Tag: استاد بندو خان

  • بندو خان:‌ موسیقار اور باکمال سارنگی نواز

    بندو خان:‌ موسیقار اور باکمال سارنگی نواز

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد دونوں ممالک میں کئی بڑے نام تھے جو اپنے فن میں یکتا اور ہنر میں بے مثال تھے۔ ایک زمانہ میں جب فن و ثقافت اور ہنر کی قدر تھی تو موسیقی کی دنیا میں بندو خاں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا تھا۔ انھیں یہ کمال حاصل تھا کہ وہ سارنگی کی مدد سے مختلف سریلی اور نازک آوازیں نکال سکتے تھے جو عام طور پر سازوں کے ذریعے نہیں پیدا کی جا سکتیں۔

    معروف موسیقار اور سارنگی نواز بندو خان کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 13 جنوری 1955ء کو وفات پاگئے تھے۔

    آج کلاسیکی موسیقی کی دنیا کے بندو خان اور ان جیسے کئی فن کار اور ماہر سازندے ہی ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ بدقسمتی یہ ہے کہ سارنگی اور اس جیسے کئی ساز اپنی تمام تر نزاکت و دل کشی اور کمال و ہنر کے باوجود متروک ہوچکے ہیں۔ نئی نسل کو سارنگی سے کوئی دل چسپی نہیں اور یوں بھی انھیں اس کی باریکیاں کون بتائے اور اس کا سلیقہ قرینہ کوئی نوجوان موسیقار کس سے سیکھے؟ پھر جدید موسیقی میں تو سارنگی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 1959ء میں بعد از مرگ استاد بندو خان کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ بندو خان نے موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے لی، پھر اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم پائی اور ریاضت کرکے فن کو نکھارا۔ آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس سے منسلک ہو گئے۔ بندو خان ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے عزّت اور انعام پاتے رہے تھے۔

    کہتے ہیں کہ ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی تھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    بندو خان 1880ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علی جان خان بھی سارنگی نواز تھے جب کہ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔ یوں اپنے گھر میں فنِ موسیقی پر باتیں اور ساز کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے بندو خان بھی اس کے شیدائی ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے تھے۔ یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور اسی شہر میں ان کا انتقال ہوا۔

    استاد بندو خان کو 500 راگوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ” تان پلٹے “، ” روایتی بندشیں“، ” راگ مالکوس “، ” راگ ملہار “ اور ” راگ بھیرویں “ استاد کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ استاد بندو خاں نے سارنگی بجانے میں تو کمال حاصل کیا مگر وہ اس میں نت نئی تبدیلیاں کرنے کا بھی سوچتے رہتے تھے، اور سارنگی کے تاروں کی تعداد 34 سے گھٹا کر 12 کر دی جس کی وجہ سے اس کے سریلے پن میں اضافہ ہو گیا۔ بندو خان کلاسیکی موسیقی پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔

    افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ استاد بندو خان اپنے فن کے اوج اور نہایت پذیرائی کے باوجود کبھی مالی طور پر آسودہ نہ ہوسکے۔ بہت تنگی ترشی سے وقت گزارا۔ ان کی قدر دانی زبانی جمع خرچ اور واہ وا تک محدود تھی۔ بندو خان نے اُردو اور ہندی میں دو کتابیں بھی تحریر کی تھیں جن کے نام ” جوہرِ موسیقی “ اور ” سنگیت وِوِیک درپَن“ ہیں۔

  • یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    استاد امراؤ بندو خان نے اپنے والد کی طرح موسیقی کے ابتدائی اسباق اور تربیت اپنے ماموں اُستاد چاند خان سے لی تھی۔ یہ اسباق کلاسیکی گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں کے تھے۔

    اس طرح استاد امراؤ بندو خان کو ان خوش نصیبوں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے جو گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں میں مہارت رکھتے تھے۔

    استاد امراؤ بندو خان کی پیدائش 1915ء کی تھی اور 4 اکتوبر 1979ء ان کا یومَ وفات ہے وہ برصغیر پاک و ہند کے نامور گائیک اور سارنگی نواز کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کے والد ہندوستان کے نام ور کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز استاد بندو خان تھے جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔

    امراؤ بندو خان بھی موسیقی اور آواز، راگ راگنیوں اور سازوں کے شیدائی نکلے۔ ان کی سارنگی نوازی میں اپنے والد کی جھلک نظر آتی تو گائیکی میں استاد چاند خان کی۔

    وہ آل انڈیا ریڈیو کے مُستند گائیک تھے، لیکن 1958ء میں پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں میوزک ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔

    استاد امراؤ بندو خان 1958ء سے لے کر اپنی وفات 1979ء تک ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور موسیقار، کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز وابستہ رہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 1981ء میں بعد از مرگ تمغا حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    13 جنوری 1955ء کو نام ور موسیقار اور مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان وفات پاگئے۔ 1959ء میں بعد از مرگ حکومت کی جانب سے ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا۔ آج استاد بندو خان کا یومِ وفات ہے۔

    موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے جب کہ اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ استاد بندو خان آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کے قیام کے فوراََ بعد ہی اس سے منسلک ہو گئے تھے۔ انھوں نے ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں اپنے فن کی بدولت عزت پائی۔

    ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    1880ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے بندو خان کے والد علی جان خان بھی سارنگی بجاتے تھے۔ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ استاد بندو خان نے کراچی ہی میں‌ مختصر علالت کے بعد دارِ فانی سے کوچ کیا۔