Tag: اسلامی اقدار

  • امریکی مسلم خواتین کی اسلامی اقدار کے حامل لباس میں سوئمنگ کے لیے جنگ

    امریکی مسلم خواتین کی اسلامی اقدار کے حامل لباس میں سوئمنگ کے لیے جنگ

    امریکا دنیا بھر کے تارکینِ وطن کے لیے اولین ترجیح ہے اور اس کی وجہ یہاں کے سماجی کی ہمہ جہتی اور دنیا بھر کے تمام مکاتبِ فکرسے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے برداشت کی پالیسی ہے، لیکن یہاں بھی مسلم خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کئی مسائل کا سامنا ہے۔

    حال ہی میں امریکی شہر نیویارک کے ایک مضافاتی علاقے ہیمپ اسٹیڈ ٹاؤن کی انتظامیہ کے حکم پر مقامی سوئمنگ پولز میں لگے سوئمنگ ڈریس کے ضابطے میں ’برکینی‘ ( ایسا لباس جسے پہن کر مسلم خواتین اسلامی اقدار کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے سوئمنگ کرسکتی ہیں) کو باقاعدہ سوئمنگ کاسٹیوم کا درجہ دیا گیا ہے۔

    اس سب کی شروعات ہوئی آج سے دو سال قبل یعنی سنہ 2017 کے موسم گرما میں جب نیویارک کے علاقے لانگ آئی لینڈ کی رہائشی روحی کپاڈیا نامی ایک مسلم خاتون اپنی 13 سالہ بیٹی کو لے کر ایک مقامی سوئمنگ پول گئی تھیں۔

    ایکو پارک نامی اس مقامی سوئمنگ پول کے عملے نے یہ کہہ کر ان کی بیٹی کو سوئمنگ کرنے سے روک دیا تھا کہ اس کا لباس سوئمنگ کے لیے غیر مناسب ہے۔ یاد رہے کہ لڑکی نے سوئنگ کے باتھ سوٹ کے اوپر ایک ٹی شرٹ اور لیگنگ پہن رکھی تھی۔

    خاتون نے عملے کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے روحی کو اس معاملے پر مقامی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔

    روحی کپاڈیا اس معاملے پر اس قدر سنجیدہ تھیں کہ انہوں نے ہمپ اسٹیڈ ٹاؤن کی سپر وائزر لارا گلن سے ملاقات کی اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا ، جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ آئندہ مدت کے لیے منتخب ہوئیں تو اس معاملے کوحل کرائیں گی۔

    یاد رہے کہ مسلم خواتین دنیا بھر میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سوئمنگ کے لیے ایسے لباس کی جدو جہد کررہی ہیں جو کہ نہ صرف یہ کہ اسلامی اقدار کے تحت مناسب ہو، اور انہیں سوئمنگ کے دوران ہراسمنٹ کا نشانہ بننے سے بھی بچائے ، حال ہی میں فرانس کے کئی شہروں میں سوئمنگ پولز میں برکینی پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے خلاف مسلم خواتین سراپا احتجاج ہیں۔

    امریکا میں سرکاری سطح پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مسلم خواتین کا دعویٰ ہے کہ اکثر اوقات برکینی پہنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ر ہا ہے۔

    سنی 2018 میں لارا گلر نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے نے شفافیت اور برداشت کے کلچر کو مزید فروغ دینے کا فیصلہ کیا ۔ لہذا اس موسم گرما ان کے علاقے میں واقعہ سوئمنگ پولز پر نئے سائن بورڈ نصب کیے گئے ہیں ، جن میں قواعد و ضوابط میں لکھا گیا ہے کہ ’ مذہبی روایات کا احترام ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ، سوئمنگ کے موقع پر برکینی کو بطور سوئمنگ سوٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    روحی کپاڈیا اور ان کی بیٹی جب رواں ماہ سوئمنگ کے لیے اسی سوئمنگ پول میں گئیں جہاں دو سال قبل انہیں سوئمنگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی ، وہاں یہ پالیسی لکھی دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔

  • ریحام خان کو اسلامی اقدار کا مذاق بنانا مہنگا پڑ گیا

    ریحام خان کو اسلامی اقدار کا مذاق بنانا مہنگا پڑ گیا

    لندن: سابق ٹی وی اینکر اور صحافی ریحام خان کو اسلامی اقدار کا مذاق بنانا مہنگا پڑ گیا انہوں نے اپنے چہرے پر داڑھی اور سر پر رومال رکھ کر تصویر شیئر کی جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ایک تصویر شیئر کی جس عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچے۔

    ٹویٹ میں ریحام کا کہنا تھا کہ ’کچھ عرصے قبل مجھے ایک پارٹی میں شمولیت کی پیش کش ہوئی تو میں نے انہیں جواب دیا کہ میں اپنے چہرے کو نہیں ڈھانپ سکتی البتہ اس پر داڑھی لگا سکتی ہوں‘۔

    ریحام نے اپنے چہرے پر فرضی داڑھی اور سرپر رومال لگا کر تصویر شیئر کی تو انہیں سب نے اسلام کا مذاق بنانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مذہبی اسکالر مفتی زبیر نے ریحام کی تصویر کو بے ادبی قرار دیا۔

    دوسری جانب زمبابوے سے تعلق رکھنے والے مفتی اسماعیل مینک نے ریحام خان کو جواب دیا کہ ’میں نہ تو سیاست میں دلچپسی رکھتا ہوں اور نہ ہی کبھی پاکستان گیا، البتہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کی تکلیف کا علاج کیپ ٹاؤن میں موجود ایلیا لیزر کلینک سے باآسانی ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ عمران خان کی سابق اہلیہ الیکشن سے قبل اپنی کتاب لانے کا پہلے ہی اعلان کرچکی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ خاتون اب اسلامی اقدار کا مذاق بنا کر سستی شہرت سمیٹنے کی کوشش کررہی ہیں۔

    ویڈیو دیکھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں