Tag: ازخود نوٹس

  • ازخود نوٹس، سپریم کورٹ کا مخصوص مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم

    ازخود نوٹس، سپریم کورٹ کا مخصوص مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس اور آئینی اہمیت کے حامل مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حافظ قرآن کو میڈیکل داخلے میں 20 اضافی نمبرز دینے سے متعلق ایک کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کیا ہے کہ رولز بنائے جانے تک 184/3 کے تمام کیسز کو روک دیا جائے۔

    9 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ آئین اور رولز چیف جسٹس کو اسپیشل بنچ تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔

    فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، لیکن سوموٹو مقدمات مقرر کرنے اور بنچز کی تشکیل کے لیے رولز موجود نہیں۔

    ججز نے فیصلہ کیا کہ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے، فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا ہے، جسٹس شاہد وحید نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔

    قومی اسمبلی میں‌ عدالتی اصلاحات کا بل منظور

    تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، چیف جسٹس کو خصوصی بینچ بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ فیصلے میں پیمرا کی جانب سے ججز پر تنقید پر پابندی کو بھی آئین اور اسلام کے خلاف قرار دیا گیا۔

  • کیا ازخود نوٹس پر قانون سازی ہو سکتی ہے؟

    کیا ازخود نوٹس پر قانون سازی ہو سکتی ہے؟

    اسلام آباد: حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی صفوں سے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس (سوموٹو) کے تنہا اختیار کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی قانون سازی کے خلاف آرا سامنے آ گئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قانون دان سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے باوجود آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ماہر قانون بابر اعوان نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ سوموٹو کا اختیار 184 سیکشن 3 کے تحت استعمال کرتی ہے، اور آئین میں ترمیم دوتہائی اکثریت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

    لطیف کھوسہ نے ن لیگ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر چڑھ دوڑنا یا دولخت کرنا ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے، اور عدلیہ کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو ن لیگ نے ہمیشہ نوازا ہے۔

    انھوں نے عدلیہ میں واضح تقسیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی معاملات پارلیمنٹ اور قانونی معاملات سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے، سپریم کورٹ کے رولز میں تبدیلی کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی، اور اس کے لیے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ موجودہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے باوجود آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی۔

    چیف جسٹس کے ازخودنوٹس کا اختیار ختم کرنے کا مسودہ قانون منظور

    لطیف کھوسہ نے کہا ’’مجوزہ بل کو سپریم کورٹ مسترد کر دے گی کیوں کہ یہ آزاد عدلیہ پر قدغن ہے، تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا، نواز شریف ہماری بات مانتے تو آج 62 ون ایف نہیں ہوتا۔‘‘

    ماہر قانون بابر اعوان نے اس سلسلے میں کہا کہ قانون جہاں موجود ہوتا ہے ترمیم بھی وہاں ہوتی ہے، اور سپریم کورٹ نے اپنے الگ رولز بنائے ہیں جہاں ترمیم ہو سکتی ہے، لیکن پارلیمنٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔

    انھوں نے کہا ’’پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم دراصل ادارے پر عدم اعتماد ہے۔‘‘

  • چیف جسٹس ازخود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے، حکومت کا فوری قانون سازی کا فیصلہ

    چیف جسٹس ازخود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے، حکومت کا فوری قانون سازی کا فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت نے عدالتی اصلاحات کے لیے فوری قانون سازی کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان ازخود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت نے فوری طور پر ایسے عدالتی اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے چیف جسٹس کا سوموٹو اختیار صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہ پائے گا، اور وہ تنہا ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کر سکیں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس کے خلاف اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کی جا رہی ہے، اور اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار فل کورٹ کو دیا جائے۔

    سپریم کورٹ کے بینچ تشکیل دینے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

  • چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، دو ججز کا اختلافی فیصلہ جاری

    چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، دو ججز کا اختلافی فیصلہ جاری

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے پنجاب کے پی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس ازخود نوٹس لینے اور اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں، ان اختیارات کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے، یہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔

    ججز نے تحریری فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا،ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بینچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔

    اختلافی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 2 ججز نے فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑا، لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔

    ججز نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، اور از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیر التوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے۔

    28 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے جاری کیا ہے۔ اختلافی نوٹ میں‌ کہا گیا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ چیف جسٹس کے ون مین شو سے لطف اٹھانے کے اختیار کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس کے فیصلے کرنے کے اکیلے اختیارات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، چیف جسٹس کے اختیارات فل کورٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہونے چاہئیں۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کرتی ہے، عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آ جائے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو۔

    اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ہائیکورٹ میں کیس زیر التوا ہونے کے باوجود از خود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس کا دائرہ اختیار غیر معمولی، صوابدیدی اور بہت خاص نوعیت کا ہے، آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ اختیار بنیادی حقوق کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس پاکستان کے از خود نوٹس لینے کا اختیار ریگولیٹ ہونا چاہیے۔

  • عدالتی اختیارات سے متعلق قانون سازی، شیخ رشید نے حکومت کو اہم بات یاد دلا دی

    عدالتی اختیارات سے متعلق قانون سازی، شیخ رشید نے حکومت کو اہم بات یاد دلا دی

    اسلام آباد: عدالتی اختیارات سے متعلق قانون سازی کے فیصلے پر شیخ رشید نے ردِ عمل میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی خود مختاری کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز وفاقی کابینہ کی جانب سے عدالت کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل کے اختیارات پر قانون سازی کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے اسے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

    شیخ رشید نے آج جمعرات کو ایک ٹویٹ میں حکمران جماعت کو یاد دلایا کہ سپریم کورٹ کی خود مختاری کو آئینی تحفظ حاصل ہے، اس لیے سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھایا تو جا سکتا ہے لیکن گھٹایا نہیں جا سکتا۔

    انھوں نے واضح کیا کہ: "من پسند قانون سازی نہیں ہوگی، سپریم کورٹ کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی نہیں بنایا جا سکتا۔”

    شیخ رشید نے مزید لکھا کہ پنجاب میں گورنر راج نہیں لگایا جا سکتا، نواز شریف بھی وطن واپس نہیں آئیں گے، اور الیکشن اکتوبر نومبر میں ہوں گے۔

    وفاقی کابینہ کا عدالت کے ازخود نوٹس، بینچ تشکیل کے اختیارات پر قانون سازی کا فیصلہ

    سابق وزیر داخلہ نے یہ بھی لکھا کہ پنجاب کا سیاسی کوڑا کرکٹ گٹر میں پھینکا جائے گا، نیب کی من پسند ترمیم ختم ہوگی، اور اوورسیز کو ووٹ کا حق بھی ملے گا۔

    شیخ رشید نے ایک بار پھر ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو انصاف کی نوید سنائی، انھوں نے ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ ملکی اثاثے بیچنے سے پہلے ہی موجودہ حکومت کا کھیل ختم ہو جائے گا۔

  • صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج

    صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج

    اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف جسٹس فائز عیسیٰ کے از خود نوٹس لینے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس طریقہ کار کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

    سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیا گیا ازخود نوٹس واپس لے لیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ کسی بینچ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے، بینچ چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی سفارش کر سکتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پریس ایسوسی ایشن کی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائے، سوموٹو کا اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کر سکتے ہیں، صحافیوں کی درخواست کا کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ چیف جسٹس کریں گے۔

    فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کے اصول بھی وضع کر دیے، بینچز کی جانب سے تمام نوٹسز پر سماعت معمول کے مطابق ہوگی، بینچز کے نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بینچ کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ کوئی بینچ ازخود کسی کو طلب کر سکتا ہے نہ رپورٹ منگوا سکتا ہے، ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چیف جسٹس کی منظوری لازمی ہوگی۔

  • چیف جسٹس کا یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا سے ملحق کالج کے طلبہ کو ڈگری نہ ملنے پر ازخود نوٹس

    چیف جسٹس کا یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا سے ملحق کالج کے طلبہ کو ڈگری نہ ملنے پر ازخود نوٹس

    لاہور : چیف جسٹسں ثاقب نثار نے یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا سے ملحق کالج کے طلبہ کو ڈگری نہ ملنے پر ازخود نوٹس لے لیا۔ عدالت نے صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کی تعداد اور انکے ساتھ ملحقہ کالجز کی تفصیلات طلب کر لیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹسں آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے لاہور رجسٹری میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا سے ملحق کالج کے طلبہ کو ڈگری نہ ملنے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

    عدالت نے صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کی تعداد اور انکے ساتھ ملحقہ کالجز کی تفصیلات طلب کر لیں۔

    عدالت نے مزید استفسار کیا ہے کہ یونیورسٹیاں کب سے کام کر رہی ہیں اور فیس کیا لیتی ہیں۔ جن یونیورسٹیوں نے خلاف قانون کیمپس کھولا یا الحاق کیا، ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جائیں گے۔

    ہائر ایجوکیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا نے بغیر اجازت کالجز کے ساتھ الحاق کیا، صرف ڈگری کا نہیں، ادارے میں اساتذہ کا ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ ڈگری کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ یہ لوگوں کے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں، دیکھتا ہوں کہ کون انکی ضمانت لیتا ہے۔ تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔

    عدالت نے غیر معیاری نجی یونیورسٹیوں کے معاملے پر ظفر اقبال کلانوری اور عزیز بھنڈاری ایڈووکیِٹ کو عدالتی معاون مقرر کر دیا اور جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے نجی یونیورسٹیوں کو نوٹس دے کر آنکھیں بند کر لی ہیں، بچوں کے مستقبل کا عدالت جائزہ لے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا ڈگریاں نہ ملنے پر طالبعلم سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں، نجی یونیورسٹیوں نے دکھاوے کے بورڈ لگائے ہوئے ہیں، جہاں غیر معیاری تعلیم دی جا رہی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ شوگر ملوں کے پرمٹس کی طرح نجی یونیورسٹیاں کھولنے کی اجازت دی گئی، ایف آئی اے یونیورسٹی آف ساوتھ ایشیاء میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق رپورٹ دے۔

  • سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس سماعت کیلئے مقرر

    سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس سماعت کے لئے مقرر کردیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 5 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس سماعت کے لئے مقرر کردی گئی اور اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل کے پی اور متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کردیئے۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 5 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

    خیال رہے چیف جسٹس نے دورہ پشاور میں اے پی ایس سانحے کے لواحقین سے ملاقات میں نوٹس لیا تھا اور دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔

    یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، دہشت گردوں نےعلم کے پروانوں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔

    آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دردناک سانحے اور دہشت گردی کے سفاک حملے میں 147 افراد شہید ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی تھی۔

    خیال رہے پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد پر سات سال سے غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی، لیکن پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پابندی ختم کر دی گئی تھی۔

    جس کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث کچھ مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاچکا ہے۔

  • سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    اسلام آباد :  سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت میں  چیف جسٹس نے خاور مانیکا اور جمیل گجر کو پیرکو طلب کرلیا اور کہا حاضرنہ ہوئے تو پھر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی ، آرپی اوساہیوال اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے ۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے ڈی خواجہ معاملے میں بھی ہم نے پولیس کوبا اختیار کیا، آپ خود سیاسی اثرکے نیچے جا رہے ہیں۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں کہا کہ میں نے واقعے کا پوچھا تورضوان گوندل نے درست بات نہ بتائی، میں نے دیگرذرائع سے اصل معاملہ پتہ کیا۔

    سید امام کلیم نے کہا کہ ایک خاتون کو روکا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کتنے بجے روکا گیا جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ رات کوایک یا 2 بجے روکا گیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    آئی پنجاب پولیس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جوڈی پی اوکوبلایا انہیں نہیں بلانا چاہیے تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ڈی پی اوکووزیراعلٰی کے پاس جانے کی اجازت کیوں دی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نےکیا وزیراعلیٰ سے ڈی پی اوکوملنےسے روکا؟ خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تواس میں کیاغلط ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

    سابق ڈی پی اور پاکپتن رضوان گوندل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 23،24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آرپی او کو بتایا، مجھ سے متعلق وزیراعلیٰ نے آئی جی کوحکم دیا، حکم آیا کہ رضوان گوندل کوڈی پی اوکے طورپر نہیں دیکھنا تھا۔

    رضوان گوندل نے کہا کہ اتوارکی رات سی ایس اواور پی ایس او کی کال موصول ہوئی، مجھے بتایا گیا 9 بجے وزیراعلیٰ کے دفترآئیں۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن نے کہا کہ پی ایس اوصاحب نے بتایا وزیراعلیٰ نے آئی جی کو حکم دیا ہے، میں نے آرپی او سے بات کی، آرپی اونے کہا انکوائری مکمل نہیں ہوئی توایسا حکم نہیں آنا چاہیے تھا۔

    سپریم کورٹ نے خاورمانیکا اور جمیل گجرکو فوری طلب کرلیا، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ 3 بجے کراچی جانا ہے اس سے قبل پیش کیا جائے۔

    وفقے کے بعد سابق ڈی پی اوپاکپتن رضوان گوندل ازخود نوٹس کیس کی شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل گجر کے گھر ایس ایچ او کھڑے ہیں، ایس ایچ او سے رابطہ نہیں ہورہا، خاور مانیکا نے کہا بیٹی کو اسکول سے پک کرنا ہے،3 بجے سے پہلے لاہورنہیں چھوڑسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آرپی اوساہیوال اوررضوان گوندل کل تک بیان حلفی جمع کرائیں اور احسن جمیل گجراوردیگر پیرکوعدالت میں حاضر ہو، احسن جمیل گجرکی حاضری کوآئی جی نےیقینی بنانا ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا 62 ون ایف پر فیصلوں کوایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پڑھ کرآئیں کہ اختیارات کے غلط استعمال پر عدالتی فیصلوں کا اسکوپ کتنا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا احسن جمیل گجرکو پیار سے لائیے گا، احسن جمیل گجر پیر کو حاضر نہ ہوئے تو پھر اگلالائحہ عمل دیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آرپی او ساہیوال اورمتعلقہ ڈی پی او کو کل ساڑھے نو بجے طلب کیا تھا اور ساتھ ہی پنجاب پولیس کے حکام سے انکوائری رپورٹ بھی طلب کی تھی۔

    اس سے قبل اپوزیشن پارٹیوں‌ نے الزام لگایا تھا کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا، واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا۔

    حکومت پنجاب کا موقف تھا کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا۔

    ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات

    دوسری جانب ماریہ محمود کو ڈی پی اوپاکپتن تعینات کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

    خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے موقف

    واقعے کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتا رہا، باربار کہا گیا ڈیرے پر جاکرمعافی مانگو۔

    خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کے ذریعے کمیٹی کو ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔

  • چیف جسٹس کا چلاس میں اسکولوں کی آتشزدگی پرازخود نوٹس

    چیف جسٹس کا چلاس میں اسکولوں کی آتشزدگی پرازخود نوٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے چلاس میں اسکولوں کی آتشزدگی پرازخود نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گلگت کے علاقے چلاس میں لڑکیوں کے 12 اسکولوں کو نذر آتش کرنے پرازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری امور وزارت گلگت بلتستان سے رپورٹ طلب کرلی۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آتشزدگی کے واقعات کی رپورٹ 48 گھنٹے میں پیش کی جائے۔

    دوسری جانب ترجمان گلگت بلتستان حکومت کا کہنا ہے دیامرمیں اسکولزجلانے والوں کی تلاش میں سیکیورٹی اداروں نے داریل وتانگیر میں چھاپے مارے اور4 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

    چلاس میں لڑکیوں کے 12 اسکول نذر آتش

    خیال رہے کہ گزشتہ روز نامعلوم افراد نے دیامر میں بچوں کے 12 اسکولوں کو نذرآتش کردیا تھا جس پرانتظامیہ نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔

    دیامر کے صدیق اکبرچوک پرشہریوں کی جانب سے اسکولوں کو جلائے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا اور اسے بچوں کے روشن مستقبل پرحملہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے واقعات افسوس ناک اور ناقبل قبول ہیں۔

    عمران، بلاول اور ملالہ کی مذمت، نگراں وزیراعظم نے رپورٹ طلب کرلی

    واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے ٹویٹرپر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چلاس میں بچیوں کے تعلیمی ادارے جلانا افسوس ناک ہے۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام یقینی بنائیں گے، بچیوں کی تعلیم، اسکولوں کی سیکیورٹی ترجیحات ہیں۔