Tag: اسحاق ڈار

  • اسحاق ڈارنے شوکت خانم اسپتال پرحملہ کرکے گھٹیا حرکت کی، عمران خان

    اسلام آباد : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار نے آج شوکت خانم اسپتال پرحملہ کرکے گھٹیا حرکت کی ہے، ان لوگوں کو پاکستان میں غریب کے علاج کی کوئی پرواہ نہیں۔عمران خان کی بہنوں کا کہنا ہے کہ ہم نے جرم کیا ہے تو عدالت جانے کو تیار ہیں۔ 

    یہ بات انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہی، عمران خان کا کہنا تھا کہ شوکت خانم اسپتال کینسرکے75فیصد مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے، اسپتال کا مریضوں پر کیا جانے والا سالانہ خرچہ5 بلین روپے سے زائد ہے۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ شریف خاندان خود پاکستان سے باہرجاکر اپنا چیک اپ کراتا ہے، ان لوگوں کو پاکستان میں غریب عوام کےعلاج کی کوئی پرواہ نہیں۔

    ہم نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت جانے کیلئے تیار ہیں، بہنیں عمران خان

    علاوہ ازیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیان پر عمران خان کی بہنوں عظمیٰ خان اورعلیمہ خان نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی جرم کیا ہے تو ہمیں قانون کےکٹہرے میں لایاجائے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف کوئی الزام ہے تو عدالتوں میں پیش ہونے کیلئے تیار ہیں، اگرجرم ثابت ہو جائے تو ہمیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں، عظمیٰ خان اورعلیمہ خان کا مزید کہنا ہے کہ ہم یہ سمجھنے سےقاصر ہیں کہ ہم نے ایساکون سا جرم کردیا ہے۔


    مزید پڑھیں: عمران خان نے اسپتال کی رقم سے جوا کھیلا: اسحٰق ڈار


    واضح رہے کہ پانامہ کیس کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان میرے ہی بچوں کو کہتے تھے کہ اسپتال کے لیے عطیات دے دیں۔

    انہوں نے کہا کہ سال 2008 تک عمران خان کو عطیات دیتا رہا، لیکن جب پتہ چلا کہ عمران خان نے عطیات کے پیسوں سے جوا کھیلا ہے تو میرا اعتماد ختم ہوگیا۔

  • اسحاق ڈار نے مریم اورنگزیب کو بچی کہہ دیا، اراکین کا اعتراض

    اسحاق ڈار نے مریم اورنگزیب کو بچی کہہ دیا، اراکین کا اعتراض

    اسلام آباد : قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ بجٹ پر بحث کا آغاز اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی میں کردیا گیا، سید خورشید شاہ اپنا خطاب سرکاری ٹی وی پر نشر نہ ہونے پر ناراض ہوگئے، اپوزیشن بجٹ بحث سے واک آوٹ کرگئی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مریم اورنگزیب کو بچی کہہ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ پیش آیا، اپوزیشن لیڈر کے بغیر ہی بجٹ پربحث کا آغاز کردیا گیا خورشید شاہ بھی ناراض دکھائی دیئے کیونکہ ان بجٹ کے دن کا خطاب سرکاری ٹی وی پر نہیں دکھایا گیاتھا روٹھے لہجے میں بولے جب تک وضاحت نہیں آتی بجٹ پر بات نہیں کریں گے۔

    اس حوالے سے وزیراطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ آپ کا خطاب سرکاری ٹی وی پر نہیں دکھایا جا سکتا،رپورٹ میں اپوزیشن لیڈر کا موقف دے دیں گے۔

    اس موقع پروزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بچی کی وضاحت قبول کی جائے۔ مریم اورنگزیب کو بچی کہنے پر اراکین اسمبلی نے اعتراض کردیا۔ اسحاق ڈار نے کہا مریم ان کی بیٹی کی طرح ہے۔

    اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی خطاب دکھانے سے معذرت کرلی۔ لیکن خورشید شاہ بضد تھے کہ ان کا خطاب سرکاری ٹی پر براہ راست دکھایا جائے۔

    قومی اسمبلی میں بجٹ بحث کا آغاز نہ ہوسکا اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آوٹ کیا گیا۔

  • پاکستان2013 کی نسبت آج مستحکم اورخوشحال ملک بن چکا ہے‘وزیراعظم

    پاکستان2013 کی نسبت آج مستحکم اورخوشحال ملک بن چکا ہے‘وزیراعظم

    اسلام آباد:وزیراعظم پاکستان کا کہناہےکہ 2013 میں حکومت کو متعدد مسائل کا سامنا تھا لیکن آج پاکستان خوشحال اور مستحکم بن چکا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے آخری بجٹ پرتبادلہ خیال کیاگیا۔

    اجلاس کےدوران وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے مسلم لیگ ن کےارکان پارلیمنٹ کو بجٹ کے خدوخال پر بریفنگ دی جبکہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے ارکان کی تجاویز بھی لی گئیں۔

    وزیراعظم نوازشریف کا اجلاس کےدوران کہناتھاکہ 2013 میں ہمیں بڑے مسائل ورثے میں ملےلیکن ہم نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہے۔


    ساہیوال میں 660 میگا واٹ بجلی منصوبے کا افتتاح، ایشین ٹائیگر بن کے دکھائیں‌ گے، وزیراعظم


    انہوں نےکہاکہ ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور ہرصورت میں اصلاحات کا ایجنڈا مکمل کریں گے۔

    وزیراعظم پاکستان کا کہناتھاکہ قوم فیصلہ کرے گی کہ کس نے کارکردگی دکھائی اور کس نے کچھ نہیں کیا۔ان کا کہناتھاکہ ہم نے بہت محنت کی جس کے نتیجے میں منصوبے تیزی سے مکمل ہورہے ہیں۔

    واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار آج قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کریں گے۔

  • ڈان لیکس نوٹیفکیشن کے 2حصے ہیں، وضاحت باقی ہے، اسحاق ڈار

    ڈان لیکس نوٹیفکیشن کے 2حصے ہیں، وضاحت باقی ہے، اسحاق ڈار

    اسلام آباد : وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ چوہدری نثار کو سامنے لانا تھی، حکم نامہ پیرا 18 سے متعلق ہے، جس کی مزید وضاحت کرنی ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اسحاق ڈار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹیفکیشن کے 2حصے ہیں اوردراصل پیرا اٹھارہ کی سفارشات پرمبنی ہے جس کی منظوری وزیراعظم نواز شریف نے دی تھی۔

    ڈان لیکس رپورٹ پر نوٹیفکیشن مزید اقدمات کیلئے تھا، انہوں اس بات کی تصدیق کی کہ چوہدری نثار نے آج ڈان لیکس کے معاملے پر پریس کانفرنس کرنا تھی۔

    وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پیرا 18 کے تحت ایکشن کے لیے وزیراعظم نے احکامات دیئے ہیں،جبکہ یہ ایک دستاویزنہیں ،دونوں پڑھنے ہوں گے تو بات سمجھ آئی گی ،چودھری نثارنے پریس کانفرنس کردی ہے اس میں ساری چیزیں شیئرکردی ہونگی۔

    مزید پڑھیں : پاک فوج نے ڈان لیکس کا حکومتی نوٹی فکیشن مسترد کردیا

    انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے منظور کردہ سفارشات پر عملدرآمد کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، وزیر اعظم نے پیرا 18 کی سفارشات پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے جہاں ایکشن کی ضرورت ہو گی، نوٹیفکیشن کے ذریعے تجویز کیا گیا ہے۔

  • ٹرمپ انتظامیہ سے مل کر کام کے لیے تیار ہیں، اسحاق ڈار

    ٹرمپ انتظامیہ سے مل کر کام کے لیے تیار ہیں، اسحاق ڈار

    واشنگٹن: وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ  پاک امریکا کے تعلقات کے لیے پرامید اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، پاکستان کے جوہری ہتھیار مکمل محفوظ ہیں۔

    واشنگٹن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ کسی بھی جاسوس یا غدار کو سفارتی رسائی نہیں دی جاتی، کلبھوشن کو دہشت گردی کی سزا ملی۔

    انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کال حل خطے میں امن و استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے، امید ہے ٹرمپ انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کرے گی، امریکی اخبار میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق بے بنیاد اور گمراہ کن آرٹیکل شائع کیا گیا، حقیقت یہ ہے پاکستان کے جوہری ہتھیار مکمل محفوظ ہیں۔

    اسحاق ڈار نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں، ہم امریکا کے ساتھ دفاع، معیشت سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنے کے خواہش مند ہیں مگر کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ٹھہراؤ کا شکار ہیں، ہمیں آگے بڑھنے کے لیے معمولی نوعیت کے اختلافات کو حل کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔

    وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے معاشی حالات میں مسلسل بہتری آرہی ہے، موجودہ حکومت معاشی ترقی، توانائی بحران تعلیم کے فروغ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرامید ہے۔

    اسحاق ڈار نے کہا کہ فاٹا آپریشن کی وجہ سے 13 لاکھ افراد نے نقل مکانی کی  تاہم حالات بہتر ہونے کے بعد 75 فیصد لوگ واپس اپنے گھروں کو جاچکے ہیں جبکہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کررہا ہے۔

  • آئندہ مالی سال کا بجٹ 26 مئی کوپیش کیا جائےگا،اسحاق ڈار

    آئندہ مالی سال کا بجٹ 26 مئی کوپیش کیا جائےگا،اسحاق ڈار

    اسلام آباد: وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکاکہناہےکہ مالی سال 18-2017 کا بجٹ 26 مئی کو پارلیمنٹ میں پیش کیاجائےگا۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکاکہناہےکہ بجٹ جلد پیش کیے جانے کا فیصلہ رمضان کی آمد کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے،جبکہ بجٹ کی تیاری بھی اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    ملکی تاریخ میں پہلی بار بجٹ جون کےبجائے مئی میں پیش کیا جائے گا۔


    آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ متوقع


    وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق مختلف وزارتوں کے بجٹ میں پانچ سےسات فیصد تک اضافےپرغورکیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپینشن میں دس فیصد تک اضافہ بھی متوقع ہے۔

    وزیر خزانہ کے مطابق 2013 میں سب کی حمایت سے ادائیگیاں کرنا اور قرضے کو صفر پر لانا ایک مشکل فیصلہ تھا،اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک گردشی قرضوں کا حجم 720 ارب روپے یا اس سے زائد ہوچکا ہوتا۔

    واضح رہےکہ اس سے قبل بھی سابقہ حکومتیں مئی میں بجٹ پیش کرنے کے وعدے کرچکی ہیں تاکہ اس پر پارلیمانی بحث کےلیےمعقول وقت میسرآسکے،تاہم اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔

  • فوجی عدالتوں کی توسیع کا فیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے، اسحاق ڈار

    فوجی عدالتوں کی توسیع کا فیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے، اسحاق ڈار

    اسلام آباد : وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت ایک سال ہو یا دو سال فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔ پیپلزپارٹی کی تجاویز مل گئیں ملٹری کورٹس پرکل یاپرسوں پھربیٹھک ہوگی۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اسحاق ڈار نے کہا کہ اٹھائیس فروری کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اجلاس میں فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلہ ہوا تھا، اجلاس میں پیپلزپارٹی نے شرکت نہیں کی تھی۔

    پیپلزپارٹی نے 4 مارچ کو فوجی عدالتوں سے متعلق سیاسی جماعتوں کو اے پی سی کی دعوت دی تھی، اب میڈیا سے پتہ چلا ہے پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں پر9 تجاویز دی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اورحکومت کو پیپلزپارٹی کی تجاویز مل گئی ہیں، ان کی تجاویز پر غور کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع پرتمام جماعتوں کا اتفاق رائے موجود ہے جبکہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے قوم بھی متحد ہے۔

    فوجی عدالتوں سے متعلق مشاورت کے ساتھ نئی تجاویز پرغور ہوگا اور کوشش ہوگی کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پراتفاق رائے ہو، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کوشش کریں گے فوجی عدالتوں کے معاملے پر 2 دن میں اجلاس بلائیں۔

  • فوجی عدالتوں کی توسیع‘پیپلزپارٹی کےعلاوہ تمام جماعتیں متفق

    فوجی عدالتوں کی توسیع‘پیپلزپارٹی کےعلاوہ تمام جماعتیں متفق

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں توسیع سےمتعلق سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کےعلاوہ تمام جماعتیں متفق ہوگئیں۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فوجی عدالتوں سےمتعلق تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہواجس میں پیپلزپارٹی کےعلاوہ تمام سیاسی جماعتوں کافوجی عدالتوں میں دوسال کی توسیع پر اتفاق ہوگیا۔

    اجلاس کے بعد وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہناتھاکہ امید ہے پیپلزپارٹی 4مارچ تک اتفاق رائے کرلےگی اورفوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کرے گی۔انہوں نےکہا کہ فوجی عدالتوں کےمعاملے پرکوئی سیاست نہیں ہوگی۔

    وفاقی وزیزخزانہ اسحاق ڈار کاکہناتھاکہ فوجی عدالتوں کےمعاملے پر سیاسی جماعتوں کے تعاون پر ان کے مشکورہیں۔

    بعدازاں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہناتھاکہ حالات غیرمعمولی ہیں توفوجی عدالتوں میں توسیع کی ضرورت ہے۔انہوں نےکہاکہ ایک پارلیمانی کمیٹی ہوگی جو پورے عمل کی نگرانی کرے گی۔

    انہوں نےکہاکہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع قومی ضرورت ہےاور قومی مفاد میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پراتفاق کیا۔

    مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے علاوہ دیگرجماعتوں نے کہاکہ ہم فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حامی ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت ایسے فیصلے خوشی سے نہیں کرتی۔

    خیال رہےکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فوجی عدالتوں کی توسیع سےمتعلق سیاسی جماعتوں کےاجلاس میں پیپلزپارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نےشرکت کی۔

    مزید پڑھیں:پیپلزپارٹی کی اےپی سی میں شرکت نہیں کریں گے‘عمران خان

    واضح رہےکہ تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان کاکہناہےکہ وہ پیپلزپارٹی کی آل پارٹی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔

  • فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے، اسحاق ڈار

    فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے، اسحاق ڈار

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں کے قیام اور توسیع کے معاملے پر وفاقی وزیر کے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ انسداد دہشت گردی کے لیے اہم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں کےمعاملے پراسحاق ڈار نے مزید پارلیمانی رہنماؤں سے رابطہ کر کے اس معاملے پربات چیت کی، وفاقی وزیر خزانہ نے فاروق ستار،طارق اللہ، غلام احمدبلور،شاہ جی گل آفریدی اورشیخ رشیداحمدکوبھی فون کیا۔

    اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر  خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس 22 فروری کو طلب کیا گیا ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ مرکزی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں 23 فروری کو پیش کردیا جائے۔

    پڑھیں: ’’ فوجی عدالتوں میں توسیع، پارلیمانی رہنماؤں کو مسودہ پیش ‘‘

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر مؤثر اور مربوط رد عمل کی متقاضی ہے، فوجی عدالتوں میں توسیع کے ذریعے ہی انسداد دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

    وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے معاملہ پر تمام جماعتوں سے مشاورت کر کے 27 فروری کو معاملہ مرکزی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کردیا جائے گا۔

  • پاناماکیس:شواہدفراہم کرناالزام لگانےوالےکی ذمہ داری ہے‘سلمان اکرم راجہ

    پاناماکیس:شواہدفراہم کرناالزام لگانےوالےکی ذمہ داری ہے‘سلمان اکرم راجہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم نوازشریف کے بیٹوں کےوکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجز بینچ نے پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

    وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے پاناماکیس میں اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اسحاق ڈارکےخلاف نااہلی کی درخواست،انٹراکورٹ اپیل خارج ہوئی۔

    نیب نے اسحاق ڈارکی معافی سےمتعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا،عدالت نے نیب سےریکارڈ طلب کر رکھا تھا۔ریکارڈ کےمطابق 20اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی۔

    چیئرمین نیب نے21اپریل کومعافی کی درخواست منظور کی،جبکہ 24اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی۔نیب ریکارڈ کےمطابق 25اپریل کواسحاق ڈار کااعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔

    اسحاق ڈارکے وکیل شاہد حامد نےکہا کہ نواز شریف،دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکاہے،جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا؟۔

    وفاقی وزیر خزانہ کے وکیل نے جسٹس آصف کھوسہ کے سوال کے جواب میں کہاکہ دوبارہ تفتیش کرانے کےمعاملے پر2رکنی بینچ میں اختلاف تھا اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا؟جس پرشاہد حامد نے جواب دیاکہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا؟جس پر اسحاق ڈارکے وکیل نےکہاکہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیاگیا۔

    وفاقی وزیرخزانہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا،جس پرجسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ آپ دلائل مکمل کر لیں پھر پراسیکوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار کااعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا،جس پر شاہد حامد نےجواب دیاکہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا ہےاب صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

    اسحاق ڈارکے وکیل نے کہاکہ یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد ججز سن چکے ہیں،انہوں نےکہاکہ منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا،جبکہ نیب کے ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کے لیے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے،جس پر شاہد حامد نے جواب دیاکہ لاہور ہائی کورٹ کے5 ججز نے کہا ایف آئی اے کو بیرونی اکاؤنٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ احتساب عدالت میں پیش ہوا،جس کےجواب میں شاہد حامد نےکہاکہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضروری نہیں تھا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی،انہوں نےکہا کہ اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی؟ معافی کےبعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے۔

    شاہد حامد نےکہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کابیان حلفی اس کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا، جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ بیان اسحاق ڈار نہیں وزیر اعظم کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہو سکتا،جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ یہاں ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر غور نہیں کریں گے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ چاہے درخواست گزار ایسا کرنے کی استدعا ہی کیوں نہ کرے،انہوں نےکہاکہ اسحاق ڈار پر ڈبل جیو پرڈی کا اصول لاگو ہوگا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار کو اس کیس میں سزا نہیں ہوئی،انہوں نےکہاکہ اس لیے یہاں ڈبل جیوپرڈی کااصول نہیں لگے گا۔

    جسٹس عظمت نےاسحاق ڈارکے وکیل سے کہاکہ آپ اس نکتے پر دلائل دیں ایک شخص کا 2 مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہےیا نہیں،جس پر شاہد حامدنےکہاکہ اسحاق ڈار سے بیان یہ کہہ کر لیا گیا بیان نہ دیا تو اٹک قلعے سے نہیں جانے دیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس کی تفصیلات بیان کیں۔عدالت نےاسحاق ڈارکی بریت کے خلاف اپیل دائرنہ کرنے پرتحریری جواب منی لانڈرنگ کیس میں طلب کیا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ نیب،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک نے اپیل دائر کیوں نہیں کی،جس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ میں اس کاتحریری جواب دوں گا۔

    سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں وقفے کے دوران اعتزازاحسن نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئےکہاکہ قطری شہزادےکاخط اوپن منی لانڈرنگ کااعتراف ہے۔

    اعتزازاحسن کا کہناتھاکہ شریف خاندان کاکون ساشخص ہےجوان کےکاروبارکی دیکھ بھال کرتاہے،پیپلزپارٹی کے رہنمانےکہاکہ نوازشریف اعتراف کرچکےہیں کہ انہوں نےاربوں کاکاروبارکیا۔

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہناتھاکہ قطری اور سونے کاانڈا دینے والی مرغی میں کوئی فرق نہیں،انہوں نےکہا دوسری منی ٹریل اسحاق ڈار کے اردگرد گھومتی ہے۔

    فواد چودھری کا کہناتھاکہ حدیبیہ پیپرمل کے نام سےجعلی مل بنائی گئی،اور پیسہ باہربھیج کرحدیبیہ پیپرمل کے ذریعےوائٹ کیاگیا۔

    مسلم لیگ ن کی رہنما انوشا رحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ 2نجی اداروں کےدرمیان نجی طورپرٹرانزیکشنزہوئیں،انہوں نےکہاکہ جوٹرانزکشنز ہوئیں وہ عوام کاپیسہ تھانہ ہی بینکوں سےلیاگیاتھا۔

    انوشارحمان کا کہناتھاکہ بندوق کےزور پر لیےگئے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کی توپوں کارخ اب اسحاق ڈارکی طرف ہوگیا ہے۔

    وزیراعظم کے بیٹوں حسین اورحسن نوازکے وکیل کے دلائل شروع

    حسین اورحسن نواز کےوکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں،انہوں نےکہاکہ فلیٹ کےمالک حسین نواز ہیں پوری فیملی کوملزم بنادیاگیا۔

    سپریم کورٹ نےسلمان اکرم راجہ کے دلائل پرریماکیس دیےکہ آپ کو یہ بات ثابت کرناہو گی فلیٹس حیسن نواز کی ملکیت ہیں،اوران کےوالد کاان فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےعدالت عظمیٰ میں دلائل دیتے ہوئےکہا کہ میرے کیس کے تین پہلو ہیں،تینوں پہلوؤں پر دلائل دوں گا،انہوں نےکہاکہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں۔

    وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل نےکہاکہ الزام ہے حسین نواز کی بے نامی جائیدادہے،اصل مالک نواز شریف ہیں،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگاجائیدادیں آپ کی ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ درخواست گزار چاہتا ہےلندن کی جائیداد ضبط کی جائے،انہوں نےکہاکہ درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ درخواست گزار چاہتا ہے لوٹی گئی رقم سے متعلق تحقیقات کی جائیں،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ الزام ہےلوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا،انہوں نےکہاکہ آرٹیکل 184/3میں عدالتی اختیارات وسیع ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ دوسرے اداروں کا کام عدالت نہیں کرسکتی،انہوں نےکہا کہ الزام لگانے والوں نے عدالت کے سامنے شواہد نہیں رکھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ یہ حقیقت ہے حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں،انہوں نےکہاکہ آپ کے موکل کہتے ہیں وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے،انہوں نےکہاکہ کیا کمپنیوں کےریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے۔

    انہوں نےکہاکہ آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت پہلے قانون کو دیکھ لے،انہوں نےکہا کہ شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےاستفسارکیاکہ گلف فیکٹری کب سے کمرشلی آپریشنل ہوئی؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ گلف فیکٹری کے لیےقرض کب لیا؟انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کے لیے قرض کن شرائط پر لیا گیااور کس چیز پر لیاگیا یہ تو واضح ہی نہیں ہے۔

    حسین اور حسن نواز کے وکیل نےکہاکہ یہ میاں شریف کا پرانا ریکارڈ ہےجو پیش کررہا ہوں،انہوں نےکہاکہ قرض سےمتعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ تسلیم شدہ ہےدبئی کی گلف فیکٹری 1973 میں قائم کی گئی،انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کردی گئی۔

    جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ گلف فیکٹری کےواجبات 36 ملین درہم تھے،انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375 ملین درہم بنتی ہے۔

    انہوں نےکہا کہ فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے،بتایا جائے،جسٹس گلزار نےکہاکہ بظاہرتو کمپنی خسارے میں چل رہی تھی تو12 ملین درہم کا منافع کیسے ہوا؟۔جس پر حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہیں تھا۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ 1978میں فیکٹری کے75 فیصد حصص فروخت کرکے15 ملین واجبات باقی تھے،انہوں نےکہاکہ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ کوئی اندازہ نہیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔

    وزیراعظم کے بچوں کےوکیل نے کہاکہ کلثوم نوازاس کیس میں فریق نہیں ان کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا،انہوں نےکہاکہ میاں شریف کو لوہے کے کاروبارکا چار دہائیوں کا تجربہ ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ‏فیکٹریاں قومیائے جانے کےباعث 1973میں دبئی کی رائل فیملی سے رابطہ کیاگیا،انہوں نےکہاکہ دبئی کی رائل فیملی نےاسٹیل پلانٹ لگانے کےلیے میاں شریف کوویلکم کیا۔

    حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ‏1975 میں گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئر فروخت کیے،انہوں نےکہاکہ ‏1980میں فیکٹری کےباقی 25فیصد شیئرز کی فروخت سے 12ملین درہم ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے،انہوں نےکہاکہ 1970کی دہائی میں میاں شریف نے فیکٹری لگائی۔

    انہوں نےکہا کہ چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی،یہ اکاؤنٹ میاں شریف کے تھے،حسن اور حسین کے نہیں،انہوں نےکہاکہ بارہ ملین درہم شریف فیملی کو فیکٹری کی فروخت سے ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے،انہوں نےکہاکہ 1980میں دبئی اسٹیل کی فروخت کے دستاویز پر طارق شفیع نےخود دستخط کیے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ طارق شفیع کےدستخطوں میں بہت زیادہ فرق لگتا ہے،انہوں نےکہاکہ طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت کے معاہدے پر دستخط میں فرق واضح ہے۔

    سلمان اکرم راجا نےکہاکہ وقت گزرنے کےساتھ دستخط میں فرق آہی جاتا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ 1972میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کوئی وضاحت نہیں کی گئی پیسہ کہاں سے آیا،صرف کہا گیا قرض لےکر فیکٹری لگائی،جس کےجواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی فیکٹری کے لیے پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا۔

    واضح رہےکہ سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیےملتوی کردی گئی،حسین اور حسن نواز کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔