Tag: ارنسٹ ہیمنگوے

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور معروف صحافی

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور معروف صحافی

    ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے شادمانی اور مسرت کا اظہار باقاعدہ بگل بجا کر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور لوگوں کو متوجہ کرکے بتایا کہ اس کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف مقبول ادیب بنا بلکہ اس نے اپنی تخلیقات پر نوبیل انعام بھی پایا۔ لیکن اس امریکی ناول نگار کی زندگی دردناک انجام سے دوچار ہوئی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کر لی تھی۔

    آج عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور مشہور صحافی ارنسٹ ہیمنگوے کا یومِ وفات ہے۔ حیرت انگیز طور پر ہیمنگوے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا بھی طبعی موت نہیں مرے تھے۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کی تھی۔ ہیمنگوے نے 1961ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کی تھی۔ 21 جولائی 1899ء کو ہیمنگوے نے امریکہ کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدائی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت کے شوقین بھی تھے اور مہم جوئی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اپنے بیٹے ارنسٹ ہیمنگوے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اور اسی نوع کے دوسرے مشکل کام اور طریقے سیکھے تھے۔ یوں ہیمنگوے نے شروع ہی سے فطرت کے درمیان وقت گزارا اور مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو بھی دیکھا اور اپنے انہی تجربات کو اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی۔ ہیمنگوے نے ناول اور مختصر کہانیاں لکھیں اور امریکہ میں جلد ہی مقبولیت حاصل کرلی۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد یوں کام آیا کہ اسے ایک اخبار میں بطور رپورٹر رکھ لیا گیا۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملا۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ان تجربات کو تحریروں میں شامل کرکے انھیں دل چسپ بنا دیتا تھا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات کے لیے مضمون نویسی کی اور اپنے قارئین میں‌ مقبول ہوا۔ 1921ء میں وہ شادی کر کے پیرس منتقل ہوگیا اور وہاں‌ بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ پیرس میں‌ اس کے شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے ساتھ دوستانہ مراسم ہوگئے اور ہیمنگوے ان سے بھی اپنی تحریروں پر داد اور حوصلہ افزائی سمیٹنے لگا۔ اس نے مختصر کہانیاں‌ لکھنے کا آغاز کیا تو جلد ہی پیرس اور امریکہ میں مقبول ہوگیا۔ 1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا اور بطور ناول نگار ہیمنگوے کو بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ امریکی ناول نگار ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر بھی کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران وہ انگریزی ادب کو مسلسل شاہ کار کہانیاں دیتا رہا۔ اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے متعدد ناولوں کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم کیے گئے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے اس کے ناول قارئین تک پہنچے۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ہیمنگوے کی کچھ عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں ارنسٹ ہیمنگوے اکثر جب عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنا چاہتا یا وہ اپنی تحریر سے متعلق بہت حساسیت کا مظاہرہ کرتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا تھا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً اس طرح وہ لکھتے ہوئے پُرسکون اور یکسوئی محسوس کرتا ہو۔

    ارنسٹ ہیمنگوے اچھا نشانہ باز تھا یا نہیں‌، مگر اس کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو نشانہ ضرور بنا چکی تھی۔ البتہ یہ کوئی نہیں‌ سوچ سکتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی کا سفر تمام کر لے گا۔

  • چھے الفاظ پر مشتمل المیہ!

    چھے الفاظ پر مشتمل المیہ!

    یہ تحریر دنیا کی اُس مختصر کہانی سے متعلق ہے جو انگریزی کے فقط چھے الفاظ پر مشتمل ہے اور کسی درد ناک واقعے یا کرب کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

    ابنِ آدم کو قصّہ گوئی سے شغف ہمیشہ سے رہا ہے۔ شاید اسی وقت سے جب اُس نے بولنا شروع کیا اور بامعنیٰ گفتگو کا آغاز کیا۔ ہر طاقت وَر، دیو ہیکل، اپنے سے قوی اور ضرر رساں شے، گزند پہنچانے والی کوئی بھی انجانی، نامعلوم، پُراسرار، دیدہ و نادیدہ ہستی اور اشیاء اس کی داستانوں میں جگہ پاتی چلی گئیں۔ اور پھر داستان گوئی، کہانی کہنا اور کہانی لکھنا ادب شمار ہوا اور دورِ جدید میں مختصر کہانیاں لکھنے کا چلن ہوا۔

    امریکہ کے مشہور وائرڈ میگزین نے 2006 میں مختصر ترین کہانیوں کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا جس میں امریکہ کے صفِ اوّل کے درجنوں مصنّفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجی تھیں۔ ان کہانیوں کے موضوعات متنوع تھے جن میں سے چند کا اردو ترجمہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت
    2۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا، خدا حافظ
    3۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی!
    4۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا
    5۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
    6۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔

    اب چلتے ہیں چھے الفاظ کی اُس کہانی کی طرف جو ارنسٹ ہیمنگوے سے منسوب ہے۔ وہ امریکی ادب کا ایک بہت بڑا نام، ایک اعلیٰ پائے کے ناول نگار، افسانہ نویس اور صحافی تھے۔ پیٹر ملر نامی مصنّف نے 1974ء اپنی ایک کتاب میں‌ مختصر کہانی نویسی پر ایک واقعہ ہیمنگوے سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اُس نے ایک اخبار کے مالک کی زبانی سنا تھا جس کے مطابق ایک ریستوراں میں کھانا کھاتے ہوئے ارنسٹ ہیمنگوے کی اپنے دوست سے ایک بات پر ٹھن گئی۔ اس نے ہیمنگوے کو چیلنج کیا کہ وہ چھے الفاظ میں کوئی پُراثر کہانی لکھ کر دکھا دے اور ہیمنگوے نے ایک نیپکن پر چند الفاظ لکھ کر اس دوست کی طرف بڑھا دیے۔ ہیمنگوے نے لکھا تھا:

    "For sale: baby shoes, never worn.”

    "برائے فروخت: غیر استعمال شدہ، بے بی شوز۔” لیکن اس واقعہ کی صداقت مشکوک ہے۔ اس پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی، مگر آج بھی فلیش فکشن یا مائیکرو فکشن کے باب میں اس کہانی کی مثال دی جاتی ہے۔

    اس تحریر میں ایسا کیا ہے جس کا ذکر مختصر کہانی نویسی کے ضمن میں‌ دنیا بھر کے ادیب اور ناقدین کرتے ہیں اور اسے متأثر کن تحریر کہا جاتا ہے؟ یہ بظاہر ایک اشتہار ہے جس میں ایک بچّے کے جوتوں کا جوڑا فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بے بی شوز کے بارے میں بیچنے والے کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر استعمال شدہ ہیں، یعنی کبھی جوتے کی اس جوڑی کو کسی بچّے نے نہیں‌ پہنا۔ لیکن انھیں خریدا ضرور گیا تھا اور گویا یہ ‘ری سیل’ کیے جا رہے ہیں۔ یہی وہ اشارہ ہے جو اس کہانی کو ایک رمز اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ Never worn یعنی کبھی نہ پہنے گئے یا غیر استعمال شدہ…. یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک المیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید والدین نے جس بچّے کے لیے اسے خریدا تھا، وہ اب دنیا میں نہیں رہا، اور والدین شاید کسی مجبوری کے تحت انھیں بیچ رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ یہ کسی اور بچّے کے کام آجائیں۔

    الغرض اس کی تفہیم کرنے والوں نے ان چھ الفاظ پر مشتمل کہانی کو والدین کے لیے ایک تکلیف دہ واقعے، اور انسانی المیے کے طور پر ہی دیکھا ہے۔ اس کا مصنّف کوئی بھی ہو، یہ کہانی اپنے مفہوم اور پیغام کے اعتبار سے ایک شان دار تخلیق ہے۔ مائیکرو فکشن کا حصّہ اس کہانی کو "ٹویٹریچر” بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ ٹویٹر پر بھی آسانی سے لکھی جا سکتی ہے۔

  • نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

    ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے باقاعدہ بگل بجا کر شادمانی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا بیٹا بڑا ہو کر کہانی کار بنا اور اسے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ وہ نوبیل انعام کا حق دار ٹھیرا لیکن اس کی زندگی کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کی تھی۔

    افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ناول نگار کے والد ہی نہیں‌ دادا کی موت بھی طبعی نہ تھی۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے 2 جولائی 1961ء کو خودکُشی کی جب وہ 61 برس کے تھے۔ وہ ایک ناول نگار اور صحافی کی حیثیت سے دنیا میں‌ مشہور تھے۔

    شہرۂ آفاق ادیب ارنسٹ ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معزّز اور تعلیم یافتہ خاندان کے فرد تھے۔ ان کا گھرانہ فنونِ لطیفہ کا شیدائی تھا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔

    ہیمنگوے کے والد کو سیر و سیّاحت کے شوقین تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے۔ ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے والد ہی سے سیکھا۔ انھیں شروع ہی سے فطرت کو قریب سے دیکھنے اور جنگلی حیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس کی جھلک بعد میں‌ ان کی تحریروں میں نظر آئی۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی تخلیقی صلاحیت کی بدولت نہایت خوبی سے اپنی مختصر کہانیوں اور ناولوں‌ میں شامل کیا اور قارئین کو متأثر کرنے میں کام یاب رہے۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا، اس کی بدولت انھیں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملتا رہا۔ وہ ایک ایسے صحافی اور لکھاری تھے جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھے جس نے ان کی تحریروں کو دل چسپ اور قابلِ توجہ بنا دیا۔ انھیں‌ ادب کے مطالعے کے ساتھ اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، اس کا پیشہ ورانہ سفر میں‌ بہت فائدہ ہوا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضمون نویسی کرتے رہے جس نے انھیں‌ پہچان دی۔ 1921ء میں ان کی شادی ہوئی اور وہ پیرس منتقل ہوگئے جہاں ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائیوں نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    پیرس میں‌ وہ اپنے وقت کے باکمال ادیبوں اور شعرا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے جن میں‌ شہرۂ آفاق ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس بھی شامل ہیں۔ اس حلقۂ ادب میں رہتے ہوئے ہیمنگوے کو اپنی تحریروں پر داد پانے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگے جن کی اشاعت نے ہیمنگوے کو پیرس اور اپنے وطن امریکہ میں بھی کہانی کار کے طور پر پہچان دی۔ وہ 1926ء میں اپنا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر لائے جو ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے انھیں‌ بہت سراہا۔ ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران بھی انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیوں سے سجاتے رہے۔ انھیں فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ایک ناول پر نوبیل انعام دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کا ناول فیئر ویل ٹو آرمز بھی بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ اردو زبان میں‌ ناول کے شائقین تک پہنچے اور انھیں‌ بہت سراہا گیا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ انھوں نے ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کے شوقین تھے اور اسی کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    فطرت کے دلدادہ، مہم جوئی کے شوقین اور انگریزی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہونے والے ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ عام روش سے ہٹ کر جب وہ کچھ لکھنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے تھے۔ اگر آپ ادب اور فنونِ لطیفہ کے شائق ہیں تو یقینا مشہور تخلیق کاروں‌ کی بعض دل چسپ یا ناقابلِ فہم اور اکثر بری عادات، یا ان کے لکھنے اور مطالعہ کرنے کے انداز کے بارے میں‌ بھی کوئی تحریر ضرور نظر سے گزری ہوگی۔اسی طرح کسی تخلیقی کام کے دوران یہ ادیب اور شاعر کچھ خاص طور طریقے اپناتے تھے جن میں ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتے تھے کہ وہ ان کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً یہ ان کے لیے پُرسکون طریقہ اور یکسوئی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوگا۔ تاہم بعض‌ تصاویر میں وہ کرسی پر اسی طرح بیٹھے ہوئے ٹائپ رائٹر پر کام کررہے ہیں جیسا کہ عام آدمی کرتا ہے۔

    ارنسٹ ہیمنگوے اچھے نشانہ باز تھے یا نہیں‌، مگر ان کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو شکار کرچکی تھی، کون جانتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کرلیں گے۔

  • پُل پر بیٹھا بوڑھا

    پُل پر بیٹھا بوڑھا

    ایک بوڑھا، جس نے اسٹیل کے کناروں والی عینک پہنی ہوئی تھی اور جس کے کپڑے بہت گرد آلود تھے، سڑک کے کنارے بیٹھا تھا۔

    یہاں دریا پر کشتیوں والا ایک پل تھا، چھکڑے، ٹرک، مرد عورتیں اور بچّے اس پر سے گزر رہے تھے۔ چھکڑوں کو خچر کھینچ رہے تھے، جو پل کی ڈھلوان پر چڑھتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے۔ سپاہی ان پہیوں میں ہاتھ ڈال کر ان کو چڑھنے میں مدد کر رہے تھے۔ ٹرک آگے بڑھ رہے تھے اور نظروں سے اوجھل ہوتے جا رہے تھے، ان کے پیچھے پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتے ہوئے کسان گھٹنوں تک مٹی سے اٹے تھے مگر بوڑھا آدمی بنا کوئی حرکت کیے یہاں بیٹھا تھا۔

    میرا کام تھا کہ پل کو عبور کروں، آگے بڑھوں اور دیکھوں کہ دشمن کتنی پیش قدمی کر چکا ہے۔ میں نے ایسا کیا اور واپس پل پر لوٹ آیا۔ اب یہاں زیادہ چھکڑے نہیں تھے اور چند لوگ ہی تھے، جو پیدل عبور کر رہے تھے مگر بوڑھا آدمی اب بھی یہاں موجود تھا۔

    ”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“ میں نے اس سے پوچھا۔

    ”سین کارلوس سے“ اس نے کہا اور مسکرایا۔

    یہ اس کا آبائی گاؤں تھا، اس لیے اس کے ذکر نے اسے خوشی دی، تب ہی وہ مسکرایا ”میں جانوروں کی دیکھ بھال کررہا تھا۔“ اس نے وضاحت کی۔

    ”اوہ!“ میں نے کہا، مگر میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔

    ”ہاں“ اس نے کہا، ”میں وہاں رہا، تم نے دیکھا میں جانوروں کی حفاظت کر رہا تھا، میں وہ آخری آدمی تھا، جس نے سین کارلوس گاؤں چھوڑا۔“

    وہ گڈریا نہیں لگتا تھا نہ ہی چرواہا۔ میں نے اس کے سیاہ گرد آلود کپڑوں کی طرف دیکھا اور اس کے دھول میں اٹے ہوئے سانولے چہرے کو اس کی اسٹیل کے کناروں والی عینک کو اور پوچھا ”وہ کون سے جانور تھے؟“

    ”مختلف جانور“ اس نے کہا اور اپنے سر کو ہلایا، ”مجھے ان کو چھوڑنا پڑا۔“

    میں پل کو دیکھ رہا تھا اور ابروڈیلٹا کے افریقہ جیسے دِکھنے والے ملک کو اور حیران ہو رہا تھا کہ اب وہ وقت کتنا دور ہے، جب ہمارا سامنا دشمن سے ہوگا۔ میں غور سے اس پہلے شور کو سننے کی کوشش کر رہا تھا، جو کہ اشارہ ہوگا کہ دشمن قریب ہے۔ بوڑھا آدمی اب بھی وہاں بیٹھا تھا۔

    ”وہ کون سے جانور تھے؟“ میں نے پوچھا

    ”وہاں تین جانور اکٹھے تھے“ اس نے وضاحت کی، ”وہ بکریاں ایک بلّی اور کبوتروں کے چار جوڑے تھے۔“

    ”اور آپ نے ان کو چھوڑ دیا تھا؟“ میں نے پوچھا

    ”ہاں۔ فوج کی وجہ سے۔ کپتان نے مجھے جنگی سامان توپ خانے کی وجہ سے جانے کو کہا۔“

    ”اور آپ کا خاندان نہیں گیا؟“ میں نے پل کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، جہاں چند آخری چھکڑے جلدی جلدی ڈھلوان پارکررہے تھے۔

    ”نہیں“ اس نے کہا، ”صرف جانور میں نے کہا ناں، بلی یقیناً وہ ٹھیک ہوگی۔ بلی اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے مگر میں نہیں جانتا دوسروں کا کیا بنے گا۔

    ”میں سیاست کے بغیر ہوں اس نے جواب دیا، ”میری عمر چھہتر برس ہے۔ میں بارہ کلو میٹر سفر کر کے آیا ہوں اور اب میرا خیال ہے کہ مزید نہیں چل سکتا۔“

    ”یہ رکنے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے۔“ میں نے کہا، ”اگر آپ تھوڑی ہمت کریں تو سڑک پر کافی ٹرک جا رہے ہیں جو تمہیں ٹورٹو سانک پہنچا دیں گے۔“

    ”میں کچھ انتظار کروں گا۔“ اس نے کہا، ”اور پھر میں چلا جاؤں گا۔ ٹرک کس طرف جا رہے ہیں؟“

    ”بارسلونا کی طرف۔۔“ میں نے اسے بتایا۔

    ”میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی بھی اس سمت پر نہیں ہے“ اس نے کہا، ”مگر آپ کا شکریہ، آپ کا ایک بار پھر بہت شکریہ۔“

    اس نے میری طرف بہت خالی اور تھکی ہوئی نظروں سے دیکھا جیسے وہ اپنی پریشانی کسی دوسرے کے ساتھ بانٹ رہا ہو۔ وہ بولا، ”بلی بالکل ٹھیک رہے گی۔ مجھے یقین ہے۔ بلّی کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر دوسرے۔۔۔ آپ دیگر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟“

    ”شاید وہ بھی اس سب سے نکل آئیں اور ٹھیک رہیں۔“

    ”تمہیں ایسا لگتا ہے؟“

    ”کیوں نہیں۔“ میں نے پل کے کنارے کی طرف دور تک دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں اب مزید چھکڑے نہیں تھے۔

    ”مگر وہ لوگ توپ خانے سے کیا کریں گے۔ جب کہ مجھے توپ خانے کی وجہ سے جانے کو کہا۔“

    ”کیا آپ نے کبوتروں کے پنجرے کا تالا کھول دیا تھا؟“ میں پوچھا۔

    ”ہاں“

    ”پھر وہ اڑ جائیں گے۔“

    ”ہاں، وہ ضرور اڑ جائیں گے۔۔ مگر دوسرے۔۔۔ دوسروں کے بارے میں سوچنا شاید بہتر نہیں۔“ اس نے کہا ”اگر آپ نے آرام کر لیا تو میں جاؤں۔“

    میں نے زور دیتے ہوئے کہا، ”اٹھیے اور چلنے کی کوشش کیجیے۔“

    ”آپ کا شکریہ۔“ اس نے کہا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔۔ وہ ادھر ادھر جھولتا اور پھر گرد آلود راستے پر بیٹھ جاتا۔

    ”میں جانوروں کا خیال رکھ رہا تھا۔“ اس نے دھیمی آواز میں کہا مگر اس کی آواز مجھ تک نہیں آئی۔ ”میں صرف جانوروں کا خیال رکھتا تھا۔“

    میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ ایسٹر کا اتوار تھا اور فسطائی اصولوں کے پیروکار اِبرو کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ یہ ایک سرمئی دھندلکے والا دن تھا، دھیمی پرواز والا۔۔ پس ان کے منصوبے زیادہ بلند نہیں تھے۔ اور یہ سچ ہے کہ بِلیاں جانتی ہیں کہ اپنا خیال کیسے رکھا جا سکتا ہے اور بس یہی ایک خوش قسمتی تھی جو اس بوڑھے آدمی کے ساتھ تھی۔

    (ارنسٹ ہیمنگوے کا افسانہ، جس کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    مشہور ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ بگل بجا کر اپنے بیٹے کی آمد کا چرچا کیا تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے والد کی موت طبعی نہ تھی بلکہ انھوں نے خود کُشی کی تھی اور 1961ء میں آج ہی کے دن ان کے بیٹے نے بھی اپنی زندگی کا ختم کرلی۔ خود کشی کے وقت وہ 61 برس کے تھے اور انھیں ایک ناول نگار، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا تھا

    ارنسٹ ہیمنگوے شہرۂ آفاق تخلیق کار تھا جو 21 جولائی 1899ء کو پیدا ہوا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماں گریس ہال ہیمنگوے گلوکار اور موسیقار تھی۔ ماں باپ دونوں ہی تعلیم یافتہ اور نہایت قابل تھے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے معزّزین میں‌ کیا جاتا تھا۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے نواحی علاقے سکونت پذیر تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے باپ کو سیر و سیّاحت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے لگا۔ اس نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے باپ ہی سے سیکھا اور اس دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا جس کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    طالبِ علمی کے زمانے میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو اسکول میگزین اور اخبار سنبھالنے کا موقع ملا اور اس کا یہ تجربہ گریجویشن کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت کے دوران بہت کام آیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں چند ماہ کے دوران اچھی تحریر اور مضمون نگاری کے سنہری اصول سیکھے۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کا بھی دل دادہ تھا اور مطالعے کے ساتھ اسے اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، ان کا اسے بہت فائدہ ہوا۔ اس نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضامین بھی لکھے۔ 1921ء میں شادی کے بعد وہ پیرس چلا گیا جہاں ادیبوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بزم آرائیوں نے اسے بھی ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    یہ ادیب اور شاعر اپنے وقت کی نادرِ روزگار اور باکمال شخصیات تھیں جن میں‌ ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس شامل ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اس نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور وہ شایع ہونے لگیں۔ 1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آگیا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا۔ اس نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر اور وہاں‌ قیام کیا اور اس دوران اپنے وسیع تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیاں‌ دیں جن کی بنیاد پر اس نے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ دنیا کا سب سے معتبر نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔

    اس کا ایک ناول فیئر ویل ٹو آرمز خود اس کے دو عاشقانہ قصّوں اور ایک جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ وہ ناول ہیں جنھیں اردو زبان کے شائقین نے بہت سراہا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے محبتیں‌ بھی کیں، شادیاں بھی اور متعدد ممالک میں قیام بھی کیا۔ اس دوران اس نے جنگ میں‌ بھی حصّہ لیا، تخلیقی سفر بھی جاری رکھا، سیرو سیاحت کے ساتھ تمام مشاغل بھی پورے کیے۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی کھیل سے متعلق اس کا ایک ناول بھی منظرِ عام پر آیا جو بہت مشہور ہوا۔

    فطرت کے دلدادہ اور جہانِ ادب میں نام ور ارنسٹ ہیمنگوے کو اس لحاظ سے بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ والد کی طرح خود اس نے ہی گولی مار کر اپنی زندگی ختم نہیں کی بلکہ اس کی بہنوں نے بھی خود کشی کی تھی۔

  • شہرہ آفاق ادیب کی ایک عجیب عادت کا تذکرہ

    شہرہ آفاق ادیب کی ایک عجیب عادت کا تذکرہ

    شہرہ آفاق ادیب اور صحافی ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کھڑے ہو کر لکھنے کے عادی تھے۔

    اگر آپ ادب اور فنونِ لطیفہ کے شائق ہیں تو یقینا ہندوستان کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی بعض مخصوص عادات، ان کے لکھنے یا مطالعہ کرنے کے انداز اور تخلیقی سرگرمی انجام دیتے ہوئے کچھ خاص طور طریقوں پر عمل کرنے سے متعلق کئی باتیں پڑھی یا سنی ہوں گی۔ اسی طرح دنیا بھر کے تخلیق کاروں سے متعلق دل چسپ اور عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں۔

    ارنسٹ ہیمنگوے دنیا میں اپنے منفرد اسلوب اور ناول نگاری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

    اس امریکی ناول نگار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتے تھے کہ وہ ان کے سینے تک پہنچتا تھا۔ یہ ان کے نزدیک لکھنے پڑھنے میں یکسوئی اور کام پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے ضروری ہوگا۔ تاہم بعض‌ تصاویر میں وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی نظریں میز پر رکھے ان کے ٹائپ رائٹر پر جمی ہوئی ہیں۔ تاہم یہ دونوں ہی حالتیں اس ادیب کے لیے آرام دہ اور لکھنے پڑھنے پر توجہ برقرار رکھنے میں مددگار تھیں۔

    یہ سن 61 کی بات ہے جب ارنسٹ ہیمنگوے نے خودکشی کی کوشش کی اور اپنے سَر میں گولی مار خود کو ہلاک کرلیا۔

  • شیکسپیئر اینڈ کمپنی: دو شخصیات کی دل چسپ کہانی!

    شیکسپیئر اینڈ کمپنی: دو شخصیات کی دل چسپ کہانی!

    یہ مختصر روداد ہے ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کی اور اُن دو کرداروں کی جنھیں آج بھی علم و ادب کی دنیا میں نہایت عزت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    سب سے پہلے آپ کو سلویا بیچ کے بارے میں بتاتے ہیں۔
    سلویا بیچ امریکا سے ہجرت کے بعد پیرس آئی تھیں۔ ادب کی دلدادہ، کتاب دوست اور فنونِ لطیفہ کی شایق اس خاتون نے پیرس کے ایک قصبے میں کتابوں کی دکان کھولی۔ یہ 1919 کی بات ہے۔ سلویا بیچ نے اس بک شاپ کو انگریزی ادب اور دیگر موضوعات پر کتابوں سے بھر دیا۔ یہ دکان جلد ہی کتابوں کے رسیا اور مطالعے کے شوقین افراد کی نظروں میں آگئی۔

    عام خریداروں کے ساتھ اب یہاں مختلف شاعراورادیب بھی آنے لگے جو سلویا بیچ کے مطالعے اورعلم دوستی سے بہت متاثر تھے. اکثر ان کے درمیان کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو طویل ہو جاتی. اہلِ قلم کا یوں اپنی دکان پر اکٹھا ہونا سلویا بیچ کے لیے باعثِ فخر و مسرت تھا۔ وہ دکان اتنی بڑی نہ تھی کہ وہاں نشست کی جاسکے. جگہ کم پڑ رہی تھی تب سلویا بیچ قریب ہی ایک کشادہ دکان میں‌ منتقل ہوگئیں۔

    1921 میں سلویا نے اپنی نئی بک شاپ میں ایک کتب خانہ بھی کھول لیا۔ ان کی محنت اور خلوص نے اس کتاب گھر کو علم و فنون کا ایک مرکز اور اس وقت کے نابغوں کا ٹھکانہ بنا دیا تھا۔ اب یہاں نام ور ادیب، شاعر اور صحافی جمع ہوتے تھے۔ اس کتاب گھر کی شہرت دور تک پھیل گئی۔ اس کتاب گھر کو ”شیکسپیئراینڈ کمپنی“ کا نام دیا گیا جہاں‌ پیرس کے اہم اور مقبول لکھاری جمع ہوتے اور علمی گفتگو کرتے۔ کہتے ہیں اکثر ایسا ہوتا کہ مباحث کے دوران رات گہری ہو جاتی، تب یہ قلم کار اس دکان ہی میں لمبی تان کر سو رہتے۔

    ان میں خاص طور پر ارنسٹ ہیمنگوے، ازرا پاؤنڈ، گرٹروڈ اسٹین، مینا لوئے اور مین رے جیسی قدآور شخصیات کا نام لیا جاتا ہے۔ انہی احباب کے مشورے سے سلویا بیچ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کردیا اور اس کاروبار سے مالی فائدہ ہی نہیں خوب شہرت بھی سمیٹی۔ مشہور رائٹر جوئس کا وہ ناول بھی سلویا بیچ نے شایع کیا جو متنازع اور امریکا، برطانیہ میں اس کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عائد تھی۔ اس ناول کا نام یولیسس تھا۔

    اسی طرح عالمی شہرت یافتہ لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کی تین کہانیوں اور دس نظموں پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے کے تحت شایع ہوئی تھی۔ تاہم 1941 میں جرمنی کے تسلط کے بعد یہ بک شاپ بند کر دی گئی۔

    اب چلتے ہیں دوسرے کردار کی طرف اور اس کا آغاز ہو گا 1951 سے جب ایک اور امریکی جارج وہٹمین نے بھی ہجرت کے بعد پیرس میں سکونت اختیار کی تھی۔

    جارج وہٹمین نے بھی پیرس میں اِسی طرز کی ایک بک شاپ کھولی اور رفتہ رفتہ شائقین ادب ہی نہیں اپنے وقت کے زرخیز ذہن اور خوب صورت تخلیق کاروں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ وہٹمین اس کتاب گھر کو علم و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا خواہش مند تھا اور اس کی یہ خواہش جلد پوری ہو گئی۔ اس بک شاپ پر اس وقت کے مؤقر اخبار اور جرائد کے مدیر، قلم کار اورناشرین بھی آنے لگے۔
    ہم نے جس سلویا بیچ کا تذکرہ اوپر سطور میں کیا تھا وہ 1964 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ جارج وہٹمین ان کی خدمات سے بہت متاثر تھا۔ ایک سال جب شیکسپیئر کی برسی آئی تو جارج وہٹمین نے اپنے کتاب گھر کا نام ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ رکھنے کا اعلان کر دیا اور بتایا کہ یہ سلویا بیچ سے ان کی عقیدت کا اظہار ہے جو ایک علم دوست اور قابل شخصیت تھیں۔ یہی نہیں بلکہ وہٹمین نے اپنی بیٹی کا نام بھی سلویا بیچ رکھا جو اس کتاب گھر میں 2003 سے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی رہی ہے۔

    جارج وہٹمین بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کی بیٹی اس بک شاپ کو نہ صرف چلا رہی ہے بلکہ وہ اس کتب فروش خاتون اور اپنے والد کی ہر روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اب یہاں موجودہ دور کے معروف قلم کار آتے ہیں اور مختلف موضوعات پر علم و فکر کا اظہار کرتے ہیں۔

    موجودہ کتاب گھر کی مالک سلویا بیچ نے دو سال قبل ہی ماضی کی اُس علم دوست سلویا بیچ کی زندگی اور اس زمانے کی بک شاپ کا احوال بھی ایک کتاب میں محفوظ کیا ہے۔ 400 صفحات کی اس کتاب میں ماضی کی کئی حسین یادیں تصویر کی گئی ہیں۔ علمی اور ادبی مجلسوں کا احوال اور اہم شخصیات کی تصاویر کتاب کی رونق ہیں۔