Tag: اسد بھوپالی

  • یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے دو شوخ گیت کو ایک نسل کا ایسا رومانس کہا جاسکتا ہے، جو سرحد کے دونوں‌ اطراف بستی تھی۔ بولی وڈ کی اس فلم کے گیتوں کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی زبردست مقبولیت ملی۔ باکس آفس پر دھوم مچا دینے والی یہ فلم 1998ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اس کے مقبول ترین گیت اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے تھے۔

    آج بھارتی گیت نگار اسد بھوپالی کی برسی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ فلم کے ہیرو سلمان خان اور ہیروئن بھاگیا شری تھیں۔ اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘

    اسد بھوپالی 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ اپنی جائے ولادت بھوپال کی نسبت سے اسد بھوپالی کہلائے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے اسد بھوپالی نے بطور نغمہ نگار وہ شہرت نہیں‌ حاصل کی جو ان کے ہم عصر نغمہ نگاروں کو ملی تھی۔ لیکن ان کے کئی مقبول گیتوں میں فلم ٹاور ہاؤس کا اے میرے دل ناداں تم غم سے نہ گھبرانا، فلم دنیا کا رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آواز نہ دے بھی شامل ہیں جو ان کے فلمی کیریئر کے آغاز کی بات ہے۔ 1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے فلموں کے لیے لگ بھگ 400 نغمات تخلیق کیے۔ اسد بھوپالی کے فلم ”پارس منی“ کے لیے لکھے گئے گیتوں نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جن میں ہنستا ہوا نورانی چہرہ، وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے پھر… شامل ہیں۔

    فلمی گیت نگار اسد بھوپالی نوجوانی میں ممبئی پہنچے تاکہ فلم انڈسٹری میں جگہ بنا سکیں۔ وہ 28 برس کے تھے جب ممبئی چلے گئے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو کام مل گیا۔ 1949ء میں فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ اس فلم کے لیے مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے دو گیت لکھے اور تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو وہ پاکستان ہجرت کرگئے۔ فضلی برادران کا اسد بھوپالی سے رابطہ ہوا تو اس نوجوان کو فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ پہلی فلم کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ یوں اسد بھوپالی کی ممبئی فلم نگری میں کام یابیوں کا آغاز ہوا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے اسد بھوپالی نے دو گیت لکھے۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی ان کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا۔

  • اسد بھوپالی: لازوال فلمی گیتوں کے خالق

    اسد بھوپالی: لازوال فلمی گیتوں کے خالق

    اسد بھوپالی کے قلم سے بولی وڈ کی فلموں کے لیے یوں تو کئی گیت نکلے، لیکن ’’میں نے پیار کیا‘‘ وہ فلم تھی جس نے 1998ء میں‌ باکس آفس پر دھوم مچا دی اور ریکارڈ بزنس کرنے والی اسی فلم میں شامل اسد بھوپالی کے دو گیتوں کو بھی بلاشبہ وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی کم ہی مثال دی جاسکتی ہے۔ آج فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بولی وڈ کے سپراسٹار سلمان خان اور اداکارہ بھاگیا شری کی مذکورہ فلم کے یہ دو گیت آج بھی ایک نسل کی یادوں کا خوب صورت حصّہ بن کر ان کی سماعتوں میں محفوظ ہیں‌۔ ان گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا، جا جا…‘‘ اسد بھوپالی 9 جون سنہ 1990ء میں‌ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بھوپال میں 10 جولائی 1921ء کو آنکھ کھولنے والے اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔ یہی سلسلہ انھیں فلمی دنیا تک لے گیا اور کئی کام یاب فلموں میں ان کے تحریر کردہ گیت بھی شامل تھے۔

    نوجوانی میں اسد بھوپالی نے بمبئی جاکر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا جہاں ان سے پہلے بھی کئی شاعر فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے جگہ پاچکے تھے اور نام و مقام بنا رہے تھے۔ اسد بھوپالی 28 برس کے تھے جب وہ بمبئی پہنچے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو انہی کے درمیان اپنے فن اور صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو اب ایک دوسرے نغمہ نگار کی تلاش تھی اور کسی نے اسد بھوپالی کا تعارف ان سے کروا دیا۔ یوں وہ پہلی مرتبہ انھیں بمبئی آنے کے بعد اپنے مقصد میں کام یابی کی امید پیدا ہوئی۔ اسد بھوپالی نے فلم کے نغمات لکھے اور ان کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس کے بعد 1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی ان سے گیت لکھوائے گئے۔ پھر بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی اسد بھوپالی کے لکھے گئے دو گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم کے لیے اسد بھوپالی نے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری سال تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے اور بہت نام کمایا۔ انھوں نے غزلیں‌ بھی کہیں اور اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    ’’میں نے پیار کیا‘‘ 1998ء میں‌ ہندی سنیما کی زینت بنی تھی۔ سلمان خان اور بھاگیا شری کی اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور فلم کے لیے اسد بھوپالی کے تخلیق کردہ دو گیتوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘ وہ گیت ہیں‌ جو آج بھی ایک نسل کو ان کی نوجوانی کے دنوں‌ کی یاد دلاتے ہیں۔ آج ان گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ 10 جولائی 1921ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔

    نوجوانی میں انھوں نے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ 28 برس کے اسد بھوپالی ممبئی پہنچے تو یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اپنی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو کسی نے اسد بھوپالی سے ملوا دیا اور یوں ممبئی آنے والے اس نوجوان کو پہلی مرتبہ فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ اس فلم کے دونوں ہی گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے اور یوں اسد بھوپالی کی کام یابیوں کا بھی آغاز ہوگیا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی انھیں دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے گیت لکھے۔ یہ فلم اور اس کے گیت دونوں سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اسد بھوپالی نے اس فلم کے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری برس تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔