Tag: استاد دامن

  • یومِ وفات: جواہر لال نہرو نے استاد دامن کو ‘آزادی کا شاعر’ کے لقب سے یاد کیا

    یومِ وفات: جواہر لال نہرو نے استاد دامن کو ‘آزادی کا شاعر’ کے لقب سے یاد کیا

    استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریبوں کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ کرتے اور مظلوم طبقے کی آواز بنے رہے۔ استاد دامن عوام کے شاعر تھے۔ پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر نے مشقت کی چکی میں پستے ہوئے اور اپنے حقوق سے محروم عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کو موضوع بنایا۔ حق گو اور جرات مند استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    پاکستان ہی نہیں استاد دامن سرحد پار بھی استحصالی نظام اور سامراج مخالف نظموں کی وجہ سے مشہور تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو بھی استاد دامن سے متاثر تھے۔ نہرو نے استاد دامن کی نظمیں سنیں تو انھیں ’آزادی کا شاعر‘ کے لقب سے یاد کیا۔

    استاد دامن نے اپنی پنجابی شاعری میں جرأتِ اظہار کا جو راستہ اپنایا، وہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ فیض اور جالب کی طرح استاد دامن نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ اپنی نظموں سے شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنا پنجابی کلام سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھتے تو حاضرین اور سامعین میں جوش و ولولہ پیدا ہو جاتا۔ ان کا کلام اس قدر اثر انگیز تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ان کا کلام سُننے والے رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے جو استاد دامن سے بہت مثاثر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہونے کی دعوت دی تھی۔ استاد دامن کا جواب تھا کہ ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے۔ عالمی ادب پر ان کی گہری نظر رہی۔ مطالعہ اور کتب بینی نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے ملک کے عوام کی حالت دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ استاد دامن کے اسی مشاہدے اور تجربے نے اُن کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس نے ایک طرف انھیں عوام میں مقبول بنا دیا، اور دوسری طرف ان کے یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں کھب گئے۔

    پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

    چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر دکان سے نکل کر کسی علمی اور ادبی مجلس میں یا مشاعرے میں جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت کے جذبے اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا، لیکن پھر ان کی نظموں اور پنجابی شاعری میں سیاسی و سماجی شعور جھلکنے لگا اور وہ ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

    استاد دامن نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

    لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں۔ دوسری طرف تقسیمِ ہند کا واقعہ پیش آیا تو ان کے بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے پر مجبور ہو گئے۔ انھیں‌ اس کا بہت رنج تھا۔ استاد دامن تنگ دستی اور کئی مالی مسائل کا شکار بھی رہے اور مشکل حالات میں زندگی گزاری، لیکن وہ بہت خود دار تھے۔ استاد دامن نے اپنی شہرت اور مقبولیت یا تعلقات کا فائدہ نہیں اٹھایا اور کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

    اپنے وقت کی قابل شخصیات اور مشاہیرِ ادب نے پنجابی استاد دامن کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔ عوامی شاعر استاد دامن لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریب اور مظلوم طبقے کی آواز بنے۔ وہ عوام کے شاعر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ استحصالی طبقے کی مذمت کی اور ملک کے پسے ہوئے اور مظلوم عوام کا ساتھ دیا۔ حق اور سچ کا ساتھ دینے اور عوام کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حاکمِ وقت اور استحصالی ٹولے کے سامنے جس بے خوفی سے انھوں نے جرأتِ اظہار کا راستہ اپنایا، اس کا مظاہرہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فیض اور جالب کی طرح انھوں نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن کی وجہِ شہرت ان کا پنجابی کلام ہے جسے انھوں نے سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھا اور مقبول ہوئے۔

    ان کی مقبولیت اور کلام کی تاثیر کا عالم یہ تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں حاضرین ان کا کلام سُن کر رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے۔ مشہور ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہو جانے کی دعوت دی تو استاد دامن نے جواب دیا: ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے اور عالمی ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔ کتب بینی کی پختہ عادت نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے سماج میں سانس لیتے عوام کو دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ اس مشاہدے اور تجربے نے ان کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس میں غریبوں کے لیے امید اور ولولہ تھا، لیکن ان کے = یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں نشتر بن کر اتر گئے۔

    پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

    چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر والد کو کہہ کر دکان سے مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنائے رکھا، لیکن مطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور بڑھنے کے ساتھ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

    استاد دامن کی شاعری میں بہت تنوّع تھا۔ انھوں نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

    لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں جب کہ تقسیم کے بعد بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے۔ اس کا انھیں‌ بہت رنج تھا۔ انہی دنوں وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے جس نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، لیکن استاد دامن بہت خود دار تھے۔ انھوں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

    ہر دور میں مشاہیرِ ادب اور قابل شخصیات نے پنجابی زبان و ادب کے لیے استاد دامن کی خدمات کے معترف رہے ہیں۔

    پنجابی زبان کا یہ مقبول شاعر لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوا۔

  • پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کی 35 ویں‌ برسی آج منائی جارہی ہے

    پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کی 35 ویں‌ برسی آج منائی جارہی ہے

    استاد دامن کا تذکرہ ہو تو جہاں ان کی سادہ بود وباش اور بے نیازی کی بات کی جاتی ہے، وہیں جرأتِ اظہار اور حق گوئی کی بھی مثال دی جاتی ہے۔ اس کثیرالمطالعہ اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار کو پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اول کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    استاد دامن کا حافظہ قوی اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری عوامی جذبات کی ترجمان اور جذبۂ حبُ الوطنی سے آراستہ ہے۔ مصلحت سے پاک، کسی بھی قسم کے خوف سے آزاد اور عوامی لہجہ استاد دامن کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جس طرح اردو میں فیض و جالب نے جبر اور ناانصافی کے خلاف نظمیں‌ کہیں اور لوگوں میں‌ شعور بیدار کیا، اسی طرح استاد دامن نے سیاسی جلسوں، عوامی اجتماعات میں پنجابی زبان میں اپنے کلام کے ذریعے استحصالی ٹولے اور مفاد پرستوں کو بے نقاب کیا۔

    آج پنجابی ادب کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔ استاد دامن کو دنیا سے رخصت ہوئے 35 برس بیت چکے ہیں، مگر ناانصافی، عدم مساوات اور جبر کے خلاف ان کے ترانے، نظمیں آج بھی گویا زندہ ہیں۔ پنجابی کے علاوہ استاد دامن اردو، ہندی اور دیگر زبانوں سے واقف تھے۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ زندگی بھر سادگی اور حق گوئی کی مثال بنے رہے۔ صلے اور ستائش کی تمنا سے آزاد اور سچائی کا ساتھ دینے والے اس شاعر کا سن پیدائش 1910 ہے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں استاد دامن کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ استاد دامن نے بھی معاش کے لیے یہی کام کیا اور باوقار انداز سے زندگی گزاری۔

    استاد دامن نے پنجابی شاعری اور فن پر گرفت رکھنے کے سبب اہلِ علم نے انھیں استاد تسلیم کیا اور پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ وہ 3 دسمبر 1984 کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔