Tag: اسلامی آرٹ

  • عربی خط بعد از اسلام

    عربی خط بعد از اسلام

    ظہورِ اسلام کے وقت تک خط، خطۂ عرب یا دوسرے علاقوں میں، کچھ زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھا۔ علمُ الخط بالعموم اور عربی خط بالخصوص اسلام کے ظہور کے بعد زیادہ تیزی سے پھیلے اور ارتقاء و ترقی کی نئی منازل طے کیں۔ عربی خط کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو اسلام کے دامن میں پناہ ملی۔

    ظہورِ اسلام کے وقت خط ایک غیر اہم حیثیت کا حامل تھا، مگر آغازِ اسلام کے بعد یہ اتنی جلدی اس مقام و مرتبے تک پہنچ گیا جہاں عام حالات میں پہنچنے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ اسلام کے دامن میں خط میں نہ صرف حسن پیدا ہوا، بلکہ رسم الخط میں انقلابی تبدیلیاں بھی پیدا ہوئیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ قرآنی آیات کو حکمِ ربی سمجھتے ہوئے فن کاروں نے اپنا سارا زورِ قلم انھیں لکھنے اور سنوارنے میں صرف کر دیا۔

    حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت دی گئی۔ آپ نے حفاظت حدیث کی خاطر حدیث کے جمع کرنے اور کتابت کرنے کا حکم دیا۔ اس دور میں خالد بن الہیاج نے خط کوفی میں انتہائی مہارت پیدا کر لی اور قرآنی آیات کو خوب صورت انداز میں مسجد نبوی کی دیواروں پر لکھا۔ اموی دور کے مشہور خطاطوں میں ابو یحیٰ، مالک بن دینار، سامہ بن لوی اور قطبہ المحرر کے نام مشہور ہیں۔ قطبہ نے خط کوفی میں چار نئے اقلام ایجاد کیے تھے۔ ان کے علاوہ مروان بن محمد کے کاتب عبداللہ بن مقفع اور ہشام بن عبدالملک کے کاتب ابوالعلاء سالم کے نام بھی ملتے ہیں۔ ابن ندیم کے مطابق قطبہ المحرر اس دور میں روئے زمین پر سب سے بہتر عربی لکھنے والا شخص تھا۔

    عباسی دور میں ضحاک بن عجلان فن خطاطی میں قطبہ سے بھی بازی لے گیا۔ اس نے کوفی خط میں کئی اور اقلام ایجاد کیں۔ اس کے بعد خلیفہ منصور اور مہدی کے دور میں اسحاق بن حماد اور اس کے شاگرد یوسف اور ابراہیم بھی عمدہ خطاط تھے۔ اسحاق نے ضحاک بن عجلان کی قلموں میں مزید تحقیق کر کے بارہ نئی اقلام ایجاد کیں، جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کے نام طومار، عہود، سجلات، امانات، مدیح، ریاش، موامرات، دیباج، مرصع، غبار، بیاض اور حسن ہیں۔

    عباسی خلفاء خطاطی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ انھی خلفاء کی سرپرستی کے باعث اس فن میں کمال پیدا ہوا۔ یہ لوگ فن کاروں کی خاص قدر کیا کرتے تھے۔ خلیفہ مامون نے ایک بار کہا:’’اگر عجمی بادشاہ اپنے کارناموں پر ہم سے باہم فخر کریں تو ہم اپنے پاس موجود خط کی انواع و اقسام پر فخر کریں گے، جو ہر جگہ پڑھا جاتا ہے اور ہر زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔‘‘

    اسحاق سے یوسف الشجری اور ابراہیم الشجری نے یہ فن سیکھا اور اس میں مزید تجربات کیے۔ ابراہیم نے قلم ثلث اور نصف ایجاد کیے۔ الثلث عام کوفی کی نسبت زیادہ تیز رو تھا اور حروف آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ابراہیم کے شاگردوں میں الاحول المحر ر بہت مشہور ہوا تھا۔ اسے خطاطی کے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ جس کے ذریعے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کا شاگرد ابن مقلہ تھا۔ ابن مقلہ نے خطاطی کو نئے انقلابات سے روشناس کرایا اور خط کوفی کی بالادستی ختم کر کے نئے خطوط کی بنیاد رکھی۔

    ابو علی محمد بن علی بن حسین بن مقلہ بیضاوی، نے خطاطی کے علاوہ دیگر علوم میں بھی کمال حاصل کیا اور بغداد کے علمی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس نے خط کوفی میں کمال حاصل کیا اور چھ بالکل نئے خط ایجاد کیے۔ ان کے نام ’’ثلث‘‘، ’’نسخ‘‘ ، ’’توقیع‘‘ ، ’’رقاع‘‘ ، ’’ محقق‘‘ اور’’ ریحان‘‘ ہیں۔ ان کے علاوہ اس نے کئی اقلام ایجاد کیں اور خطاطی کے قواعد بھی مرتب کیے۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن السمسانی اور محمد بن اسد مشہور ہوئے۔ ان سے یہ فن ابوالحسن علی بن ہلال المعروف ابن البواب نے حاصل کیا۔ ابن البواب ابن مقلہ سے متاثر تھا۔ اس نے خط نسخ میں مزید تحقیق کی اور اس کی خامیوں کو دور کیا۔ اس کے قواعد و ضوابط تیار کیے۔ اس دور میں خط نسخ پورے عرب میں مقبول ہو گیا تھا۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن عبدالملک اور محدث خاتون کے نام قابل ذکر ہیں۔محدث خاتون سے یہ فن امین الدّین یاقوت الملکی نے سیکھا۔ امین الدّین کے شاگردوں میں سب سے زیادہ مقبول اور مشہور خطاط یاقوت بن عبداللہ رومی المستعصمی تھا جو اپنی مہارت کی وجہ سے ’’قبلۃ الکتاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ خطاطی میں ابن مقلہ اور ابن البواب کے بعد اسی کا درجہ ہے۔

    یہ وہ دور تھا جب فن خطاطی عرب سے نکل کر یورپ اور ہندوستان تک پھیل گیا تھا۔ ساری دنیا اس کی عظمت اور حسن سے متاثر ہوئی۔ دنیا کے کئی ممالک نے عربی خط کے حسن اور رعنائی سے متاثر ہو کر اپنی اپنی زبانوں کے لیے اس رسم الخط کو اختیار کر لیا۔چنانچہ فن خطاطی پر بھی عربوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور یہ فن ایران، مصر، افغانستان، ترکی، افریقہ، ہندوستان اور وسط ایشیا تک پہنچ گیا۔

    (اقتباس مقالہ از عبد الحئی عابد)

  • اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    ادب و قصص کی کتب کی تصاویر کا سلسلہ یوں تو ابتدائی اسلامی عہد میں شروع ہوگیا تھا مگر ان کے قدیم ترین نسخے، جو ہمیں ملتے ہیں وہ زیادہ تر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے ہیں۔ اتفاق سے قابوس نامہ کا مصوّر نسخہ امریکہ میں ایک پرانی اشیا کے تاجر کے ذریعہ حال ہی ملا ہے، جسے راقم نے بھی دیکھا ہے۔

    دراصل قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں اسے بطور پند و نصائح لکھا تھا مگر مصور نسخے کے متعلق مختلف آرا ہیں کہ آیا یہ مصوّر نسخہ صحیح ہے یا جعلی ہے۔ اگرچہ ابھی تک زیادہ قیاس یہی ہے کہ یہ جعلی ہے۔ بہرحال یہ نسخہ ۴۱۳ھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی رنگین تصویریں قابل مطالعہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ نسخہ ضرور مشکوک ہے۔

    بغداد میں عہد دولتِ عباسیہ میں علوم و فنون کو بہت فروغ ہوا تھا۔ یہاں الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ جیسے علمی اور ادبی شہ پارے بھی مصوّر کیے گئے تھے جو اس عہد کی یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ کلیلہ و دمنہ کے مصوّر نسخے اب نہیں ملتے ہیں۔ خدیویہہ کتب خانۂ مصر میں عربی کی مشہور کتاب آغانی کا مصوّر نسخہ بھی موجود ہے، جس کے جمالیاتی حسن سے عربوں کی ثقافت اور فن کا عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے میونخ جرمنی کی نمائش ۱۹۱۴ء میں چند اوراق الف لیلیٰ کے بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کا نقشہ تھا جسے ہارون رشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً ارسال کیا تھا۔ اوراق میں اس زمانے کے بازاروں کے مناظر اور بعض علم موسیقی سے متعلق بہت اہم یادداشتیں تھیں۔

    چونکہ عام طور پر کلیلہ و دمنہ کو ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کا چربہ شمار کیا جاتا ہے، جو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اسے مصور کرنے کی طرف بہت توجہ کی گئی تھی۔ اس کا ایک نسخہ نمائش ۱۹۱۴ء میں پیرس میں آیا تھا۔ جو ۶۳۲ھ کا لکھا ہوا تھا جس میں یہی تصاویر بھی تھیں۔ مگر ان کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک اور مصور نسخہ پیرس میں ۷۳۳ھ کا لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا، جو بغداد میں لکھا گیا تھا مگر اسی عہد میں مقاماتِ حریری کے مصوّر نسخے تیار ہوئے کیونکہ مدارسِ اسلامیہ میں یہ کتابیں باقاعدہ پڑھاتی جاتی تھیں اور اس طرح قدرے سریعُ الفہم تصور کی جاتی تھیں۔ انسان ان کتابوں میں جمالیاتی صورت سے بھی خوب حظ اٹھا سکتا تھا۔

    چنانچہ ان کتب کے کافی مصوّر نسخے یورپ کے کتب خانوں مثلاً برٹش میوزم لنڈن، کتب خانہ ملّی پیرس اور وائنا میں موجود ہیں جنہیں راقم نے بھی دیکھا ہے۔ پیرس کا نسخہ بھی امین محمود الوسطی نے مصوّر لکھ کر ۶۳۴ھ میں تیار کیا تھا مگر لنڈن کا نسخہ جو ۷۲۳ھ کا لکھا ہوا ہے اسے ابوالفضل بن ابی اسحاق نے مصوّر کیا ہے۔ یہ تینوں نسخے خالصتاً عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا چینی یا ایرانی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح مصوّر نسخہ مجمع التواریخ رشید الدین کا اڈنبرا یونیورسٹی کتب خانے میں ہے، جو ۷۵۵ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں کافی تصاویر ہیں مگر اسی تاریخ کے مصوّر نسخے جن کو کسی قدر اس نسخہ کا حصہ تصور کرنا چاہیے، ہند میں کتب خانۂ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی اور رام پور کے کتب خانے میں ہیں، جن کو راقم نے بھی دیکھا ہے۔ ان میں واضح طور پر وسط ایشیائی ماحول ہے۔ اسی لیے ہم ان کی مصوری کو وسطِ ایشیائی دبستان کی مصوری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان تصاویر پر کسی قدر چینی مصوری کے اثرات بھی ہیں۔

    وسطِ ایشیاء میں فردوسی کے شاہنامہ نے اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کر دیا تھا، اس کو مصوروں نے ہر دور میں مصور کیا ہے۔ یہ کتاب جو سلطان محمود غزنوی کے عہد کا ایک زرین علمی کارنامہ ہے، مصوروں کے لیے جولانئ طبع کا مرکز رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوروں کو اس میں وہ واقعات ملے جس کے لیے مصور سہارا تلاش کرتا ہے کہ مصور کرنے میں سہولت ہو۔ اس میں بنے بنائے موضوعات ملتے ہیں۔ دوسرے یہ ایرانی ثقافت کا ایک بہترین نمونہ ہے یعنی ایرانی قوم کی یہ مصور تاریخ ہے۔

    یہ ماننا پڑے گا کہ مصوری کے معیار کے ساتھ ساتھ ہمارا جمالیاتی نقطۂ نگاہ بھی اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے اخیر میں، فنون میں کافی ترقی ہوچکی تھی اور خاص کر ایرانی مصوری میں شاہنامۂ فردوسی کے علاوہ دوسرے مستند شعرا کے کلام کو مصور کرنے کی طرف بھی مصوروں نے توجہ کی، جس میں نظامی کی کلیات، خواجہ کرمانی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کو ایرانی مصوروں نے مصور کر کے جمالیاتی اعتبار سے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کر دیا۔

    (ممتاز پاکستانی مصوّر عبدالرحمٰن چغتائی کے مضمون سے اقتباسات)

  • نقش و نگاری اور مصوّری میں‌ مسلم دنیا کا امتیاز

    نقش و نگاری اور مصوّری میں‌ مسلم دنیا کا امتیاز

    مسلمانوں کے ابتدائی دور میں خلفائے بنو امّیہ کے زمانے میں فتوحات سے اسلامی سلطنت میں توسیع ہوئی۔ اس وقت خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ساسانی اور بازنطینی پر اپنا سکہ جاری کیا، جس پر اس کی تصویر تھی، جو اس وقت مصلحتاً ضروری سمجھا گیا تھا۔

    بقول ابنِ سعد صاحب طبقاتِ قاضی شریع کی مہر پر دو شعر اور بیچ میں درخت منقش تھے۔ اس ابتدائی دور میں محض جمالیاتی طور پر فرحت اور مسرت حاصل کرنے کے لیے کپڑوں اور ظروف پر کئی قسم کے رنگوں سے نقاشی کی جاتی تھی۔ اس زمانہ کی نقاشی کے مطالعہ سے ہم آج اس زمانہ کے تمدن اور اطوارِ زندگی کا پتہ لگاتے ہیں۔

    مسلمانوں نے ان مصوّر اشیاء کی جمالیاتی خصوصیات کے لحاظ سے ان کے نام بھی وضع کیے۔ یعنی مرط مرحل اس چادر کو کہا جاتا تھا، جس پر مجمل اور آدمیوں کی تصاویر ہوں۔ شجراف و سجلاط وغیرہ ان چادروں کو کہا جاتا تھا، جن پر درختوں اور زیورات کی تصاویر ہوں۔ محلات کے نام بھی اس کی جمالیاتی کیفیات اور نقاشی کے اعتبار سے رکھے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے شہر فزدین میں جب ابتدائی دور میں اوّل مسجد بنائی تو اس کے لیے ایسے ستون استعمال کیے جن کے سروں پر بیلوں کے نقوش تھے۔ اس کی جمالیاتی خصوصیت کی وجہ سے اس کا نام مسجدِ ثور یعنی بیلوں والی مسجد رکھ دیا تھا۔

    مسلمانوں نے ایسے حسین ماحول کے جمالیاتی اثرات کو پریشان دماغی کیفیات کاعلاج بھی تصور کیا ہے، جس کی اکثر تاریخی شہادتیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر حکیم بدرالدین قاضی بعلبکی نے اپنی کتاب مفرّحُ النّفس میں بیان کیا ہے کہ تمام اطبا حکما و فضلائے عصر کا اتفاق ہے کہ خوب صورت اور نازک صُوَر کے دیکھنے سے نفس کو ایک گونہ فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے اور ان سے امراض سوداویہ اور پریشان کن افکار دور ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشرقِ وسطیٰ میں جب حمام بنائے گئے تو ان کی دیواروں کو نازک تصویروں سے مصور کیا جاتا تھا۔ مثلاً ان حماموں کی دیواروں پر عشقیہ نظاروں، حسین تصویروں اور وحوش کے شکار کے مناظر ہوتے تھے۔

    حکیم رازی نے لکھا ہے کہ مصوّر شکلوں میں تناسب اور مقدار کو ملحوظ رکھ کر دیدہ زیب رنگوں مثلاً سرخ، سبز، زرد اور سفید کے ساتھ مصور کیا جائے تو یقینی طور پر مفید ثابت ہوں گی اورتمام ہموم و غموم کو دور کریں گی اور خوشی کا سامان پیدا کریں گی۔ کیونکہ نفسِ انسانی اس قسم کے صورِ حسینہ کو دیکھ کر بہرہ اندوز ہوتا ہے۔

    ہماری جمالیاتی تاریخِ مصوّری بہت دل چسپ ہے اور ہماری مصوّری ہماری ثقافت کا بہت اہم باب ہے۔ ہم یہاں مختصر طور پر مصوّری میں مسلمانوں کے بڑے بڑے کارنامے جمالیاتی طور پر بیان کرتے ہیں، جس کو عام طور پر یورپ میں آج مفتی انجینئر پنڈنگ کہا جاتا ہے۔

    مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں تمام مشرقِ وسطیٰ، مشرقِ قریب اور وسط ایشیا کو فتح کرلیا تھا۔ مسلمانوں کی افواج کے امیر زیاد بن صالح نے جب سمرقند کو 58ء میں فتح کیا تو اس لڑائی کے قیدیوں میں کچھ چینی قیدی بھی ہاتھ آئے، ان میں سے بعض کاغذ بنانا بھی جانتے تھے، جن سے یوسف بن عمرو عرب نے کاغذ بنانا سیکھا، جسے مکّہ میں قرطاس سے تعبیر کیا گیا۔ اس وقت سے مسودات کو کاغذ پر لکھنا شروع کیا گیا۔

    یہ ظاہر ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے سامنے قرآنِ کریم کی حفاظت جو ان کا جزوِ ایمان تھا اور محض اسے لکھا ہی نہیں گیا بلکہ اس کو مُزَیّب و منقش کیا گیا جو مسلمانوں کے جذبۂ مصوری کی بیّن شہادت ہے۔ چنانچہ ابنِ مریم نے جہاں ابتدائی رسماء الکتاب قرآنِ کریم کا ذکر کیا ہے، وہاں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو قرآنِ کریم کو زرفشاں کرتے تھے، جن میں سے ابراہیم الصغیر، ابوموسیٰ بن عمار القطنی، محمد بن محمد ابوعبداللہ الغزاعی وغیرہ کافی مشہور گزرے ہیں۔ ان میں سے اکثر حافظِ قرآن ہوتے تھے اور قرآن کو لکھنا سطلاً اور منقش اور مُذَہّب کرنا توشۂ آخرت تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہایت شوق اور دل و دماغ سے اس کام کو انجام دیتے تھے۔

    مسلمانوں نے جمالیاتی اعتبار سے اس قسم کے نقش و نگار میں ایک خاص امتیاز پیدا کیا ہے جسے آج متفقہ طور پر یورپ میں ارابیک کہتے ہیں اور دنیائے مصوری میں ایک مسلّمہ جدت خیال کی جاتی ہے۔ اسی زمانے کے ذرا بعد وہ زمانہ آیا کہ جب مسلمانوں نے اپنی علمی کتابوں کو مزید مفید بنانے کے لیے ان کو مصوّر کرنے کی طرف توجہ کی، کیونکہ اس کے بغیر ان کی تفہیم کسی قدر مشکل تھی۔

    اگرچہ تصویر کشی ایک غیراسلامی عمل ہے مگر محض اس کی ضرورت علمی میدان میں محسوس کر کے طب، جغرافیہ، قرآۃ، ریاضی، نجوم، جر ثقیل، موسیقی کی کتابوں کو تصنیف کیا گیا اور اس کے ساتھ ان کے مخطوطے اعلیٰ فنِ مصوری اور جلد سازی سے تیار کیے گئے، جو بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اگرچہ ہم اس عہد کی کسی کتاب کو، جو ان علوم سے تعلق رکھتی ہے، اٹھا کر دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس ابتدائی زمانے میں مسلمانوں نے اس فن کو کتنے عروج پر پہنچا دیا تھا اور ان مخطوطات کی افادیت ایک مسلّمہ کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ کتابوں کے مصوّر صفحات کا نظارہ ان کی جمالیاتی قدر و قیمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

    (عالمی شہرت یافتہ پاکستانی مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے قلم سے)