لاہور: پاکستان کی تاریخ میں منی لانڈرنگ کے بڑے اسکینڈل سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات سامنے آ گئے ہیں، شہباز شریف خاندان ٹی ٹی کیسے کرتا تھا، گواہوں نے سلیمان شہباز اور قاسم قیوم کا ٹی ٹی مافیا بے نقاب کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں منی لانڈرنگ کا بڑا اسکینڈل بے نقاب ہو گیا ہے، گواہان میاں شہباز شریف خاندان کے ٹی ٹی مافیا نیٹ ورک کو سامنے لے کر آ گئے۔
اے آر وائی نیوز کے خصوصی پروگرام پاور پلے میں دو اہم گواہوں منظور احمد اور ممتاز احمد نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیے۔
گواہوں نے ارشد شریف کے پروگرام میں بتایا کہ قاسم قیوم آٹے اور چوکر کی ادائیگی کی آڑ میں لاکھوں روپے کے چیکس سلمان شہباز کو بھجواتا تھا۔
دونوں گواہ سلیمان شہباز کے دفتر جا کر لاکھوں روپوں کی گنتی کرتے تھے، غریب مزدوروں کے شناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کی ٹی ٹیز لگوائی گئیں۔
سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کی ٹی ٹی کے لیے خاص کارندوں کے نام بھی سامنے آ گئے، ٹی ٹی مافیا آپریشن میں قاسم قیوم اور شہباز شریف خاندان کا پرانا ملازم فضل داد عباسی اہم کردار تھا۔
فضل داد عباسی سلیمان شہباز کا فرنٹ مین جب کہ قاسم قیوم شہباز شریف کے داماد علی عمران کا دوست ہے۔
منظور احمد نے بتایا کہ قاسم قیوم پس پردہ کیا کام کرتا تھا ہمیں نہیں معلوم تھا، خرابی طبیعت پر قاسم صاحب کے ساتھ کام 2014 میں چھوڑا تھا، کام چھوڑنے کے بعد بچوں کی ٹافیوں کی دکان کھولی، قاسم صاحب کی ٹینشن کی وجہ سے میری بیوی فوت ہو گئی، ان سے نیب کے دفتر میں ملاقات کرائی گئی تھی، ان سے کہا مجھ سے غیر قانونی کام کیوں کراتے رہے، قاسم صاحب نے کہا مجھ سے غلطی ہوئی۔
منظور احمد نے مزید بتایا کہ قاسم صاحب کے حمزہ اور سلمان شہباز کے ساتھ رابطے ہوں گے، حمزہ شہباز کی شکل صرف ٹی وی پر دیکھی ہے، کبھی ملاقات نہیں ہوئی، 5 سال سے فضل داد سے ڈیل کرتا تھا، اس سے ماڈل ٹاؤن کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی، ماڈل ٹاؤن کے دفتر میں آج تک سلمان شہباز کو نہیں دیکھا۔
اسلام آباد : یوم پاکستان کے موقع پر مختلف شخصیات کو اعلیٰ کارکردگی پر سول اعزازات سے نوازا گیا، ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایوارڈز تقسیم کیے۔
تفصیلات کے مطابقصدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے یوم پاکستان پر اپنے شعبہ جات میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر سول ایوارڈز تقسیم کیے، ایوان صدر میں منعقدہ پروقار تقریب میں مختلف شخصیات کو نشان امتیاز، ہلال امتیاز، ستارہ شجاعت اور صدارتی ایوارڈ برائےحسن کارکردگی کے اعزازات سے نوازا گیا۔
انویسٹی گیٹو جرنلزم پر اے آر وائی نیوز کے سینئراینکر ارشد شریف کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا، نشان امتیاز حاصل کرنے والوں میں شعیب سلطان اور ستارہ پاکستان کیلئے رومانیہ کی وجیہہ حارث، محمد الیاس آزاد جموں و کشمیر حق دار قرار پائے۔
ظہیر ایوب بیگ، غلام اصغر، پروفیسر ڈاکٹر تصورحیات، کرکٹر وسیم اکرم، وقاریونس، مائیکل جینسن اور، ڈاکٹرعبدالباری کو ہلال امتیاز دیا گیا۔
اس کے علاوہ شہید محمد ادریس، شہید نوابزادہ سراج رئیسانی، شہید اسدعلی، شہید انجینئر معراج احمد عمرانی کو بھی ستارہ شجاعت کا اعزاز دیا گیا۔
ستارہ امتیاز کا ایوارڈ پانے والوں میں ڈاکٹر عنایت اللہ، عطااللہ عیسیٰ خیلوی، شمیم احمد شیخ (کینڈا)، ڈاکٹرآصف ندیم رحمان (امریکا) ضیاء الحسن پاکستان، اسٹیون جے بورین(امریکا)، جیمزاے نیے (امریکا) ثمرعلی خان، عقیل کریم ڈھیڈی، صائمہ شہباز، نیلوفرسعید، سید ابو احمد عاکف اور پیر محمد دیوان شامل ہیں۔
علاوہ ازیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز انویسٹی گیٹو جرنلزم پر اے آر وائی نیوز کے سینئراینکر ارشد شریف، انجینئر ڈاکٹر ناصر محمود، عشرت فاطمہ، ریماخان اور لقمان علی افضل کو دیا گیا۔
اسلام آباد : وفاقی حکومت نے سول ایوارڈ کے لیے 127 ناموں کی فہرست جاری کردی، اے آروائی نیوزکے اینکرارشد شریف بھی فہرست میں شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے سول ایوارڈ کے لیے 127 ناموں کی فہرست جاری کردی، جس میں 18غیرملکی بھی شامل ہیں۔
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی 23 مارچ کو فہرست میں شامل افراد کو ایوارڈ دیں گے۔
سابق کپتان وسیم اکرم، وقاریونس، کرکٹریاسرشاہ، گلوکارسجاد علی اورعطااللہ خان عیسیٰ خیلوی، فلم اسٹار بابرہ شریف، ریماخان، مہوش حیات، شبیرجان، افتخارٹھاکر فہرست میں شامل ہیں۔
نیوزکاسٹرعشرت فاطمہ، اے آروائی نیوزکے اینکرارشد شریف اورتاجرعقیل کریم ڈھیڈی بھی فہرست میں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 16 مارچ 2018 کو صدر مملکت ممنون حسین نے یوم پاکستان (23 مارچ) کے موقع پر مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی 141 شخصیات کے لیے سول ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔
ایوارڈ وصول کرنے والوں میں کئی بین الاقوامی شخصیات بھی شامل تھیں جن میں کیوبا کے آنجہانی صدر فیڈل کاسترو، جاپان کے کیمی ہایڈ، بوسنیا کے حارث سلاجیگ اور کوریا کے ڈاکٹر سونگ جونگ شامل تھے۔
بالاکوٹ: اے آر وائی نیوز نے بھی بھارت کے جھوٹ کا پول کھول دیا، نیوز ٹیم نے بالاکوٹ پہنچ کر حقیقت پوری دنیا کو دکھا دی۔
تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے بالاکوٹ میں جس جگہ کو دہشت گردوں کا کیمپ قرار دیا وہاں آبادی تھی ہی نہیں، نیوز ٹیم نے جابہ میں جا کر پے لوڈ سے بننے والے گڑھے بھی دیکھے۔
[bs-quote quote=”ٹیم نے دیکھا کہ دہشت گردوں کا کوئی کیمپ نہ کوئی لاش ملی، نہ ہی کوئی آبادی تھی۔” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]
ٹیم نے بتایا کہ کیا ہزار کلو گرام کے بموں سے اتنے چھوٹے گڑھے پڑتے ہیں، ویڈیو میں غیر آباد پہاڑی علاقے میں بکھرے مٹی اور پتھرصاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک درخت تنے سے ٹوٹا پڑا ہے، ٹیم نے دیکھا کہ دہشت گردوں کا کوئی کیمپ نہ کوئی لاش ملی، نہ ہی کوئی آبادی تھی۔
اے آر وائی نیوز کی ٹیم سب سے پہلے اس جگہ پہنچی جہاں پے لوڈ گرایا گیا، اور بھارتی حملے کی حقیقت بے نقاب کر دی، اینکر پرسن ارشد شریف نے بھارتی دعوؤں سے پردہ اٹھا دیا۔
بھارتی طیارے نے جلدی بھاگنے کے لیے جہاں پے لوڈ گرایا وہاں ایک گڑھا بن گیا ہے، وہاں ایک درخت بھی ملا جس کو نقصان پہنچا۔ پے لوڈ کے گرنے سے صرف ایک شخص معمولی زخمی ہوا۔
واضح رہے کہ اے آر وائی نیوز حقیقت دنیا کو بتاتا رہے گا، بھارت کے جھوٹے دعوؤں سے پردہ اٹھاتا رہے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز رات کی تاریکی میں بزدل دشمن نے چھپ کر وار کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو ان کی اوقات دکھا دی، بھرپور ایکشن پر بھارتی طیارے بھاگ نکلے۔
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ میں حامد میر کمیشن رپورٹ کو پبلک کرنے کے لیے اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن ارشد شریف کی درخواست پر رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق صحافی حامد میر کمیشن رپورٹ کو پبلک کرنے کے لیے اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن ارشد شریف کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت ہائی کورٹ کے سگنل رکنی بنچ جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔
عدالت میں وفاق کی جانب سے چوہدری حسیب جبکہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایس او عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران وزارت داخلہ نے حامد میر کمیشن رپورٹ کی فراہمی کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔
چوہدری حسیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ حامد میر کمیشن رپورٹ دینے کے لیے وزارت داخلہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جب وفاق کو حامد میر کمیشن رپورٹ دینے کے لیے کوئی اعتراض نہیں ہے تو مدعا ہی حل ہوگیا۔
عدالت نے ہدایت دی کہ حامد میر کمیشن رپورٹ حاصل کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دیں اور رپورٹ ارشد شریف کو فراہم کریں۔
خیال رہے کہ ارشد شریف کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ حامد میر پر حملے کے بعد جیو نیوز نے حساس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل پر الزام لگایا تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی نظام الدین سیالوی نے کہا ہے کہ 10 سے 12 اراکین مستعفی ہونے کو تیار ہیں جس کے لیے استعفے سجادہ نشین حمید الدین سیالوی کے پاس جمع کرادیئے گئے ہیں.
اس بات کا انکشاف مذکورہ رکن صوبائی اسمبلی پنجاب نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، نظام الدین سیالوی کا موقف تھا کہ ہمارے استعفوں کا فیصلہ سجادہ نشین حمید الدین سیالوی کریں گے اور وہی ہمارے مستقبل کا فیصلہ کریں گے.
حکمراں رکن صوبائی اسمبلی نظام الدین سیالوی نے مزید کہا کہ 4 سے 5 مزید اراکین اسمبلی نے قانون ختم نبوت میں ترمیم کے بعد ہم سے رجوع کیا ہے اس طرح اگر وہ بھی استعفے دے دیں تو تعداد بڑھ کر 17 تک پہنچ سکتی ہے تاہم استعفی دینے کا کُلی فیصلہ معروف پیر اور سجاد نشین حمید الدین سیالوی کا ہوگا.
ایک سوال کے جواب میں ایم پی اے کا کہنا تھا کہ ہمارے سجادہ نشین کا مطالبہ ہے کہ قانون ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے دوران تبدیلی کے مرتکب شخص کو سامنے لایا جائے تب تک ہم نہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور نہ ہی کسی حکومتی اجتماع میں جائیں گے اور اگر حکومت نے بات نہ مانی تو پھر استعفے اسمبلی میں جمع کرادیئے جائیں.
اسی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میں دوستین خان ڈومکی جو وزیر مملکت برائے سائنس و ٹیکنالوجی بھی ہیں نے اپنے استعفیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں نے استعفی اپنےمحکمے کی وجہ سےدیا کیوں کہ این ٹی ایس اور کام سیٹ میں اختلافات تھے جب کہ میرا مطالبہ اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات کا تھا لیکن میری سنی نہیں گئی.
دوستین خان ڈومکی کا کہنا تھا کہ چیئرمین کے ہاتھ لمبے ہیں وہ تحقیقات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں چنانچہ میں نے بورڈ آف گورنرز کو معطل کرکے انکوائری کمیٹی کا حکم دیا لیکن جب تحقیقات شروع کی تو رانا تنویرکو وفاقی وزیر بنا دیا گیا جنہوں نے مجھے کام کرنے نہیں دیا اس لیے احتجاجاً استعفیٰ دینا مناسب سمجھا.
اسلام آباد : پارلیمنٹرینز سے متعلق آئی بی کے خط کے معاملے پر ارشد شریف نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو جواب جمع کرادیا، اجلاس کو اچانک اِن کیمرہ کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹرینزسے متعلق آئی بی کے خط کے معاملہ پر اے آر وائی نیوز کے سینئراینکر پرسن ارشد شریف نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو جواب جمع کرادیا، اس موقع پر اجلاس کو اچانک اِن کیمرہ کر دیا گیا۔
اجلاس میں اے آر وائی نیوز کے سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف نے کمیٹی میں ایک سو چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل جواب جمع کرایا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن ارشد شریف کا کہنا تھا کہ اپنی خبر پر آج بھی قائم ہوں، میں نے تمام صحافتی تقاضے پورے کرتے ہوئے خبر دی تھی، بعد ازاں آئی بی کی جانب سے خط کو بوگس قرار دیا گیا تھا۔
دوسری جانب چیئرمین کمیٹی رانا افضل کا کہنا ہے تھا کہ آئی بی کی درخواست پر اجلاس ان کیمرہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ 26ستمبر کو اے آروائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے37اراکین پارلیمنٹ کیخلاف آئی بی سے چھان بین کروائی تھی ان میں سے بیشتر اراکین نون لیگ اور حکومت پر تنقید کرنے والے نکلے، مذکورہ اراکین اسمبلی پر کالعدم تنظیموں سے رابطوں کا الزام عائد کیا تھا۔
مذکورہ معاملے کے بارے میں پیمرا میں بھی رپورٹ درج کروائی گئی تاہم اس کے ساتھ ہی ارشد شریف کو آئی بی کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے لگیں جبکہ ارشد شریف اور اے آر وائی نیوز کے خلاف مقدمہ بھی درج کردیا گیا تھا۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آئی بی کا معاملہ سامنے لانے پر ارشد شریف کو دھمکیاں کیوں دی جارہی ہیں؟ حکومت معاملے کی وضاحت کرے.
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور آزادی لازم و ملزوم ہیں جب میڈیا کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ جمہوریت کی نفی ہوتی ہے اور یہ جمہوری روایت کے برعکس ہے، ارشد شریف کے معاملے پرپیمرا اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے الٹا کارروائی کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ کچھ پوائنٹ آؤٹ کردیا جو ممبران پوچھ رہے ہیں کہ یعنی ہمارا گناہ کیا ہے؟ جو ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگادیا گیاہے اور اس معاملے میں آئی بی کا کردار کیا ہے؟ یہ عمل نامناسب ہے، ارشد شریف کے خلاف پیمرا نے بہت پھرتی دکھائی۔
ویڈیو دیکھیں
انہوں نے کہا کہ حکومت وضاحت کرے وہ جمہوریت کی بات کرتی ہے لیکن ممبران کو دھمکیاں کیوں دی جارہی ہیں؟ ارشد شریف پر مقدمہ درج کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کی مذمت کرتے ہیں، ایک چینل کی آواز دبانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، حکومت بتائے کہ ارشد شریف کو دھمکیاں کیوں دی گئیں؟ اور آئی بی کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے تحقیقات کیوں کی جارہی ہیں۔
یاد رہے کہ ارشد شریف نے خبر بریک کی تھی کہ نواز شریف نے بحیثیت وزیراعظم ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے 37 ارکان اسمبلی کے خلاف آئی بی کو تحقیقات کا حکم دیا تھا کہ ان ارکان کے دہشت گردوں سے تعلقات ہیں۔
یہ خبر بریک کرنے پر پیمرا کے آفس میں اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف کو پیمرا کی شکایات کونسل کے سامنے آئی بی افسر نے دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ تمہیں تو ہم گھسیٹیں گے۔
اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ اینکرارشدشریف کودھمکیاں دینےکی مذمت کرتاہوں، نوازشریف اس قسم کی دھمکیاں دلوانا بند کردیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پراپنے پیغام میں کہا کہ اینکرارشدشریف کو دھمکیاں دینے کی مذمت کرتا ہوں۔
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ ارشد شریف نےاداروں کی تباہی کے خلاف جنگ کاعلم اٹھایا ہے،انہوں نے کہا کہ نوازشریف اس قسم کی دھمکیاں دلوانا بند کردیں۔
Strongly condemn Arshad Sharif’s harassment by IB officials! He is a crusader against corruption and destruction of institutions .Lay off NS
یاد رہے کہ دو روزقبل اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشدشریف کو پیمرا دفتر میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کی شکایات کونسل کے سامنے آئی بی افسر نے دھمکی دی تھی ۔
Just returned from CoC Pemra. Have submitted reply.
A senior IB official threatened me in the presence of CoC members & lawyers.
یاد رہے کہ پروگرام ’پاور پلے‘ میں مورخہ 25،27ستمبر 2017 کو نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ نوازشریف نے حکومت پر تنقید کرنے والے سینتیس اراکین پارلیمنٹ کیخلاف انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) سے چھان بین کروائی۔
رپورٹ کے مطابق آئی بی نے دس جولائی2017کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے حکم پرایک رپورٹ مرتب کی جس میں37 پارلیمنٹینز کے نام شامل ہیں جن کے کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے نہ صرف رابطے ہیں بلکہ ان سے لین دین اور ناجائز سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ارشدشریف کو پیمرا دفترمیں آئی بی افسر کی دھمکی کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل سے مسلم لیگ ن کا فاشسٹ چہرہ سامنے آگیا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں اور طاقت ور طبقے کا کبھی احتساب نہیں ہوتا جب کہ معروف قانون دان اور سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ملک کا نام نہاد جمہوریت پسند طبقہ ایسے اقدامات کر گزرتا ہے جو کہ آمر بھی نہیں کرتے۔
یہ بات دونوں شخصیات نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، دونوں مہمان ملک کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور پاناما کیس کے فیصلے پر اپنی آراء دے رہے تھے۔
دفاعی تجریہ کا ر میجرجنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں اور طاقت ور طبقے کا کبھی احتساب نہیں ہوتا اس کے برعکس احتساب کا پھندا ہر وقت غریب عوام کے گلے میں ڈالا جاتا ہے لہذا عام مشاہدہ ہے کہ طالب علم ، کسان ، مزدور تو گرفتار ہوتے ہیں لیکن کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث افراد کا کچھ نہیں بگڑتا۔
ماہر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے پروگرام میں شریک گفتگو ہوتے ہوئے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ ملک کا نام نہاد جمہوریت پسند طبقہ ایسے اقدامات شروع کردیتا ہے جو آمر بھی نہیں کرتے جیسا کہ گزشتہ روز لاہور میں ہوا جب گو نواز گو کا نعرہ لگانے والے طالب علموں اور کھلاڑیوں کو گرفتار کیا گیا جس کا حکم شاید میاں صاحب نے نہیں بلکہ ان کے نیچے کام کرنے والے افراد نے دیا ہو جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری نبھاتے ہیں۔
پاناما کیس کے فیصلے کی رو سے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایف آئی اے کا کوئی افسر جے آئی ٹی کا سربراہ ہوگا اور ہوتا یہ ہے کہ جس ادارے کا کوئی افسر سربراہ ہو وہیں سیکرٹریٹ ہوگا اس لیے جے آئی ٹی کا سیکرٹریٹ جہاں بھی ہوگا سپریم کورٹ کے زیر نگرانی کام کرنے کا پابند ہے۔
میجر جنرل(ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بار بار کہتی ہے کہ میاں صاحب کا نام پاناما لیکس میں شامل ہی نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں اسے Respondent نمبر 1کہا گیا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ نے جن محکموں پر عدم اعتماد کیا ہے جے آئی ٹی میں اکثریت انہی محکموں کے اہلکاروں کی ہے اور جہاں تک اداروں پر حکومتی دباؤ کا تعلق ہے تو آئی ایس آئی کسی بھی دباﺅ میں نہیں آسکتی لیکن باقی اداروں کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ موجودہ جے آئی ٹی مجرمانہ کیس پر نہیں دراصل یہ سول کیس پر بنایا گیا ایک کمیشن ہے جسکے ذمہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے بیرون ملک اثاثہ جات کی تفتیش ہے، جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے سے لگتا ہے کہ یہ نیب کے قانون کے تحت کام کرے گی اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات رکھنی چاہئے کہ وہ تفتیش کا دائرہ کار زیادہ وسیع کرنے کے بجائے صرف لندن کے چار فلیٹس پر اپنی توجہ مرکوز رکھے اور اگر اس دوران کوئی خاص شواہد سامنے نہیں آئے تو حکمران خاندان کے دوسرے ذرائع آمدن کی بھی تفتیش کرے کیوں کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی دولت کا صرف ساٹھ دنوں میں تفتیش کرنا ممکن نہیں۔
اس موقع پر میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے بارِ ثبوت تو میاں صاحب اور اس کے خاندان پر ڈالا ہے انہوں نے خود سارے شواہد کا اعتراف کیا تھا اگر شواہد موجود ہے تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کریں۔
ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہے لیکن باقاعدہ سرکاری طورپر یہ رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی اس لیے معاملہ ابھی تک مبہم ہے تاہم خبروں میں آیا ہے کہ طارق فاطمی اور راﺅ تحسین پر خبر لیک کرنے کے الزمات لگائے گئے ہیں اور پرویز رشید کو کلیئر قرارد یا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب دو تین روز بعد مکمل رپورٹ باضابطہ طورپر منظر عام پرآجائے گی تو پتہ چلے گا کہ کون خبر لیک کرنے کا ذمہ دار ہے اور کس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ آیا فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی کوئی بھی رپورٹ فوج کے لئے قابل قبول ہوگی۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ تحقیقات پر عمل درآمد کرنے والے بینچ کے سامنے پیش کی جائے گی کیوں کہ قوم کو صرف آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران سے امیدیں ہیں کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف ہوگی اس لیے پوری قوم کی نظریں صرف تین اداروں سپریم کورٹ، آئی ایس آئی اور ایم آئی پر لگی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ مزید تفتیش کے لئے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خلاف تیس دن کے اندر کوئی بھی فریق نظر ثانی کے لئے درخواست دے سکتا ہے جس بینچ نے فیصلہ دیا تھا اسی کے سامنے نظر ثانی کے لئے درخواست دی جاسکتی ہے البتہ اختلافی نوٹ پر نظر ثانی کے لئے اپیل دائر نہیں کی جاسکتی۔