Tag: اسلامی تاریخ

  • سردار اور پیشوا (تاریخِ اسلام سے ایک ورق)

    سردار اور پیشوا (تاریخِ اسلام سے ایک ورق)

    ’’مقدمۂ ابنُ صلاح‘‘ اصولِ حدیث میں معتبر تصنیف شمار کی جاتی ہے یہ علّامہ ابنُ الصلاح محدث کی تحریر کردہ مشہور کتاب ہے۔ انھوں نے امام زہری اور اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کا ایک مکالمہ با سند نقل کیا ہے جس سے حکومت یا سرداری کے لیے سیرت و کردار اور دینی خدمت کے جذبے کا سبق ملتا ہے۔ یہ واقعہ اُس دور میں مسلمانوں کی سیاسی فکر اور سماجی حالت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    امام زہری جب عبدالملک بن مروان کے پاس پہنچے تو وہاں بادشاہ سے جو گفتگو ہوئی، اسے یوں رقم کیا ہے

    عبدالملک: ’’زہری تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘

    زہری: مکہ سے

    عبدالملک: تم نے وہاں کس کو سردار اور پیشوا چھوڑا؟

    زہری: عطا بن رباح کو

    عبدالملک: عطا بن رباح عرب ہے یا غلام (عجمی)؟

    زہری: عطا غلاموں سے ہے

    عبدالملک: عطا غلام ہو کر سردار و پیشوا کیوں کر ہوگیا؟

    زہری: ’بالدیانۃ والروایۃ‘ دین داری اور حدیثوں کی روایت کی وجہ سے

    عبدالملک: بلاشبہ اہلِ دین و اہلِ روایت ضرور سرداری کے لائق ہیں۔

    عبدالملک: یمن کا سردار کون ہے؟

    زہری: طاؤس بن کیسان ہیں

    عبدالملک: عرب ہیں یا غلام (عجمی)؟

    زہری: عجمی غلام

    عبدالملک: پھر غلام سردار و پیشوا مسلمانوں کا کیونکر ہوگیا؟

    زہری: جس وجہ سے عطا بن ابی رباح سردار و پیشوا ہوئے۔

    عبدالملک: ضرور ایسا ہی مناسب ہے۔

    عبدالملک: زہری! مصر والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟

    زہری: یزید بن حبیب

    عبدالملک: یزید بن حبیب عرب ہے یا غلام عجمی؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: اور شام والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟

    زہری: مکحول ہیں

    عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟

    زہری: غلام ہیں۔ نوبی قوم سے قبیلہ ہزیل کی ایک عورت نے انھیں آزاد کیا تھا۔

    عبدالملک: اہلِ جزیرہ کی سرداری کس کے سر ہے؟

    زہری: میمون بن مہران کے۔

    عبدالملک: میمون غلام ہے یا عرب؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: خراسان والوں کا سردار کون ہے؟

    زہری: ضحاک

    عبدالملک: ضحاک عرب ہیں یا غلام؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: اہل بصرہ کا سردار و پیشوا کون ہے؟

    زہری: حسن بن ابی الحسن ہیں

    عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟

    زہری: غلام ہیں

    عبدالملک: کوفہ کی سرداری کس کے سر ہے؟

    زہری: ابراہیم نخعی کے

    عبدالملک: عرب ہیں یا غلام؟

    زہری: عرب ہیں

    عبدالملک: بھلا ہو تمھارا اے زہری! تم نے میرے دل سے بوجھ دور کر دیا، خدا کی قسم عرب کی سرداری کا سہرا غلاموں کے سر رہے گا اور غلام لوگ عرب کے پیشوا اور سردار بن جائیں گے۔ یہاں تک کہ انھی کے خطبے منبروں پر پڑھے جائیں گے اور عرب اس کے نیچے ہوں گے۔

    زہری: ہاں اے امیر المومنین یہ تو اللہ کا امر اور اس کا دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا سردار و پیشوا ہوگا اور جو اسے ضائع کرے گا گر جائے گا۔

    اس مکالمے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں نے اسلام کے قانونِ مساوات و فضیلت کو کس طرح اپنایا ہوا تھا۔ یہی وہ طرزِ فکر تھا جس نے اس وقت غیر مسلموں کی بڑی تعداد کو اسلام کی جانب مائل کیا اورمسلمانوں نے اپنا اوج دیکھا۔

  • پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین: ایک نابینا کی کتھا!

    پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین: ایک نابینا کی کتھا!

    پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین (۱۸۸۹ء۔ ۱۹۷۳ء) دنیائے عرب کی ایک ایسی عظیم شخصیت کا نام ہے جس کی تمام زندگی حصول علم، فروغ علم اور ترسیل علم سے عبارت ہے۔

    مصر کے اس مرد آہن نے تعلیم کے میدان میں ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیے جنہیں تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ وہ رہتی دنیا تک ایک مثال اور ایک نمونہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ بصارت سے محروم ہوتے ہوئے علم و تحقیق کی انتہا کو پہنچے، تحصیل علم کے لیے آپ کی جد و جہد اور اس راہ میں حائل مسائل و مشکلات کو برداشت کرنا قابل ستائش ہے۔

    ڈاکٹر طحہٰ حسین مصر کے ایک چھوٹے سے شہر میں ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے۔ یہ اپنے تیرہ (۱۳) بھائیوں میں ساتویں اور گیارہ بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ آپ نے اپنی بصارتی محرومی کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ ’’ دیہاتی اور شہری عورتوں کا فلسفہ مہمل ہوتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے ٹوٹکوں‘ جھاڑ بھونک اور تعویذ گنڈوں پر بھروسہ رکھتی ہیں، مریض کی مناسب اور بر وقت دیکھ بھال ان کے نزدیک ثانوی ہوتی ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر طحہٰ حسین لکھتے ہیں کہ ’’میری آنکھیں دکھنے لگیں‘‘ اس وقت عمر کوئی تین برس تھی، چند دن تو یونہی چھوڑ دیا گیا اس کے بعد ایک نائی کو بلایا گیا اور اس نے ایسا علاج کیا کہ آنکھیں جاتی رہیں۔‘‘

    کلام مجید حفظ کرنے اور ابتدائی مذہبی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم بھی مصر ہی میں حاصل کی۔ آپ ابتدا ہی سے آزاد خیال اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے قائل تھے، چنانچہ ابتدائی مذہبی تعلیم کے دوران آپ کو دینی مدارس کے روایتی استادوں سے نفرت سی ہو گئی تھی۔ آپ نے اپنی سوانح عمری میں ان اسباب کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے اور متعدد واقعات ان استادوں کی کم علمی، فرقہ پرستی، محدود نظری اور قناعت علمی کے بارے میں تحریر کیے ہیں۔ آپ جامعۃ الازہر بھی جاتے رہے، ساتھ ہی شام کے اوقات میں جدید تعلیم کے ادارے یعنی کالج بھی جانے لگے جہاں سے وہ علوم جدیدہ کی طرف مائل ہوئے، اس نتیجے پر پہنچے کہ علم چند کتابوں تک محدود نہیں۔ جامعہ الا زہر سے فارغ ہو جانے کے بعد جہاں پر آپ کو کچھ اختلاف بھی ہوا جس کا آپ نے برملا اظہار بھی کیا، آپ مصری یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے جہاں سے آپ نے ۱۹۱۴ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ ’آپ پہلے طالب علم تھے جنہوں نے گیارہویں صدی کے شاعر ابو العلا پر مقالہ تحریر کر کے یونیورسٹی سے ڈگری کے حصول کا اعزاز حاصل کیا۔‘ ڈاکٹریٹ کر لینے کے باوجود ڈاکٹر طحہٰ حسین میں مزید علم حاصل کرنے کی جستجو بر قرار رہی۔ آپ فرانس کی یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے اور ۱۹۱۸ء میں مزید ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ گویا آپ ڈبل پی ایچ ڈی ہو گئے۔ علم کی ان اعلیٰ ترین اسناد کے حصول میں آپ کی بصارت سے محرومی آپ کے آڑے نہ آئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر انسان کسی مقصد کے حصول میں سچائی اور لگن کے ساتھ مصروف عمل ہو جائے تو کوئی مشکل، کسی بھی قسم کی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

    فرانس میں اپنے قیام اور مشکلات کا ذکر ڈاکٹر طحہٰ حسین نے اپنی ایک کتاب میں ان الفاظ میں کیا کہ ’’مجھے اپنی خصلتوں میں صبر و اولاالعزمی کی فرانس میں جس قدر شدید ضرورت محسوس ہوئی اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے وہاں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز اور انسان نیا معلوم ہوتا تھا۔ اسی طرح وہاں کی ہر چیز اور ہر شخص نے مجھے اجنبی سمجھا لیکن صبر اور غیر متزلزل قوتِ برداشت ہی وہ خصلتیں ہیں جنہوں نے مجھے، لوگوں اور چیزوں کو موقع دیا کہ وہ مجھے سمجھیں اور انہیں خصلتوں کی مدد سے میں فرانس میں باوجود ابتدائی مشکلات و مصائب کے زندہ رہا اور بالآخر پہلے دو سالوں کے بعد وہاں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔‘

    فرانس میں قیام کے دوران ڈاکٹر طحہٰ حسین کی ملاقات ایک فرانسیسی خاتون سیوزانی برسیو سے ہوئی جو طبیعتاً نرم دل، ہمدرد اور تعلیم یافتہ تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ڈاکٹر طحہٰ کے نزدیک آ گئی اور انہوں نے سیوزانی برسیو سے شادی کر لی۔ فرانس سے واپسی پر برسیو ڈاکٹر طحہٰ کے ہمراہ مصر آ گئی اور بقیہ زندگی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزار دی۔ زندگی کے سفر میں سیوزانی برسیو کو دیگر مصروفیات کے علاوہ ایسے کام بھی اضافی کرنا پڑے مثلاً ڈاکٹر صاحب کو اخبارات، رسائل اور کتب پڑھ کر سنانا، ان سے ایڈوائس لینا، تقاریر تحریر کرنا وغیرہ۔

    ڈاکٹر طحہٰ حسین کی شخصیت ان کے بعض نظریات اور خیالات کے باعث سخت تنقید کا نشانہ بنی، وہ ایک جانب تو عربی زبان کے بڑے اور ممتاز ادیب کی حیثیت رکھتے تھے دوسری جانب ان پر ناقدین نے سخت تنقید بھی کی اور ان کے خلاف مصر میں بہت سی کتابیں اور بے شمار تنقیدی مضامین تحریر کیے گئے، خاص طور پر جامعۃ الازہر کے علماء نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر طحہٰ کی بعض اختلافی باتیں بہت زیادہ بلکہ خطرناک حد تک سامنے آئیں۔

    ڈاکٹر طحہٰ حسین کی تمام زندگی جد و جہد سے عبارت ہے، بصارت سے محروم ہوتے ہوئے آپ نے حصول تعلیم میں بلندیوں کو چھوا، عملی زندگی میں قدم رکھا تو مصائب و مشکلات کو برداشت کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا حتیٰ کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی، تصنیف و تالیفات کے میدان میں ڈاکٹر طحہٰ حسین نے نمایاں خدمات انجام دیں، بے شمار مضامین و خطبات کے علاوہ آپ نے چالیس سے زیادہ کتب تخلیق کیں۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

    ۱۹۷۳ میں عرب دنیا کا یہ عظیم انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔

    (از قلم رئیس احمد صمدانی، شائع شدہ مجلہ افق)

  • علم و فضل میں‌ یکتا ابن عبد البر القرطبی کا تذکرہ

    علم و فضل میں‌ یکتا ابن عبد البر القرطبی کا تذکرہ

    اسلامی تاریخ کا اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو آسمان علم و حکمت پر بے شمار درخشندہ ستارے جلوہ گر نظر آئیں گے جن کی ذات سے علم و ادب کے بے شمار سوتے پھوٹتے ہیں۔ انہی تابندہ ستاروں میں اندلس کے علّامہ عبد البر بھی شامل ہیں۔

    نام و نسب
    اسلامی دنیا کی اس عالم فاضل شخصیت کا نام یوسف، کنیت ابو عمرو، اور عرفیت ابن عبدُ البَر ہے۔ کتب میں‌ ان کا نام یوسف بن عبد اللہ بن محمد عبد البر بن عاصم النمری القرطبی لکھا ہے۔

    تاریخ پیدائش
    قرطبہ میں‌ آپ کی پیدائش 978ء کو ہوئی اور اس بارے میں‌ ابو الحسن طاہر بن مغفور المغافری سے منسوب ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے ابو عمر و عبد البر نے اپنی تاریخِ پیدائش کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ بروز جمعہ اس وقت عالمِ رنگ و بُو سے وابستہ ہوئے جب جمعہ کا خطبہ ہو رہا تھا۔

    خاندان
    القرطبی نے خالصتاََ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان علم و فضل میں‌ قرطبہ میں ممتاز تھا۔ ان کے والد محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبہ کے فقہا و محدثین میں سے تھے۔ اس کنبے کا علم و ادب سے گہر ا تعلق تھا۔

    حالاتِ زندگی
    اسی ماحول میں‌ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے بمشکل تیرہ برس کی عمر کو پہنچے تھے کہ القرطبی کے والد وفات پاگئے۔ بڑے ذوق و جستجو کے ساتھ القرطبی حصولِ علم میں مگن رہے اور قرطبہ میں ہی اس وقت کے جید علماء سے درس لیا۔ ان علماء میں ابو القاسم خلف بن القاسم، عبد الوارث بن سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عبد المومن و دیگر شامل ہیں۔ ان نابغۂ روزگار علمائے کرام کے علاوہ ابنِ خلکان نے چند اور حضرات کا بھی ذکر کیا ہے جن سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔ قاضی ابو علی الحسین بن احمد بن حمد الغسانی الاندلسی الجیانی کہتے ہیں کہ ابن عبد البر اہلِ قرطبہ میں سے ہمارے شیخ تھے، آپ نے فقہ کا علم ابو عمر احمد بن عبد المالک بن ہاشم الفقیہ الاشبیلی سے حاصل کیا اور علوم حدیث ابو الولید ابن الفرضی الحافظ سے حاصل کیا۔

    پانچویں صدی ہجری کی ابتدا میں قرطبہ سیاسی لحاظ سے خلفشار اور افرا تفری کا شکار تھا۔ اموی حکومت ختم ہو گئی تھی، ہر طرف فتنہ و فساد پھیلنے لگا اور قرطبہ کے بہت سے علماء و ادباء نے وہاں سے ہجرت کی تو علامہ ابن عبد البر جو اپنی علمی منزلت کی وجہ سے اندلس میں‌ مشہور ہو چکے تھے، قرطبہ سے نکل کر بطلیموس چلے گئے۔ وہاں بنو الافطس کی حکمرانی تھی۔ وہ بڑا علم دوست اور قدر دان شخص تھا۔ اس نے آپ کی بڑی عزت و توقیر کی اور آپ کو اپنی ریاست کے دو شہروں اشنوتہ اور شنتریں کا قاضی مقرر کر دیا۔ پھر آپ مشرقی اندلس چلے گئے۔ بلنسیہ اور دانیہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ جہاں مجاہد حکمران تھا۔ اس نے بھی آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علامہ ابن عبد البر کا ایک بیٹا محمد عبد اللہ بن یوسف بہت بڑا ادیب و انشاء پرداز اور شاعر تھا اور اس کی فصاحت و بلاغت کی مثال دی جاتی تھی۔ اس کی زبان دانی اور علم و ادب کی وجہ سے مجاہد نے اسے اپنے ’’دواوین‘‘ میں ملازمت دی جو بعد میں‌ انتقال کر گیا تھا۔ علّامہ اپنے بیٹے کی وفات کے بعد دانیہ سے شاطبہ تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی وہیں علمی سرگرمیوں میں مگن رہے۔

    وفات
    شاطبہ میں علّامہ ربیع الثانی 1071ء میں علّامہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان کا جنازہ ابو الحسن طاہر بن مغفوز المغافری نے پڑھایا۔

    علمی خدمات
    علامہ ابن عبد البر علوم و فنون میں یکتا خاص کر قرآن و حدیث، تفسیر و معانی، اسماء الرّجال، تاریخ اور فقہ و اصولِ فقہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور قضاء و افتاء کے ساتھ ان کی صحبت سے بہت سے تشنگانِ علم نے فیض اٹھایا۔ دوسری طرف تصانیف و تالیفات کا ایک ضخیم ذخیرہ بھی ان کے علمی تبحر کی یادگار ہے۔

    ابن عبد البر کا میلان شعر و سخن کی طرف بھی بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ باقاعدہ آپ کا کلام تو دست یاب نہیں ہے مگر چند کتابوں‌ میں ان کے اشعار ملتے ہیں جن سے علّامہ کے ذوقِ لطیف اور اس فن میں‌ ان کی بلاغت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    اس بارے میں‌ ہمیں مشہور تاریخ نویس اور مسلمان اسکالرز کی کتب میں معلومات ملتی ہیں۔ بات کی جائے ابنِ خلکان کی تو وہ لکھتے ہیں کہ تصنیف و تالیف میں توفیق الہٰی اور تائید ایزدی علّامہ ابن عبد البر کے شاملِ حال تھی۔ علامہ ابنِ حزم کا بیان ہے کہ ان کی کتابیں مختلف حیثیتوں سے اہم اور بے مثال ہیں۔

  • مسلمانوں کا تعلیمی نظام: تاریخی جائزہ

    مسلمانوں کا تعلیمی نظام: تاریخی جائزہ

    موجودہ دور میں مسلمانوں کے تعلیم کے دو دھارے (Stream) ہیں۔ ایک کو قدیم یا دینی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جدید یا عصری۔ یہ دونوں متوازی چلتے ہیں اور جس طرح دریا کے دونوں کنارے طویل ترین فاصلہ طے کرنے کے باوجود کہیں نہیں ملتے، اسی طرح ان دونوں دھاروں کے درمیان بھی کہیں یکجائی نہیں ہوتی۔

    والدین کو ابتدا ہی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچّے کو کسی دینی مکتب یا مدرسے کے حوالے کریں یا کسی اسکول میں اس کا داخلہ کرائیں۔ جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچّہ ڈاکٹر، انجینیر، آرکیٹکٹ یا کسی پروفیشن کا ماہر تو بن جاتا ہے، لیکن اس کی دینی تعلیم واجبی سے بھی کم ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا عالم و فاضل ہو کر مسجد کی امامت اور مدرسے کی مسند صدارت سنبھالنے کے قابل تو ہو جاتا ہے، لیکن تیز رفتار ترقیات سے معمور دنیا میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، چنانچہ احساسِ کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔

    اس صورتِ حال میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا تعلیم کی یہ تقسیم دینی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ایک صالح، کار آمد اور انسانیت کے لیے مفید معاشرہ کی تعمیر کے لیے اس تقسیم کو نہ صرف گوارا بلکہ باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں اس تقسیم کو روا رکھا تھا اور کیا انھوں نے مسلمان بچّوں اور بچّیوں کے لیے دینی تعلیم کا الگ انتظام کیا تھا؟ اسلام علم کو ’دینی‘ اور ’دنیاوی‘ خانوں میں باٹنے کا قائل نہیں ہے۔

    بنیادی دینی تعلیم، جس کے ذریعہ انسان دین کے تقاضوں پر عمل کر سکے، اسے اس نے ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ اس کے بعد علم و معرفت کے تمام دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی طلب، مواقع اور محنت کے مطابق ان سے فیض حاصل کر سکتا ہے۔

    تعلیم گاہ کی خشتِ اوّل مسجدِ نبوی میں بنے ہوئے چبوترے پر رکھی گئی تھی، جسے ہم ’صفہ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں بھی علم کی جامعیت کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اصحابِ صفہ نہ صرف قرآن حفظ کرتے اور اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات کو سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرتے تھے، بلکہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھتے تھے اور فنونِ حرب کی بھی مشق کرتے تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جن سردارانِ مکّہ کو گرفتار کیا گیا تھا ان کا فدیہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ ہر شخص دس بچّوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ ظاہر ہے کہ ان اسیرانِ قریش نے دینی تعلیم نہ دی ہوگی۔

    عہدِ اموی میں جب اسلامی مملکت کی سرحدیں وسیع ہوئیں اور دیگر قوموں سے ربط و تعامل بڑھا تو اس زمانے کے مروّجہ علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی تحریک شرع ہوئی۔ یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد رواج دیے گئے دستور کے مطابق ان کے بیٹے خالد کو زمامِ اقتدار سنبھالنی تھی، لیکن اس کا علمی شغف اتنا زیادہ تھا کہ اس نے خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خالد بن یزید نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا اور دوسروں سے بھی کروایا۔

    عالمِ اسلام میں سیاسی آویزشیں جاری رہیں اور میدانِ سیاست میں کشت و خوں کا بازار گرم رہا، یہاں تک کہ خلافتِ بنو امیہ کا خاتمہ ہوگیا اور خلافتِ بنو عباس قائم ہو گئی، لیکن علمی تحریک برابر زور پکڑتی گئی۔ عباسی حکم رانوں منصور اور ہارون رشید نے اس کی سرپرستی کی، یہاں تک کہ مامون الرّشید نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس کے عہد میں قائم ’بیتُ الحکمۃ‘میں اس دور کے تمام مروّجہ علوم کی کتابوں کا دیگر زبانوں سے عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

    اس دور میں خلافتِ اسلامی کے حدود میں مدارس کا قیام شروع ہوا تو ان میں علوم کی تقسیم کو روا نہ رکھا گیا۔ ان میں داخلہ لینے والے طلبہ تمام علوم حاصل کرتے تھے اور بعد میں ذوق کے مطابق کسی فن میں اختصاص کرتے تھے۔

    تاریخِ اسلامی میں دولتِ سلجوقیہ کے وزیرِ اعظم نظام الملک طوسی کے ذریعہ قائم ہونے والے مدرسے کو، جو اس کے نام سے منسوب ہو کر ’مدرسۂ نظامیہ‘ کہلایا، غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ امام غزالیؒ اور ان کے استاد امام الحرمین جوینی، اسی طرح ابن الخطیب، تبریزی شارح حماسہ، ابو الحسن فصیحی شاگرد امام عبد القادر جیلانی اور سعدی شیرازی نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی یا تدریس کے فرائض انجام دیے تھے۔

    نظامُ الملک نے اپنے حدودِ مملکت کے دوسرے حصوں میں بھی مدارس کا جال بچھا دیا تھا۔ علامہ شبلیؒ نے اپنے مشہور مقالہ ’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘ میں ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست نقل کی ہے جو مسلم حکم رانوں کے دور میں ان کی حدودِ مملکت میں قائم ہوئے۔ نیسا پور، بغداد، ہرات، موصل، اصفہان، ماوراء النہر، بلخ، مروور خوارزم وغیرہ میں بڑے بڑے مدارس قائم تھے۔ علاّمہ شبلی نے انھیں موجودہ دور کی یونی ورسٹیوں سے تشبیہ دی ہے۔ انھوں نے مصر میں نور الدین زنگی اور سلطان صلا ح الدین ایوبی کے زمانوں میں قائم ہونے والے مدارس کی بھی تفصیل پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ ایران، ترکی اور اندلس کے مدارس کا تذکرہ بھی تفصیل سے کیا ہے۔

    ان مدارس میں دینی اور دنیاوی ہر طرح کے علم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ علمائے متقدمین میں بعض ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جو کسی دینی علم میں بھی مہارت رکھتے تھے اور کسی دنیاوی علم میں بھی۔ مثال کے طور پر الشیخ الرئیس ابو علی ابن سینا کی شہرت عظیم طبیب کی حیثیت سے ہے۔ اس کی کتاب ’القانون فی الطب‘ ایک ہزار سال سے طبی نصاب کی اہم ترین کتاب ہے۔ یورپ کے میڈیکل کالج میں بھی تقریباً پانچ سو سال تک داخل نصاب رہی ہے۔ اسی کے ساتھ فلسفہ میں بھی انھیں درک حاصل تھا۔ تیسری طرف علمِ تفسیر میں بھی انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں ہیں۔

    علاّمہ علاءُ الدّین ابنِ نفیس قرشی دمشقی کا شمار بھی مشہور اطباء میں ہوتا ہے۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے قائم کر دہ اسپتالوں میں وہ افسرُ الاطباء رہے۔ اس کے علاوہ وہ عظیم فقیہ بھی تھے۔ قاہرہ کے مدسۂ مسروریہ میں فقہ شافعی کا درس دیتے تھے۔

    اس ضمن میں اندلس کے علامہ ابن رشد قرطبی کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ بیک وقت طبیب بھی تھے، فلسفی بھی اور فقیہ بھی۔ فقہ میں ان کی کتاب بدایۃ المجتھد، فلسفہ میں تھافت التھافت اور طب میں کتاب الکلیات، یہ تینوں اب تک مرجعِ خلائق ہیں اور مشرق و مغرب میں ان سے بھر پور استفادہ کیا جا رہا ہے۔

    ہندوستان میں بھی مدارس کے قیام کی ایک زرّیں تاریخ ہے۔ عہدِ سلطنت میں اور بعد میں مغلیہ عہد میں ملک کے ہر حصّہ میں مدارس قائم کیے گئے۔ ان میں تمام مروّجہ علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس کو حکومت کی سرپرستی حاصل رہتی تھی اور ان کا پورا خرچ سرکاری طور پر اٹھایا جاتا تھا۔

    ہندوستان سے جب مسلمانوں کی حکم رانی ختم ہوئی اور اس پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو ان مدارس پر افتاد پڑی۔ سرکاری امداد سے محروم ہوجانے کی وجہ سے وہ بند ہو گئے۔ انگریزوں نے اپنا نظام تعلیم جاری کیا۔

    (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے مضمون سے اقتباسات)

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی

  • وزیر اعظم  سے جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں اسلامی تاریخ کی پروفیسر کی ملاقات

    وزیر اعظم سے جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں اسلامی تاریخ کی پروفیسر کی ملاقات

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان سے امریکی تعلیمی ادارے جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں اسلامی تاریخ کی پروفیسر نے ملاقات کی ہے، جس میں اسلامی تہذیب خصوصاً شاعر مشرق کی دین اسلام کی تعلیمات سے متعلق بات چیت کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جارج ٹاؤن یونی ورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر تمارا سون نے وزیر اعظم سے خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر وزیر تعلیم شفقت محمود، صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب، اور وزیر تعلیم خیبر پختون خوا ضیا اللہ بنگش بھی موجود تھے۔

    ملاقات میں اسلامی تہذیب بالخصوص شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری میں دین اسلام کی تعلیمات سے متعلق بات چیت کی گئی، نئی نسل میں اسلام کے اصل تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے اقدامات پر بھی خصوصی گفتگو کی گئی۔

    وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کی صوفیائے کرام کے فلسفے سے آگاہی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، صوفیائے کرام کی تعلیمات سے نوجوان نسل کو روشناس کرایا جائے۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ صوفی تعلیمات کے مضامین متعارف کرانے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے، وزارتِ تعلیم کی کمیٹی مضامین کی نوعیت اور نصاب کا تعین کر کے سفارشات پیش کرے گی۔

    وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر تمارا سون کی طلبہ میں اسلامی تعلیمات روشناس کرانے کی کوششوں کو سراہا۔