Tag: اسد امانت علی خان

  • کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    دس برس کی عمر میں اسد امانت علی خان نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ پٹیالیہ گھرانے کے فرد اور استاد امانت علی خان کے فرزند تھے۔ اسد امانت علی نے 1970ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد ساز اور آواز کی دنیا سے ناتا جوڑا اور بعد کے برسوں‌ میں لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے اس نام ور فن کار کی برسی ہے۔

    اسد امانت علی نے اپنے والد کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں انہی کے انداز میں اس طرح پیش کیں کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسد امانت علی مشہور ہوگئے۔ اس گلوکار کی وجہِ شہرت ‘عمراں لنگھیاں‘ کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے۔۔۔ جیسا کلام بنا۔ اسد امانت علی نے کئی پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ ان فن کاروں نے پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کو ایک نئے انداز سے متعارف کروایا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    اسد امانت علی خان کے والد کی آواز میں انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ایک مقبول ترین غزل تھی اور اسی کلام کو ان کے بیٹے نے دوبارہ گایا اور بہت داد و تحسین سمیٹی۔ اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ریکارڈ ہوئے۔ انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ اسد امانت علی خان 8 اپریل 2007ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    وہ 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اسد امانت علی خان نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ اس جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔

    اسد امانت علی خان نے اپنے والد کے گائے ہوئے کلام کو ان کی وفات کے بعد اپنے انداز میں دوبارہ گا کر شائقین و سامعین سے خوب داد وصول کی۔ خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے انھیں بہت شہرت اور پذیرائی ملی۔

    اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ہر خاص و عام میں‌ پسند کیے گئے۔

    انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ وہ ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے دس برس بیت گئے

    استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے دس برس بیت گئے

    کراچی : کلاسیکل مو سیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد اسد امانت علی خان کو مداحوں سےبچھڑے آج دس برس بیت گئے۔ وہ آٹھ اپریل دو ہزار سات کو لندن میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اسد امانت علی پچیس ستمبر انیس سو پچپن میں لاہور میں پیدا ہوئے۔

    آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز
    مدہوش دل و جاں کو بناتی ہوئی آواز

    اسد امانت علی خان استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اوراستاد حامد علی خان کے بھتیجے اورشفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ دس سال کی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والے اس فنکار کی آواز نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔

    انہوں نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور والد کے شہرہ آفاق گیت اورغزلیں گا کر مشہور ہو گئے۔ اسد امانت علی خان نے لوک گیتوں سے بھی الگ پہچان بنائی۔

    ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار’ ان کی ایک خوبصورت غزل قارئین کی نذر

    انہیں اصل شہرت ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار’ سے ملی اور اس کے بعد وہ انتقال تک گائیکی کے ایک درخشاں ستارے رہے۔ اس کے علاوہ گھر واپس جب آؤگے ان کی شاہکارغزلیں ہیں۔

    انہوں نے بے شمار پاکستان فلموں کے لئے گیت گائے، اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ اسدامانت علی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ ایوارڈ کے فوری بعد ہی ان کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ علاج کیلئے لندن چلے گئے۔

    آٹھ اپریل 2007کو دل کے دورے کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سما عت میں رس گھو لتی ہیں۔ ان کی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔