Tag: اسلامی شخصیات

  • ابن الفُوَطی: اسلامی تاریخ کا ایک روشن

    ابن الفُوَطی: اسلامی تاریخ کا ایک روشن

    یہ تذکرہ ہے ابنُ‌ الفُوَطی کا جن کی عالمِ اسلام میں شہرت اور پہچان ایک محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ کی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کا نام علمی اور دینی کاموں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔

    اسلامی تاریخ کا سنہری دور آٹھویں صدی کے وسط سے شروع ہوتا ہے۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ تیرھویں‌ صدی عیسوی تک مسلمانوں نے سائنس، تاریخ و فلسفہ، سیاسیات، قانون اور کئی سماجی علوم میں شان دار کام یابیاں سمیٹیں۔ اس وقت اسلامی حکومت دور دور تک پھیل چکی تھی اور بغداد میں بیتُ الحکمہ سے لے کر افریقا کی درس گاہوں تک مسلمان علماء، جیّد اور عالم فاضل شخصیات جامعات میں طالبِ علموں کو اعلیٰ تعلیم دے رہی تھیں۔ اسی زمانے میں ابن الفُوَطی نے بھی اپنا سفر شروع کیا اور نام و مقام پایا۔

    محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ ابن الفُوَطی کا بڑا کارنامہ مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب جیسی تصنیف ہے جو اسلام کے ابتدائی دور سے تیرھویں صدی تک کی تاریخ ہے۔ محققین اس بارے میں کہتے ہیں کہ اسے 50 جلدوں میں مرتب کیا گیا تھا لیکن اب اکثر ناپید ہیں۔

    ابن الفُوَطی کا سنہ پیدائش 1244ء ہے۔ ابن الفوَطی نے 1323ء میں وفات پائی۔ مؤرخین کی اکثریت نے وفات کی تاریخ 12 جنوری تحریر کی ہے۔ ان کا نام عبدالرّزاق بن احمد بن محمد الحنبلی تھا۔ ان کی کنیت ابوالفضل اور لقب کمال الدّین، ابن الفُوَطِی اور ابنُ الصابونی ہے۔ وہ اپنے معاصرین میں کمال الدّین ابنُ الصابونی کے نام سے مشہور تھے۔ ابن الفُوطی اس لیے کہلائے کہ اُن کے نانا کا دھاری دار کپڑے کا کاروبار تھا اور اس دور میں اس قسم کی کسی نسبت سے کسی کو پکارنا یا اس کا تذکرہ کرنے کا رواج بھی تھا۔ بعد میں یہی نسبت ان کی شناخت بن گئی۔

    ابنُ الفوَطی اسلامی دنیا کے مشہور عرب ملک عراق کے دارُالخلافہ بغداد میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش دربُ القواس ہے۔ عباسی خلاف کا دور تھا۔ اس وقت خلیفہ المستعصم باللہ تھا۔ ابنُ الفوَطی نے بچپن میں دستور کے مطابق تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے اور قرآن حفظ کیا۔ بغداد کے اساتذہ اور مشائخ سے تحصیلِ علم کے بعد وہ اپنی قابلیت اور علمی استعداد سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ابنُ الفوَطی نے سقوطِ بغداد بھی دیکھا۔ اُس وقت وہ نوجوان تھے اور ان کی عمر 14 سال تھی۔ تاریخ کی چند کتابوں میں درج ہے کہ اس سانحے میں ابنُ الفوَطی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن جلد ہی رہا کر دیا گیا۔

    ابتدائی تعلیمی دور کے بعد امام محی الدّین یوسف بن ابی الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی جیسے بلند پایہ عالم اور دیگر مشائخ سے مزید علم حاصل کیا۔ بعد میں‌ خواجہ نصیر الدین طوسی نے ابن الفُوطی کو اپنے سایۂ شفقت میں لے لیا اور اپنے پاس مراغہ بلوا لیا جہاں ابن الفُوطی نے منطق، فلسفہ، علمِ نجوم اور دیگر علومِ عقلیہ کی تعلیم پائی۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں شعر گوئی کا فن سیکھا اور وہ علم نجوم اور علمِ ہیئت میں اِس قدر ماہر ہوگئے تھے کہ اکثر مصنّفین نے تصنیف و تالیف کے کام میں ان سے مشورہ اور راہ نمائی لی۔1271ء میں انھیں رصد گاہ مراغہ کے کتب خانے کا خازن و مہتمم بنا دیا گیا تھا جہاں وہ خزانۂ علم سے استفادہ کرتے رہے۔ ایل خانی حکم ران اباقا خان کے عہدِ سلطنت میں وہ بغداد روانہ ہوئے اور وہاں مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانے کے نگران مقرر ہوئے۔ وہ اپنی وفات تک اسی عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔

    مؤرخین کے مطابق ابنُ الفُوطی کی تالیف تصنیف کردہ کتب کی تعداد 83 تک ہوسکتی ہے، لیکن ان میں‌ سے اکثر ناپید ہیں‌ اور بہت کم نسخے عمدہ حالت میں دست یاب ہیں۔

    ابنُ الفُوطی کو بغداد کے محلّہ شونیزیہ کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔

  • علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار، دنیائے اسلام کا روشن حوالہ

    علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار، دنیائے اسلام کا روشن حوالہ

    علامہ محمد اسد بیسویں صدی کی ایک متأثر کُن شخصیت اور عالمِ اسلام کا روشن حوالہ ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    بیس فروری 1992 کو اسپین میں وفات پانے والے علامہ محمد اسد ہمہ جہت اور نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ مفکّر و مصلح، دانا و بینا، نہایت قابل و باصلاحیت علامہ محمد اسد مفسّر، محقق، مؤرخ، ماہرِ لسانیات تھے۔ سیّاحت ان کا شوق تھا، سفارت کاری ان کا شعبہ اور کئی اہم کتب کے مصنف تھے۔

    وہ اپنے علم و فضل، قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر یورپی مسلمانوں میں نہایت معتبر اور ممتاز مانے جاتے ہیں۔
    علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار اور دنیائے اسلام کی گراں مایہ شخصیت ہیں جنھوں نے ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسی شہرہ آفاق تصنیف سے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی۔ یہ کتاب 1950 کی دہائی میں منظرِ عام پر آئی۔

    محمد اسد ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے اور یہی ان کا مذہب تھا، انھوں نے سن 1900 میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں آنکھ کھولی جو اس وقت آسٹرو ہنگیرین سلطنت کا حصہ تھا۔ ان کا نام لیو پولڈویز رکھا گیا، لیکن اللہ نے انھیں دینِ اسلام کی طرف راہ دی اور توجہ و رغبت نے ایک روز کامل ہدایت سے سرفراز کیا۔

    نوعمری میں تورات اور اس کی تفسیر یہودیت سے متعلق دیگر کُتب کا مطالعہ کیا۔ عبرانی پڑھنے اور بولنے کے قابل ہو گئے۔ 1918 میں یونیورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن 1920 میں عملی صحافت کی طرف آگئے۔ اس کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور ایک خبر رساں ادارے سے جڑ گئے۔

    علامہ محمد اسد 1922 کے آغاز پر یروشلم میں مقیم اپنے ماموں کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے جہاں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی غلبے سے متنفر ہوئے اور عربوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بعد ازاں فلسطین ہی میں جرمن اخبار کے نمائندے بن کر صہیونیت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    صحافتی ذمہ داریوں کے لیے مصر سے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا تک سفر کیا اور یوں اسلام کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔

    ایک روز برلن اسلامک سوسائٹی پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے ایک بیوہ جرمن خاتون ایلسا سے شادی کی تھی۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے چند روز بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    محمد اسد سعودی عرب میں بھی رہے اور مدینے میں مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہوئے وقت گزارا۔ 1932 میں ہندوستان آئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالا۔ پاکستان میں وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور مسلم ممالک سے روابط و تعلقات مضبوط کرنے کی ذمہ داری بخوبی انجام دی۔ محمد اسد نے 80 برس کی عمر میں “قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر” مکمل کی اور اسپین میں قیام کے دوران عالمِ اسلام کا یہ عظیم فرزند خالقِ حقیقی سے جا ملا۔

    ان کی مشہور تصانیف میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔