Tag: اسلامی شاعری

  • تعلیماتِ اقبال پر قرآن مجید کے اثرات

    تعلیماتِ اقبال پر قرآن مجید کے اثرات

    یہ بات عجیب نہیں ہے کہ کوئی بھی بڑا تخلیق کار کسی بڑی شخصیت یا کسی کتاب سے متاثر ہو اور پھر وہ اس شخصیت یا کتاب کے افکار کو اپنے اندر جذب کر کے ان کا اظہار کرے۔

    مسلم شعرا اور ادبا پر قرآن پاک اور سیرت طیبہ ﷺ کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر حالی کی شاعری، مولانا شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی شاعری اور تحریروں پر سیرت طیبہ کے اثرات جھلکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اقبال کی نظموں اور غزلوں میں قرآن پاک کے اثرات کے واضح اشارے پائے جاتے ہیں۔ اقبال کے شعروں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ قرآن پاک، حدیث مبارکہ، سنت نبوی، صحابہ کرام اور تاریخ اسلام کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ شاید ہی کوئی نظم یا غزل ایسی ہو جس میں ان عنوانات پر شعر نہ کہے گئے ہوں۔

    اقبال یورپ میں قیام کے دوران مغربی تہذیب اور اس کی تعلیم کے اثرات سے پوری طرح واقفیت حاصل کر چکے تھے۔ مغربی تعلیم اور تہذیب جہاں عام مسلمانوں کی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ تھی، وہاں اقبال جیسے مدبر اور مفکر کے لیے ایک نئی سوچ، ایک نیا راستہ تلاش کرنے کا باعث بن گئی۔

    مغربی تعلیم و تہذیب کے ردعمل کے طور پر ہی اقبال نے قرآن پاک سے رجوع کیا اور اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا، کیونکہ قرآن مجید میں گم ہو کر ہی مسلمان عافیت حاصل کر سکتے تھے۔ ورنہ مغربی تہذیب کا سیلِ آب مسلم تہذیب کو بہا کے لے جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب کی اصلیت جان کر اقبال قرآن کے اور قریب ہوگئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اس بارے میں رقم طراز ہیں:

    ’’مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ (اقبال) جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے، اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ جو کچھ وہ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا جو کچھ دیکھتا تھا وہ قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔‘‘

    اقبال سال ہا سال مختلف علوم سے استفادہ حاصل کرتے رہے۔ اعلیٰ یونیورسٹیوں اور بہترین اساتذۂ کرام سے فیض حاصل کیا لیکن ان کے نزدیک حقیقت صرف قرآن مجید ہے اور تمام علم کا سرچشمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جہاں سے جو بھی علم حاصل کیا اس کو قرآن پاک کی کسوٹی پر پرکھا اور جو قرآن مجید سے الگ تھا اس کو رد کر کے اس علم کو قرآن مجید کی روشنی میں درست کیا۔ اقبال کے تقریباً تمام تصورات یا تو قرآن مجید سے ماخوذ ہیں یا پھر ان پر قرآن مجید کے اثرات پائے جاتے ہیں۔

    زندگی کے آخری دور میں تو اقبال صرف قرآن پاک کے مطالعہ میں مصروف رہے اور دیگر تمام کتب کا مطالعہ ترک کر دیا تھا۔ قرآن پاک کے سوا کوئی کتاب اپنے سامنے نہیں رکھتے تھے۔ اس کا ثبوت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے مضمون میں شامل اس واقعہ سے ملتا ہے۔ لکھتے ہیں:

    ’’ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔‘‘

    زندگی کے آخری ایام میں اقبال کی توجہ قرآن پاک کی طرف رہی۔ خوش الحان تھے۔ تلاوت باآواز بلند کرتے تھے اور اس دوران اشک بار ہوجاتے تھے، آخری دنوں میں بیماری کے باعث قرآن پاک اور نماز پڑھنے میں باقاعدگی نہیں رہی تھی۔ عام دنوں میں علامہ اقبال کا معمول تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت باقاعدگی سے بلند آواز میں کرتے تھے۔ آواز شیریں تھی۔ آخری دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے اقبال کے ملازم علی بخش کہتے ہیں:

    ’’جن دنوں ہم بھاٹی دروازے میں رہتے تھے ایک دفعہ پورے دو مہینے بڑی باقاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھتے رہے۔ ان دنوں ان کا عجب حال تھا۔ قرآن اس خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ جی چاہتا تھا بس سارے کام چھوڑ کر انہی کے پاس بیٹھا رہوں۔ اس زمانے میں کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا۔ صرف شام کو تھوڑا سا دودھ پی لیا کرتے تھے۔ خدا جانے کیا رمز تھی۔‘

    مولانا عبدالسلام ندوی اپنی تصنیف اقبال نامہ صفحہ 17 پر اقبال کی قرآن پاک سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دوران تلاوت اقبال کے آنسوؤں کا تار بندھ جاتا تھا۔ تلاوت بہت رغبت اور ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کی وصیت کے مطابق جب ان کی کتابیں اسلامیہ کالج لائبریری کو دی گئیں تو ان میں قرآن پاک کا وہ نسخہ بھی تھا جو آنسوؤں سے تر تھا۔ اقبال کو آخری ایام میں گلے کی خرابی کے باعث ڈاکٹروں نے بلند آواز میں تلاوت سے منع کر دیا تھا جس کا ان کو بہت رنج تھا۔ آخری ایام میں اقبال قرآن پاک پر ایک کتاب بھی لکھنا چاہتے تھے اور ان کا ارادہ یہ کتاب انگریزی میں لکھنے کا ارادہ تھا لیکن بیماری کے باعث اس قدر وقت میسر نہ ہوا کہ وہ اس خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے۔ سر راس مسعود کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

    ’’۔۔۔۔اور اس طرح میرے لیے ممکن ہوسکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو، نہ معلوم کیوں، ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی باقی گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر کوئی پیش کش مسلمانانِ عالم کو نہیں کر سکتا۔‘‘

    قرآن مجید کا اثر اقبال کی شخصیت، ان کے تصورات و خیالات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قرآن پاک کے اثرات ان کے اسلوب اور لفاظی پر بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کلام کی تراکیب اور الفاظ بھی قرآن پاک سے اخذ کرتے ہیں۔ اسلوب اور آہنگ ہی نہیں بلکہ اقبال کی شاعری میں موجود علامتیں اور پیکر بھی قرآن مجید سے ماخوذ ہیں۔ اقبال کے آہنگ کا قرآن مجید سے گہرا تعلق ہے۔ اقبال جو الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں ان میں متعدد ایسے ہیں جو قرآن مجید سے اخذ کردہ ہیں جیسے ایمان، کفر، توحید، شہادت، فکر، لاالہ، لاتخف، لاتخزن، بشیر، نذیر، قم باذن اللہ، نظر، مسجد۔

    اقبال نے پیغمبروں کی علامات بھی قرآن مجید سے لی ہیں اور تاریخی شخصیات کو ان کی تاریخی حیثیت سے کم اور علامتوں کی حیثیت سے زیادہ دیکھا ہے۔ آتش نمرود، درخت طور، خلیل و نمرود اور موسیٰ و فرعون جیسی علامتوں کا ماخذ بھی قرآن مجید ہے اور کچھ ایسی علامتیں بھی ہیں جن پر قرآن کے اسپرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں یا وہ قرآن کی روح سے ہم آہنگ ہیں۔ مثال کے طور پر شاہین، مرد حر، مرد مومن اور کچھ پاکیزگی کی علامتیں جیسے گل لالہ وغیرہ، ان سب پر قرآن پاک کے اثرات پائے جاتے ہیں یا پھر انھیں قرآن سے اخذ کیا گیا ہے۔

    (نوید حسن ملک کے مضمون سے اقتباس)

  • فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    ان کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص فانی۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا، جب کہ فلسفہ و تصوّف بھی ان کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔

    کہتے ہیں فانی عشق کی بدولت غم سے دوچار ہوئے اور یہ غم انھیں تصوّف تک لے گیا اور تصوّف نے اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھایا۔ یہاں‌ ہم اپنے باذوق قارئین کو فانی کے اُس شعری وصف کی جانب متوجہ کررہے ہیں جسے "اسلامی تلمیحات” کہنا چاہیے۔

    فانی بدایونی اللہ کے انصاف سے امید رکھتے ہیں۔ اپنے بد اعمال یا گناہوں کی وجہ سے مایوس نہیں ہوتے، کیوں کہ وہ ربِّ کائنات کو پردہ رکھنے والا سمجھتے ہیں اور اس سے عفو و درگزر کے طالب ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔

    امیدِ عفو ہے ترے انصاف سے مجھے
    شاہد ہے خود گناہ کہ تُو پردہ پوش تھا

    یہ شعر اس یقینِ کامل کا مظہر ہے جس میں‌ انسان ہونے کے ناتے اضطراب اور بے چینی تو ہے، لیکن شاعر جانتا ہے کہ حقیقی مددگار اور مشکلات کو آسان کرنے والی ذات وہی ہے۔

    یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
    لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے!

    روزِ‌ محشر حساب ہو گا، خطا کاروں، گناہ گاروں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی، لیکن شاعر کو یہ یقین ہے کہ جہاں ﷲ کا قہر اور غضب ہوگا وہیں اس کی رحمت بھی اپنے بندوں پر سایہ فگن ہوگی اور یہی خیال انھیں مایوس اور غم زدہ نہیں ہونے دیتا۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔

    کس طرف جوشِ کرم تیری نگاہیں اٹھیں
    کون محشر میں سزاوارِ عتاب آتا ہے

    اور اسی ذیل میں ایک جداگانہ احساس اور یقین میں‌ ڈوبا ہوا فانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو۔

    منہ ڈھانپ لیا جوشِ ندامت کے اثر سے
    خورشیدِ قیامت نے مرے دامنِ تر سے

    فانی نے اپنی شاعری میں قرآنی آیات، بعض تراکیب بھی استعمال کی ہیں یا نہایت لطیف انداز سے ان کا اشارہ دیا ہے اور ان سے بھرپور معنٰی اور مفہوم پیدا کیا ہے۔

    لوح دل کو غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
    ’’کن‘‘ ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

    طُور تو ہے ربِّ ارنی کہنے والا چاہیے
    لن ترانی ہے مگر نہ آشنائے گوش ہے

    قرآن اور احادیث میں‌ دعا کی اہمیت اور فضیلت کا بہت ذکر کیا گیا ہے۔ فانی کو قرآن سے تقویت ملتی ہے کہ ﷲ بندے کی دُعا سنتا ہے اور انھوں نے اس لفظ "دعا” سے اپنے اشعار میں‌ خوب استفادہ کیا۔ فانی کا یہ شعر پڑھیے۔

    میں دعا موت کی مانگوں تو اثر پیدا کر
    ورنہ یارب شبِ فرقت کی سحر پیدا کر

    اسی مضمون میں فانی کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے دعا اور ہاتھوں کی اہمیت یا اس عضو سے نوازنے پر ربِّ کائنات کا شکر ادا کیا ہے۔

    ازل میں اہلِ دل نے بابِ رحمت سے نہ کیا پایا
    دعا پائی، دعا کے واسطے دستِ دعا پایا

    (سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی کے مضمون سے خوشہ چینی)