ میں اکیلی ہی بیٹھی اپنی پنجابی ‘لغت’ میں نت نئے فحش الفاظ کا اضافہ کر رہی ہوں۔ شرمندگی سے میرا منہ مجھے گرم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا اوردلکی دھڑکن اس خوف سے بڑھنے لگی کہ کہیں کوئی آ ہی نا جائے ،اس دوران میرے موبل فون پر بھی مسلسل کال آرہی تھی جسے میں اٹینڈ نہیں کر رہی تھی کیوں؟یہ تو آپ بھی باخوبی سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔جو الفاظ میں تنہائی میں بھی ہضم کرنے سے قاصر تھی بھلاکسی اور کے سامنے سُننے کی کیسے متحمل ہو سکتی تھی؟ کافی دیر تک دونوں بھائیوں کے درمیان اُن الفاظ تبادلہ ہوتا رہا جن میں اُنہی کی ماں بہن کے پوشیدہ حساس مقامات کا تفصیلی ذکر سننے میں آرہا تھا۔اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میرے باقی گھر والے اور دیگر ہمسائے بھی یہی سب سن رہے ہیں مگر اردگرد کی خاموشی میری شرمندگی میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں کو کسی صنفِ نازک کی آواز سنائی دی۔ ماصوفہ نے جو الفاظ بولے وہ لکھنے کی بھی "یہ ناچیز "ہرگز جُرت نہیں کر سکتی۔ بس اتنا کہے دیتی ہوں کہ ان دونوں بھائیوں نے اپنی زبان کی روانگی کی بدولت گھر کی عورتوں کی بھی اچھی خاصی تربیت کر ڈالی ہوئی تھی۔ پنجابی میں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ "ساریاں دے چاکے لتھ گئے ہوے سن”۔ چند گھنٹے تک ان جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن میں کافی زیادہ الفاظ تہذیب کی لکیر سے نیچے بلکہ کافی زیادہ نیچے تھے۔ اس بات کوغالباً دو سے تین سال گزر گئے ہونگے۔ میری بھی پنجابی لغت میں اس دوران خاطر خواں اضافہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ دن میں تین سے چار راونڈ اسی قسم کی گفتوشنید پر مشتمل پورے محلے کے کانوں میں سے گزرتے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک محلے یا کسی قصبے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر آتے جاتے ہم بے وجہ گالی گلوچ کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں ، بنا یہ دیکھے کے آس پاس سے کوئی خاتون تو نہیں گزر رہی ، ہم دل کھول کر” آزادیِ رائے” کے حق کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ڈرتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو گھر کی شریف عوتوں کی بھی ایک دن زبان ایسی ہی ہو جائے گی۔ یہ قوم اپنی تہذیب اپنا تمدن کھو دے گی پنجابی میں کہوں تو "ساریاں دے چاکے کھل جان گے”۔ شرم و حیا ناپید ہو جائے گی اور نبیؐ کی محبت کے دعوی ٰدار ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

    سوال میرا مختصر سا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ باحثیتِ قوم ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جو اپنے آپ کو بہت بڑا عاشقِ رسول مانتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ ہمارے نبیؐ نے بےہودہ گفتاری کو کس قدر ناپسند فرمایا تھا؟ الفاظ کے چُناؤ میں ہم ہمیشہ ایسے الفاظ ہی کیوں چُنتے ہیں جن میں ہماری مائیں بہنیں بھی "چُنی”جاتی ہیں؟ کیا مہذب معاشروں کی یہ پہچان ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کس منہ سے ہم اپنے آپ کو مسلمان بلکہ عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں؟قیامت کے روز کیا جواب دیں گے اپنے رب کو کہ آخر ” ہمارے نبیؐ کی زندگی سے ہم نے کیا سیکھا؟ زندگی اصلاح کے مواقعے بار بار نہیں دیتی، کب کہاں کیسے ” بُلاوا” آجائے،یہ نہ تو میں جانتی ہوں نہ ہی آپ، پھر کیوں نا آج سے ہی اپنے اصلاح کا آغاز کریں؟منہ سے عاشقِ رسولؐ ہونے کے دعوی چھوڑیں، عملاً ثابت کریں کہ "ہاں ہم عاشقِ رسولؐ ہیں دعا ہے کہ اللہ مجھے، آپ کو اور ہم سب کو سچ میں ایک ” سچا عاشقِ” رسولؐ بنائے۔
    آمین

  • کیوں؟

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب "ریمنڈ ایلن ڈیوس” نامی شخص جو کے ایک سابق امریکی سپاہی بھی رہ چکاتھا اور سینٹرل انٹیلی جنٹ سروس (سی-آئی-اے)کے لیے بطورِ کنٹریکٹر اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا نے 27 جنوری 2011 میں دو پاکستانیوں کا دن دہاڑے گولیاں مار کے قتل کیا۔ ایک اور تیز رفتارگاڑی جو ڈیوس کو” بیک اپ” دے رہی تھی نے سڑک کی الٹی سمت میں جاتے ہوئے ایک تاجر کو بھی ٹھوک ڈالا جو غالباً موقعے پر ہی سر پر شدید چوٹ لگنے سے دم توڑ گیا تھا ۔ یہ تینوں افراد اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔

    شروع شروع میں بہت شورشرابا برپا ہوا ، لواحقین کو کبھی دھمکیاں تو کبھی منہ بند کرنے کے لیے رشوتوں کی پیشکش کی جانے لگیں مگر وہ "خون کے بدلے خون” پر ڈتے رہے۔ پوری قوم شدید غم وغصے میں تھی۔ ہر کوئی لواحقین کے ساتھ کھڑا تھا۔ مگر اچانک گیم نے کلٹی بدلی،آنکھ جھپکتے ہی 16 مارچ 2011 کو ” دية”کے اسلامی قانون کے مطابق ورثا کو رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے،ریمنڈ صاحب کو رہائی ملتی ہے اور دوسرے ہی لمحے حضرت مآب کو "بھاگم دوڑ” کر کے ائیر پورٹ لے جایا جاتا ہے جہاں ایک پرائیویٹ جہاز ان کا پہلے سےمنتظر تھا۔ محترم اس پرپوری شان و شوکت سے کسی ہالی وڈ کے فلمی ہیرو کی طرح سوار ہوتے ہیں، اور پوری پاکستانی قوم کو اّلو بلکہ ” الو کا پٹھا ” بنا کے نکل جاتے ہیں۔

    مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں کیسے بے بسی اور لاچاری کے ساتھ وہ تمام رپورٹنگ ٹی-وی پر دیکھ اور سن رہی تھی۔ میرے غصے میں غم کی شدت کم اور بےبسی کی شدت کہیں زیادہ تھی۔مقتولین میں سے ایک کی بیوی جس کا نام شمائلہ کنول تھا اس نے 6 فروری کو خودکشی بھی کر لی تھی۔ وجہ؟ "اس کا ماننا تھا کہ اسے انصاف نہیں مل رہا اور نا ہی ملنے کی امید نظر آرہی ہے، شمائلہ کا کہنا تھا کہ وہ جانتی ہے کے ریمنڈ کو بنا کسی "ٹرئیل” ہی رہائی مل جائے گی” ، اور اُس کی یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی۔ خیر ، کوئی لاکھ کہانیاں بنائے بلآخرہوا وہی جس کا شمائلہ کو ڈر تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے، حقیقت یہی ہے ہے کہ لواحقین کا زبرداستی منہ بند کروادیا گیا تھا۔کیوں؟ یہ آپ جانتے ہی ہیں، کیسے؟ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر” میں” چاہتی کیا ہوں؟ اتنے سالوں بعد یہ گڑھے مردے کیوں اُکھاڑ رہی ہوں؟ یقیناً اسکے پیچھے میرا کوئی مقصد ہو گا۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ یہ بی بی کسی "غیر ملکی ایجنڈے” پر کام کر رہی ہے، کچھ کہیں گے یہ اس عورت کے "سستی شہرت” کمانے کے گھٹیا ہتھکنڈے ہیں۔۔۔ پر ان سوالوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اس بات سے ضرور پڑتا ہے کہ آخر شمائلہ کی اس بہن کا کیا ہوا ، جو غالباً اس کی دیورانی بھی لگتی تھی۔
    مجھے یاد ہے اس کا وہ انٹرویو بھی، جو اس نے طلعت حسین کو دیا تھا۔ وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ اُس نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ وہ اپنے سسرال سے بھی رابطے میں نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کے سسرالی اس سے رابطہ رکھنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ وہ پریشان حال یہی سوچ رہی تھی کے آخر وہ اپنے بچے کو کیا بہانا بنا کے ٹالے گی کے اس کے باپ نے کیوں اس سے لاتعلقی اختیار کی ، آخر وہ اس سے رابطہ کرنے سے کیوں کترا رہا تھا؟ وہ کہاں گیا اور اب وہ لڑکی کہاں جائے گی؟ اور آج کا میرا سوال ، وہ لڑکی "اب”کہاں ہے؟ کیا وہ خیریت سے ہے؟ کسی نے دوبارہ اس کا حال دریافت کرنے کی کوشش کی؟
    یہ صرف ایک واقعہ ہے، ایسے کئی واقعات آئے دن اخباروں اور نیوز چینلز کی زینت بنتے ہیں ، پھر کوئی نئی نیوز اس کی جگہ لے لیتی ہے اور بس ایک کے بعد ایک معاملہ اللہ کے سپرد کر کے ہم چلتے چلے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری حکومتیں، عدلیہ اور سول سوسائٹی نے اس سب کے لیے کیا کیا؟ کیا معاشرے میں ایسی عورتوں کے لیے کسی قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کبھی کرائی گئی ؟ اگر نہیں تو کیوں؟