Tag: استولا

  • سمندری حیات کے لیے پاکستان کا پہلا محفوظ جزیرہ

    سمندری حیات کے لیے پاکستان کا پہلا محفوظ جزیرہ

    گوادر: بلوچستان کی حکومت نے ضلع گوادر کے ساحل سے 40 کلومیٹر دور واقع جزیرے استولا کو سمندری حیات کے لیے محفوظ علاقہ قرار دے دیا ہے‘ یہ پاکستان کا پہلا ایسا علاقہ ہے جسے یہ درجہ دیا گیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس اقدام کا مقصد جزیرے اور اس کے اردگرد پائی جانے والی سمندری حیات، پرندوں اور ان کے مسکن کو انسانوں کی مداخلت اور سرگرمیوں سے پہنچنے والے نقصان سے بچانا ہے۔

    حکومتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر جزیرے کی زمین یا اس کے گرد سمندر کا استعمال نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ یہ وہاں کے حیاتیاتی ماحول کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

    جزیرہ استولا ۔ دیکھیں جزیرے کی خوبصورت تصاویر

    یہ جزیرہ اب عام لوگوں کی تفریح اور تعلیمی مقاصد کے لیے بھی اس وقت کھولا جائے گا جب حکومت اس کی اجازت دے گی۔

    محفوظ علاقہ قرار دیے جانے کے بعد اب اس جزیرے پر ایسے کسی بھی کام کی ممانعت ہوگی جس کی وجہ سے جزیرے پر یا سمندر میں موجود حیات کی نشوونما اور افزائش نسل کے نظام میں خلل پڑے۔

    ممنوعہ اقدامات


    وہیل، شارکس، کچھووں اور پرندوں سمیت ایسے تمام جانداروں کا شکار یا انھیں جال میں پھنسا کر پکڑنا منع ہو گا جن کی نسلوں کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔

    جزیرے پر کسی بھی قسم کی عارضی یا مستقل تعمیرات کی اجازت نہیں ہوگی۔

    متعلقہ حکام سے اجازت کے بغیر یہاں قیام نہیں کیا جا سکے گا۔

    قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ کسی کو بھی ہتھیار لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

    حکام سے اجازت کے بغیر جزیرے پر سکوبا ڈائیونگ، زیر آب تیراکی، کلف ڈائیونگ، جیٹ سکیئنگ، کشتی رانی، سرفنگ یا ماہی گیری کی اجازت نہیں ہوگی۔


    اس جزیرے کی کل لمبائی ساڑھے تین کلومیٹر اور چوڑائی ڈیڑھ کلومیٹر ہے اور یہ سمندری علاقہ نہ صرف ماہی گیری کے حوالے سے بہت زیادہ زرخیز ہے بلکہ استولا کا جزیرہ سردیوں میں روس اور دنیا کے دیگر ممالک سے آنے والے پرندوں کا مسکن بھی بنتا ہے جو یہاں آ کر انڈے دیتے ہیں۔

    انٹرنینشل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) کے مطابق استولا کا جزیرہ چھوٹی چٹانی پہاڑیوں پر مشتمل ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔

    ادارے کے مطابق یہاں ملنے والی کئی آبی حیات اور نباتات پاکستان کے دیگر علاقہ جات تو کیا کسی دوسرے ملک میں بھی نہیں ملتیں۔

    صرف اس جزیرے پر پائے جانے والے جانداروں میں سن وائپر نامی زہریلا سانپ اہم ہے۔ اس کے علاوہ یہاں گریٹر کرسٹیڈ نامی پرندہ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہے جبکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں ان کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔

    اس جزیرے کے ساحل پر معدومی کے خطرے کا شکار سبز اور ہاکس بل کچھووں کی انڈے دینے کی جگہیں بھی ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • جزیرہ استولا ۔ پاکستان کی گم گشتہ جنت

    جزیرہ استولا ۔ پاکستان کی گم گشتہ جنت

    گوادر: جزیرہ استولا جسے جزیرہ ہفت تلار یا ’سات پہاڑوں کا جزیرہ‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کا ایک غیر آباد جزیرہ ہے۔ صوبہ بلوچستان میں پسنی کے ساحل سے قریب یہ جزیرہ تقریباً 40 کلو میٹر بحیرہ عرب کے اندر واقع پاکستان کا سب سے بڑا سمندری جزیرہ ہے۔

    تقریباً 6.7 کلو میٹر طویل اور 2.3 کلو میٹر چوڑے اس جزیرہ کا بلند ترین مقام سطح سمندر سے 75 میٹر ہے۔ یہ جزیرہ پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل پسنی کا حصہ ہے۔

    اس جزیرے کے غیر آباد ہونے اور یہاں سیاحوں کی آمد ورفت نہ ہونے کی وجہ اس کے سفر کی طوالت ہے۔ کراچی سے 7 گھنٹے تک پسنی کے سفر کے بعد آپ کو ایک موٹر بوٹ کی ضرورت پڑے گی جس میں مزید 3 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد آپ استولا پہنچیں گے۔

    تاریخ میں اس جزیرہ کا ذکر ایڈمرل نیرکوس کے حوالے سے ملتا ہے جسے 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے ساحلی علاقوں کی کھوج میں روانہ کیا تھا۔

    سنہ 1982 میں حکومت پاکستان نے یہاں گیس سے چلنے والا ایک روشنی کا مینار (لائٹ ہاؤس) بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے تعمیر کیا تھا جسے بعد میں سنہ 1987 میں شمسی توانائی کے نظام میں تبدیل کردیا گیا۔

    ستمبر سے مئی کے مہینوں کے درمیان ماہی گیر یہاں کیکڑوں اور جھینگوں کے شکار کے لیے آتے ہیں۔

    یہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے جسے حضرت خضرؑ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہندوؤں کے ایک پرانے مندر کے کھنڈرات کے آثار بھی یہاں موجود ہیں۔

    جزیرے پر موجود پہاڑیوں کی ہیئت نہایت عجیب و غریب اور منفرد ہے۔ کچھ پہاڑیوں میں غار بھی ترشے ہوئے موجود ہیں جو قدرتی ہیں۔

    بارشوں کے بعد جزیرے پر جا بجا سبزہ اگ آتا ہے۔ بارش کے علاوہ یہاں میٹھے پانی کی فراہمی کا کوئی ذریعہ نہیں لہٰذا سبزہ بھی کچھ عرصے بعد ختم ہوجاتا ہے۔

    یہاں پر صرف کیکر ایسا پودا ہے جو ہر قسم کے حالات میں زندہ رہ سکتا ہے اور سارا سال دکھائی دیتا ہے۔

    جزیرے کا شفاف نیلا پانی غروب آفتاب کے وقت نہایت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔

    سفر کی طوالت کے باوجود کئی لوگ یہاں کی سیر کو آتے ہیں تاہم ان کی تعداد بے حد کم ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔