Tag: اردو

  • معروف اردو شاعر بےخودبدایونی کو ہم سے بچھڑے ۹۸برس بیت گئے

    معروف اردو شاعر بےخودبدایونی کو ہم سے بچھڑے ۹۸برس بیت گئے

    10 نومبر معروف اردو شاعر جناب بے خود بدایونی کا یومِ وفات ہے۔

    بیٹھتا ہے ہمیشہ رِندوں میں
    کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے

    بے خود بدایونی کا اصل نام محمد عبد الحئی صدیقی تھا۔ آپ 17 ستمبر 1857ء کو بدایوں کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق بے خود نے پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل کی حیثیت سے مراد آباد اور شاہجہان پور میں کام کیا۔ پھر وکالت سے اکتا کر سرکاری نوکری سے وابستہ ہوئے اور سروہی (راجستھان) اور جودھپور میں خدمات انجام دیتے رہے۔

    بے خود بدایونی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء کے ممتاز شعراء میں شامل ہیں۔ انہوں نے شاعری میں پہلے الطاف حسین حالی، پھر داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ جودھپور میں بسر کرنے کے باعث وہ اردو ادب کے مراکز دہلی اور لکھنؤ سے دور رہے، اور غالباً اسی وجہ سے انکی شاعری بہت عام نہ ہو سکی۔ طویل عرصے تک طبع نہ ہونے کی باعث انکے بہت سے اشعار کو مختلف شعراء نے اپنی تخلیق کے طور پر پیش کیا، اور ان کے بہت سے کلام کو بے خود دہلوی اور کچھ اور شعراء کے کلام سے بھی منسوب کیا گیا۔

    بے خود بدایونی غزلیات، حمد و نعت اور رباعیات کے شاعر تھے۔ محبت، فلسفہ، تصوف اور اسلام انکی شاعری کا موضوع تھا۔ اُن کی چار کتب "ہوش و خرد کی دکان”، "صبر و شکیب کی لُوٹ”، "مرآۃ الخیال” اور "افسانۂ بے خود” کے نام سے شائع ہوئیں۔

    10 نومبر 1912ء کو بے خود کا بدایوں میں انتقال ہوا اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    پردے سے پُچھتے ہو ترا دل کہاں ہے اب
    پہلو میں میرے آؤ تو کہدوں یہاں ہے اب

  • ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    اردو کے منفرد و ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے اننچاس برس بیت گئے۔

    اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی ،نئی طرز کی افسانہ نگاری میں پہلی اینٹ رکھنے والے سعادت حسن منٹو , منٹو کے افسانے،ڈرامے مضامین اور خاکے اردو ادب میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ منٹو پر فحش نگا ری کا الزام لگا نے والو ں کو جواب خود منٹو نے دیا۔

    اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ منٹو نے صرف جنسی نفسیات پر مبنی افسانے نہیں لکھے ، بلکہ غربت ، افلاس، استحصال، مزدور کی حا لت زار ، غریبی اور امیری کے درمیان کی خلیج ، سیاسی بازیگری ، ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک جیسے اہم موضوعات پر بھی اچھو تے انداز سے قلم اٹھا یا ، منٹو نے لکھا کہ سعادت حسن فانی ہے لیکن منٹو رہتی دنیا تک زندہ رہے گا اور بلاشبہ ان کی تحریریں آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
        
       

  • مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے’
    ‘کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِبیاں اور

    جب سخن کا صفحہ کھلتا ہے تومرزا غالب کےوجود اور تذکرے کے بغیراُردو شاعری پھیکی پھیکی سی لگتی ہے، آج اُسی سخنور غالب کی دو سو سولہویں سالگرہ ہے۔ مرزا غالب برِصغیر کی شعروادب کی دنیا میں ایک نامور مقام رکھتے تھے۔ وہ کسی ایک عہد کے نہیں بلکہ ہر عہد اور ہر زمانے کے شاعر ہیں۔اُنکی طرزِادا میں جدت اوربانکپن ہے۔ اُردو زبان جس شاعر پہ بجا طور سے ناز کرسکتی ہے اور جسکو دنیا کے بہترین شعراء کی صف میں کھڑا کر سکتی وہ مرزا اسد اللہ خان غالب ہیں۔جنھوں نے شاعری کو تازہ زندگی بخشی، اُنکا تخلص ’اسد‘ تھا۔

    مرزا غالب ۲۷ دسبمر ۱۷۹۷ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۵ برس کے تھے کہ انُکے والد عبداللہ خان ریاست الور میں مارے گئےغالب نے آگرہ میں تعلیم پائی،نواب الٰحی بخش خان معروف کی صاحبزادی امراؤ بیگم سے شادی ہوئی۔ غالب آگرہ چھوڑ کر دہلی آگئے،پھروہیں قیام پذیر رہے۔

     

     

     

     

     

     

     

     

     


    یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ یار ہوتا’
    ‘اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    مرزا فارسی کے اعلٰی پایہ ادیب اور شاعر تھے۔ اُردو میں اُنکی غزلوں کا دیوان اگرچہ مختصرہے لیکن اُردو کے نقاد اس کو سرآنکھوں پررکھتے ہیں۔ انھوں نے گیارہ برس کی عمر میں غزل کہنا شروع کی، زیادہ ترتوجہ فارسی کی طرف رہی۔ مرزا کو ہمیشہ فارسی پہ فخررہا مگر آپکی پہچان اُردو زبان کی شاعری بنی۔
    غالب انسانی فطرت کے نباض تھے اور نفسیاتی حقائق کا گہرا ادراک رکھتےتھے۔ انھیں مسائل تصوف خصوصاً فلسفہ وحدت الوجود سے گہری دلچسپی تھی۔ مرزا نے مالی پریشانیاں بھی دیکھیں۔ قیامِ دہلی کے دوران اُنہیں خاندانی پنشن کا مقدمہ درپیش رہا جو بالآخر مرزا ہارگئے۔ تاہم خوداری کا یہ عالم تھا کہ دہلی کالج میں حصول ملازمت کیلئےگئے اور باہر یہ سوچ کر انتظار کرتے رہے کہ کالج کے سرپرست جیمز ٹامسن استقبال کے لئے آئے گے مگر وہ نہ آئے اور مرزا لوٹ آئے۔

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’
    ‘بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے

    جنگِ آزادی کے ہنگاموں کے بعد والی رامپور کے وظیفے پر اکتفاکرنا پڑا۔ آخری عمر میں صحت بہت خراب ہوگئی تھی۔ آخرکار دماغ پرفالج کا حملہ ہوا اور مرزا ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء کو خالقِ حقیقی سےجاملے،اور ایک عظیم شاعر ہم سے بچھڑگیا۔ 

    ہوئی مدت کے غالب مرگیا پر یاد آتا ہے’
    ‘وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

     

    (راؤ محسن علی خان)

     

  • پروین شاکر کوآج ہم سے بچھڑے ۱۹ برس بیت گئے

    پروین شاکر کوآج ہم سے بچھڑے ۱۹ برس بیت گئے

    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجرکا فیصلہ بھی تھا’
    ‘ہم نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کردیا

    اُردو غزل و نظم کی مشہور شاعرہ پروین شاکر کوآج ہم سے بچھڑے ۱۹ برس بیت گئے۔پروین شاکر۲۴ نومبر ۱۹۵۲ کو کراچی میں پیدا ہوئی، آپکو اُردو کے منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے نہایت قلیل عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت ہی کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔انگلش لٹریچراور زبان دانی میں پروین شاکر نے گریجویشن کیا اور بعد میں انھی مضامین میں کراچی یونیورسٹی سےایم۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔ پروین شاکراستاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ پھر بعد میں پروین شاکر نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

     

     

     

     

     

     

     

    پروین شاکرکی شادی ڈاکٹرنصیرعلی سے ہوئی جن سےبعد میں طلاق ہوگئی۔ پروین شاکر کا انتقال ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ میں ایک ٹریفک حادثے میں اسلام آباد میں ہواجب اُنکی عمر ۴۲برس تھی۔ پروین شاکرکی پہلی کتاب شائع ہونے سے پہلے ہی ادبی جرائد میں چھپنے والی انُکی نظموں اور غزلوں کو بےپناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور جب پروین شاکرکا پہلا مجموعہ شائع ہوا تونہ صرف اُسے سب سے زیادہ فروخت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا بلکے پروین شاکر کے فکروفن کی خوشبو ملکی حدود سے نکل کرچھاردانگ عالم میں پھیل گئی۔ پروین شاکر کی شاعری نوجوان نسل کا قرض بن گئی۔ کچی عمرکے رومانی جذبات کو گہرے فنکارانہ شعور اور کلاسقی رچاؤ کے ساتھ پیش کرنا پروین شاکر کے اسلوب کی پہچان قرارپایا۔

     

     

     

     

     

     

     

     

     

    خوشبوکے بعد آنے والی کتابوں ان کے موضوعات ہماگیر اور فکرگہری پختگی کی حامل نظرآتی ہے۔ پروین شاکر کے انتقال سے پہلے انُکی کلیات ماہِ تمام کے نام سےشائع ہوئی۔ پروین شاکر کی ذاتی زندگی کا دکھ جو انکی زواجی زندگی کی ناکامی پر اثرانداز ہوا، پروین شاکر کی شاعری اور شخصیت میں ہذن اور اُداسی کی کیفیت بن کرسامنے آیا۔

    میری طلب تھا ایک شخص اب جو نھیں ملا تو پھر’
    ‘ہاتھ دعاؤں سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

    پروین شاکر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہےکہ انُکی کتاب خوشبومنگتاگروں اور محبوب چہروں کو تحفے کی صورت میں دی جاتی رہی۔ انکو صدرِپاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس کے علاوہ آدمجی ادبی ایوارڈ بھی ملا۔
    پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ پروین شاکر کی شاعری میں جو اظہارِمحبت کرتی ہوئی بے جہجک عورت نظرآتی ہے، اُسے پُربی اور ہندی کی روایتی عورت پر گراہ قراردیا جاسکتاہے۔ جو اپنے گیتوں میں مرد محبوب کو مخاطب کرکےاپنے تن من کے روگ بیاں کرتی ہے۔

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑدیا ہے اُس نے’
    ‘بات تو سچ ہے مگربات ہے رسوائی کی

     

     

     

     

     

     


    کچھ لوگ اس رویے کو مغرب کے جدید رویوں کا پرتو قرار دیتے ہیں مگر پروین شاکر کی شاعری کی اصل قوت کہیں اور ہے اور اس نے اپنی نظموں میں بار بارخود کو یونان کی سیفو اور ہندوستان کی میرا کا ہم قافلہ کہا ہے۔

    پروین شاکر گوکہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر اُنکی غزلیں اور نظمیں  ہمارے دلوں میں انکو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔

    (راؤ محسن علی خان)