Tag: ارشد شریف

  • ارشد شریف کے قتل کا واقعہ کیسے پیش آیا؟  خرم احمد اور وقار احمد نے بتایا دیا

    ارشد شریف کے قتل کا واقعہ کیسے پیش آیا؟ خرم احمد اور وقار احمد نے بتایا دیا

    کراچی : پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے واقعے کے روز ارشد شریف کے ساتھ موجود خرم احمد اور وقار احمد سے تفصیلی تفتیش کی اور ساتھ ہی متاثرہ گاڑی، فارم، جائے وقوعہ اور ڈنر کے مقام کا دورہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی تفتیش کاروں کی جانب سے کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔

    پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے کینیا کے حکام سے ملاقات کی ، ملاقات کینیاحکام نے تفصیلات فراہم کیں۔

    ٹیم کے ارکان کا فائرنگ سے متاثرہ گاڑی، اول ٹیپیسی فارم، جائے وقوعہ اور ڈنر کے مقام کا دورہ کیا۔حکام کی

    تحقیقاتی ٹیم نے واقعے کے روز ارشد شریف کے ساتھ موجود خرم احمد سے تفصیلی تفتیش کی۔

    ٹیم نے خرم احمد سے سوال کیا کہ فائرنگ کے بعد کیا ہوا تھا، جس پر خرم احمد نے بتایا کہ اچانک فائرنگ سے گھبرا گیا، واقعے کے فوری بعد بھائی وقار کو کال کی، مجھے لگا فائرنگ کے بعد بھی میرا پیچھا کیا جا رہا ہے تو گاڑی بھگانا شروع کردی۔

    خرم احمد نے پاکستانی تفتیشی ٹیم کو بتاہا کہ وقار نے اول ٹیپیسی فارم پہنچنے کا کہا، جائے وقوعہ سے اول ٹیپیسی فارم 22 کلومیٹر دور ہے۔

    جس کے بعد وقاراحمد نے بیان میں بتایا کہ خرم کی کال آئی تو اس نے گاڑی پر فائرنگ کابتایا، کال آتے ہی میں بھی اول ٹیپیسی فارم کے لیے نکل گیا۔

    وقاراحمد کا کہنا تھا کہ راستے سے کینیاپولیس کے حکام اور پاکستانی دوست کوتفصیل بتائی ، اول ٹیپیسی فارم پہنچا تو ارشد شریف کی لاش گاڑی میں موجود تھی، اس وقت تک گاڑی پرفائرنگ پولیس کی جانب سے کیےجانےکا شبہ نہیں تھا ، میرے پہنچنے کے بعد کینیا کے پولیس افسران بھی پہنچے اور شواہد جمع کیے۔

    تفتیش کی روشنی میں جائے وقوعہ پر پورے واقعے کی ریہرسل بھی کی گئی ، ،ذرائع تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ ڈنر جس لاج میں کیا گیا وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں تھا۔

    ٹیم کوبریفنگ میں بتایا گیا کہ لاج کے علاقے میں بجلی بھی جنریٹر اور متبادل ذرائع سے فراہم کی جاتی ہے۔

  • سلمان اقبال نے نہیں بلکہ کسی اور دوست نے ارشد شریف کی میزبانی کا کہا تھا: وقار احمد

    سلمان اقبال نے نہیں بلکہ کسی اور دوست نے ارشد شریف کی میزبانی کا کہا تھا: وقار احمد

    کراچی: کینیا میں ارشد شریف کی شہادت کے سلسلے میں پاکستانی تحقیقاتی افسران نے کینیا میں تفتیش شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کرنے والے بھائیوں خرم اور وقار احمد نے فائرنگ کے واقعے کو ’’شناخت کی غلطی‘‘ قرار دے دیا، وقار احمد نے یہ بھی کہا کہ انھیں سلمان اقبال نے نہیں بلکہ کسی اور دوست نے ارشد شریف کی میزبانی کا کہا تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کینیا میں وقار احمد اور خرم احمد سے تحقیقاتی ٹیم نے تفتیش کی، ٹیم نے دونوں بھائیوں سے واقعے سے متعلق پوچھ گچھ کی، وقار احمد نے بتایا کہ ارشد شریف میرے گیسٹ ہاؤس پر 2 ماہ سے قیام پذیر تھے۔

    انھوں نے کہا نیروبی سے قبل ارشد شریف سے صرف ایک بار کھانے پر ملاقات ہوئی تھی، انھیں نیروبی سے باہر اپنے لاج پر کھانے پر مدعو کیا، اور واقعے کے روز ارشد شریف نے لاج پر ہمارے ساتھ کھانا کھایا۔

    ’واضح کہتا ہوں میرے بھائی ارشد کیخلاف بہیمانہ فعل میں میرا کوئی دخل نہیں‘

    وقار احمد نے اپنے بیان میں کہا کھانے کے بعد ارشد شریف میرے بھائی خرم کے ساتھ گاڑی میں نکلے، اور آدھے گھنٹے بعد گاڑی پر فائرنگ کی اطلاع آئی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ خرم واقعے کے دوران معجزانہ طور پر محفوظ رہے، ارشد شریف کے زیر استعمال آئی پیڈ اور موبائل کینیا کے حکام کے حوالے کر دیا۔

    وقار احمد نے کہا ارشد شریف نیروبی منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے، ویزے کی مدت بھی بڑھوائی تھی۔

    سلمان اقبال کو ارشد شریف کا قاتل ثابت کرنے کا بیانیہ عقل سے پیدل ہے، احمد جواد

    خرم احمد نے ٹیم کو بتایا کہ لاج سے نکلنے کے بعد 18 کلو میٹر کا کچا راستہ ہے پھر سڑک شروع ہو جاتی ہے، سڑک شروع ہونے سے تھوڑا پہلے کچھ پتھر رکھے تھے، ان پتھروں کو کراس کرتے ہی فائرنگ ہو گئی۔

    خرم نے بیان میں کہا فائرنگ سے خوف زدہ ہو کر میں نے گاڑی بھگالی، واقعہ ’’شناخت کی غلطی‘‘ کا ہی ہے۔

    واضح رہے کہ ایف آئی اے اور انٹیلیجنس بیورو کے افسران پر مشتمل ٹیم تحقیقات کے لیے کینیا میں موجود ہے۔

  • ‘ارشد شریف کیس میں فیصل واوڈا کو شامل تفتیش کیا جانا چاہیے’

    ‘ارشد شریف کیس میں فیصل واوڈا کو شامل تفتیش کیا جانا چاہیے’

    اسلام آباد : وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کیس میں فیصل واوڈا کو شامل تفتیش کیا جانا چاہئیے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ارشد شریف کیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسے زبردستی باہربھیجاگیا، یہ اس طرح کی سازش ہے جس طرح سائفرپرکی تھی، اس میں بھی اس قسم کے ثبوت آگے چل کر سامنےآئیں گے۔

    رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ اس شخص کامکروہ چہرہ آگے چل کرسامنےآئےگا، میں دعویٰ سے کہتا ہوں اس بات کو پر انکوائری کے بعد سامنے لے آئیں گے۔

    وزیر داخلہ نے کہا کہ ارشد شریف سے متعلق تھریٹ الرٹ فرمائشی تھا، تھریٹ الرٹ اس لئےجاری کیا تاکہ ارشد شریف کو ڈرایا دھمکایا جائے ، تھریٹ الرٹ میں کہا گیا آپ کو اسلام آباد میں قتل کر دیا جائے گا۔

    انھوں نے بتایا کہ ارشد شریف اس دھمکی میں آکر دبئی چلا گیا، دبئی میں جن لوگوں کو ویزاختم ہوتا ہے تو کیا انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے ، پہلے وارننگ اور نوٹس پھرجرمانہ ہوتا ہے۔

    رانا ثنااللہ نے کہا کئی بار ایسا ہوا کہ دبئی میں ویزاختم ہونے کے بعدبھی لوگ وہاں رہ کراپیل کرتےہیں، اس کے بعد ارشد شریف کوکینیابھیجا گیا۔

    فیصل واوڈا کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا کوشامل تفتیش کرنے کا فیصلہ تحقیقاتی کمیشن کرے گا، لیکن فیصل واوڈا کو شامل تفتیش کیا جانا چاہئے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ کل وہ کہنا چاہتا تھا کہ میرے پارٹی کے بندے نے کام کیا لیکن کہہ نہیں سکا، اس نے بالواسطہ عمران خان پرالزام لگایا لیکن پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ عمران خان میرے چیئرمین ہیں ۔

    رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ان کو جب بھی لانگ مارچ کرنا ہوتا ہے ان کو ڈیڈباڈی چاہئیے ہوتی ہے، اب صحافی کی ڈیڈ میسر آئی ہے، اس پر اپنے فسادی لانگ مارچ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

  • ارشد شریف کیس: پمز اسپتال کے ماہرین کی ایک اور ٹیم تشکیل

    ارشد شریف کیس: پمز اسپتال کے ماہرین کی ایک اور ٹیم تشکیل

    اسلام آباد: ارشد شریف کیس کے لیے پمز اسپتال کے ماہرین کی ایک اور ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پمز اسپتال کے شعبہ ریڈیالوجی کے 7 ماہرین کی میڈیکل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو شہید ارشد شریف کی ٹیسٹ رپورٹس تیار کرے گی۔

    ذرائع کے مطابق شعبہ ریڈیالوجی کی یہ کمیٹی ٹیسٹ رپورٹس کی بنیاد پر اپنے سفارشات تیار کرے گی، جنھیں بعد ازاں مرکزی میڈیکل بورڈ کو بھیجا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عائشہ شعبہ ریڈیالوجی کے خصوصی میڈیکل بورڈ کی سربراہ مقرر کی گئی ہیں، جب کہ ڈاکٹر مجاہد رضا، ڈاکٹر عالیہ احمد، ڈاکٹر زکیہ شاہ، کنسلٹنٹ ریڈیالوجسٹ غزالہ ملک، ڈاکٹر ثمینہ، اور ڈاکٹر سارہ کو بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔

    ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور رابطے میں رہنے والے لوگ کون تھے ؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوالات اٹھادیئے

    پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تیاری کے لیے میڈیکل بورڈ کا اجلاس آج ہوگا، جس کے لیے 8 رکنی میڈیکل بورڈ قائم کیا گیا ہے، یہ بورڈ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ آج تیار کرے گی۔

  • ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ آج جاری کی جائے گی

    ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ آج جاری کی جائے گی

    اسلام آباد : میڈیکل بورڈ آج سینئر صحافی ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ جاری کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ارشدشریف کے پوسٹ مارٹم کیلئے قائم میڈیکل بورڈکا اجلاس آج ہوگا، جس میں میڈیکل بورڈ ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کے اہم نکات پر غور کرے گا۔

    ذرائع نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ ارشد شریف کی ایکسرے اور سی ٹی اسکین رپورٹ پر غور کیا جائے گا۔

    میڈیکل بورڈ بورڈ ٹیسٹ نتائج اور پوسٹ مارٹم کے نکات پرابتدائی رپورٹ جاری کرے گا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے پوسٹ مارٹم کے بعد ارشد شریف کے جسمانی اعضا کا فرانزک ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا تھا ، فرانزک ٹیسٹ کیلئے ارشد شریف کے جسمانی اعضا کے سیمپلز لے لئے گئے ہیں۔

    گذشتہ روز شہید ارشد شریف کا پمزاسپتال میں پوسٹمارٹم کیا گیا، ڈاکٹروقار کی سربراہی میں پمزاسپتال کے آٹھ رکنی میڈیکل بورڈ نے پوسٹ مارٹم کیا۔

    ذرائع نے بتایا تھا کہ ایکسرے بورڈ کی سفارش پرفُل باڈی سی ٹی اسکین اور مختلف ہڈیوں کا ایکسرے کیا گیا۔

    ڈائریکٹر پمز کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے میں وقت درکار ہوتا ہے تاہم پوسٹ مارٹم کے بعد شہید ارشد شریف کا جسد خاکی قائداعظم اسپتال سرد خانے منتقل کر دیا گیا تھا۔

  • ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان میں‌ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ارشد شریف ہم میں نہیں رہے۔

    وہ کینیا میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں رات کی تاریکی چھٹ رہی تھی اور سویرا ہونے کو تھا۔ عوام کی اکثریت جو محوِ خواب تھی، جب اپنے موبائل فون کی گھنٹیوں اور میسج ٹونز پر بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا محبوب اینکر پرسن انھیں‌ دائمی جدائی کا غم دے گیا ہے۔

    ارشد شریف ہر دل عزیز اینکر پرسن اور پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کا ایک بڑا نام تھا جن کی الم ناک موت پر ہر پاکستانی افسردہ و ملول ہے اور بالخصوص صحافتی حلقوں میں فضا سوگوار ہے۔ ارشد شریف ایک نڈر اور بے باک صحافی مشہور تھے جو نہ تو کبھی بکے اور نہ ہی کسی طاقت کے آگے سَر جھکایا۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر میں ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی دباؤ میں‌ آ کر حق و سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور شاید یہی ارشد شریف کا ‘جرم’ بھی تھا۔ پرچمِ حق و صداقت بلند رکھنے کی پاداش میں اپنے ہی وطن میں زمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

    ارشد شریف کی موت کی خبر پر یقین نہیں آرہا۔ ہر بار ان کے نام کے ساتھ ان کا ہنستا مسکراتا، زندگی سے بھرپور چہرہ سامنے آجاتا ہے اور انہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت جھٹلائی بھی نہیں جاسکتی کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ پاکستان یہ بے باک اور نڈر صحافی بوڑھی ماں کا واحد سہارا بھی تھا اور چار بچّوں کا باپ بھی جسے سچ عوام کے سامنے لانے پر دو درجن سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر یہ مقدمات کسی دورِ آمریت میں نہیں بلکہ جمہوری دور میں پی ڈی ایم کی حکومت میں بنائے گئے۔ اس پر بہی خواہوں نے ارشد شریف کو کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے جانے کا مشورہ دیا۔ (یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران ریاض اسیری کا مزہ چکھ چکے تھے، صابر شاکر بھی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے، سمیع ابراہیم، اوریا مقبول جان اور ایاز امیر بھی عتاب شکار تھے، صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور انھیں، ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے) ان حالات میں‌ ارشد شریف نے اپنا وطن چھوڑا تھا۔

    ذرایع ابلاغ کے مطابق ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی کے قریب کیجاڈو کے علاقے میں موجود تھے جہاں وہ گولی کا نشانہ بنے۔ اس وقت ارشد شریف کار میں اپنے ایک دوست کے فارم ہاؤس کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کینیا کے محکمۂ پولیس کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ارشد شریف کہا گیا کہ پاکستانی صحافی کی موت پولیس کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ایک بچّے کے اغوا کی اطلاع پر پولیس اہل کار گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے اور سڑک بند تھی جہاں شناخت نہ ہونے اور غلط فہمی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔

    پولیس کے اس موقف پر دنیا اور خود وہاں کا مقامی میڈیا بھی حیران ہے اور اس ‘غلط فہمی’ پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بچّے کے اغوا میں ملوث گاڑی اور ارشد شریف کی گاڑی کی نمبر پلیٹیں یکسر مختلف تھیں۔ پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ بالفرض اس گاڑی میں بچّہ تھا بھی تو گاڑی نہ روکنے پر پولیس اس کے ٹائروں پر فائر کرتی اور پھر ملزمان پر قابو پاتی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور پولیس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کار سواروں کو کیوں‌ اپنی گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا؟ اسی طرح اگر عقب سے یا سامنے سے گولی چلی تو ارشد شریف کے سَر کے درمیانی حصّے پر گولی کا نشان کیوں؟ اس واقعے میں صرف ارشد شریف ہی کیوں نشانہ بنے، ان کے ساتھ بیٹھا ڈرائیور پولیس کی فائرنگ سے کیسے محفوظ رہا اور اب وہ کہاں ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اس افسوس ناک واقعے کی شفاف تحقیقات اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے آنے تک اٹھائے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف یہ بھی خدشہ ہے کہ ماضی کے کئی ایسے واقعات کی طرح ارشد شریف کی فائل کو بھی کچھ عرصہ بعد ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔

    ارشد شریف نے 22 فروری 1973 کو کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر محمد شریف کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں فری لانس صحافی کی حیثیت سے کیا۔ ارشد شریف نے یوں تو صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا، لیکن تحقیقاتی رپورٹنگ ان کا خاصہ تھا۔ ارشد شریف نے کئی سیاست دانوں کی کرپشن کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ انھوں نے ملک اور بیرونِ ملک پاکستان کے بڑے صحافتی اداروں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اے آر وائی نیوز پر ان کا ٹاک شو ’’پاور پلے‘‘ کے نام سے نشر ہوتا تھا اور یہ ایک مقبولِ‌ عام پروگرام تھا۔ اس پر ارشد شریف نے 2016 میں بہترین تحقیقاتی صحافت کے زمرے میں ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں حکومتِ پاکستان نے ارشد شریف کو ان کی صحافتی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔

    ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات گئے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا کر وہاں کی حکومت نے انھیں 48 گھنٹوں میں ملک سے چلے جانے کو کہا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بالخصوص یہ خبریں گردش میں رہیں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے یو اے ای پر ارشد شریف کی ملک بدری کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اور یہ صحافی کسی خطرے کو بھانپ کر پاکستان واپس آنے کے لیے تیّار نہیں‌ تھے۔ انھوں نے فوری طور پر کینیا جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستانیوں کو ایئرپورٹ آمد پر ویزے کے حصول کی سہولت موجود تھی۔ لیکن وہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس ملک کا ایک دور دراز علاقہ ان کا مقتل ثابت ہو گا۔

    ارشد شریف کی اس ناگہانی موت نے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں‌ موجود دانش وروں، صحافیوں‌ اور عام لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ امریکا نے بھی کھل کر اس واقعے کی مذمت کی، جب کہ حکومتِ پاکستان نے مکمل تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان کر دیا جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، صحافتی تنظمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی شفاف تحقیقات کروائے اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے۔

    ایک طرف پاکستانی عوام بالخصوص ارشد شریف کے مداح اور صحافی برادری غم زدہ اور صدمے میں‌ تھی، لندن میں موجود ن لیگ کی قیادت نے دیوالی کا کیک کاٹ رہی تھی جس پر سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کی جارہی تھی کہ مریم نواز کا ایک ٹوئٹ سامنے آگیا جس میں‌ انھوں نے ارشد شریف کی میّت کے تابوت کی تصویر کے ساتھ طنزیہ جملہ لکھا تھا۔ اس ٹوئٹ پر مریم نواز کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انھیں بے حس اور سنگ دل قرار دیا جب کہ صحافیوں نے ان کی اس ٹوئٹ کو غیرانسانی رویہ کی عکاس قرار دیا جس کے بعد مریم نواز کو نہ صرف ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی بلکہ انھوں نے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس پر معذرت بھی کی۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ ایک جانب مریم کے چچا اور وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا تعزیت اور اس واقعے کی تحقیقات کرانے کے بیانات دے رہے تھے اور دوسری طرف لندن میں موجود مریم نواز یہ ٹوئٹ کررہی تھیں جو بدترین تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا جب ارشد شریف کے اہل خانہ نے مرحوم کا آخری دیدار بھی نہیں کیا تھا اور میّت کی وطن واپسی کے منتظر تھے۔

    ارشد شریف کی میّت وطن واپس آئی تو اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر اسپتال منتقل کیا گیا۔ ورثا کی درخواست پر پمز اسپتال میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ارشد شریف کی رہائش گاہ پر اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔

    اقوام متحدہ نے بھی ارشد شریف کیس میں‌ مکمل تفتیش اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا باقی ہے اور پاکستان سے تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ ہو رہی ہے، لیکن کیا یہ ٹیم حقائق ہمارے سامنے رکھ سکے گی اور عوام یہ جان سکیں‌ گے کہ حق اور سچ کے لیے آواز بلند کرنے اور اس راستے میں ڈٹ جانے والا یہ صحافی وطن چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا اور اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

  • ‘ارشد شریف کا قتل : پتا چلنا چاہئے کہ کینیا اور پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا فرق ہے؟’

    ‘ارشد شریف کا قتل : پتا چلنا چاہئے کہ کینیا اور پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا فرق ہے؟’

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہ میں جوڈیشل کمیشن بنانے کامطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر شعیب شاہین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جوانسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

    صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کا قتل مضبوط آواز کو بند کرنےکی کوشش ہے، ارشد شریف مقتدر حلقوں کی کرپشن بے نقاب کرتے تھے۔

    انھوں نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہ میں جوڈیشل کمیشن بنانے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا کمیشن کو معاونت کیلئے بین الاقوامی ماہرین اور آئی ٹی ایکسپرٹس دیے جائیں۔

    شعیب شاہین نے کہا کہ ارشد شریف کو ٹارگٹ کر کے مارا گیا اس کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے اور ان کا پوسٹ مارٹم جلد ازجلد ہوناچاہئے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پتا چلنا چاہئے کہ کینیا اور پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیافرق ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ بہادرخاتون ہیں، ان کی والدہ کہتی ہیں پاکستانی بچوں کیلئے یہ خون رائیگاں نہیں جانا چاہئے۔

  • ارشد شریف کیساتھ جو ہوا اس کے ذمہ دارعمران خان ہیں، رانا ثنا اللہ کا الزام

    ارشد شریف کیساتھ جو ہوا اس کے ذمہ دارعمران خان ہیں، رانا ثنا اللہ کا الزام

    اسلام آباد : وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے الزام لگایا ہے کہ ارشدشریف کیساتھ جوہوااس کےذمہ دارعمران خان ہیں، ارشد شریف سے متعلق عمران خان کےپاس ثبوت تھے تو پہلےکیوں نہیں دیئے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق کہا کہ میرے خیال میں انکوائری کمیشن کوایک ماہ میں رپورٹ دینی چاہیے، انکوائری کمیشن کو کینیا کا دورہ کرنا پڑے تو ہوسکتا ہے وقت لگ جائے۔

    رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ارشد شریف سے متعلق عمران خان کے پاس ثبوت تھے تو پہلے کیوں نہیں دیئے، ارشد شریف کیساتھ جو ہوا اس کے ذمہ دارعمران خان ہیں۔

    وزیر داخلہ نے سوال کیا کہ ارشد شریف دبئی میں اسٹے نہیں کرسکے تو کیا پی ٹی آئی ان کی مدد نہیں کرسکتی تھی، پی ٹی آئی کیا کسی اور ملک میں ارشد شریف کا بندوبست نہیں کرسکتی تھی، کے پی یا گلگت بلتستان میں نہیں ٹھہرا سکتی تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ارشدشریف کو کہا تھا مقدمات سے متعلق جو بھی خدشات ہیں دور کر سکتے ہیں، ارشد شریف کو دھمکیاں دی گئی یا مقدمات بنے تو انکوائری میں آجائےگا۔

    رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ دوسرے صحافیوں کو بھی دھمکیاں ملیں اورمقدمات بنے لیکن باہرنہیں گئے، ارشد شریف کو دھمکیاں ملی یا مقدمات بنے تو وہ بیرون ملک کیوں گئے، عمران خان نے ارشد شریف کو کیوں کہا کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں۔

    اعظم سواتی معاملے پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی کیساتھ غلط ہوا ہے تو 100 فیصد انکوائری ہونی چاہیے ، ایف آئی اے کے جو ملازمین واقعے میں شامل ہوئے ان سے بات کی، ڈی جی ایف آئی اے سے بھی بات ہوئی وہ بھی کہتے ہیں کوئی تشدد نہیں کیا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ اعظم سواتی چاہتے ہیں تو ہر لیول کی انکوائری کرانے کیلئے تیار ہیں، ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا اعظم سواتی کوبرہنہ کرنے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

  • ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم پمز اسپتال میں کیا جائے گا

    ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم پمز اسپتال میں کیا جائے گا

    اسلام آباد: سینئر صحافی ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم پمز اسپتال میں کیا جائے گا، اہلخانہ نے دوبارہ پوسٹمارٹم کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی ارشدشریف کاجسدخاکی قائد اعظم انٹرنیشنل اسپتال کے سردخانے سے پمزاسپتال منتقل کیا جائے گا۔

    ارشد شریف کے اہل خانہ قائد اعظم اسپتال پہنچ گئے ، جہاں ارشد شریف کی میت کو پمز اسپتال منتقل کرنے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے۔

    ارشدشریف کے جسد خاکی کومنتقل کرنے کے لیے ایمبولنس اسپتال پہنچ گئی ، اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری قائداعظم انٹرنیشنل اسپتال کے باہر تعینات ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کے جسد خاکی کو روٹ لگا کر پمز اسپتال منتقل کیاجائے گا، جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔

    دوسری جانب ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کیلئے میڈیکل بورڈ تاحال تشکیل نہیں پایا اور نہ ہی پوسٹ مارٹم کے بارے تحریری ہدایات اسپتال کو موصول ہوئی۔

    حکومت کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد پوسٹ مارٹم کیلئے سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ بنایا جائے گا۔

    بورڈ سینئر میڈیکو لیگل آفیسرکی سربراہی میں تشکیل دیاجائے گا، مختلف شعبہ جات کےسینئرڈاکٹرزمیڈیکل بورڈمیں شامل ہوں گے۔

    خیال رہے صحافی ارشد شریف کا کینیا میں پوسٹ مارٹم ہوا تھا تاہم اہلخانہ نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ پوسٹمارٹم کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    یاد رہے گذشتہ رات ارشد شریف کا جسد خاکی پاکستان پہنچایا گیا تھا، ارشد شریف کی نماز جنازہ اور تدفین کل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہوگی۔

  • وزیراعظم کا ارشد شریف کیساتھ پیش آئے واقعے پر حقائق قوم کے سامنے لانے کا اعلان

    وزیراعظم کا ارشد شریف کیساتھ پیش آئے واقعے پر حقائق قوم کے سامنے لانے کا اعلان

    اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے صحافی ارشد شریف کیساتھ پیش آئے واقعے پر حقائق قوم کے سامنے لانے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کل کینیا میں نامورصحافی ارشد شریف کیساتھ جو واقعہ ہوا وہ انتہائی قابل مذمت ہے ، پاکستان کے عوام ارشد شریف کی موت پر افسردہ ہیں ، اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

    شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب روانہ ہونےسے پہلے کینیا کے صدر سے خود بات کی ، کینیا کے صدر سے گزارش کی کہ تحقیقاتی رپورٹ فوراً بھجوائیں اور درخواست کی میت کی روانگی کیلئے کرداراداکریں۔

    وزیراعظم نے بتایا کہ کینیا کے صدر نے اظہارہمدردی کی اورکہا اس معاملے پر ہر ممکن تعاون کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کیساتھ پیش آنیوالے واقعے کی جوڈیشل کمیشن سے شفاف تحقیقات کرانےکافیصلہ کیا ہے ، جوڈیشل کمیشن کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کو درخواست دیں گے کابینہ سےبھی توثیق کرائیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ یہ واقعہ ہم سب کیلئے انتہائی قابل افسوس ہے اس کی شفاف تحقیقات ہوں گی اور ارشد شریف کیساتھ پیش واقعے پر حقائق قوم کے سامنے لائیں گے۔