Tag: اسلامی خطاطی

  • فنِ خطّاطی میں موجد و مجتہد کا مقام پانے والے عبدالمجید پرویں رقم کا تذکرہ

    فنِ خطّاطی میں موجد و مجتہد کا مقام پانے والے عبدالمجید پرویں رقم کا تذکرہ

    نستعلیق کے خطاطوں میں خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قیامِ پاکستان سے ایک برس پہلے 1946ء میں آج ہی کے دن دارِ بقا کو چل دیے تھے لیکن ان کی ایجاد و طرز اور ان کا کام برسوں بعد بھی ہر خطاط کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

    عبدالمجید پرویں رقم کا شمار نادرِ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ بیسویں صدی میں فنِ‌ خطّاطی اور خوش نویسی میں‌ جن شخصیات نے نام و مرتبہ پیدا کیا، ان میں عبدالمجید پروین رقم بھی شامل ہیں جنھوں نے صرف 45 برس کی عمر پائی، لیکن اس فنِ لطیف میں ان کے کار ہائے نمایاں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    ان کا سب سے بڑا کارنامہ فارسی رسمُ الخط میں الف سے لے کر ی تک تمام حروف میں خوب صورت ترامیم تھا جسے اس زمانے میں سبھی نے سراہا اور تسلیم کیا۔ عبدالمجید پروین رقم نے نہ صرف انفرادی حروف کے حسن کو دوبالا کیا بلکہ حروف کے پیوند اور جوڑ بھی اُن کی مشّاق انگلیوں سے مستفید ہوئے اور انھوں نے اردو میں حروف کے ایک ایک شوشے کو نزاکتوں اور لطافتوں سے مزین کیا۔

    پرویں رقم 1901ء میں پنجاب کے ایک ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو پشت در پشت اس فن سے وابستہ تھا۔ ان کے والد مولوی عبد العزیز بھی ایک مشہور خطاط تھے۔

    فنِ کتابت سے محبّت انھیں ورثہ میں ملی تھی۔ لڑکپن ہی سے حروف کی نوک پلک سنوارنے میں دل چسپی لینے لگے اور ساتھ ہی دینی تعلیم بھی مکمل کی۔ فارسی کا درس بھی لیا اور شمسی رسمُ الخط میں وہ کمال پیدا کیا جو آپ ہی کا خاصہ ہے۔ اسی عرصۂ تربیت میں‌ شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی سے ملاقات ہوئی، جو حاذق طبیب ہونے کے ساتھ صاحب طرزِ ادیب، مصوّر اور نستعلیق طرزِ کتابت میں باکمال تھے۔ انھوں نے نہ صرف پرویں رقم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی کتابت میں‌ راہ نمائی بھی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرویں رقم قدیم و جدید رسمُ الخط میں پختہ و مشاق ہوگئے، یہاں تک کہ بعد کے برسوں میں نئی طرز کے موجد بنے جو بہت مقبول ہوا۔ ان کے خطاطی کے فن میں ایجاد و مہارت کو اساتذہ اور ہم عصر کاتبوں نے تسلیم کیا۔

    پرویں رقم باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ طبیعت میں بناوٹ اور تکلف نہ تھا، سبھی سے بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ کسرِ نفسی سے کام لیتے تھے۔

    انھوں نے خطِ نستعلیق کو ایک جدید اور دل کش طرزِ نگارش سے آراستہ کیا تھا اور اس فن میں‌ مجتہد کہلائے اور یہی سبب تھا کہ ان کی وفات پر اس زمانے کے اخبارات اور ریڈیو پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان میں خطاطی اور کتابت کے میدان میں پرویں رقم کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ پرویں رقم نے کلامِ اقبال کی خطاطی بھی کی جس پر خود شاعرِ مشرق نے انھیں سراہا تھا۔

  • خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں ممتاز محمد صدیق الماس رقم کی برسی

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں ممتاز محمد صدیق الماس رقم کی برسی

    پاکستان کے نام ور خطّاط حافظ محمد صدیق الماس رقم 30 مارچ 1972ء کو وفات پاگئے تھے۔ اپنے وقت کے نام ور شعرا اور ادیبوں نے اپنی کتب کے لیے بطور خطّاط ان کی خدمات حاصل کی تھیں جن میں‌ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی شامل ہیں۔

    15 اگست 1907ء کو متحدہ ہندوستان میں پنجاب کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے محمد صدیق کو پہلوانی کا بھی شوق تھا اور وہ لاہور کے اکھاڑوں میں‌ کشتی بھی لڑتے رہے۔ خوش نویسی اور کتابت سیکھی اور بعد میں فنِ خطّاطی کو اپنایا۔ خوش نویسی اور خطّاطی کی تعلیم اور تربیت حکیم محمد عالم گھڑیالوی کے زیرِ سایہ مکمل کی اور مشق کے باعث بہت جلد خود بھی نام ور خطّاط شمار ہونے لگے۔

    1934ء میں انھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی مشہور کتاب زبورِعجم کے لیے خوش نویسی کا موقع ملا اور انھوں نے نہایت خوبی سے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد نام ور شاعر و ادیب اور صحافی مولانا ظفر علی خان نے ان سے اپنی کئی کتابوں کی خطّاطی اور کتابت کروائی اور انھیں خطّاط العصر کا خطاب عطا کیا۔

    حافظ محمد صدیق الماس رقم نے زبورِ عجم کے علاوہ جن نام ور قلم کاروں اور مشہور کتب کے مصنفین کے لیے خوش نویس کے طور پر خدمات انجام دیں ان میں علّامہ عنایت اللہ مشرقی کا تذکرہ اور حفیظ جالندھری کی شاہ نامہ اسلام شامل ہیں۔

    فنِ خطّاطی میں ممتاز اور استاد کا درجہ رکھنے والے محمد صدیق الماس رقم لاہور میں حضرت طاہر بندگی کے مزار کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    خطّاطی اور خوش نویسی ایک قدیم فن ہے جس کی مختلف شکلیں‌ ہیں اور اسلامی خطّاطی کی بات کی جائے تو اس میں طغریٰ اور عام تحریری نمونے شامل ہیں۔ آج اسی فن کے حوالے سے معروف محمد یوسف دہلوی کی برسی ہے جو ایک ماہر خوش نویس اور استاد خطّاط تھے۔ یوسف دہلوی 11 مارچ 1977ء کو کراچی میں‌ ٹریفک حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

    یوسف دہلوی کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خوش نویس اور خطّاط تھے جنھوں نے 1932ء میں غلافِ کعبہ پر خطّاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے اپنے والد سے ہی ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ انھیں شروع ہی سے خوش خطی کا شوق ہوگیا تھا۔ یوسف دہلوی عہدِ شاہ جہانی کے مشہور خطاط، عبدالرشید دیلمی سے بہت متاثر تھے اور اسی کا مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی اس فن میں ماہر ہوئے، انھوں نے اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    محمد یوسف دہلوی 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے یوسف دہلوی نے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطّاطی کی۔ بعدازاں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پاکستان کے سکّوں پر حکومتِ پاکستان کے خوب صورت طغریٰ کی تخلیق اور خطّاطی کا کام سرانجام دیا۔

    ریڈیو پاکستان کا مونوگرام جس پر قرآنی آیت دیکھی جاسکتی ہے، وہ بھی یوسف دہلوی کے موقلم کا نتیجہ ہے۔

  • صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔

    ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔

    صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں‌ نے نئی جہات سے روشناس کیا۔

    انھوں‌ نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔

     

    سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔

     

    ابتدائی تعلیم امروہہ میں‌ حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں‌ بس گیا۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی اعزازات دیے گئے، وہیں‌ دنیا بھر میں‌ ان کے فن پاروں‌ کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں‌ نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔

    صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    رنگ اداس، مُو قلم نڈھال اور کینوس افسردہ ہے۔ آج گُل جی کی برسی ہے۔

    چاہنے والوں نے خانۂ دل میں اس باکمال مصور کی بہت سی تصویریں سجالی ہیں جو اپنی پینٹگز سے آرٹ گیلریاں سجایا کرتا تھا اور آرٹ کے قدر دانوں، مصوری کے شائقین سے اپنے فن کی داد پاتا تھا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور اسماعیل گل جی 16 دسمبر 2017 کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے تھے۔

    پشاور کے امین اسماعیل کا سنِ پیدائش 1926 ہے، جسے دنیا بھر میں گُل جی کے نام سے شہرت ملی۔ لارنس کالج، مری کے بعد سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی بھیجے گئے اور بعد میں اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے مکمل کی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی اور ہارورڈ میں زیرِ تعلیم رہے۔

    گل جی نے پیشہ ورانہ سفر میں تجریدی آرٹ اور اسلامی خطاطی کے حوالے سے دنیا بھر میں شناخت بنائی اور شہرت حاصل کی۔ امریکا میں حصولِ تعلیم کے دوران مصوری کا آغاز کیا۔ گل جی کی تصاویر کی نمائش پہلی بار 1950 میں ہوئی۔ اگلے دس برسوں میں انھوں نے تجریدی مصور کی حیثیت سے پہچان بنانا شروع کی اور خاص طور پر اسلامی خطاطی کے میدان میں تخلیقات سامنے لائے۔

    اسلامی خطاطی کے نمونوں نے انھیں اپنے ہم عصر آرٹسٹوں میں ممتاز کیا۔ تاہم تجریدی اور تصویری فن پاروں کے ساتھ ان کا کام مختلف رجحانات کے زیرِ اثر رہا اور یہی وجہ ہے کہ آئل پینٹ کے ساتھ انھوں نے اپنے فن پاروں میں غیر روایتی اشیا سے بھی مدد لی ہے۔ گل جی کے فن پاروں میں شیشہ، سونے اور چاندی کے ورق بھی استعمال ہوئے ہیں جو ان کے کمال اور اسلوب کا نمونہ ہیں۔

    گل جی نے پورٹریٹ بھی بنائے جن میں کئی اہم اور نام ور شخصیات کے پورٹریٹ شامل ہیں۔ تجریدی مصورری اور امپریشن کے ساتھ انھوں نے مجسمہ سازی میں بھی منفرد کام کیا۔ فائن آرٹ کی دنیا میں انھیں ہمہ جہت آرٹسٹ کہا جاتا ہے جس نے اپنے فن کو روایت اور ندرت کے امتزاج سے آراستہ کیا۔

    گل جی جیسے سیماب صفت آرٹسٹ کو طبعی موت نصیب نہ ہوئی۔ انھیں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا تھا۔