Tag: ارسطو

  • دنیا کبھی ‘ایتھنز’ کے سحر سے باہر نہیں‌ نکل سکے گی!

    دنیا کبھی ‘ایتھنز’ کے سحر سے باہر نہیں‌ نکل سکے گی!

    یونان سے دنیا کا عشق کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ جب تک روئے زمین پر زندگی جنم لیتی رہے گی، اس وقت تک۔

    بے شک ہر دور میں بنی نوعِ انسان یونان کی ہزار ہا برس قدیم تاریخ میں دل چسپی لیتا رہے گا۔ یونانی تہذیب، تمدن اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے نظام ہائے سیاست و سماج، عام زندگی اور یونانیوں کے حالات، فکر و نظریات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے وہ انقلابات جن سے یورپ ہی نہیں‌ پوری دنیا متأثر ہوئی، آئندہ بھی انسانوں کے لیے قابلِ رشک اور موضوعِ بحث رہیں‌ گے۔

    براعظم یورپ کی اس تہذیب اور معاشرت سے فکر و دانش کے جو سوتے پھوٹے اس نے جدید دنیا کو جمہوریت کا تحفہ بھی دیا اور فکر و فن کی وہ بلندیاں بھی جس نے کئی شاہ کار تخلیق کیے۔ اس خطّہ میں‌ آباد قوم نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اپنے سب سے عظیم شہر ایتھنز میں افلاطون، ارسطو، سقراط، سکندر اور دیگر نابغۂ روزگار ہستیوں کو دیکھا اور ان کے نظریات کا گہرا اثر قبول کیا۔

    موجودہ یونان کا دارالحکومت ایتھنز، ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور اسی کو جمہوریت کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔ آج لاکھوں نفوس پر مشتمل ایتھنز اقتصادی، تجارتی، صنعتی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ قدیم دور میں‌ اسی شہر کو آتھینا اور ایک طاقت وَر، مستحکم اور پائیدار ریاست کا مرکز کہا جاتا تھا۔ یہاں شہرۂ آفاق شخصیات نے درس گاہوں سے تعلیم مکمل کی اور علم و فنون، ایجاد و اختراع کے لیے آج بھی ان کا نام زندہ ہے۔

    چوتھی اور پانچویں صدی قبلِ مسیح میں یورپ کی ریاستوں پر یونان کے گہرے ثقافتی اور سیاسی اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور اسے سیکڑوں سال تک تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا۔ یہ شہر پارتھینون، ایکرو پولس (بلند شہر)، کیلی کریٹس اور فیڈیاس جیسے مشہورِ زمانہ تعمیراتی شاہ کاروں کے علاوہ فنِ تعمیر کے کئی قدیم نمونوں اور نادر آثار کا حامل ہے۔

    قدیم یونان دراصل ایک تہذیب کا نام ہے، جس کا عرصۂ حیات اور عروج کے ادوار کو ماہرین نے صدیوں‌ کے لحاظ سے تقسیم کیا ہے جس میں کلاسیکی زمانہ اوپر بتایا جاچکا ہے۔ اس کے بعد جدید مغربی ثقافت کا دور شروع ہوا تھا۔

    ماہرین کے مطابق کلاسیکی دور میں یونانی ثقافت نے تہذیبی ارتقاء کے ساتھ تعلیم کو بہت اہمیت دی۔ اسی دور کی تہذیب و ثقافت نے اگلی چند صدیوں میں سائنس، ریاضی، فلسفہ و منطق اور دیگر علوم میں ترقی کی کئی منازل طے کیں۔ فنونِ لطیفہ کی بات کی جائے تو یونان میں اس زمانے میں غیر معمولی ترقی پر دنیا حیران ہے۔ ملک میں اعلیٰ قسم کا سنگِ مرمر بکثرت پایا جاتا تھا جس کے سبب یہاں فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی نے غیر معمولی ترقی کی۔

    دوسری طرف یونان ہی وہ ریاست تھی جہاں جمہوریت کا تصوّر سب سے پہلے دیا گیا اور اسی خطّے سے یہ طرزِ حکومت دنیا میں‌ پھیلا۔ ایتھنز شہر کو یونانی دیو مالا کے کردار کی نسبت ایتھنے یا آتھینا کا نام دیا گیا تھا۔ یونان جنوب مشرقی یورپ میں جزیرہ نما بلقان کے نشیب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں البانیہ، مقدونیہ، بلغاریہ اور مشرق میں ترکی، جب کہ مغرب میں بحیرۂ ایونی اور جنوب میں بحیرۂ ایجین واقع ہیں۔

    قدیم ایتھنز کو ایک طاقت ور ریاست مانا جاتا ہے جس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ماہر تاریخ نویس ہیروڈوٹس اور ساتویں صدی قبلِ مسیح کا عظیم شاعر ہومر بھی سانس لیتا رہا۔ اسی خطّے کے باشندے کئی لحاظ سے پستی اور اخلاقی گراوٹ کا بھی شکار تھے، جس کی نشان دہی کرنے والا عظیم دانش ور سقراط تھا اور وہاں کی اشرافیہ نے اس پر نوجوانوں کو گم راہ کرنے اور مقدّس دیوتاؤں کی توہین کے الزامات لگا کر موت کو گلے لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔

    محققین نے بتایا ہے کہ مشہورِ زمانہ فلسفی افلاطون اسی سقراط کا شاگرد تھا۔ اسی نے ایتھنز میں اوّلین تعلیمی درس گاہ قائم کی تھی جس سے بعد میں‌ ارسطو جیسے دانش ور نے بھی تحصیلِ علم کیا۔ ارسطو کو ایتھنز کا سب سے ذہین انسان اور ایک تخلیق کار مانا جاتا ہے۔

    ہم کہہ چکے ہیں کہ دنیا اپنے انجام تک یونان کی تاریخ میں دل چسپی لیتی رہے گی اور وہ اس لیے بھی کہ یہیں تاریخِ عالم کے عظیم فاتح سکندرِ اعظم نے بھی تقریباً تین سال تک ارسطو سے تعلیم حاصل کی تھی۔ جب ارسطو کو ایتھنز میں سزائے موت سنائی گئی، تب سکندر وہاں سے چلا گیا تھا۔

    محققین اور ماہرینِ‌ آثار قطعی طور پر یہ نہیں بتاسکے کہ اس عجوبۂ عالم شہر اور نادرِ روزگار ہستیوں کے جائے پیدائش یعنی ایتھنز کی بنیاد کب رکھی گئی، لیکن ایک اندازہ یہ ہے کہ پہلے ہزاریہ قبلِ مسیح میں ایتھنز یونانی تہذیب کا ابھرتا ہوا شہر تھا۔ بعد میں یہ دنیا کا ثقافتی و تعلیمی مرکز بنا۔

    قدیم دور میں‌ بھی اس شہر نے جنگیں اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت ضروری دیکھی تھی لیکن عیسوی زمانے میں اسے 13 ویں اور 15 ویں صدی میں زبردست نقصان پہنچا تھا، جب یونانی بازنطینیوں اور فرانسیسی و اطالوی صلیبیوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ 1458ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے شہر کو فتح کر لیا تھا۔ 1821ء سے 1831ء کے دوران یونان نے جنگِ آزادی میں عثمانیوں کو کم زور کیا اور 1834ء میں ایتھنز کو آزاد یونان کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔

    اگلی چند دہائیوں میں جدید بنیادوں پر اس شہر کو تعمیر اور قدیم ورثہ کی حفاظت اور مرمت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ 1896ء میں اس شہر نے پہلے گرمائی اولمپک گیمز کی میزبانی کی۔ شہر میں دوسری بڑی توسیع 1920ء کی دہائی میں اُس وقت ہوئی، جب ایشیائے کوچک کے یونانی مہاجرین کے لیے یہاں آبادیاں قائم کی گئیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی نے ایتھنز پر قبضہ کر لیا تھا۔

    آج کا ایتھنز جدید تعمیراتی ڈھانچے کے ساتھ عالمی معیار کے مطابق بنائی گئی عمارتوں‌ کا شہر ہے جس میں‌ یادگار و قدیم عمارتیں بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

  • سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سرزمینِ یونان کو گہوارۂ علم و حکمت کہا جاتا ہے۔ قدیم تہذیبوں، ثقافتی تنوع اور رنگارنگی کے لیے مشہور یونان میں نہ صرف علم و ادب پروان چڑھا بلکہ اس سرزمین نے حُسن و عشق کی لازوال داستانوں کو بھی جنم دیا جنھیں آج بھی دہرایا جاتا ہے۔

    دنیا تسلیم کرتی ہے کہ یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخِ عالم پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسی سَرزمین کا ایک تابندہ ستارہ سیفو یا ساپفو (Sappho) ہے جسے یونان کی ممتاز شاعرہ مانا جاتا ہے۔ اس شاعرہ کی زندگی اور موت بھی افسانوں اور قصّے کہانیوں سے آراستہ ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سیفو 630 قبلِ مسیح میں شمالی یونان کے خوب صورت جزیرے لیسبوس کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یونان کے اس شہر میں‌ آزادئ نسواں کا چرچا تھا۔ سیفو مقامی عورتوں کو شاعری اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔ سیفو ایک شاعرہ کی حیثیت سے تو شناخت بنا ہی چکی تھی، لیکن لیسبوس میں‌ بدنام بھی بہت تھی۔ اسے ہم جنس پرست بھی کہا جاتا تھا، جب کہ اس کے کئی اسکینڈل بھی مشہور تھے۔ بعض روایات میں سیفو کو طوائف بھی کہا گیا ہے۔

    اردو ادب کے نام وروں میں میرا جی اور سلیم الرّحمٰن نے سیفو پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے سیفو سے منسوب اکثر باتوں کو فرضی اور مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔ بعض‌ ناقدین اور تذکرہ نویسوں کا خیال ہے کہ سیفو کی شاعری اور شہرت نے اس کے حاسدین جن میں‌ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، کو اس کے بارے میں‌ غلط باتیں‌ پھیلانے پر اکسایا اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔

    یونان کی اس ممتاز مگر بدنام شاعرہ کی شادی ایک امیر کبیر تاجر سے ہوئی جو چند سال بعد ہی دنیا سے چل بسا تھا۔

    اس شاعرہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ مٹیلین کے ایک نوجوان ملّاح فاڈن پر عاشق تھی۔ فاڈن حسن و زیبائی میں بے مثل تھا۔ کچھ عرصہ فاڈن نے سیفو سے عشق لڑایا، لیکن پھر کنارہ کش ہو گیا۔ سیفو اس کی بے وفائی پر زندگی سے دلبرداشتہ ہوگئی اور زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

    مشہور ہے کہ سیفو نے خود کُشی کے لیے دریائے ایپی کا انتخاب کیا۔ وہ ایک چٹان پر چڑھی اور دوڑتے ہوئے چھلانگ لگا دی جہاں دریا کی لہروں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ خود کُشی کا یہ واقعہ 570 قبلِ‌ مسیح کا ہے۔ تاہم بعض مؤرّخین اس خودکشی کو افسانہ قرار دیتے ہیں۔

    سیفو کی شاعری میں وارداتِ قلبی اور معاملہ بندی جیسے مضامین ملتے ہیں‌ جن میں سوز و گداز اور وارفتگی ہے۔ جدید نظم کے مشہور شاعر میرا جی نے سیفو کے متعلق لکھا ہے:

    ’’سیفو نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزّل کے لحاظ سے وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی شاعرہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں دو باتوں نے ایک خاص دل چسپی پیدا کی ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا کلام کم یاب بلکہ نادر ہے۔ اب تک صرف ساٹھ کے قریب ٹکڑے اس کی شاعری کے مل سکے ہیں، اور اُن میں بھی صرف ایک نظم مکمل ہے اور دو تین بڑے ٹکڑے ہیں، باقی سب دو دو، تین تین سطروں کے جواہر پارے ہیں بلکہ بعض ٹکڑے تو صرف چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ ادھورے ٹکڑے بھی چمکتے ہوئے ہیرے ہیں اور بھڑکتے ہوئے شعلے۔ دوسری بات اس کی رنگین سوانح حیات ہے۔‘‘

  • ایک تقسیم ملک میں اورایک تحریک ِانصاف میں ہورہی ہے،عمران خان

    ایک تقسیم ملک میں اورایک تحریک ِانصاف میں ہورہی ہے،عمران خان

    اسلام آباد: پاکستان تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پورا ملک دو حصوں میں تقسیم ہے اور ایک تقسیم تحریک ِ انصاف میں بھی ہورہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایک طرف غریب عوام ہے تو دوسری جانب چھوٹا سا طالم طبقہ یعنی ’’اسٹیٹس کو‘‘ ہے اور آج یہ فرق واضح نظر آرہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اکیس سال گراؤنڈ میں مقابلہ کرنا سیکھا ہے، مضبوط ٹیموں سے مقابلہ کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم نے کونسا غیر جمہوری عمل کیا ہے، ہماری تحریک جمہوری حقوق کے حصول کی جدوجہد ہے۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ ایک تقسیم ملک میں اور ایک تقسیم تحریک ِ انصاف میں ہورہی ہے، ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ کون قوم کی خدمت کرنے آیا ہے اور کون سونامی کی لہروں سے فائدہ اٹھانے آیا ہے۔

    ہم نواز شریف کے خلاف نہیں بلکہ اس مخصوص ذہنیت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جو عوام کے حقوق صلب کرتی ہے۔

    انہوں نے ارسطو کی حکایت کا بھی تذکرہ کیا کہ’’کوئی انسان ظلم اور زیادتی کو برداشت نہیں کرے گا سوائے اس کے جو بزدل اور خود غرض ہوگا‘‘۔

    خیبر پختونخواہ میں اگر کوئی وزیر کسی پولیس والے کو غلط احکام دیتا ہے تو وہ ان احکامات کو قبول کرنے سے انکارکردیتا ہے اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہے تو کے پی کے آئی جی ناصر درانی سے تصدیق کرسکتا ہے۔

    عمران خان نے کہا کہ زندگی میں اتنا مزہ نہیں آیا جتنا آج کل آرہا ہے اللہ نے میری ساری زندگی اس مقابلے کے لیے ٹریننگ کرائی تھی یہ ساری تحریک حقوق کی تحریک ہے یہ انسانی حقوق کی تحریک ہے یہ جمہوری حقوق کی تحریک ہے، پارلیمنٹ میں جتنا زہر اگل رہا تھا وہ اتنا ہی دو نمبر ہے، اتنا ہی خوف تھا اس کو پارلیمنٹ میں بڑی بڑی تقریریں ہوئیں، جو زیادہ زور لگا رہا تھا۔ اسے خوف تھا اگرمیں کامیاب ہوگیا تو وہ ایوانوں اور محلوں سے نکل کرجیل جائیں گے اسی لیے سب شور مچا رہے ہیں ۔

    انھوں نے کہا کہ نواز شریف نے گیلانی کو کہا کہ کرپشن کی انکوائری تک استعفی دو وہ یوسف رضا گیلانی کے لیے ٹھیک تھا، نواز شریف کیلئے ٹھیک نہیں۔