Tag: اسحاق ڈار

  • اثاثہ جات ریفرنس کیس، جےآئی ٹی سربراہ واجدضیاآج بطور گواہ پیش نہ ہوئے، 8 فروری کو طلب

    اثاثہ جات ریفرنس کیس، جےآئی ٹی سربراہ واجدضیاآج بطور گواہ پیش نہ ہوئے، 8 فروری کو طلب

    اسلام آباد : اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سےزائد اثاثہ جات ریفرنس کیس میں جےآئی ٹی سربراہ واجد ضیا آج بطور گواہ پیش نہ ہوئے ، احتساب عدالت نے واجد ضیا کو 8 فروری کو طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈارکےخلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی ، سماعت کے دوران پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا بطور گواہ پیش نہیں ہوئے۔

    ایس ای سی پی کی سدرہ منصور نے عدالت میں اضافی دستاویزات جمع کرادیں، سدرہ منصور نے بتایاکہ اسحاق ڈار کی کمپنیوں سےمتعلق دو دستاویز رہ گئے تھے، جو جمع کرائے گئے۔

    سدرہ منصور نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 1993 سے 2009 کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا۔

    ایس ای سی پی کےگواہ سلمان سعید نے ریکارڈ پیش کرنے کیلئے مہلت مانگتے ہوئے کہا ریکارڈ کراچی سے آرہا ہے،کچھ دیر میں پہنچ جائےگا۔.

    عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔

    واجد ضیاء 8 فروری کو طلب

    وقفے کے بعد سماعت کے دوران واجد ضیاء کو بلانے کے حوالے سے پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کا کہنا تھا کہ عدالت واجد ضیاء کو طلبی کا نوٹس جاری کرے۔

    احتساب عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ سمن کیوں جاری کریں، واجد ضیاء استغاثہ کے گواہ ہیں۔ نیب انہیں خود لے کر آئے، احتساب عدالت کی جانب سے آٹھ فروری کو دو گواہوں واجد ضیاء اور نیب کے تفتیشی افسر نادر عباس کے بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا ہے۔

    اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کے دوران آج دو گواہوں سدرہ منصور اور سلمان سعید کے بیان ریکارڈ کئے گئے، گواہ سلمان سعید نے اسحاق ڈار کی کمپنیوں ہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ، ہجویری مضاربہ مینیجمنٹ ،کور کیمیکل پرائیویٹ لمیٹڈ ،سپینسر فارما پرائیویٹ لمیٹڈ اور سپینسر ڈسٹریبیوشن کمپنی سے متعلق ریکارڈ احتساب عدالت میں پیش کیا۔

    کیس کی مزید سماعت آٹھ فروری کو ہوگی۔


    مزید پڑھیں : اثاثہ جات ریفرنس: اسحاق ڈار کےخلاف گواہ سدرہ منصور کا بیان قلمبند


    یاد رہے گذشتہ روز سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے خلاف آمدن سےزائد اثاثہ جات ریفرنس میں چھ مزیدگواہوں نے بیان ریکارڈکروایا تھا۔

    اہم گواہ کمشنر اِن لینڈریوینیو کے افسر اشتیاق احمد نے عدالت کو بتایا تھا کہ انیس سوترانوے سے دوہزارنوتک اسحاق ڈارکے اثاثوں میں اکانوے فیصد اضافہ ہوا جبکہ انہوں نے اسحاق ڈار کا 1979سے1993تک اور2009سے2016تک کا ٹیکس ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا۔

    استغاثہ کے گواہ ڈسٹرکٹ افسرانڈسٹریزاصغرحسین نے ہجویری آرگن ٹرانسپلانٹ ٹرسٹ کےڈائریکٹرزکی تفصیلات نیب کوفراہم کرتے ہوئے بتایا اسحاق ڈار ٹرسٹ کے صدر تھے جبکہ ڈائریکٹرز میں سابق چیف سیکرٹری پنجاب ناصر محمود کھوسہ بھی شامل تھے۔


    مزید پڑھیں : اثاثہ جات ریفرنس: 16 سال میں اسحاق ڈار کی دولت میں91 گنا اضافہ ہوا


    اس کے علاوہ استغاثہ کے گواہان نیب کے افسرشکیل انجم ، ڈپٹی ڈائریکٹرنیب اقبال حسن ، نیب پولیس اسٹیشن لاہورکےافسرعمر دراز، نیب اسسٹنٹ ڈائریکٹرزاور منظور نے بھی بیان قلمبندکرایا۔

    احتساب عدالت میں گواہی کا سلسلہ آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ۔ عدالت نے مجموعی طور پر اٹھائیس گواہوں کے بیانات قلمبند کرنا ہیں، جن میں اہم ترین گواہ اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجدضیاء کا بیان بھی شامل ہے، عدالت ابتک چوبیس گواہوں کے بیانات قلمبند کرچکی ہے۔

    خیال رہے کہ آمدن سےزائد اثاثہ جات ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب کی سربراہی میں نیب پراسیکیوشن ونگ نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں ، داماد اور اسحاق ڈار کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنسزدائرکیے تھے۔قومی احتساب بیورو کی ٹیم نے شریف خاندان کے خلاف 3 اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف 1 ریفرنس دائر کیا تھا۔

    وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف سیکشن 14 سی لگائی گئی ہے ‘جو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے۔ نیب کی دفعہ 14 سی کی سزا 14 سال مقرر ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اثاثہ جات ریفرنس: اسحاق ڈار کےخلاف گواہ سدرہ منصور کا بیان قلمبند

    اثاثہ جات ریفرنس: اسحاق ڈار کےخلاف گواہ سدرہ منصور کا بیان قلمبند

    اسلام آباد: اسحاق ڈار کےخلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں استغاثہ کی گواہ سدرہ منصور کا بیان قلمبند کر لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے احتساب عدالت میں نیب ریفرنس سے متعلق سماعت ہوئی، عدالت نے نیب کے  ایک اور گواہ تفتیشی افسر واجد ضیا کو طلب کرتے ہوئے پراسیکیوٹر سے  کہا کہ جلد ان کی حاضری یقینی بنائیں۔

    جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ واجد ضیا کی حاضری کے لیے ایک دو دن کی مہلت دی جائے، جلد عدالت میں پیش ہونگے۔

    اثاثہ جات ریفرنس: 16 سال میں اسحاق ڈار کی دولت میں91 گنا اضافہ ہوا

    خیال رہے کہ  گزشتہ روز کی سماعت میں استغاثہ کے 6 گواہان شکیل انجم، ڈپٹی ڈائریکٹرنیب اقبال حسن ، عمردراز گوندل، محمد اشتیاق، ڈسٹرکٹ افسرانڈسٹریزاصغرحسین اورنیب اسسٹنٹ ڈائریکٹر زاورمنظورنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

    گزشتہ روز جج محمد بشیر کی سربراہی میں ہونے والے نیب ریفرنس کی سماعت میں استغاثہ کے گواہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سابق وزیرخزانہ کی دولت میں 16 سال کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا۔

    اسحاق ڈار، ان کی اہلیہ اورکمپنی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات عدالت میں پیش

    اسحاق ڈار کے اثاثوں کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے گواہ اشتیاق احمد نے انکشاف کیا تھا کہ جون 1993 میں اسحاق ڈار کے کُل اثاثے 91 لاکھ 12 ہزار سے زائد تھے جو جون 2009 تک 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار سے زائد ہوگئے۔

    خیال رہے اب تک اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں استغاثہ کے 28 میں سے 25 گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے گئے ہیں جبکہ عدالت نے نیب کے ایک اور گواہ تفتیشی افسر واجد ضیا کو طلب کر رکھا ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت نے ہجویری ٹرسٹ کا اکاؤنٹ  جزوی طور پر بحال کردیا

    احتساب عدالت نے ہجویری ٹرسٹ کا اکاؤنٹ جزوی طور پر بحال کردیا

    اسلام آباد :احتساب عدالت نے ہجویری ٹرسٹ کا اکاؤنٹ جزوی طور پر بحال کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد احتساب عدالت میں اسحاق ڈار کی ہجویری ٹرسٹ اکاؤنٹ کی بحالی کیلئے درخواست کی سماعت ہوئی ، اسحاق ڈارکےوکیل کا کہنا تھا کہ ہجویری ٹرسٹ یتیموں کا ادارہ ہے، ادارے میں سیکڑوں بچے زیرکفالت ہیں، جب سے یہ کیس بنا ہے، اکاؤنٹ غیر فعال ہوگئے ہیں۔

    اسحاق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہجویری فاؤنڈیشن پانچ سے چھ کروڑ روپے مختلف اسپتالوں کو ڈائیلاسز کیلئے دے رہا ہے اور ہجویری فاؤنڈیشن ہی ٹرسٹ کو بھی فنڈز دے رہا ہے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہجویری ٹرسٹ میں یتیم بچے ہیں، ادارہ اچھےمقصد کیلئے بنا مگرغلط استعمال کیا جارہا ہے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ کا پیسہ کوئی غلط استعمال کیسے کرسکتا ہے؟ تین سال کے اخراجات کی دستاویزات جمع کرادی ہیں۔

    احتساب عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ہجویری ٹرسٹ کےاکاؤنٹس جزوی طور پر بحال کردیئے اور کہا کہ جویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹس کو جزوی طور پر بحال کیا گیا ہے ویلفیئر کے منصوبوں پررقم خرچ کی جا سکتی ہے۔


    مزید پڑھیں : اسحاق ڈار کی ہجویری ٹرسٹ کے منجمد اکاؤنٹ فعال کرنے کی درخواست


    یاد رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے احتساب عدالت میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے ہجویری ٹرسٹ کے منجمد اکاؤنٹ فعال کرنے کی استدعا کی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ ہجویری ٹرسٹ یتیموں کا ادارہ ہے جس میں 93 یتیم بچے رہتے ہیں۔ اکاؤنٹ بحال نہ کیا گیا تو ادارہ بند کرنا پڑے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • نیب کواسحاق ڈارکےاعتراضات کاجواب داخل کرانےکےلیےآخری مہلت

    نیب کواسحاق ڈارکےاعتراضات کاجواب داخل کرانےکےلیےآخری مہلت

    اسلام آباد : عدالت نے اثاثہ جات ریفرنس میں نیب کو سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے اعتراضات پرجواب داخل کرانے کے لیے آخری مہلت دیتے ہوئے سماعت 22 جنوری تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نےنیب کی جانب سے اسحاق ڈار کے خلاف دائر اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پرجج محمد بشیر نے پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ عدالتی کارروائی پرجوحکم امتناع تھا اس کا کیا بنا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسحاق ڈار کی پٹیشن خارج کردی۔

    نیب پراسیکیوٹرعمران شفیق نے کہا کہ اسحاق ڈار کی مرکزی پٹیشن ہی خارج ہوگئی ہے جبکہ ریفرنسز کے 28 میں ست 10 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر زیادہ سے زیادہ گواہان کو بلایا جائے۔

    عدالت نے نیب کو اسحاق ڈار کی جانب سے دائر اعتراضات کا جواب داخل کرانے کے لیے آخری مہلت دیتے ہوئے ریفرنس کی سماعت 22 جنوری تک ملتوی کردی۔

    احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے ہجویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹ بحالی سے متعلق سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ہجویری ٹرسٹ کی بحالی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔


    اسلام آباد ہائیکورٹ کا احتساب عدالت کو اسحاق ڈار کے خلاف ٹرائل جاری رکھنے کاحکم


    یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسحاق ڈار کی جانب سے انہیں اشتہاری قرار دینے کے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے احتساب عدالت کو ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ 20 دسمبر کو اسحاق ڈار کی درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا تھا جس کے بعد احتساب عدالت نے ریفرنس پرکارروائی روک دی تھی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عدالت کا نیب عدالت کو اسحاق ڈار کیخلاف ٹرائل جاری رکھنے کا حکم،  میڈیکل رپورٹ بھی مسترد

    عدالت کا نیب عدالت کو اسحاق ڈار کیخلاف ٹرائل جاری رکھنے کا حکم، میڈیکل رپورٹ بھی مسترد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسحاق ڈارکی درخواست خارج کرتے ہوئے نیب عدالت کو اسحاق ڈار کیخلاف ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیدیا اور اسحاق ڈارکی میڈیکل سرٹیفکیٹ رپورٹ بھی مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اورجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اسحاق ڈار کی نیب کورٹ کو سماعت سے روکنے درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ قانون سب کے لئے برابرہے، کسی کو ماورائے آئین ریلیف نہیں مل سکتا، میڈیکل سرٹیفکیٹ کے مطابق ڈاکٹرز نے اسحاق ڈار کو آرام کی تائید کی ہے، سفرسےتونہیں روکا؟۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈارکی تازہ میڈیکل رپورٹ جمع کرانا چاہتا ہوں، ڈاکٹرز نے چھ ہفتے آرام کا مشورہ دیا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تیس دن سے زیادہ وقت آئینی طور پر نہیں دے سکتے، ڈاکٹرزلکھتے کہ ایئرایمبولیس سے بھی نہیں آسکتے تو ریلیف مل جاتا، نیب کو بھی چاہئے تھا کہ لندن ٹیم بھیج دیتے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اسحاق ڈار کا کہنا ہےعارضہ قلب کی وجہ سے دو قدم بھی نہیں چل سکتے، اسحاق ڈار اتنے بیمار ہیں تو ڈاکٹرز دل کا آپریشن کیوں نہیں کرتے، ملزم کو ایسی کوئی بیماری نہیں جس کے باعث وہ پاکستان نہ آسکے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اسحاق ڈار احتساب عدالت کے ٹرائل سے بھاگنا چاہتے ہیں، جس پر اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم عدالتی کارروائی سے بھاگنا نہیں چاہتے۔


    مزید پڑھیں : نیب کو اسحاق ڈارکیخلاف کارروائی سے روکنے کا عدالتی حکم


    عدالت نےاسحاق ڈار کی میڈیکل رپورٹ مسترد کرتے ہوئے نیب عدالت کو اسحاق ڈار کیخلاف ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا۔

    گزشتہ سماعت میں عدالت نے اسحاق ڈار کے ساتھ ضامن کا بھی کیس بھی یکجا کرتے ہوئے احتساب عدالت کو اسحاق ڈار کیخلاف کارروائی سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب اسحاق ڈار اور ان کے ضامن کیخلاف بھی17جنوری تک کوئی کارروائی نہ کرے۔

    خیال رہے کہ آمدن سےزائد اثاثہ جات ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب کی سربراہی میں نیب پراسیکیوشن ونگ نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں ، داماد اور اسحاق ڈار کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنسزدائرکیے تھے۔قومی احتساب بیورو کی ٹیم نے شریف خاندان کے خلاف 3 اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف 1 ریفرنس دائر کیا تھا۔

    وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف سیکشن 14 سی لگائی گئی ہے ‘جو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے۔ نیب کی دفعہ 14 سی کی سزا 14 سال مقرر ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اثاثہ جات ریفرنس : اسحاق ڈارکےخلاف سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی

    اثاثہ جات ریفرنس : اسحاق ڈارکےخلاف سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ہائی کورٹ کی جانب سے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دینے اور ان کے نا قابل ضمانت وارنٹ پرحکم امتناع کے فیصلے کی مصدقہ نقول عدالت میں کاپی پیش کی۔


    نیب کو اسحاق ڈارکیخلاف کارروائی سے روکنے کا عدالتی حکم


    نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 17 جنوری تک اسٹے آرڈر دے رکھا ہے جس کے بعد عدالت نے سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ اسحاق ڈار کے وکیل نے ناقابل ضمانت وارنٹ اور اشتہاری قرار دینے کے احتساب عدالت کے حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پرعدالت نے 17 جنوری تک حکم امتناع جاری کیا تھا۔


    آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کیس ، اسحاق ڈار اشتہاری قرار


    یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 11 دسمبر کو آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں سماعت کے دوران مسلسل غیرحاضری پراسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان  نے نیب کو حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی،  عدالت نے نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نیب کےدلائل سےمطمئن نہیں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرملزکیس کی سماعت کی، سپریم کورٹ کے3رکنی بینچ نے مختصرفیصلہ سناتے ہوئے نیب کی اپیل مسترد کردی اور کہا کہ عدالت نیب کےدلائل سےمطمئن نہیں ہوئی، درخواست مسترد کرنے کی وجہ تحریری فیصلےمیں بتائی جائےگی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر اسپیشل پراسیکیوٹر نیب شاہ خاور نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی تک میرا کردار نگران کا ہوگا، پراسیکیوٹرجنرل کا عہدہ خالی ہونے پرنوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکا، اسپیشل پراسیکیوٹر کا تقرر پراسیکیوٹر جنرل کرتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائزنے ریمارکس دیے کہ جس بیان پرآپ کیس چلا رہے ہیں وہ دستاویزلگائی ہی نہیں، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ اسحاق ڈارکے بیان کونکالاجائے توان کی حیثیت ملزم کی ہوگی۔

    سماعت میں جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ اسحاق ڈارکوتوآپ نے فریق ہی نہیں بنایا، ہم اپیل نہیں سن رہے ابھی تاخیر پرکیس ہے، تاخیرکی رکاوٹ دورکریں پھرکیس بھی سنیں گے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسارکیا کہ چارج کب فریم کیا گیا، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ملزم کے نہ ہونے سے چارج فریم نہیں کیا جاسکا،  کئی سال کیس چلا اور چارج فریم نہیں کیا گیا، جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریماکس دیے کہ کیس کی کاپی پرکوئی حکم امتناع نہیں تھا۔


    حدیبیہ کیس: نیب کی بنائی گئی کہانی باربارتبدیل ہورہی ہے‘ سپریم کورٹ


    دوران سماعت جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کیا آپ نے ریفرنس بحالی کے لیےکچھ کیا، جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ احتساب عدالت کی آخری سماعت کا حکم نامہ دکھائیں۔

    نیب پراسیکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ آخری سماعت کا حکم نامہ پاس نہیں ہے، جسٹس مظہرعالم نے ریماکس دیے کہ آپ کی نیت کاپتہ تواحتساب عدالت کارروائی سے چلے گا، حکم امتناع کےباعث احتساب عدالت کی کارروائی نہیں چلی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ یہ سب کچھ بہت دلچسپ ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس تب فائل ہوا جب مشرف کی حکومت تھی، مشرف نے چیئرمین نیب لگایا،  چیئرمین کے دستخط کا حکم ملا تو2 سال بعد درخواست دی، نیب درخواست دائر کرکے بھول گیا، حکم امتناع کی درخواست کے بھی ایک سال بعد نیب نے رابطہ کیا، جو ریکارڈ میں نہیں ہے کہہ دیں نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے آپ اس سب کےذمہ دار نہیں ہیں جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط یا صحیح تھا مگر اپیل دائرنہیں کی گئی،  آپ کو کہنا چاہیے ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط تھا جبکہ آپ کہہ رہے ہیں مشرف کے چیئرمین نے کیس خراب کیا؟ سوال اٹھے گا ریفرنس بنا کرچھوڑ دیں گے، کیا ریفرنس تب استعمال کریں گے جب ضرورت پڑے گی۔

    انکا مزید اپنے ریمارکس دیے کہ نیب کےکام میں مداخلت کرنے والےکے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے، نیب اتنے سال سے کیا کررہا ہے، مشرف دورمیں نوازشریف کوسزا بھی ہوئی جبکہ سزا بڑھانے کے لیے درخواستیں بھی دائرہوئیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ایسےمقدمات میں سیاسی پہلو بھی ہوتےہیں جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی تحقیقات میں نئے شواہد سامنے آئے۔


    مزید پڑھیں : حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا


    عمران الحق نے کہا کہ شواہد پرنیب میٹنگ میں سپریم کورٹ میں اپیل دائرکرنے کا فیصلہ ہوا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ پاناما آبزرویشن کے بجائے نیب اپنے پاؤں پرکھڑا ہو۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ جب تک لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم نہ ہوتحقیقات نہیں ہوسکتی جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے نوازشریف کیس کا حوالہ دیا گیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ نوازشریف کیس میں سزاہوئی تھی جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں 8 سال 136 دن تاخیرتھی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس مشیرعالم نے نیب وکیل کو ہدایت کی تھی کہ آئندہ سماعت پردلائل شواہد تک محدود رکھیں، عدالت کو منی ٹریل اوراپیل میں تاخیرمیں مطمئن کرنا ہوگا۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے تھے کہ کیس کے میرٹ کاجائزہ لینا ٹرائل کورٹ کا کام ہے، ضرورت پڑی تو تکینکی ماہر کو بھی سن لیں گے، اصل رکاوٹ تاخیر سے اپیل دائر کرنا ہے۔

    گذشتہ سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا نیب کو مزید تحقیقات کے لیے پچاس سال لگ جائیں گے۔

    جسٹس قاضی فائز نے ریماکس دیے کہ تھے ہمارےساتھ کھیل نہ کھیلیں، حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے، سپریم کورٹ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں۔

    یاد رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  حدیبیہ پیپر ملز، اسحاق ڈار کے خلاف بحثیت ملزم تحقیقات کا آغاز


    جس کے بعد نیب نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ کھولنے جارہی ہے جبکہ حدیبیہ کیس کےحوالےسے چیئرمین نیب کوبھی عدالت میں طلب کیا گیا تھا ۔

    خیال رہے کہ یہ کیس شہباز شریف کی سیاست کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے

    واضح رہے کہ حدیبیہ ریفرنس سترہ سال پہلےسن دوہزارمیں وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے اعترافی بیان پرنیب نےدائرکیاتھا۔انہوں نےبیان میں نوازشریف کے دباؤپرشریف فیملی کے لیے ایک ارب چوبیس کروڑ روپےکی منی لانڈرنگ اورجعلی اکاؤنٹس کھولنےکااعتراف کیاتھا۔

    شریف برادران کی جلاوطنی کے سبب کیس التواءمیں چلا گیا تھا ۔ سنہ 2011 میں شریف خاندان نے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا‘ عدالتِ عالیہ نےاحتساب عدالت کوکیس پرمزیدکارروائی سےروکا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری، انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے گا

    اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری، انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے گا

    اسلام آباد: چیئرمین نیب جاوید اقبال کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ اسحاق ڈار کو کوئی ایسی بیماری نہیں، جس کا علاج پاکستان میں نہ ہو سکے، اس لیے انھیں انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے۔

    واضح رہے کہ عدالت سابق وزیر خزانہ کو پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔

    تجزیہ کاروں کے نزدیک اس فیصلے سے ن لیگ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور ریڈ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اسحاق ڈار برطانیہ میں سیاسی پناہ کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔

    ماہرین قانون کا بھی یہی خیال ہے کہ اسحاق ڈار کو ریڈ وارنٹ پر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: عدالت کا اسحاق ڈار کے ضامن کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم

    یاد رہے کہ آج اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی۔

    عدالت نے اسحاق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کی منقولہ جائیدار قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانےکا حکم دیا تھا اور سماعت  18 دسمبر تک ملتوی کردی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں ۔

  • حدیبیہ کیس: نیب کی بنائی گئی کہانی باربارتبدیل ہورہی ہے‘ سپریم کورٹ

    حدیبیہ کیس: نیب کی بنائی گئی کہانی باربارتبدیل ہورہی ہے‘ سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آج ریفرنس میں تاخیرسے متعلق مطمئن کریں جبکہ کیس کی باقی تفصیلات دوسرے فریق کونوٹس کے بعد سنیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی نے حدیبیہ ریفرنس کھولنے کی سفارش کی، منی ٹریل حدیبیہ پیپرملز سےجڑی ہے کیس دوبارہ کھولنے کو کہا۔

    عمران الحق نے کہا کہ جےآئی ٹی نے شریف خاندان پرچلنے والے کیسزکا جائزہ لیا تھا، جےآئی ٹی نےعدالتی حکم پرایف آئی اے نیب میں کیسزکا جائزہ لیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتاہے 1991 میں منی لانڈرنگ کا آغازہوا، ابتدائی طور پر سعید احمد اورمختارحسین کے اکاؤنٹ کھولے گئے۔

    عمران الحق نے کہا کہ اسحاق ڈارکا 164 کا بیان ظاہرکرتا ہے کیسے منی لانڈرنگ کی گئی جبکہ اسحاق ڈارنے جعلی اکاؤنٹس کو اپنے بیان میں تسلیم کیا۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے جس پر نیب کے وکیل نےجواب دیا کہ پاناما فیصلےکے بعد نیب اجلاس میں اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔

    جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پاناما فیصلے میں ہدایات تھیں، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حدیبیہ کا ذکرپاناما فیصلے میں نہیں ہے۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ پانامافیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے، جے آئی ٹی سفارشات پرکیاعدالت نےحدیبیہ بارے ہدایت کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ لاہورہائی کورٹ نے فیصلہ تکنیکی بنیادوں پردیا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ جےآئی ٹی نے رائے دی مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتا دیں۔

    انہوں نے کہا کہ ممکن ہے یہ انکم ٹیکس کا معاملہ ہو، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ عدالت کونیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کا بتائیں۔

    جسٹس قافی فائزعیسیٰ نے نیب کے وکیل کو ہدایت کی کہ بادی النظرکالفظ استعمال نہ کریں، بادی النظرکا لفظ نہیں بلکہ سیدھا مؤقف اختیارکریں۔

    انہوں نے کیانیب کومزید تحقیقات کے لیے50 سال کا وقت لگ جائےگا، ہمارے ساتھ کھیل نا کھیلیں، حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ حدیبیہ کا اکاؤنٹ کون آپریٹ کررہا ہے، اکاؤنٹ اب آپریٹ نہیں ہورہا توماضی میں کرنے والے کا بتائیں۔

    انہوں نے کہا کہ نیب نےاب تک کیا تحقیقات کیں، جسٹس قاضی فائز نے ریماکس دیے کہ بینک کا ریکارڈ جھوٹ نہیں بولتا۔

    عدالت عظمیٰ نے ریماکس دیے کہ بینک ملازمین کے بیانات ثانوی ثبوت ہیں تحریری ثبوت دیں، کیا نیب نے حدیبیہ پیپرز کے بارے میں انکم ٹیکس سے سوال کیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ سوال نامہ بھیجا پرابھی ریکارڈ پرنہیں ہے، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہائی کورٹ نے 2013 میں کہا تھا نیب مذاق بنا رہی ہے۔

    جسٹس قاضی فائزنے کہا کہ 2017 میں اب پھرہمیں مذاق والی بات کہنا پڑ رہی ہے، یاد رکھیں پاناماکیس آرٹیکل 184 کی شک 3 کے تحت سنایا گیا۔

    نیب کے وکیل نے استدعا کی کہ اسحاق ڈارکا بیان پڑھنا چاہتا ہوں، اسحاق ڈارنے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا۔

    جسٹس قاضی فائز نے ریماکس دیے کہ پیسےادھرچلے گئے ادھرچلے گئے یہ کہانیاں ہیں، پراسیکیوشن نے چارج بتانا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم آپ سےملزمان پرلگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ فارن اکاؤنٹ منجمد کرنے سے ملزمان نے اپنا پیسہ نکلوا لیا تھا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب عمران الحق نے کہا کہ 164کے بیان میں اسحاق ڈارنے رقوم نکلوانے کا اعتراف کیا، جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ ایسی صورت میں متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہیے۔

    انہوں نے کہا کہ صدیقہ کےاکاؤنٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں، نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ 164 کے بیان میں اسحاق ڈارنے رقوم نکلوانے کا اعتراف کیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں، جےآئی ٹی نے کچھ کیا نہ آپ نے کچھ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سارے قانونی لوازمات بھی نیب کوپورے کرنے تھے، کیا حدیبیہ کے ڈائریکٹرزکوتمام سوالات دیے گئے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ ہم نےملزمان کوسوالنامہ بھیجا مگرجواب نہیں دیا گیا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل13کوبھی ہم نے مدنظررکھنا ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ آپ کومکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سب باتیں مان لیں توپھربھی مجرمانہ عمل بتانا ہے، نیب سیکشن نائن اے کے تحت تو کوئی بات نہیں کررہا۔

    انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈارکا بیان بطورگواہ استعمال ہوسکتا ہے بطورثبوت نہیں، ہمارے صبرکا امتحان نہ لیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ ہمیں کسی کی ذاتی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں، بتائیں کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی بنائی گئی کہانی باربارتبدیل ہورہی ہے، اسحاق ڈارکا بیان کس قانون پردوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ کیا اسحاق ڈارکے بیان کو کاؤنٹرچیک کیا گیا، نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اسحاق ڈارکے بیان کی تصدیق کی گئی تھی۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اسحاق ڈارکی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں اپنا کیس بتائیں، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے اسحاق ڈارکا اعترافی بیان پڑھ کرسنایا۔

    جسٹس قاضی فائز نے ریماکس دیے کہ اسحاق ڈارکے اعترافی بیان کےعلاوہ نیب کے پاس شواہد ہیں، اسحاق ڈارنے یہ سارا عمل کس فائدےکے لیے کیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب عمران الحق نے کہا کہ اسحاق ڈارکوشریف فیملی کے لیے کام کرنے کے بدلے سیاسی فائدہ ہوا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ اسحاق ڈارکا بیان عدالت یا چیئرمین نیب کے سامنے لیا جانا چاہیے تھا۔

    جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کیس سے متعلق ہمیں کوئی جلدی نہیں، منی ٹریل کے شواہد جےآئی ٹی سے پہلے اور بعد کےشواہد پردلائل دیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ 4 اکاونٹس تھے یا 36 ایشومشترک ہے، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ تاخیر کو عبور کرلیا توممکن ہے بات میرٹس پرآجائے۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ قانون سب کے لیے ایک ہے جبکہ عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر عدالت عظمیٰ نے نیب کی کیس التوا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریماکس دیے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    سپریم کورٹ نے نیب سے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ اکاؤنٹس کھلوانےکے لیے کون گیا تھا؟ منیجرنے کسی کے کہنے پرکسی اورکے نام پراکاؤنٹس کیسے کھولے؟۔


    سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت کل تک ملتوی


    عدالت عظمیٰ نے نیب سے سوال کیا تھا کہ کیا بینک منیجرکوبھی ملزم بنایا گیا ہے، عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ کل سوالات کےجوابات پیش کریں۔

    یاد رہے کہ تین روز قبل نیب کی جانب سے دو روز قبل سپریم کورٹ میں حدیبیہ کیس کے حتمی ریفرنس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 8 اے کی عبوری نقل پیش کی گئی تھی جس میں حدیبیہ ریفرنس کی نقل بھی شامل تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اسحاق ڈارکی احتساب عدالت میں استثنیٰ کیلئےمتفرق درخواست مسترد

    اسحاق ڈارکی احتساب عدالت میں استثنیٰ کیلئےمتفرق درخواست مسترد

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نےاسحاق ڈارکی احتساب عدالت میں استثنیٰ کیلئے متفرق درخواست مسترد کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسحاق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کیخلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن نے کی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کر دیئے اور ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

    سماعت کے دوران وکیل اسحاق ڈار نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے مفرور قرار دینے کو بھی چیلنج کیا ہے، اسحاق ڈار نمائندے کے ذریعے ٹرائل کا حصہ بننا چاہتے ہیں، اسحاق ڈار صحت کی خرابی کے باعث احتساب عدالت پیش نہیں ہوسکتے، طبیعت خراب ہونے سے پہلےاسحاق ڈار باقاعدگی سے پیش ہوتے تھے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد ہونے پر اشتہاری قرار دینے تک 30دن کا وقت ہوتاہے، 30 دن کو کم کر کے 10 روز کیا گیا ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا وکیل سے استفسار کہ کیا 541اےکی درخواست احتساب عدالت میں دی، اسحاق ڈارکی واپسی کب تک ہے، جس کے جواب میں وکیل اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 10 سے 15روز میں اسحاق ڈار واپس آ سکتے ہیں، ڈاکٹرز اجازت دیں تو اسحاق ڈار واپس آئیں گے۔


    مزید پڑھیں : آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کیس ، اسحاق ڈار اشتہاری قرار


    جسٹس میاں گل حسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ اسحاق ڈار کی آمد کو ڈاکٹرز کی اجازت سےمشروت نہ کریں، درخواست گزار واپس آنے کوتیار نہ ہو تو ریلیف کیسے دے دیں، اسحاق ڈار کے واپسی کا صحیح وقت دیا جائے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک ڈاکٹرز نے وقت نہیں دیا، کیاہم یہ سمجھیں کہ وہ لامحدودوقت کیلئےنہیں آئیں گے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ 3سے 4ہفتےمیں واپسی کی امید ہے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔