Tag: اسرائیل اور حماس

  • اسرائیل حماس مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ ختم

    اسرائیل حماس مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ ختم

    قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ اختتام پذیر ہوگیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے آئے اسرائیلی وفد کے پاس حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے اختیارات نہیں تھے۔

    رپورٹس کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ اسرائیلی وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل شروع ہوا ہے۔

    نیتن یاہو نے واشنگٹن روانگی سے قبل کہا تھا کہ جنگ بندی مذاکرات میں حصہ لینے والی اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کو ہدایات دی ہیں کہ ایسی شرائط کے تحت ہی جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے جنہیں اسرائیل نے قبول کیا ہے۔

    دوسرئ جانب اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ جنرل یتزاک برک نے اعتراف کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے دوبارہ طاقت حاصل کر لی ہے۔

    قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ ماریو میں شائع اپنے مضمون میں یتزاک برک نے لکھا کہ حماس نے جنگ سے پہلے کی طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔

    ریٹائرڈ فوجی جنرل نے لکھا کہ حماس کا دوبارہ طاقت حاصل کرنا غزہ میں اسرائیلی فوج کی پیشرفت کے بیانات سے متصادم ہے۔

    انہوں نے اپنے مضمون میں غزہ میں زمینی حقائق کو بھیانک قرار دیا۔

    ٹرمپ سے ملاقات: نیتن یاہو کی واشنگٹن روانگی میں تاخیر

    یتزاک برک نے دعویٰ کیا کہ حماس کے پاس اب 40 ہزار مزاحمت کار ہیں جو کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے کی طاقت کے برابر ہے جبکہ بہت سے مزاحمت کار سرنگوں میں تعینات ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ حماس کے مزاحمت کار گوریلوں کی طرح لڑتے رہتے ہیں جیسا کہ وہ جنگ کے آغاز سے لڑ رہے ہیں، وہ کبھی بھی ایک فوج کی طرح نہیں رہے اور اسی لیے انہوں نے اپنی فوجی صلاحیتوں کو نہیں کھویا جیسا کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف کا دعویٰ ہے۔

  • غزہ جنگ بندی : اسرائیل اور حماس معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل

    غزہ جنگ بندی : اسرائیل اور حماس معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل

    غزہ جنگ بندی کیلیے اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے معاہدے کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا، اگلے مرحلے کیلیے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں حماس اور اسرائیل کے درمیان 25 یرغمالی اور سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔

    اس حوالے سے حماس رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے کیونکہ ہم نے پہلے مرحلے کو آگے بڑھانے کے لیے "اسرائیل کے فارمولے” کو مسترد کر دیا ہے۔

    اس کے علاوہ قاہرہ میں دوسرے مرحلے کی بات چیت تاحال بے نتیجہ قرار پائی ہے، قاہرہ میں امریکی، قطری اور مصری ثالثوں کے ساتھ ملاقات کے بعد اسرائیلی وفد واپس روانہ ہوگیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدے کے سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی سیکیورٹی ٹیم سے اہم ملاقات کرنے والے ہیں۔

    اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی کو ہر صورت برقرار رہنا چاہیے انہوں نے فریقین سے مطالبہ کیا کہ معاہدے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جائیں۔

    دوسری جانب امریکی حکام نے اسرائیل کو 3 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے گولہ بارود، بلڈوزرز اور متعلقہ فوجی سازوسامان کی فروخت کی منظوری دے دی ہے، جن میں غزہ پر استعمال ہونے والا امریکی ساختہ اسلحہ بھی شامل ہے۔

    واضح رہے کہ غزہ کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کی جنگ میں اب تک 48 ہزار 388 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 111,803 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    گورنمنٹ میڈیا آفس نے اپنی تازہ رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 61ہزار709 بتائی ہے کیونکہ ہزاروں فلسطینی جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں انہیں مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔

  • حماس نے 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا

    حماس نے 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا

    غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے پانچویں مرحلے میں حماس نے 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے۔

    عرب میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے رہا کئے گئے 3 اسرائیلی یرغمالیوں میں اوہد بن امی، ایلی شرابی اور لیوی شامل ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق حماس نے ان 3 اسرائیلی مغویوں کو 183 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے 18 ایسے قیدیوں کو رہا کیا ہے جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے جبکہ 54 قیدیوں کو طویل مدتی سزائیں دی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں 111 قیدیوں کو غزہ کی پٹی سے 7 اکتوبر کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کے تحت اب تک 16 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔

    اس سے قبل، حماس نے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا، جس میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے اور بے گھر فلسطینیوں کے لیے ضروری پناہ گاہوں کو روکنے کی بات کہی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔

    دوسری جانب حماس نے پاکستان کو ’بڑا بھائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے 15 فلسطینی قیدیوں کی میزبانی پر آمادہ ہے۔

    بنگلہ دیش میں پھر سے ہنگامے پھوٹ پڑے، متعدد رہنماؤں کے گھر نذر آتش

    رپورٹ کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ کی طویل جنگ کے بعد چھ ہفتوں پر مشتمل غزہ جنگ بندی معاہدہ ہوا جس میں اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا، بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینیوں قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔

  • اسرائیل اور حماس کے درمیان عنقریب جنگ بندی معاہدہ : اہم خبر آگئی

    اسرائیل اور حماس کے درمیان عنقریب جنگ بندی معاہدہ : اہم خبر آگئی

    دوحہ : اگلے 10 روز میں اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا سکتا ہے، یہ انکشاف اسرائیلی ذمہ داران کی جانب سے کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 14 ماہ کی رکاوٹوں کے بعد اسرائیل اور حماس جنگ بندی کے معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق امریکہ، قطر اور مصر کے اعلیٰ عہدیداروں نے حالیہ ہفتوں میں اپنی ثالثی کی کوششیں دوبارہ شروع کردی ہیں جبکہ فریقین کی جانب سے بھی معاہدے کو مکمل کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

    اس حوالے سے حماس حکام کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے وقت اپنے رویے میں مزید لچک دکھانے کے لیے تیار ہیں جبکہ اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ فریقین معاہدہ سے قبل ہی بہت زیادہ قریب ہیں۔

    تاہم تمام فریقین کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ ابھی کچھ اہم تفصیلات طے کرنا باقی ہیں لیکن وہ عمومی طور پر ایک امید محسوس کر رہے ہیں جو کئی مہینوں سے غائب تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مثبت پیش رفت کئی عوامل کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے، جنگ کے دوران اسرائیل نے حماس کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ میں رخصت ہونے والی بائیڈن انتظامیہ اور صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ، دونوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ 20 جنوری کی تقریب حلف برداری سے قبل معاہدہ مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حماس تنظیم اسرائیل کے مطالبے سے کم سے کم تعداد میں یرغمالی رہا کرنا چاہتی ہے جب کہ اسرائیل کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلون نے بھی جمعرات کے روز امید ظاہر کی تھی کہ معاہدہ جلد طے پاسکتا ہے۔

  • اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ بھی مادرِ‌ گیتی پر نثار ہو گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کفایہ پر مزاحمت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اب یحیٰی السنوار سامنے آئے ہیں جنھیں اکثر خان یونس کے قصاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    اسماعیل ہنیہ نے آزادی کے راستے میں اپنی جان ہی نہیں‌ گنوائی ہے بلکہ وہ اپنا گھر بار، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں بھی دے چکے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کا اجلاس ہوا اور نئے سربراہ کے طور پر یحیٰی السنوار کا نام سامنے آیا۔ ایک طرف اسرائیل کی غزہ اور دیگر علاقوں میں فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے اور دوسری جانب حماس کے حالیہ فیصلے نے گویا شاخِ زیتون کی چمک اور اس کے روغن کی آب و تاب مزید بڑھا دی ہے۔ یحیٰی السنوار کا انتخاب اس عزم کا اعادہ بھی ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت تیز ہوگی اور حماس کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے بعد صیہونی فوج نے فلسطینیوں پر گولہ بارود برسانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تاحال جاری ہے۔ امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں اسماعیل ہنیہ سے قبل بھی حماس کے متعدد راہ نما اور کارکن مارے جا چکے ہیں اور اب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یحییٰ سنوار کو بھی نشانہ بنائے گا۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تو ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ انھیں مسعود پزشکیان کی بطور صدر تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا تھا اور وہیں تہران میں ایک فضائی حملہ میں انھیں شہید کردیا گیا۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جارہا ہے، لیکن اسرائیل نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے جب کہ ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اب مشرقِ وسطیٰ‌ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

    ارضِ فلسطین پر صیہونی ریاست کا قیام اور اس کے لیے صدیوں سے وہاں بسے ہوئے عرب مسلمانوں‌ کی جبراً بے دخلی اس دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ننگ اور غضب ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح‌ نہتے فلسطینیوں اور محدود وسائل اور صلاحیت کے حامل حماس اور دوسرے مزاحمتی گروہوں سے اپنی تربیت یافتہ اور باقاعدہ فوج کے ذریعے جنگ لڑتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو روند رہا ہے، لیکن‌ اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ غزہ میں انسانی آبادیوں، گھروں اور اسپتالوں پر بمباری، فلسطینیوں کو ڈھال بنا کر حماس کے خلاف کارروائی، طبّی امداد اور خوراک پہچانے والی تنظیموں کے رضا کاروں کو نشانہ بنانا اور گولہ بارود کی زد پر رکھنا اسرائیل کے نزدیک اگر جنگ ہے، تو حماس اور دوسر ے مزاحمتی گروہ یہ جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جب تک ایک بھی رکن زندہ ہے۔

    دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی جنگوں‌ اور خوں ریز واقعات کی بنیاد جبر اور وہ ناانصافی تھی جس سے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ اقوام یا مختلف خطّوں میں لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے دشمن کو انتقام کی آگ میں پھونک دیا۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جن بچّوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین، بہن بھائی مارے جارہے ہیں، وہ بڑے ہو کر اسرائیل کا وجود تسلیم کرلیں‌ گے یا موقع ملنے پر اپنی زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ باقی ماندہ زندگی وہاں عافیت سے بسر کرسکیں؟ فلسطین یا کسی بھی سرزمین سے اس قوم کا وجود مٹانا آسان نہیں‌ جو صدیوں سے وہاں بسی ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم میں بدنام اور دہشت گرد اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ صیہونی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اس کا یہ قتلِ عام اور تشدد ہر فلسطینی بچّے میں جذبۂ حریّت اور انتقام کو مہمیز دے رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ اور دیگر علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ فلسطینی مسلمانوں‌ کی نسل کُشی کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس بات کو تقویت ملتی ہے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان سے جس میں وہ دنیا سے شیطانی قوت (حماس) کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے عہدنامۂ عتیق (تورات) سے ایک پیرا کا حوالہ دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دانش ور اور انسان دوست شخصیات نے نیتن یاہو کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے سفاک اور جنونی کہا ہے۔

    آج اسرائیل کی آبادی لگ بھگ 98 لاکھ بتائی جاتی ہے جس میں یہودی اور وہ فلسطینی شامل ہیں جو اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس میں‌ غربِ اردن اور غزہ شامل ہیں اور وہاں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔ لیکن 1948ء سے قبل صورتِ حال مختلف تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے یک دم نکال کر ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسی سال اقوامِ متحدہ نے ایک قرار میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور فلسطینیوں کی زمین حیلے بہانوں اور طاقت کے بل پر ہتھیانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عرب مسلمانوں کو اسرائیل کی حدود میں جانے کے لیے توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں جہاں تلاشی اور کاغذات دیکھنے کے بہانے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر قیدی کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصۂ حیات اس وقت مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا۔ جب کہ غیر یہودیوں کو اس ایکٹ کے ذریعے باضابطہ طور پر درجہ دوم کا شہری بنا دیا گیا۔

    فلسطین میں‌ اترنے والے صیہونیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کی بے دخلی کے ساتھ ان کے تاریخی محلّے اور عمارتیں مسمار کرکے وہاں جدید تعمیرات کی ہیں۔ قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے اور اپنے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دیا کہ جو تاریخی حقائق کو مسخ اور لسانی و ثقافتی اقدار کو یکسر مٹا کر نئی ریاست کی سیاسی، مذہبی، تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرے اور نئی نسل اسے قبول کرلے۔ اسرائیلی حکومت نے کتب خانوں اور بلدیہ کی عمارتوں کو اس لیے اڑا دیا کہ کہیں کئی سو سال پرانا ریکارڈ، شہر کی تاریخ اور فلسطین کی اصل شناخت سے متعلق نادر دستاویز موجود ہوں تو باقی نہ رہیں تاکہ ازسرِ‌ نو مرضی کا ریکارڈ بنا کر خطّے میں اپنی شناخت کو قائم کیا جاسکے۔

    فلسطینی شہری فوجی قوانین کے تحت محدود نقل و حرکت کے ساتھ کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ 1966ء میں اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو فوجی قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ریاست نے قانونی شہری تو تسلیم کیا مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ ان سے صحت، تعلیم و روزگار اور رہائش سمیت ہر شعبے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور وہ گویا ایک قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی سزا دی جاسکتی ہے۔

    اسرائیلی فوج دنیا کی ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحے اور جنگی ساز و سامان سے لیس طاقت وَر فوج ہے۔ اسرائیلی فوج اور عرب ممالک سے اس کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے متحد عرب افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، اور آج اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اب صرف حماس کی بات کریں تو وہ اپنی مالی اور دفاعی ضروریات کے لیے بالخصوص ایران کی طرف دیکھتا ہے جب کہ لبنان، شام اردن، عراق اور دوسرے عرب ممالک سے امداد کا خواہاں رہتا ہے۔ ادھر اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے اور اسی کی بدولت اسماعیل ہنیہ یا دوسرے حماس اور حزب اللہ کے بڑے راہ نماؤں کو اسرائیل اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ زمینی فوج کے علاوہ اسرائیل کی فضائیہ نے بھی قتلِ عام میں اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    یہ درست ہے کہ حماس، حزب اللہ اور ایران یا دیگر عرب ممالک کے حمایت یافتہ گروہ اسرائیل کو معمولی نقصان پہنچا پاتے ہیں، لیکن اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں فلسطینیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حالیہ جنگ بھی حماس کی ایک ایسی ہی کارروائی کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔ لیکن کیا ایک نادارِ زمانہ، ستم رسیدہ اور درماندہ قوم کو اسرائیل کے آگے سَر جھکا دینا چاہیے تاکہ ان کا گھر بار اور ان سب کی زندگی محفوظ رہے؟ محکوم اقوام کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ فلسطین بالخصوص غزہ اور دوسرے علاقے وہاں کے باشندوں کے لیے قید خانے سے کم نہیں اور وہ روزانہ جس اذّیت، کرب اور مقبوضہ علاقے میں داخلے پر جس ذلّت اور توہین کا سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اور وہاں زندگی اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔ لیکن ان حالات میں‌ فلسطین کا مسلمان عالمی ادارۂ انصاف، خاص طور پر اسلامی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو اسے کس قدر رنج اور مایوسی ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ اسے خود ہی لڑنی ہے اور امّتِ مسلمہ کی طرف دیکھنا بے سود ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں حماس کو دھچکا پہنچایا وہیں ایران کو عالمی سطح پر خفّت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ اس کے ملک میں ایک مہمان شخصیت کو نہایت آسانی سے قتل کردیا گیا اور اب تک ایران کچھ نہیں کرسکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکے گا اور صرف دھمکیوں تک محدود رہے گا۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر جنگ مسلّط کرنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ مگر شاید فلسطینی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں‌ اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کو اپنی جنگ لڑتے رہنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا تھا، ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔‘

  • اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ مکمل

    اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ مکمل

    اسرائیل اورحماس کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کاتبادلہ مکمل ہوگیا ہے جبکہ غزہ پرآج فلسطینی وقت کے مطابق صبح سات بجے سے بمباری نہیں ہوگی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل چار دن کیلیے بمباری بند کرنے پر رضا مند ہوگیا ہے، معاہدے کے تحت پہلے دن 13 اسرائیلی، جبکہ 39 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔

    قیدیوں کی رہائی یومیہ بنیاد پرمرحلہ وار ہوگی، جنگ میں وقفہ صبح سات بجے سے شروع ہوجائے گا اور قیدیوں کی رہائی شام چاربجے شروع ہوگی۔ جنگ بندی کا اطلاق صرف غزہ کی پٹی پرہوگا۔

    ترجمان قطری وزارت خارجہ مجید الانصاری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ کے وقت کے مطابق 4 بجے سہ پہر (پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے) تک حماس کے پاس موجود 13 اسرائیلی یرغمالیوں کے پہلے گروپ کو رہا کیا جائے گا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے یرغمالیوں کو اکٹھے رہا کیا جائے گا، مزید یہ کہ روزانہ کی بنیاد پر یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا اور 4 دنوں میں مجموعی طور پر 50 یرغمالی رہا کیے جائیں گے۔

    اسرائیل نے کہا ہے کہ جنگ بندی ابتدائی چار دنوں سے زیادہ اس وقت تک جاری رہ سکتی ہے جب تک عسکریت پسند روزانہ کم از کم 10 یرغمالیوں کو رہا کریں گے۔

    قطر کا حماس اسرائیل جنگ سے متعلق اہم اعلان

    ایک فلسطینی ذریعے نے کہا ہے کہ رہائی کا دوسرا مرحلہ نومبر کے آخر تک 100 یرغمالیوں کو آزاد کرنے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

  • قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں وقفے کااعلان کردیا

    قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں وقفے کااعلان کردیا

    قطر کی جانب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں وقفے کااعلان کر دیا گیا ہے، آج صبح اسرائیلی کابینہ نے جنگ میں وقفے کی منظوری دی تھی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ کیا جائے گا، جنگ میں وقفے کا آغاز 24 گھنٹے کے اندر ہوگا۔

    قطر وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت درجنوں فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کاتبادلہ ہوگا،جبکہ 4 دن تک جنگ میں وقفہ کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ اسرائیلی کابینہ نے حماس کیساتھ عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت درجنوں فلسطینی اوراسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔

    امریکی خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ معاہدے کے مطابق 6 ہفتے سے جاری جنگ کو عارضی طور پر بندکردیا جائے گا، حماس 50 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کریگی۔

    اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ 10 اسرائیلی قیدی کے بدلے جنگ بندی میں ایک دن کا اضافہ کیا جائے گا، پہلے خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا۔

    غزہ میں اسرائیلی مظالم جاری، شہداء کی تعداد 14 ہزار 128 تک پہنچ گئی

    اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے پرحماس پرحملے کیے جائیں گے، ہم حالت جنگ میں ہیں، جو مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔

  • پاکستان  کا  اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم

    پاکستان کا اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم

    نیویارک : پاکستان نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا دعا ہے یہ جنگ بندی فلسطین میں امن کیلئے پہلا قدم ہو۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرخارجہ شاہ قریشی نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا پاکستان جنگ بندی کاخیرمقدم کرتاہے، یہ جنگ بندی اجتماعی اورمتحدعمل کی طاقت سےہوئی، یہ ایک مقصدکیلئےملکرکام کرنیوالےہرشخص،ہرقوم کی کوشش سےہوا، دعاہےیہ جنگ بندی فلسطین میں امن کیلئےپہلاقدم ہو۔

    فلسطین پراسرائیل کا قبضہ ختم ہوناچاہیے، غیرقانونی بستیوں،نسلی امتیازپرمبنی حکومتوں کوختم ہوناچاہیے، یواین قراردادکےمطابق آزادفلسطین ریاست قائم ہونی چاہیے، ایک آزادفلسطینی ریاست قائم ہوجس کادارلخلافہ القدس شریف ہو۔

    یاد رہے 11 روز بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ، اسرائیلی کابینہ نےجنگ بندی پررضامندی ظاہر کی جبکہ جنگ بندی سےمتعلق حماس نےبھی تصدیق کردی، جنگ بندی کاآغازپاکستانی وقت کےمطابق صبح4بجےہوگا، مصرنے جنگ بندی کیلئے ثالث کا کردار ادا کیا۔

  • غزہ:72گھنٹے کی جنگ بندی ختم، اسرائیلی پیش قدمی پھرشروع

    غزہ:72گھنٹے کی جنگ بندی ختم، اسرائیلی پیش قدمی پھرشروع

    غزہ : اسرائیل اور حماس کے درمیان بہتر گھنٹے کی جنگ بندی معاہدہ کے بغیر ختم ہوگئی۔

    اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں تین دن سے جاری جنگ بندی کسی معاہدہ کے بغیر آج ختم ہوگئی، غزہ کی سرزمین پر اسرائیلی فوجیوں کا مکمل محاصرہ ختم نہ کرنے اور حماس کے جائز مطالبات پورے نہ ہونے پر حماس کے لیڈر نے جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کردیا۔

    حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی ناجائز غنڈہ گردی نا قابل قبول ہے، اسرائیلی فوج کی ظالمانہ کاروائیوں کے سبب غزہ میں امدادی سرگرمیوں اور بحالی کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔

    اسرائیل نے جنگ بندی ختم ہوتے ہی غزہ میں فوج کی تعیناتی شروع کردی، غزہ میں آٹھ جولائی سے شروع ہونے والی صیہونی فوج کی پر تشدد کاروائیوں میں اب تک انیس سو سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

  • غزہ میں جنگ بندی میں توسیع کی کوششیں

    غزہ : اسرائیل اور حماس کے درمیان باہتر گھنٹوں کی جنگ بندی جمعےکی صبح ختم ہو رہی ہے، حماس نے جنگ بندی میں توسیع کے لئے اسرائیل سےغزہ کا سات سال سے جاری محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کے لئے مصر کی کوششیں جاری ہیں، قاہرہ میں اسرائیلی اورفلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں، امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی تو غزہ میں بحالی کا کام ہوسکے گا۔

    حماس نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی شرط پر جنگ بندی میں توسیع پر رضا مندی ظاہر کی ہے، ادھرغزہ میں عارضی جنگ بندی کے دوران ہزاروں فلسطینیوں نے اپنے تباہ حال گھروں کو لوٹنا شروع کردیا ہے ، کئی مقامات پر ملبے سے شہداء کی لاشیں نکالی جارہی ہیں، جنگ بندی کے بعدغزہ میں کھانے پینےکی اشیاء اور دواؤں کی فراہمی بھی شروع ہوگئی ۔

    دوسری جانب ناروے میں غزہ کی بحالی کے لئے فنڈز اکٹھا کرنےکیلئے کانفرنس کی تیاریاں جاری ہیں۔