Tag: استاد بڑے غلام علی

  • یومِ وفات: استاد بڑے غلام علی خان کو ‘سُر دیوتا’ کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: استاد بڑے غلام علی خان کو ‘سُر دیوتا’ کہا جاتا ہے

    آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی میں‌ ممتاز پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ استاد بڑے غلام علی 23 اپریل 1968ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    استاد بڑے غلام علی خان 4 اپریل 1902ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ اور اس کے رتنوں میں شامل تھے۔ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔

    استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوگئے۔ ان کے فن کی شہرت جلد ہی ہندوستان بھر میں پھیل گئی جس کے بعد انھیں موسیقی کی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کرکے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

    استاد بڑے غلام علی کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے تجربے کو اہمیت دی اور گائیکی میں بعض ایسی ترامیم کیں جو اس کی خوبی اور اس کا حُسن بن گئیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر یہاں ریڈیو پر افسران کے بعض رویوں سے دل برداشتہ ہوکر انھوں نے 1954ء میں وطن چھوڑ دیا۔ ہجرت کرنے کے بعد استاد بڑے غلام علی خان کو بھارت میں بڑی پذیرائی ملی اور وہاں پدم بھوشن کے علاوہ سُر دیوتا، سنگیت سمراٹ اور شہنشاہِ موسیقی جیسے خطاب اور القاب کے علاوہ انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔

  • برصغیرکے عظیم موسیقاراستاد بڑے غلام علی کی سالگرہ

    برصغیرکے عظیم موسیقاراستاد بڑے غلام علی کی سالگرہ

     آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی سال گرہ ہے، برصغیر کے کئی نامور گلوکاروں کے شاگرد استاد بڑے غلام علی کے سروں کی شہرت پورے برصغیر میں تھی۔ 

    استاد بڑے غلام علی خان کا تعلق موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ 2 اپریل 1902 ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھے اور اس کے رتنوں میں شامل تھے جب کہ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوئے۔

    جلد ہی استاد بڑے غلام علی خان کے فن کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی۔ انہوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں شرکت کی اور اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے گائیکی میں اپنی ترامیم سے بہت سی خوبیاں پیدا کیں۔ ان کی آواز میں ایک گھومتا سا ارتعاش تھا اور گانے میں بافراغت گفتگو کی سی بے تکلفی تھی جو لاہور کی فصیل کے اندر رہنے والے مسلمان بے فکروں سے مخصوص ہے۔ جن لوگوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تان سین‘ بیجو باورا اور نائک ہری داس سوامی کے ہم مرتبہ فنکار تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے ریڈیو پاکستان کے بڑے افسران کی بےحسی اور تحکمانہ انداز سے دلبرداشتہ ہوکر 1954ءمیں وہ بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔

    بھارت میں استاد بڑے غلام علی خان کی بڑی پذیرائی ہوئی اور انہیں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے علاوہ سردیوتا‘ سنگیت سمراٹ اور شہنشاہ موسیقی جیسے خطابات کے علاوہ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔

    استاد بڑے غلام علی خان 23 اپریل 1968ءکو حیدرآباد (دکن) میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے ایک عقیدت مند نواب مشیر یار جنگ کے پاس مقیم تھے۔ وہ حیدرآباد(دکن) ہی میں آسودہ خاک ہوئے۔