Tag: اسرائیلی حملہ

  • بوشہر جوہری پلانٹ پر اسرائیلی حملہ چرنوبل جیسے سانحے کا سبب بن سکتا ہے، روس نے خبردار کردیا

    بوشہر جوہری پلانٹ پر اسرائیلی حملہ چرنوبل جیسے سانحے کا سبب بن سکتا ہے، روس نے خبردار کردیا

    ماسکو‌: روسی جوہری توانائی کے سربراہ نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ بوشہرپلانٹ پر اسرائیلی حملہ چرنوبل جیسے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی جوہری توانائی کے سربراہ لیگزی لیخا نے کہا ہے کہ ایران کت بوشہرجوہری پلانٹ پر حملہ تاریخ کی سب سےبڑی ایٹمی تباہی کا سبب بنے گا۔

    انھوں نے 1986 میں پیش آنے والے چرنوبل ایٹمی پلانٹ حادثے کا حوالہ دیا، جب یوکرین کے علاقے چرنوبل میں سوویت یونین کے تحت چلنےوالی ایٹمی تنصیب میں آزمائشی تجربہ ناکام ہوا۔

    جس کے نتیجے میں ری ایکٹر پھٹ گیا اور بڑے پیمانےپرتابکاری پھیل گئی، جس سے برسوں تک ہزاروں لوگ سرطان اوردیگرمہلک بیماریوں میں مبتلاہوئے۔ لاکھوں افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا، اس کے اثرات چرنوبل کےمقام پرآج بھی برقرار ہیں۔

    مزید پڑھیں : اسرائیل نے ایران میں ایٹمی پلانٹ کے روسی ماہرین کی سیکیورٹی کی یقین دہانی کروادی

    بوشہرمیں ایران کا واحد فعال نیوکلیئرپاورپلانٹ ہے، جو روس نے تعمیرکیا ہے، اس میں دو سو سے زیادہ روسی ماہرین کام کررہے ہیں۔

    آج اسرائیلی فوجی ترجمان نے اسی پلانٹ پرحملےکا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بعد میں اس بیان کوغلطی قراردیا۔

    خیال رہے اسرائیل نے روس کو ایرانی ایٹمی پلانٹ کے روسی ماہرین کی سیکیورٹی یقین دہانی کروائی ، ترجمان نے کہا تھا کہ روس ایران کا شراکت دار ہے اور اسرائیل سے بھی اعتماد پر مبنی تعلقات ہیں، بوشہر نیوکلیئر پلانٹ کے 2نئے یونٹس کی تعمیر کیلئے روسی ماہرین بھی موجودہیں۔

  • ایرانی بہادر خاتون اینکر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد دوبارہ لائیو نشریات کرنے آگئی

    ایرانی بہادر خاتون اینکر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد دوبارہ لائیو نشریات کرنے آگئی

    ایران کی بہادر خاتون اینکر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد دوبارہ لائیو نشریات کرنے اسٹوڈیو میں واپس آگئی، سحرامامی نے دوبارہ نشریات سنبھال لیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایرانی اینکر سحر امامی اسرائیلی حملے کے بعد براہ راست نشریات کے دوران نشست سے اٹھیں اور دوبارہ آکربیٹھ گئیں، اسرائیلی حملے کے بعد ایرانی ٹی وی کا اسٹوڈیو ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

    جس وقت اسرائیلی حملہ کیا گیا اینکر نے جملے ادا کیے کہ یہ سچ پر ایک جارح کا حملہ ہے، حملے کے بعد دوبارہ نشست پر براجمان ہونے کے بعد سحر نے گفتگو جاری رکھی۔

    iran israel تمام خبریں

    الجزیرہ ٹی وی نے بتایا کہ سحرامامی ایران کی معروف ترین نیوزاینکرز میں سے ایک ہیں، سحر امامی نے نشریات میں للکارتے ہوئے کہا کہ آپ جو سن رہے تھے وہ سچ پر حملے کی آواز تھی۔

    خیال رہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع کی جانب سے ایران کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کو دھمکیوں کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیل نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر میزائل حملہ کیا ہے، خاتون اینکر لائیو نشریات کے دوران خدمات انجام دے رہی تھی کہ اسرائیلی میزائل عمارت پرگرا۔

    الجزیرہ ٹی وی نے مزید بتایا تھا کہ ایرانی سرکاری ٹی وی پرحملہ اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے، اسرائیل ماضی میں بھی میڈیا اداروں پر حملے کرتا رہا ہے، حزب اللہ سے منسلک المنارٹی وی پر بھی اسرائیل حملے کرچکا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/israel-attacks-iranian-state-tv-during-live-broadcast/

  • اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، پاکستانی مندوب

    اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، پاکستانی مندوب

    اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

    اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کاحق حاصل ہے۔

    اسرائیل نے اقوام متحدہ چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے، اسرائیل نے حملہ کرکے خطے کو بڑی جنگ کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

    پاکستان خطے میں امن و استحکام کاخواہاں ہے۔ اسرائیلی جارحانہ اقدام سے خطے کے امن کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

    سلامتی کونسل اسرائیل کو بےلگام نہ چھوڑے۔ حق دفاع کی آڑ پر اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ ایران نے ڈیڑھ سو سے زائد میزائل داغ کر اسرائیل کیخلاف بھرپورجوابی کارروائی کی اور آپریشن وعدہ صادق سوم کے نام سے کی گئی اس کارروائی میں ایک گھنٹے میں تین وقفوں کے ساتھ ڈیڑھ سو سے 2 سو میزائل اسرائیل پر داغے گئے۔

  • اسرائیل کا ایران پر حملہ: ٹرمپ نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا

    اسرائیل کا ایران پر حملہ: ٹرمپ نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا

    مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ڈونلڈ ٹرمپ  نے فوری ردعمل دیا ہے۔

    اسرائیل نے ایران کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے، فضائی حملوں میں جوہری اور 6 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا، اسرائیل نے جمعہ کی صبح درجنوں مقامات پر فضائی حملے کیے، دارالحکومت تہران کے شمال مشرقی علاقے میں بھی دھماکوں کی زور دار آوازیں سنی گئیں۔

    اسرائیلی حملوں میں ایرانی آرمی چیف جنرل محمد باقری شہید ہوگئے جس کے بعد امیر حبیب اللہ کو ایران کی مسلح افواج کا نیا چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا ہے۔

    اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والوں میں خاتم الانبیاء ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد اور دو نامور جوہری سائنسدان فریدون عباسی اور اسلامی آزاد یونیورسٹی کے صدر محمد مہدی تہرانچی شامل ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا ایران پر حملہ، فضائی حملوں میں جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا

    اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے سربراہ اور جوہری سائنسدان شہید

    اسرائیل کے حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی ہے، اور اس میں امریکا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، ہم ایران پر حملے میں شامل نہیں ہیں، ہماری پہلی ترجیح خطے میں امریکی افواج اور عملے کا تحفظ ہے۔

    تاہم اب امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے، امریکی میڈیا مطابق یہ اجلاس اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر بلایا گیا ہے۔

  • ٹرمپ کا بڑا قدم، ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی منسوخ کر دی

    ٹرمپ کا بڑا قدم، ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی منسوخ کر دی

    واشنگٹن: ٹرمپ نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی منسوخ کر دی۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے مجوزہ حملے کو روک دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ ایران کے ساتھ جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے پر بات چیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے مئی میں ایران کے جوہری مقامات پر حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک پیچھے دھکیلنا تھا۔

    امریکی B-2 سٹیلتھ بمبار طیارہ، جو بنکر تباہ کرنے والے 30 ہزار پاؤنڈ کے بموں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے

    نیویارک ٹائمز نے کہا کہ امریکی مدد کی ضرورت صرف اسرائیل کو ایرانی جوابی کارروائی سے بچانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ اس حملے کے کامیاب ہونے کو یقینی بنانے کے لیے بھی ہے۔


    امریکا نے ایرانی تیل کی کمپنیوں، آئل ٹینکرز پر پابندیاں لگادیں


    اخبار کے مطابق ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں تقسیم کے سامنے آنے کے بعد اسرائیلی حملے کو روکا۔ اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے منصوبے بنائے، اور اس کے لیے اسے امریکی مدد کی ضرورت تھی، تاہم امریکی انتظامیہ کے کچھ افسران کو اس سلسلے میں کئی شکوک لاحق تھے۔ اندرونی سطح پر کئی مہینوں کی بحث کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فوجی کارروائی کی حمایت کرنے کی بجائے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔

    واضح رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوگا، ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے تصدیق کی ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کی دوسری نشست ہفتے کے روز اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہوگی۔

    ایرانی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ملاقات کے مقام سے قطع نظر، عمانی وزیر خارجہ مذاکرات کے سہولت کار اور ثالث ہیں۔ پہلی نشست گزشتہ ہفتے مسقط میں ہوئی تھی جہاں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی جب کہ امریکی وفد کی قیادت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے کی تھی۔ پہلی میٹنگ کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بات چیت مثبت اور تعمیری‘ رہی۔

  • غزہ : پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی حملہ، 28 فلسطینی شہید

    غزہ : پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی حملہ، 28 فلسطینی شہید

    اسرائیلی فوج کی غزہ میں بربریت کا سلسلہ تاحال جاری ہے، آس پاس کے علاقے بھی بمباری سے ہونے والی تباہی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ تازہ فضائی حملے میں28 فلسطینی شہید ہوگئے۔

    غزہ میں ہر طرف تباہی ہی تباہی پھیل چکی ہے، پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی افواج کا حملہ ایک سنگدلانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے، جس میں 28 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان پناہ گزین کیمپوں میں بچے اور خواتین کی بڑی تعداد میں پناہ لئے ہوئے تھی تاہم ان پر بھی یہودی افواج نے بمباری کردی۔

    ذرائع کے مطابق صیہونی فوج کی جانب سے غزہ پر حملے جاری ہیں، گزشتہ روز پہلے نصیرت میں پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی افواج نے بمباری کی جس کے بعد زخمیوں اور لاشوں کو العودہ ہسپتال منتقل کیا گیا، زخمیوں کو جیسے ہی ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں بھی صیہونی دہشت گردی کرتے ہوئے بارود برسا دیا۔

    رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے علی الصبح غزہ شہر اور بیت حنون میں گھروں پر حملے کیے جس کے نتیجے میں 5 افراد شہید ہوئے۔

    گزشتہ سال اکتوبر سے جاری غزہ جنگ میں اب تک 43 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں، زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔

  • جسے اسرائیلی حملے کا پتا ہوگا، وہی اس کا ذمہ دار بھی ہوگا، ایران نے امریکا کو خبردار کر دیا

    جسے اسرائیلی حملے کا پتا ہوگا، وہی اس کا ذمہ دار بھی ہوگا، ایران نے امریکا کو خبردار کر دیا

    تہران: ایران نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ جسے ایران پر اسرائیلی حملے کا پتا ہوگا، وہی اس کا ذمہ دار بھی ہوگا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص جو علم رکھتا ہو اور ایران کے خلاف اسرائیلی حملے میں سہولت کاری میں ملوث ہوا، تو اسے ممکنہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایکس پر ایک پیغام میں امریکی صدر کے حالیہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جسے پتا ہو کہ اسرائیل، ایران پر کب اور کیسے حملہ کرے گا‘‘ یا اس طرح کی حماقت کے لیے ہتھیار اور مدد فراہم کر رہا ہو، کسی بھی ممکنہ نقصان کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔

    ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکا کو خبردار کیا کہ اگر امریکا نے ایران پر متوقع اسرائیلی حملے کی حمایت کی تو امریکا کو جواب دہ ہونا ہوگا۔

    ایران اور اسرائیل کشیدگی، بائیڈن کا اہم بیان

    واضح رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کا اشارہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کی جانب ہے، جس میں بائیڈن نے کہا تھا کہ انھیں علم ہے کہ اسرائیل ایران کے میزائل حملوں کا جواب کب اور کیسے دے گا۔

    جعمہ کو جب صحافیوں نے امریکی صدر سے پوچھا کہ کیا انھیں پتا ہے کہ ایران کے یکم اکتوبر کے بیلسٹک میزائل حملے کے جواب میں اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا، اور یہ کب ہوگا، بائیڈن نے مختصراً کہا: ’’ہاں اور ہاں۔‘‘ تاہم جب ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا وہ میڈیا کو یہ بتا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا ’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘

  • دمشق پر اسرائیلی حملوں میں خاتون ٹی وی اینکر سمیت 3 شہری جاں بحق، 9 زخمی

    دمشق پر اسرائیلی حملوں میں خاتون ٹی وی اینکر سمیت 3 شہری جاں بحق، 9 زخمی

    دمشق: شام میں بھی اسرائیلی فورسز کی درندگی جاری ہے، دمشق پر اسرائیلی حملوں میں 3 شہری جاں بحق اور 9 زخمی ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی دارالحکومت دمشق پر اسرائیلی حملے میں ایک خاتون براڈ کاسٹر سمیت تین شہری جاں بحق ہو گئے ہیں۔

    شام میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کی جنرل کارپوریشن نے کہا ہے کہ دمشق کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں براڈ کاسٹر صفا احمد شہید ہو گئی ہیں، شامی وزرات دفاع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے طیاروں اور ڈرون کے ذریعے دمشق کو نشانہ بنایا۔

    وزارت دفاع کے مطابق فوجی دفاعی نظام نے کئی اسرائیلی میزائلوں اور ڈرونز کو فضا میں ہی تباہ کر دیا۔

    شام کی عرب خبر رساں ایجنسی ثنا نے قبل ازیں اطلاع دی تھی کہ اس کی ٹیلی وژن اینکر صفا احمد منگل کے روز شام کے دارالحکومت کو نشانہ بنانے والی اسرائیلی جارحیت میں ماری گئی۔

    اسرائیلی فضائی حملے میں فلسطینی صحافی بچوں اور شوہر سمیت شہید

    اسرائیل کی وزارت دفاع اور فوج نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ڈھٹائی برقرار ہے، انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کا کوئی گوشہ ہماری دسترس سے دور نہیں ہے۔

  • ایڈورڈ سعید:‌ فلسطین کے حق میں بلند ہونے والی ایک توانا آواز

    ایڈورڈ سعید:‌ فلسطین کے حق میں بلند ہونے والی ایک توانا آواز

    فلسطین کی آزادی کے لیے سیاسی اور قانونی میدان میں‌ جہدوجہد جاری رکھتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم کے خلاف قلم کے سہارے لڑنے والے ایڈورڈ سعید کو دنیا ایک دانش وَر کے طور پر جانتی ہے۔ وہ فلسطینی عربوں کی مؤثر آواز تھے۔

    ایڈورڈ سعید ایک سیاسی کارکن، ماہرِ تعلیم اور علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں اس وقت امریکا منتقل ہونا پڑا جب فلسطینیوں کو جبراً ان کی زمین سے بے دخل کیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ان کی جگہ یہودیوں کی آباد کاری کے لیے ظلم و ستم توڑے گئے۔

    وہ یروشلم کے باسی تھے۔ پروفیسر ایڈورڈ سعید 1935ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں پناہ گزیں کی حیثیت سے امریکا چلے گئے۔ ایڈورڈ سعید انگریزی زبان میں لکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ان کے نظریات اور افکار زیادہ تیزی سے پھیلے اور ان کی پہچان بنے۔ ان کا تعلق یروشلم کے امیر اور کاروباری گھرانے سے تھا۔ ایڈورڈ سعید نے اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں پڑھا اور بعد میں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے والے ایڈورڈ سعید نے بعدازاں اسی زبان میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا میں تعلیم مکمل کر کے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ وہ اپنے ادبی ذوق اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی کے مطابق بھی کام کرتے رہے۔ ایڈورڈ سعید نے متعدد کتابیں اور مقالے لکھے لیکن ان کی وجہ شہرت اورینٹل ازم ہے جس کا شرق شناسی کے نام سے اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرستانہ اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔

    ایڈورڈ سعید آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے قلمی اور عملی طور پر ساری زندگی کوشاں رہے۔ ان کے مباحث نے اس ضمن میں یورپی نقطۂ نظر کو بدلا۔ وہ ایسے کھرے اور بے باک دانش ور تھے جنھوں نے امریکا میں رہنے کے باوجود فلسطین سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ بالعموم مشرق اور بالخصوص فلسطین سے متعلق یورپی دانش وروں کے تقریر اور تحریر کا عالمانہ تجزیہ کیا اور اس کا مدلّل اور مؤثر جواب دیا۔

    فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڈورڈ سعید کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1977ء میں انھیں ’فلسطین نیشنل کونسل‘ کی رکنیت دی گئی، جو 1991ء تک برقرار رہی۔ ایڈورڈ سعید مذاکرات کو فلسطین میں قیامِ امن اور اس مسئلے کے تصفیے کا حل سمجھتے تھے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر فلسطینی عوام کی بے جا حمایت جنگ کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا اور فلسطین کے پُرامن تصفیے کی ہر کوشش کو برباد کیا گیا۔

    ایڈورڈ سعید نے نہ صرف سیاست بلکہ ادب میں بھی اپنی بصیرت اور نظریہ سازی کی بنیاد پر نام و مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریریں رجحان ساز ثابت ہوئیں۔ مشرق آپ کی تنقید و تحقیق کا بنیادی موضوع رہا۔ انھوں نے پہلی بار مکمل صراحت کے ساتھ ادب پر کالونیاتی اثرات کا جائزہ بھی لیا اور اسے بہت اہم اور وقیع کاوش مانا جاتا ہے۔

    ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر نقد و نظر تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا تھا۔ جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ پر بھی ایڈورڈ سعید نے مقالے لکھے۔ ان کی مشرقیت سے متعلق بیسویں صدی کی انتہائی متاثر کن کتاب میں ہمیں مشرقی دنیا اور خاص کر عرب ملکوں سے متعلق مغربی علما کی رائے کا تجزیہ ملتا ہے۔ وہ 1977ء سے 1991ء تک فلسطین نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی، تاہم 1993ء میں کونسل کی رکنیت سے کچھ اختلافات کے سبب مستعفی ہوگئے تھے۔ ایڈورڈ سعید کی جانب سے اسرائیل کے ظلم و بربریت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اور بعض مذہبی معاملات پر کڑی تنقید کے بعد امریکا میں ان سے مخاصمانہ رویہ اپنا لیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے اپنے بے لاگ تبصروں اور راست گوئی کا سلسلہ بند نہیں‌ کیا۔ اسرائیل کی مخالفت اور عربوں‌ حمایت سے باز رکھنے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں، لیکن وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے۔

    وہ موسیقی سے شغف ہی نہیں بلکہ اس کا خوب علم بھی رکھتے تھے جس کی مثال وہ چار کتابیں ہیں جو ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر لکھی تھیں۔ ایڈورڈ سعید کو ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ماہر تعلیم کے طور پر انھیں بیس کے قریب یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں جب کہ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’Out of Place‘ نے تین ایوارڈ جیتے۔

    25 ستمبر 2003ء کو فلسطین کی حمایت اور آزادی کے لیے بلند ہونے والی یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔

  • مقہور فلسطینیوں کو کون بچائے گا؟

    مقہور فلسطینیوں کو کون بچائے گا؟

    دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک موجود ہو جہاں مسلمان جرمِ مسلمانی کی سزا نہ بھگت رہے ہوں۔ یہ سزا کہیں اخلاقیات کے پردے میں دی جا رہی ہے اور کہیں اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر اس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

    گو کہ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے اسرائیل کو اس حقیقت سے آشنائی ہوئی ہے کہ اس کے اردگرد موجود مسلم عرب ممالک کے لیے ان بے چارے فلسطینیوں کی حیثیت سوائے ’’اضافی بوجھ‘‘ کے اور کچھ نہیں اس نے ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک شروع کر دیا ہے۔ 1972ء سے آج تک شاید ہی کوئی دن ایسا ہو گا جب ان بدقسمت فلسطینیوں نے سُکھ کا سانس لیا ہو۔’’بالفور‘‘ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ناجائز یہودی ریاست اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو کبھی برابر کے انسان نہیں سمجھا۔ درجنوں عالمی معاہدوں کو کبھی جوتے کی نوک پر رکھا، صابرہ و شتیلہ کے کیمپوں کا قتل عام اور درندگی ماضی کی بات نہیں حال کا قصہ ہے کیونکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور بظاہر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیلی حکومت اپنا ایجنڈا پورا نہ کر لے۔

    برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلو وے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کی بربادی اور تباہی کے ’’رائٹرز‘‘ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ ہیں کیونکہ فلسطین کی تباہی کے تمام ’’اسکرپٹ‘‘ اس پارلیمنٹ نے ’’انڈورس‘‘ کئے ہیں۔ جنگِ عظیم کے زمانے سے اب تک برطانیہ نے اسرائیل کی ہر جائز نا جائز خواہش کو اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس لئے ہمیں (یعنی برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کو) کھلے دِل سے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہئے۔

    گزشتہ کئی روز سے پھر وحشت و بربریت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران طیاروں سے بمباری اور میزائل حملوں کے ذریعے بچوں اور خواتین نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔اسرائیل کو اس کے مذموم عزائم سے روکا نہ گیا تو وہ اپنے ریاستی وجود کو تحفظ دینے کے نام پر غزہ کو تباہی و بربادی کا نمونہ بنا ڈالے گا- دنیا کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ فضائی حملوں کے بعد اسرائیل غزہ میں زمینی دہشت گردی کے ذریعے ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑرہا ہے، ان کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کا تصوّر ختم ہو کر رہ جائے گا۔

    اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی برادری کے رد ِعمل پر نگاہ ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کی اپیلوں کے سوا کہیں سے کوئی جاندار آواز بلند نہیں ہو رہی- لندن اور نیو یارک سمیت بعض یورپی اور امریکی شہروں میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں، امریکی صدر باراک اوباما(اس وقت یہ منصب اوباما کے پاس تھا) نے جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کا اعلان تو کر رکھا ہے تاہم عملی طور پر اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی- فرانس اور جرمنی جیسے ممالک اسرائیل سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں- عالمی برادری کی اس دورُخی اور منافقت سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کی 41 کلو میٹر لمبی اور چھ سے بارہ کلو میٹر چوڑی پٹی پر رہنے والے اٹھارہ لاکھ افراد کو نقل مکانی یا اسرائیلی بمباری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ حماس کے خلاف کارروائی کے نام پر اسرائیل فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اور عالمی برادری اس پر زیادہ سے زیادہ مذمت کی قرار داد پیش کرتی رہے گی۔ دُنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ٹھیکیدار اور شدت پسندی سے لڑنے والی عالمی قوتوں کی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر خاموشی کا نتیجہ ہے کہ مختلف ممالک میں عسکری تنظیمیں طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ فلسطینیوں پر جاری ظلم کے دوسرے پہلو کو دیکھا جائے تو کرۂ ارض پر پھیلے 56 اسلامی ممالک بھی صہیونیت کے اس تماشے کو خاموش تماش بین کی مانند دیکھ رہے ہیں۔ انڈونیشیا سے سعودی عرب اور مراکش سے پاکستان تک کے حکمران اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کو کافی سے زیادہ خیال کررہے ہیں- صورتحال پر غور اور مشترکہ مذمتی قرار داد کے لیے گزشتہ دنوں او آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہوا تاہم حقیقت یہی ہے کہ ایسے اجلاسوں اور مذمتی بیانات سے اسرائیل جیسی ظالم ریاست کی سوچ میں تبدیلی ممکن نہیں۔

    غزہ میں جاری خونریزی دراصل اُمتِ مسلمہ کی قیادت کے لیے لمحۂ آزمائش ہے- دنیا میں اگر اُمت ِاسلامیہ کا وجود ہے تو اس ریاستی تشدد کے خلاف تعزیت اور مذمت پر اکتفا کرنے کے بجائے اسے روکنے کے لیے اپنی قوت کو بروئے کار لانے کی تدبیر کرے۔ دنیا کو احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ معدنی وسائل سے افرادی قوت اور جغرافیائی وحدت سے ذہنی ہم آہنگی تک اہلِ اسلام میں کامل یکسوئی ہے جس لمحے عالمی برادری کو یہ احساس ہو گیا اگلے ہی لمحے فلسطین تک مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے۔

    اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ پر اپنا تباہ کن حملہ اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک جنوبی اسرائیل کے ان شہروں میں امن و سکون قائم نہیں ہو جاتا جو فلسطینی راکٹوں کی زد میں ہیں۔ مغربی دُنیا اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے- یہ ہماری بدقسمتی ہے یا سفارتی نااہلی کہ وہ لوگ جنہیں فلسطین کا پاسبان ہونا چاہیے تھا آج مغرب کے عشرت کدوں میں اپنی جوانیاں اور دولت برباد کر رہے ہیں-

    (معروف ادیب اور کالم نگار طارق اسماعیل ساگر کا یہ مضمون 2014 میں شایع ہوا تھا، جس میں بیان کردہ حقائق اور معلومات کو چھوڑ دیا جائے تو آج وہی حالات ہمارے سامنے ہیں)