Tag: اسلامی تعلیمات

  • ’میرے وقت میں برکت آ گئی جب سے۔۔۔۔۔۔۔‘  ثنا خان نے کیا کہا؟

    ’میرے وقت میں برکت آ گئی جب سے۔۔۔۔۔۔۔‘ ثنا خان نے کیا کہا؟

    شوبز انڈسٹری کی سابقہ اداکارہ ثنا خان نے کہا ہے کہ جب سے میں نے ٹی وی سیریل دیکھنا بند کیا، تب سے میرے وقت میں برکت آگئی ہے۔

    بالی ووڈ کو خیرباد کہنے والی اداکارہ ثنا خان نے اسلامی تعلیمات پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے میں نے اداکاری چھوڑ کر اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرنا شروع کیا تب سے ٹی وی سیریل دیکھنا بند کردیا۔

    ثنا خان نے کہا کہ اس عمل کے بعد سے میرے وقت میں برکت آگئی جسے میں اپنے قرآن اور دیگر کتابیں پڑھنے اور اپنی شخصیت سنوارنے میں صرف کرتی ہوں، اسلامی زندگی بہت آسان ہے کیونکہ دین نے محض چند چیزوں کو حرام کیا ہے اور اس کے برخلاف کئی چیزوں کو حلال کیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر پڑوسی سے جھگڑا ہو جائے تو ہمیں اس سے فوراً نفرت ہوجاتی ہے لیکن میوزک سننے یا دیگر گناہ کے کام کرنے سے ہمیں نفرت نہیں ہوتی گویا ہم غلط جگہ پر نفرت کر رہے ہیں۔

    سابقہ اداکارہ کا کہنا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کی دنیا سے جب میں نے اپنی زندگی تبدیل کی، پہلی تبدیلی یہ لائی کہ رمضان کی چاند رات سے میں نے ٹی وی دیکھنا بند کردیا، اپنے اس فیصلے سے میں نے محسوس کیا کہ میرے وقت میں کافی برکت آگئی ہے اور میں دنیا اور دین کے دونوں کے کاموں کو زیادہ وقت دے پارہی ہوں۔

    ثنا خان نے کہا کہ گانوں اور سیریل سے میرا دماغ خالی ہو گیا تھا، اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ نکاح ہونے تک کسی غیر محرم سے بات نہیں کروں گی،  تیسری چیز میں نے ’ برتھ ڈے‘ منانا بند کر دیا کیونکہ یہ شیطانی عمل ہے۔ اب ہمارے گھر میں کسی کا برتھ ڈے نہیں منایا جاتا۔

    واضح رہے کہ ثنا خان نے 2020 میں بالی وڈ کو خیرباد کہہ دیا تھا اور 2021 میں مفتی انس سید سے شادی کی تھی، شادی کے بعد ثنا خان خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں، گزشتہ سال ثنا خان اور مفتی انس سید کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تھی۔

  • حقیقی اور مجازی ربوبیت کیا ہے؟

    حقیقی اور مجازی ربوبیت کیا ہے؟

    ربوبیت کا اطلاق کس ذات پر ہوگا؟ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے بڑی علمی و ادبی شخصیت نے اس دل چسپ انداز میں مثال دیتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو روپیا دے دے، تو یہ اس کا کرم ہوگا، احسان ہوگا، لیکن وہ بات نہ ہوگی جسے ربوبیت کہتے ہیں۔

    ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتاً فوقتاً جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں، ان سب کا سر و سامان ہوتا رہے، نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو، کیوں کہ جو عمل محبت و شفقت کے عاطفہ سے خالی ہوگا ربوبیت نہیں ہو سکتا۔
    یعنی انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ اچھا سلوک یعنی اس کی محتاجی کو ختم کرنا یا اور کوئی قسم کا احسان کرنے سے ربوبیت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے جود اور احسان سے تعبیر کیا جائے گا، جب کہ ربوبیت کے لیے ایک تسلسل اور اہتمام ضروری ہے، جو ایک ذات باری تعالیٰ سے ہی ممکن ہے۔

    آگے آزاد صاحب حقیقی ربوبیت (اللہ تعالیٰ کی ربوبیت) کی مجازی ربوبیت (ماں کی ربوبیت) کے ساتھ مثال دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں، یہ پرورش محبت و شفقت، حفاظت و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے، جب تک بچہ اپنے جسم و ذہن کے حد بلوغ تک نہ پہنچ جائے، پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں بے شمار ہیں، ان کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش، نگرانی کی نگاہ اور زندگی کا سرو سامان ملتا رہے۔ حکمت الٰہی نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خدوخال پیدا کر دیے ہیں، یہ ماں کی ربوبیت ہے، جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک بچے کو پالتی، بچاتی، سنبھالتی اور ہر وقت اور ہر حالت کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔

    جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا تھا، جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی، جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑ لی اور ایک ایک قدم چلانے لگی، پس یہ بات کہ ہر حالت اور ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی وحفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہا، وہ صورت حال ہے جس سے ربوبیت کا مفہوم کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

  • اسلامی تمدن کی بنیاد

    اسلامی تمدن کی بنیاد

    مغربی تمدن کے خلاف اسلامی تمدن میں معنوی حسن زیبائی بدرجہ اتم موجود ہے جو انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ادراک پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر متوجہ رکھتی ہے کہ وہ خود کو بھی اپنی نظر سے اوجھل نہ ہونے دے۔

    اس کا یہی ادراک جب ایمان باللہ کی حدود تک جا پہنچتا ہے تب وہ انسان اپنی روحانیت کو شائستہ اور قلب کو مُزَکّی کرنے کا سبب صرف اس جذبہ کو بنا لیتا ہے یہی ادراک اس کے لیے عقل و شعور کی ابتدائی غذا مہیا کرتا ہے جس میں فرد خود اخلاقی طور پر سربلند ہو کر اپنے آپ کو انسانی برادری کے ساتھ منسلک اور محبت و احسان و پرہیز گاری کا منبع سمجھنے لگتا ہے جس کے بعد اپنی زندگی کے اقتصادی معاملات کو اسی محبت و احسان اور پرہیز گاری کے مطابق درجۂ کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

    اسلام میں اس امر کی اجازت نہیں کہ اخلاقی اقدار کو راہ سے ہٹا کر نظام اقتصادی کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔

    اسلامی تمدن کا یہ تصور اس قدر جاذب و مفید ہے کہ تمام انسانی کمالات و اوصاف کا کفیل ہو سکتا ہے۔ اگر اسلام کا تمدن دلوں میں بس جائے اور اس کی تنفیذ و اجراء کے لیے بھی وہی ذرائع کام میں لائے جائیں جو مغربی نظام تمدن کی ترویج و اشاعت میں استعمال کیے جا رہے ہیں تو انسانیت کے خدوخال کا نکھار کچھ اور ہی ہو۔ تمدن کی بنیاد اس انداز سے مستحکم ہو جائے کہ جس سے تمام عالم موجود بحران سے نجات حاصل کر سکتا ہے جو اسے ہر سمت سے گھیرے ہوئے ہے (موجودہ حالات میں) مشرق و مغرب اس بحران کے استیصال پر ہمہ تن متوجہ ہیں لیکن طریق کار سے بے خبر اور نہ صرف غیر مسلم ہی بلکہ خود مسلمان بھی ان کے نقش قد پر گام زن اور ان کے جوش اتباع میں منزل کے صحیح رخ سے بے خبر ہیں۔

    میں برملا کہتا ہوں کہ دنیا کے اس بحران کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ جس کے لیے اہل مغرب اور مشرق کے رہنے والے ہر طرف نظر دوڑا رہے ہیں لیکن انہیں اتنا قریب دیکھنے کا موقع نہیں ملتا کہ ان کا یہ بحران جو باہمی قتال کا موجب بن رہا ہے نتیجہ ان کی عبادۃ المال کا اس پر طرف یہ کہ جب وہ اس بحران کو اپنے موجودہ مذہب عیسویت کا نتیجہ سمجھ کر کسی دوسرے دین کی تلاش میں نظر دوڑاتے ہیں تو ان کی نگاہ ہندو مت سے ادھر کہیں نہیں رکتی۔ اسلام کے جغرافیائی حیثیت سے ہندو مت کے گہوارہ (ہندوستان) سے ان (اہلِ مغرب) کے قریب تر مشرق اقصیٰ میں پھیلا ہوا ہے۔ اہل یورپ اس دین پر توجہ نہیں کرتے جس کے پاس ان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا پورا حل بصورتِ قرآن موجود ہے مع اس شرح کے جو حاملِ قرآن ہے، رسول عربی کی زندگی کے ہر صفحہ سے ان کی مشکلات میں ان کی راہ بر ہو سکتی ہے ( یعنی سنت رسول)

    دوستو! اس مقام پر اسلامی تہذیب و تمدن کی وضاحت مطلوب نہیں۔ یہ مضمون بجائے خود اس طویل بحث کا متقاضی ہے کہ اگر اس پر قلم اٹھایا جائے تو زیرِ تسوید کتاب (حیاتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برابر بلکہ اس سے بھی ضخیم دفتر اس کے لیے درکار ہے یہاں اس نظامِ اسلامی کی مجمل سی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں دعوتِ محمدی کا وہ انداز بھی معرضِ ذکر میں آجائے جس میں ایسے مباحث کا آنا ممکن ہے۔ اگر ایسا ہو سکا تو اس سے مزید استفادہ کا مقصد حاصل ہونا ممکن ہے۔

    (تحریر بعنوان اسلامی اور مغربی تمدن اور حیاتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کے مصنّف محمد حسین ہیکل ہیں)