Tag: استاد امانت علی خان

  • نزاکت علی خان: کلاسیکی موسیقی کے استاد اور نام ور گلوکار کی برسی

    نزاکت علی خان: کلاسیکی موسیقی کے استاد اور نام ور گلوکار کی برسی

    استاد نزاکت علی خان کا نام فن و ثقافت کی دنیا میں کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آج پاکستان کے اس نام ور کلاسیکی موسیقار اور گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نزاکت علی خان 14 جولائی 1983 کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ضلع ہوشیار پور کے چوراسی نامی قصبے سے تھا جو سُروں اور راگنیوں کے ماہر اور موسیقی کے شیدائیوں کے لیے مشہور ہے۔

    1932 کو پیدا ہونے والے نزاکت علی خان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دور اکبری کے نام ور گلوکار اور تان سین کے ہم عصروں میں شامل تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھوں‌ نے والد ہی سے گائیکی سیکھی اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد استاد نزاکت علی خان ملتان آگئے اور بعد میں لاہور کو اپنا مستقر ٹھہرا لیا۔

    جلد ہی ان کا شمار پاکستان کے نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں میں ہونے لگا۔ استاد نزاکت علی خان کو اس فن کی خدمت کے اعتراف میں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز دیا گیا۔

  • استاد امانت علی خان کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    استاد امانت علی خان کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    سُروں کے بے تاج بادشاہ استاد امانت علی خان کو ہم سے بچھڑے آج چوالیس برس بیت گئے، ان کی غزلیں اورگیت آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

    برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی خان 1922 میں غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوائے، موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔

    موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے حصول کے بعد امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے جلد ہی یہ جوڑی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ گئی، بعد ازاں ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے سُر بکھیرنے لگی اور قبولیت سند عام پائی۔

    خدا نے استاد امانت علی خان کو میٹھے لہجے اورعمدہ آواز سے نوازا تھا انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔

    یوں جلد ہی استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی میں اپنے منفرد اندازکے باعث اپنے ہم عصرگلوکاروں جن میں استاد مہدی حسن خان،استاد غلام علی اوراعجاز حضروی میں اپنا ایک الگ مقام اورشناخت بنائی۔

    آج بھی استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔

    ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘ اور ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ بھی شامل ہیں۔

    استاد امانت علی خان کا انتقال 52 سال کی عمرمیں 1974ء میں ہوا، کیا خبر تھی کہ اُن کا وہ جملہ جو وہ اکثر جنی محافل میں کہا کرتے تھے یوں سچ ثابت ہو جائے گا وہ کہا کرتے تھے، ہمیں رضاکارانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں، تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔

  • آج معروف کلاسیکل گائیک استاد امانت علی خان کی 42 ویں برسی ہے

    آج معروف کلاسیکل گائیک استاد امانت علی خان کی 42 ویں برسی ہے

    برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی خان 1932میں غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوائے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔

    موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے حصول کے بعد امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے جلد ہی یہ جوڑی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ گیا بعد ازاں ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے سُر بکھیرنے لگے اور قبولیت سند عام پائی۔

    خدا نے استاد امانت علی خان کو میٹھے لہجے اورعمدہ آواز سے نوازا تھا انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔

    یوں جلد ہی استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی میں اپنے منفرد اندازکے باعث اپنے ہم عصرگلوکاروں جن میں استاد مہدی حسن خان،استاد غلام علی اوراعجاز حضروی میں اپنا ایک الگ مقام اورشناخت بنائی۔

    آج بھی استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔

    ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘ اور ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ بھی شامل ہیں۔

    استاد امانت علی خان کا انتقال 42سال کی عمرمیں1974ء میں ہوا وہ محض 42 برس جئے کیا خبر تھی کہ اُن کے وہ جملے جو وہ اکثر جنی محافل میں کہا کرتے تھے یوں سچ ثابت ہو جائے گا وہ کہا کرتے تھے، ہمیں رضاکارانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں، تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔

    تاہم موسیقی کا یہ سفر یہاں تمام نہیں ہوا اور اُن کے بیٹے شفقت امانت علی جدید اور کلاسیکی موسیقی کی امتزاج کے ساتھ گلوکاری میں مصروف ہیں۔