Tag: اسلامی ناول

  • اسلامی تاریخی ناول نگاری کو مقبولیت اور شہرتِ دوام بخشنے والے نسیم حجازی کی برسی

    اسلامی تاریخی ناول نگاری کو مقبولیت اور شہرتِ دوام بخشنے والے نسیم حجازی کی برسی

    "ایک مدّت تک میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ تاریخِ اسلام کے کس واقعے کو اپنے افسانے کی زینت بناؤں۔ میں کسی ایک پھول کی تلاش میں ایک ایسی سر سبز و شاداب وادی میں پہنچ چکا تھا جس کی آغوش میں رنگا رنگ پھول مہک رہے تھے۔ دیر تک میری نگاہیں اس دل فریب وادی میں بھٹکتی رہیں اور میرے ہاتھ ایک پھول کے بعد دوسرے پھول کی طرف بڑھتے رہے۔ میں نے رنگا رنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا۔”

    "آج میں ان پھولوں کو ایک گل دستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور اپنے خزاں رسیدہ چمن کو اس وادی کی طرح سر سبز و شاداب بنانے کی آرزو پیدا ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا۔”

    یہ سطور نسیم حجازی نے اپنے ناول داستانِ مجاہد کے پیش لفظ کے لیے تحریر کی تھیں جس سے ان کی مسلمانوں کے شان دار ماضی اور اپنے دینی تشخص کے احیا کی خواہش جھلکتی ہے۔ آگے چل کر وہ اپنے قومی اور ملّی شعور کے ساتھ ملک کے روشن مستقبل کے لیے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں‌ کرتے ہیں۔

    "ہر قوم کی تعمیرِ نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصّہ لیتی ہے۔ تاریخ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی و حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہی ماضی اور حال کا موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا رہتا ہے۔ ماضی کی یاد مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر ایک قوم کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے اور ماضی کے روشن زمانے پر بے علمی کے نقاب ڈالنے والی قوم کے لیے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہو جاتے ہیں۔
    مسلمانوں کے ماضی کی داستان دنیا کی تمام قوموں کی تاریخ سے زیادہ روشن ہے۔ اگر ہمارے نوجوان غفلت اور جہالت کے پردے اٹھا کر اس روشن زمانے کی معمولی سی جھلک بھی دیکھ سکیں تو مستقبل کے لیے انہیں ایک ایسی شاہراہِ عمل نظر آئے گی جو کہکشاں سے زیادہ درخشاں ہے۔”

    نسیم حجازی کا شمار ان تخلیق کاروں‌ اور اہلِ‌ قلم میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان میں اسلامی تاریخی ناول نگاری کو عوامی مقبولیت اور شہرتِ دوام بخشا۔

    محمد شریف ان کا اصل نام تھا، لیکن قلمی نام نسیم حجازی سے شہرت پائی۔ وہ 19 مئی 1914ء کو سوجان پور، مشرقی پنجاب میں چودھری محمد ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے۔ انہیں عربی کے استاد غلام مصطفیٰ نے ’نسیم حجازی‘ کا قلمی نام دیا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع اسکول سے ہوئی اور بعد میں وہ مشن ہائی اسکول دھاریوال ضلع گورداس پور بھیج دیے گئے۔ 1932ء میں میٹرک کا امتحان اور 1938ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد قلم تھاما۔ ان کا پہلا افسانہ ’شودر‘ ماہنامہ حکایتُ الاسلام میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’جستجو‘ اور پھر ’انسان اور دیوتا‘ کے نام سے افسانہ سامنے آیا۔ ان کہانیوں نے نسیم حجازی کو ادبی دنیا میں‌ متعارف کروایا۔ وہ تحریکِ پاکستان کی تائید میں پُر زور مقالے بھی لکھتے رہے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت سوانحی ناول اور اسلامی تاریخ پر مبنی کہانیاں ہیں۔

    نسیم حجازی نے زندگی کے کئی تلخ ادوار اور نشیب و فراز کا سامنا کیا تھا۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز بحیثیت صحافی ہوا اور وہ روزنامہ ’’حیات‘‘ کراچی سے وابستہ ہوئے۔1934ء سے 1948ء تک کوئٹہ کے ایک ہفت روزہ ’تنظیم‘ سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں‌ ان کی تحریریں بھی شایع ہوتی رہیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور مضامین شامل تھے۔ خاص طور پر وہ روزنامہ ’’کوہستان سے منسلک ہو کر اس کے بیشتر صفحات جو تاریخِ اسلام دینی امور، اسلامی مضامین، اور مسلم دنیا سے متعلق تھے، ان کو پُرمغز اور نہایت شان دار تحریروں سے سجایا۔ یہ اخبار اسلامی تحریکوں اور احیائے اسلام کی کوششوں کا حامی تھا جس سے منسلک ہو کر نسیم حجازی نے پاکستان اور اسلام کی بالادستی کے لیے کام کیا۔

    نسیم حجازی نے جب تاریخی اور اسلامی ناول نگاری کا آغاز کیا تو کئی شاہ کار کہانیاں سامنے آئیں اور ان کی مقبولیت عام ہوتی چلی گئی۔ ان کے برطانوی راج، تقسیمِ ہند اور تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں لکھے جانے والے ناول ’خاک اور خون‘ کے بعد ’یوسف بن تاشفین‘، ’آخری چٹان‘، ’آخری معرکہ‘، ’اندھیری رات کے مسافر‘، ’کلیسا اور آگ‘، ’معظم علی‘، ’اور تلوار ٹوٹ گئی‘،’قافلۂ حجاز‘،’قیصر و کسریٰ‘اور’شاہین‘ جیسے شاہ کار ناولوں نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ ’’پاکستان سے دیارِ حرم تک‘‘ ایک سفر نامہ اور پاک بھارت جنگ 1965ء کے پس منظر میں ڈراما ’’پورس کے ہاتھی‘‘ بھی ان کے تحریر کردہ تھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    نسیم حجازی نے ناول نگاری میں ایک شان دار باب کا آغاز کرتے ہوئے خود کو معتبر مؤرخ ثابت کیا۔ وہ اپنے فنِ تحریر اور ناول کی تکنیک سے بخوبی واقف تھے اور اپنے ہم عصروں میں الگ ہی راہ نکالی اور بامقصد کہانیاں تخلیق کیں۔ انہوں نے عالمِ اسلام کے خلاف منگولوں کی تباہ کن یلغار، خلافت اور اسلامی دنیا کو لاحق خطرات، مسلم اسپین کا نوحہ سبھی کچھ نہایت خوبی سے بیان کیا۔ نسیم حجازی کو 1992ء میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔

    ان کے ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد پی ٹی وی پر بھی پیش کیا۔ نسیم حجازی 81 برس کی عمر میں 2 مارچ 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ اسلام آباد میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    ان کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص فانی۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا، جب کہ فلسفہ و تصوّف بھی ان کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔

    کہتے ہیں فانی عشق کی بدولت غم سے دوچار ہوئے اور یہ غم انھیں تصوّف تک لے گیا اور تصوّف نے اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھایا۔ یہاں‌ ہم اپنے باذوق قارئین کو فانی کے اُس شعری وصف کی جانب متوجہ کررہے ہیں جسے "اسلامی تلمیحات” کہنا چاہیے۔

    فانی بدایونی اللہ کے انصاف سے امید رکھتے ہیں۔ اپنے بد اعمال یا گناہوں کی وجہ سے مایوس نہیں ہوتے، کیوں کہ وہ ربِّ کائنات کو پردہ رکھنے والا سمجھتے ہیں اور اس سے عفو و درگزر کے طالب ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔

    امیدِ عفو ہے ترے انصاف سے مجھے
    شاہد ہے خود گناہ کہ تُو پردہ پوش تھا

    یہ شعر اس یقینِ کامل کا مظہر ہے جس میں‌ انسان ہونے کے ناتے اضطراب اور بے چینی تو ہے، لیکن شاعر جانتا ہے کہ حقیقی مددگار اور مشکلات کو آسان کرنے والی ذات وہی ہے۔

    یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
    لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے!

    روزِ‌ محشر حساب ہو گا، خطا کاروں، گناہ گاروں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی، لیکن شاعر کو یہ یقین ہے کہ جہاں ﷲ کا قہر اور غضب ہوگا وہیں اس کی رحمت بھی اپنے بندوں پر سایہ فگن ہوگی اور یہی خیال انھیں مایوس اور غم زدہ نہیں ہونے دیتا۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔

    کس طرف جوشِ کرم تیری نگاہیں اٹھیں
    کون محشر میں سزاوارِ عتاب آتا ہے

    اور اسی ذیل میں ایک جداگانہ احساس اور یقین میں‌ ڈوبا ہوا فانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو۔

    منہ ڈھانپ لیا جوشِ ندامت کے اثر سے
    خورشیدِ قیامت نے مرے دامنِ تر سے

    فانی نے اپنی شاعری میں قرآنی آیات، بعض تراکیب بھی استعمال کی ہیں یا نہایت لطیف انداز سے ان کا اشارہ دیا ہے اور ان سے بھرپور معنٰی اور مفہوم پیدا کیا ہے۔

    لوح دل کو غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
    ’’کن‘‘ ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

    طُور تو ہے ربِّ ارنی کہنے والا چاہیے
    لن ترانی ہے مگر نہ آشنائے گوش ہے

    قرآن اور احادیث میں‌ دعا کی اہمیت اور فضیلت کا بہت ذکر کیا گیا ہے۔ فانی کو قرآن سے تقویت ملتی ہے کہ ﷲ بندے کی دُعا سنتا ہے اور انھوں نے اس لفظ "دعا” سے اپنے اشعار میں‌ خوب استفادہ کیا۔ فانی کا یہ شعر پڑھیے۔

    میں دعا موت کی مانگوں تو اثر پیدا کر
    ورنہ یارب شبِ فرقت کی سحر پیدا کر

    اسی مضمون میں فانی کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے دعا اور ہاتھوں کی اہمیت یا اس عضو سے نوازنے پر ربِّ کائنات کا شکر ادا کیا ہے۔

    ازل میں اہلِ دل نے بابِ رحمت سے نہ کیا پایا
    دعا پائی، دعا کے واسطے دستِ دعا پایا

    (سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • جویائے حق: مشہور صحابی کی زندگی پر شررؔ کا شاہ کار ناول

    جویائے حق: مشہور صحابی کی زندگی پر شررؔ کا شاہ کار ناول

    عبدُ الحلیم شررؔ بیسویں صدی کی اہم علمی شخصیت ہیں جن کا نام ایک بلند پایہ ادیب، ناول نگار اور شاعر کی حیثیت سے اردو ادب کی تاریخ میں محفوظ رہے گا۔

    شررؔ ان اہلِ قلم میں سے ہیں جنھوں نے اردو شعر و ادب کو متعدّد نئے اور کارآمد رجحانات سے روشناس کروایا یا انھیں اعتبار و امتیاز بخشا۔

    شرر زود نویس تھے۔ انھیں معاشرتی اور تاریخی ناول اور ڈرامہ نویسی کے ساتھ سیرت و سوانح نگاری اور شاعری سے بھی شغف تھا۔ وہ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے اور 1926ء میں وفات پائی۔ یہاں ہم ایک ایسے ناول کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو سیرت و سوانح پر ان کی گراں قدر اور یادگار تصنیف ہے۔ اس ناول کا نام ہے جویائے حق!

    یہ ایک تاریخی ناول ہے جس میں مصنّف نے مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی اور اہم واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی قوّتِ‌ متخیلہ اور کمال منظر نگاری سے مرقّعِ تاریخ بنا دیا ہے۔

    عبدُ الحلیم شرر نے ناول میں حضرت سلمان فارسی کے عیسائی عالم کو لکھے گئے خطوط کے ساتھ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ، حُسنِ سلوک، صحابہ کی زندگی، کفّار سے جنگوں کا احوال، عربوں کی حالت اور یہودیوں کی چال بازیوں کو منظر کر دیا ہے۔ اس ناول میں‌ مصنّف نے فتحِ مکہ اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے وصال کے بعد مسلمانوں‌ کے پہلے خلیفہ کی زندگی اور ان کے دورِ خلافت کے حالات کو بھی بیان کیا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اپنے چمنِ‌ تخیل سے تاریخی واقعات کو نہایت عمدگی سے آراستہ و مرصّع کر کے پیش کیا ہے، لیکن مصنّف نے اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ تاریخی شخصیات اور نمایاں واقعات تخیل کی نذر نہ ہو جائیں اور وہ اس میں‌ خوب کام یاب رہے ہیں۔

    اس ناول کی بابت ڈاکٹر علی احمد فاطمی لکھتے ہیں:
    "یہ ناول دراصل ناول نہیں ہے بلکہ ایک مکمل تاریخی کتاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ٹھوس تاریخیت زیادہ ہے اور قصّہ پن کم، اس کی وجہ اس موضوع کی نزاکت ہے۔ تاریخی مقصد کو ناول کی شکل دینے کے لیے تخیل کی نیرنگیاں دکھانا لازمی ہے، لیکن اس مقدس و محترم موضوع میں تخیل کی باگ ڈور کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ناول کم ایک تاریخی کتاب زیادہ ہے، سیدھی اور ٹھوس عالمانہ قدروں سے بھرپور ایک مذہبی کتاب۔”

    جویائے حق کے متعلق مولانا حسن مثنیٰ ندوی کا کہنا ہے:
    "ہم مولانا عبدالحلیم شرر کی ضخیم کتاب ”جویائے حق” کو نظر انداز نہیں کرسکتے جو اپنے طرز کی نرالی کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے حضرت سلمان فارسی کی زندگی اس انداز میں پیش کی ہے کہ ان کی زبان سے سیرت نبوی نہایت ہی مؤثر انداز میں بطرزِ ناول بیان ہوجاتی ہے اور پڑھنے والا اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔”