Tag: اسلام آباد ہائیکورٹ

  • عمر امین گنڈا پور کی نااہلی کا فیصلہ معطل

    عمر امین گنڈا پور کی نااہلی کا فیصلہ معطل

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عمر امین گنڈا پور کی ڈیرہ اسماعیل خان کی سٹی میئر کے لیے نااہلی معطل کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عمر امین گنڈا پور کی، ڈیرہ اسماعیل خان کی سٹی میئر کے لیے نااہلی کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کی سماعت کی۔

    عمر امین گنڈا پور کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور آصف گجر عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمر امین گنڈا پور کو نااہل کیا ہے، الیکشن کمیشن نے پروسیجر کے بغیر آرڈر جاری کیا۔ سمری انکوائری کے بعد 50 ہزار جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جرمانے کے بعد پھر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہو تو ایکشن ہو سکتا ہے، نہ انکوائری ہوئی، نہ رپورٹ کمیشن کو دی گئی۔ عمر امین نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہوتی تو پہلے نوٹس دینا چاہیئے تھا۔

    دوران سماعت عدالت کی ہدایت پر الیکشن کمیشن کا آرڈر پڑھا گیا، عدالت نے استفسار کیا کہ عمر امین کیسے فریق بن گیا؟ کیا نوٹس جاری نہیں کیا گیا؟

    بعد ازاں ہائی کورٹ نے عمر امین گنڈا پور کی نااہلی کا حکم معطل کردیا، ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا حکم آئندہ سماعت تک معطل کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کردیا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی عمر امین کو نااہل قرار دیا تھا۔

    عمر امین ڈیرہ اسماعیل خان کے میئر کے امیدوار تھے۔

    بعد ازاں عمر امین گنڈا پور نے الیکشن کمیشن سے نااہلی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔

    دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن شفافیت کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا، قانون کے مطابق شک کا فائدہ امیدوار کو ملنا چاہیئے تھا، سمری انکوائری کے بغیر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

    عمر امین کی جانب سے کہا گیا کہ لگائے گئے الزامات مبہم، عمومی نوعیت کے اور بغیر کسی خاص تفصیل کے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 234 کی دفعات کو غلط استعمال کیا گیا۔

    درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

  • ضبط شدہ گھر کے سلسلے میں اسحاق ڈار کی اہلیہ کی درخواست خارج ہو گئی

    ضبط شدہ گھر کے سلسلے میں اسحاق ڈار کی اہلیہ کی درخواست خارج ہو گئی

    اسلام آباد: عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اہلیہ کی درخواست پر ضبط شدہ گھر کا معاملہ نمٹا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسحاق ڈار کی اہلیہ کی لاہور میں گھر کی نیلامی کے خلاف درخواست مسترد کر دی، اور گھر پر تبسم اسحاق ڈار کا دعویٰ مسترد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    محفوظ شدہ فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفت امتیاز نے سنایا، 25 جنوری کو عدالت نے تبسم اسحاق کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    7 نومبر 2019 کے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بحال کر دیا، اور تبسم ڈار کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔

    عدالت نے گھر کی نیلامی پر دیا گیا اسٹے آرڈر بھی ختم کر دیا، عدالت کے فیصلے کے بعد پنجاب حکومت کو اسحاق ڈار کا گلبرگ تھری لاہور میں واقع گھر نیلام کرنے کی اجازت مل گئی۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کا گلبرگ تھری لاہور کا گھر 7 نومبر کو ضبط کر کے نیلام کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے خلاف اسحاق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحاق نے درخواست دائر کی تھی۔

  • وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کی خواہش، عدالت نے درخواست گزار کو جرمانہ کر دیا

    وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کی خواہش، عدالت نے درخواست گزار کو جرمانہ کر دیا

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی بہ طور رکن قومی اسمبلی نااہلیت کے لیے دائر درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کی نااہلی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ذاتی طور پر پیش ہوا، تاہم پیش کی گئی درخواست پر غور کے لیے کوئی جائز بنیاد نہیں اٹھائی گئی، استدعا سے واضح ہے کہ عرضی گزار غلط انکوائری کا مطالبہ کر رہا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ قانونی چارہ جوئی اور عدالتی فورمز کو غیر ضروری سیاسی مواد سے پاک کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے یہ عدالت اس پٹیشن کوفضول قرار دیتی ہے۔

    عدالت نے فضول درخواست دائر کرنے پر عرض گزار کے خلاف 10 ہزار جرمانہ بھی عائد کر دیا، عدالتی حکم میں کہا گیا کہ درخواست گزار جرمانہ 3 دن کے اندر ادا کرے۔

    حکم نامے کے مطابق جرمانے کی رقم عدالت کے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے پاس جمع کرائی جائے گی، اور یہ رقم مجاز اتھارٹی فنڈ میں منتقل کی جائے گی۔

  • سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے: مری کا شہری عدالت پہنچ گیا

    سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے: مری کا شہری عدالت پہنچ گیا

    اسلام آباد: مری میں ہونے والے سانحے کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے عدالت میں درخواست دائر کردی گئی، درخواست مری کے رہائشی نے دائر کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    مری کے رہائشی حماد عباسی نے دانش اشراق عباسی ایڈوکیٹ کے ذریعے درخواست دائر کی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سانحہ مری کے تمام ذمہ داروں کے خلاف مجرمانہ غفلت کی کارروائی کی جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والے اے ایس آئی نوید کے اہل خانہ نے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا تاہم حکام نے اطلاع کے باوجود کوئی ایکشن نہ لیا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ 25 ہزار سیاحوں کی گنجائش والے مری میں 1 لاکھ سے زائد سیاحوں کی اجازت کیوں دی گئی؟ اعلیٰ حکام کا ایکشن نہ لینا مجرمانہ غفلت ظاہر کرتا ہے۔

    یاد رہے کہ مری میں چند دن قبل معمول سے زیادہ برفباری میں بے شمار گاڑیاں پھنس گئیں تھیں جس کے باعث 22 سیاح اپنی گاڑیوں میں جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • میڈیا ورکرز اور صحافیوں کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ عدالت نے جواب طلب کرلیا

    میڈیا ورکرز اور صحافیوں کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ عدالت نے جواب طلب کرلیا

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے میڈیا ورکرز اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں سیکریٹری اطلاعات اور سیکریٹری قانون سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے مسائل کے حل کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا، درخواست پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا ورکرز اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، سیکریٹری اطلاعات اور سیکریٹری قانون دو ہفتے میں جواب جمع کروائیں۔

    عدالت نے کہا کہ میڈیا ورکرز اور صحافیوں کی سیکیورٹی کے لیے مؤثر قانون سازی موجود نہیں، درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکلز کے تناظر میں عوامی مفاد کے سوالات اٹھائے۔ بتایا گیا ہے کہ میڈیا ورکرز اور صحافیوں کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا تعلق بنیادی حقوق کے ساتھ ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ سوالات آزادی صحافت سے متعلق ہیں، آرٹیکل 19 اے شہریوں کو مفاد عامہ سے متعلق معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ ایڈیٹرز، رپورٹرز اور کالم نویس کی آزادی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ رجسٹرار آفس 3 ہفتوں کے بعد درخواست کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کر دے۔

  • ہائیکورٹ کا رانا شمیم، میر شکیل، انصار عباسی، عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس

    ہائیکورٹ کا رانا شمیم، میر شکیل، انصار عباسی، عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی، عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے فریقین کو 30 نومبر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

    شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ عدالت آرڈیننس 2003 سیکشن 5 کے تحت مجرمانہ توہین کے ارتکاب پر سزا دے سکتی ہے۔

    عدالتی شوکاز میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمان دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف کے طور پر اہم عہدے پر فائز ہیں، 15 نومبر کو دی نیوز پر انصار عباسی کی طرف سے خبر شائع، رپورٹ کی گئی، جس کا عنوان تھا ثاقب نثار نے 2018 الیکشن سے قبل نواز، مریم کو رہا نہ کرنے کی ہدایت کی۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ جسٹس (ر) رانا محمد شمیم کے مبینہ بیان حلفی کا مواد خبر میں شائع کیا گیا، مبینہ حلف نامے، خبر کی رپورٹ میں بے بنیاد، توہین آمیز الزامات لگائے گئے، اس خبر کی رپورٹ کا مواد عدالت کے ساتھ بدسلوکی کے مترادف ہے، عدالت کی طرف سے کی گئی کارروائیوں پر جھوٹا الزام لگانا جرم ہے۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ مواد کا مقصد عدالت کے سامنے زیر سماعت اپیلوں میں مداخلت معلوم ہوتا ہے، مریم نواز کی اپیلوں پر انصاف کے راستے کو موڑنے کی کوشش کی ہے، خبر لکھنے والے اور میرشکیل الرحمان نے حقائق کی تصدیق کی کوشش نہیں کی،اور ان لوگوں کا ورژن طلب کر کے پیش کیا گیا جن کے خلاف سنگین بد دیانتی کے الزامات تھے، اور اس عدالت کے رجسٹرار یا آزاد ذرائع سے تصدیق سے پہلے ہی رپورٹ کی اشاعت کی گئی۔

    شوکاز کے مطابق تصدیق کیے بغیر خبر کی اشاعت نہ صرف ادارتی بلکہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، تصدیق کے بغیر خبر کی اشاعت شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی پامالی ہوتی ہے، منصفانہ مقدمے کی سماعت کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے تعصب کا نشانہ بنایا گیا، ایسی خبریں شائع کرنا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ ایسی خبر عدالت اور ججز پر عوام کے اعتماد کو بغیر کسی خوف ختم کر دیتی ہے، اس قسم کی خبریں شہریوں کے حقوق اور آزادی کو مجروح کرتی ہے۔

    شوکاز کے مطابق اس خبر کی رپورٹ اور مذکورہ بالا کارروائیوں کو آرٹیکل 204 کے ساتھ پڑھا گیا، توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت قابل سزا مجرمانہ توہین کے مرتکب ہوئے، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی، عامر غوری 7 دن کے اندر تحریری جواب جمع کرائیں، سابق چیف جج جی بی بھی 7 دن کے اندر تحریری جواب ہائیکورٹ میں جمع کرائیں۔

  • توہین عدالت کیس : سابق جج رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان اور انصار عباسی  کو شوکاز نوٹس جاری

    توہین عدالت کیس : سابق جج رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان اور انصار عباسی کو شوکاز نوٹس جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق جج کےالزامات پر توہین عدالت کیس میں رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی سمیت دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ میں سابق جج راناشمیم کے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید ، چیف ایڈیٹر میرشکیل الرحمان ، دی نیوزکےایڈیٹرعامرغوری اور انصار عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔

    سابق جج رانا شمیم عدالتی حکم کے باوجود ہائیکورٹ نہیں آئے ، راناشمیم کے صاحبزادے نے کمرہ عدالت میں ویڈیوچلانےکی اجازت مانگیْ

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے میرشکیل الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرشکیل صاحب بہت بھاری دل کیساتھ آپ کو طلب کیاہے،یہ عدالت آزاد اورآئینی ادارہ ہے، فریڈم آف پریس اہم ہے ،سوشل میڈیا اورپریس میں فرق ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے، ہائیکورٹ نے عوام کے حقوق کاتحفظ کسی ڈر اور خوف کے بغیر کیا، آپکی رپورٹ نے ہائیکورٹ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے ہرایک جج کےاوپرمجھےبھروسہ اوراعتمادہے، ججزبھی قابل احتساب ہیں اوران پرتنقید بھی ہونی چاہیے، عوام کا اعتماد عدالت سے اٹھ گیا تو بے یقینی پیداہو جائے گی، ہائیکورٹ کوسائلین کیلئےقابل احتساب سمجھتاہوں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے انصار عباسی کو کہا آپ اپنی اخبارکی خبرکی ہیڈ لائن پڑھیں، انصار عباسی نے اپنی خبر کی ہیڈ لائن عدالت میں پڑھی۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہےجوکسی سےہدایت نہیں لیتی ، یہ حلف نامہ کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ تک نہیں۔

    چیف جسٹس نے انصار عباسی سے استفسار کیا کیا آپ نےرانا شمیم سےپوچھاانہوں نے حلف نامےکولندن سےنوٹرائزکیا ، جس پر انصار عباسی نے استدعا کی کہ عدالت مجھے دومنٹ بات کرنےکی اجازت دے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا جس دن کی بات ہے اس دن نہ میں ملک میں تھانہ جسٹس عامرفاروق ، انصار عباسی صاحب یہ بات رجسٹرارآفس سے ہی چیک کر لیتے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کیس کی سماعت کے بعد تاریخ پر ایپلٹ وکلانےاعتراض کیا؟ یہ وقت عدالتی سالانہ چھٹیوں کا تھا مگرآپ نے رجسٹرار سے پوچھا تک نہیں، جب کیس مقررہواجسٹس عامر فاروق اورمیں پاکستان میں نہیں تھے، جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس گل حسن اورنگزیب پاکستان میں تھے، درخواست گزار اور ان کے وکلاکون تھے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید سوال کیا کہ کیاکسی وکیل دفاع نےاستدعاکی کہ انتخابات سےقبل سماعت مقررکی جائے،وکلانے عام انتخابات کے بعد کیس مقرر پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جب فیصلہ ہوا، اسی دن فیصلہ معطل ہوا،اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، رجسٹرار سے پتہ کریں ایک سال سے 2بینچز کام کر رہے تھے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ میر شکیل صاحب روسٹرم پر آکر اسٹوری ہیڈلائن پڑھنےکی ہدایت کی ، جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا میرے عینک نہیں ہے تو عدالت نے صحافی انصار عباسی کو اسٹوری ہیڈلائن پڑھنے کی ہدایت کی۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ہائیکورٹ کے ججز پر تنقید ضرور کریں مگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھائیں، ہم اپنے آپ کو ڈیفنڈ نہیں کرسکتے ،میرے خلاف کئی بار سوشل میڈیا پر کمپین چلائی گئی ، آپ کو کوئی بیان حلفی دے تو کیا اسے فرنٹ پیج پر چھاپ دیں گے ، یہ کیسز غیر جانبدار ہوں گے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا کیا اس عدالت میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی سے آرڈر لیاہے ،یہ بیان حلفی اس عدالت کے کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا سابق جج نے بیان حلفی کو کہاں پرنوٹرائز کیا ؟ انہوں نے بیان حلفی کو باہر کیوں نوٹرائز کیا ؟ آپ انویسٹی گیشن کے ماہرصحافی ہیں کیا آپ نے خودانویسٹی گیشن کی؟ 16جولائی کو اپیل دائر ہوئی ،کون سا بینچ بنا ؟ جس وقت اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق بیرون ملک تھے۔

    چیف جسٹس نے انصار عباسی سے استفسار کیا کیا آپ نے ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پتہ کیا ؟اس کیس میں ملک سے نامی گرامی اچھے وکلا شامل تھے ، کیا آپ نے ان وکلاسے پوچھا کہ انہوں نے الیکشن سے پہلےڈیٹ مانگی، انہوں نےایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ پروفیشنل لوگ ہیں ،ان کو پتہ ہے۔

    ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھ سے متعلق کوئی دوسرا چیف جسٹس ایسی بات کرے توتحریری شکایت جوڈیشل کونسل کو بھیجوں گا، جسٹس جج کا نام آپ نے خالی چھوڑ دیا، بار بار اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ بینچزکوئی اور بناتا تھا،ہائیکورٹ میں لوگوں کا اعتماد تباہ کرنے کیلئےباتیں شروع ہوئیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ میرے سامنےکوئی جج ایسےکہےمیں سپریم جوڈیشل کونسل جاؤں گا، ایک چیف جسٹس کسی کے سامنے کہے کہ جرم کرو، پھر جرم کے بعد پھر 3سال خاموش رہا جائے، پھر ایک پراسرار بیان حلفی سامنے آجاتا ہے، اخبار نے کیسے ایسا بیان خلفی چھاپ دیا، عدالتی نظام انصاف کو مسلسل متاثر کیا جا رہا ہے۔

    رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم سگے بڑے بھائی کی وفات کےباعث پیش نہیں ہو سکے، دوران سماعت وکیل رانا حسن کا کہنا تھا کہ والدرانا شمیم کیساتھ فیصل واوڈا کوبھی نوٹس ہونا چاہیے، کیا آپ نے کل فیصل واوڈا کی گفتگو سنی ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں کیس کو دوسری کسی چیز سے مکس نہیں ہونے دوں گا، آپ الگ سے درخواست دیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب غلط ،جھوٹا حلف نامے سے کیا کارروائی کی جا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا حلف نامے نے پوری ہائیکورٹ کو اسکینڈلائزکر دیا ہے، یہ بہت سنجیدہ اور کرمنل معاملہ ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ایک سال سے 2ڈویژن بینچز تھے جس نے پورےہائیکورٹ کوچلایا، میرے ساتھ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ایک ڈی بی میں تھے، دوسرےڈی بی میں جسٹس عامرفاروق ،جسٹس محسن کیانی شامل تھے، آپ نے عدالت پرانگلی اٹھائی، معزز جج کے خلاف اسٹوری کی، آپ لوگوں کا اس عدالت سے اعتماد تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بڑے اخبار نے فرنٹ پیج پر اسٹوری کی جس سے عوام کا اعتماداٹھاتاہے، ہم پر تنقید کریں مگر لوگوں کا اعتماد عدالتوں پر بحال رہنے دیں۔

    انصار عباسی کا کہنا تھا کہ حلف نامہ کی خبر میری ہے اور میں نے ہی کی، ایک جانب سابق چیف جسٹس پاکستان تھے ، دوسری جانب سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان تھے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نہیں یہ معاملہ اسلام آبادہائیکورٹ سےمتعلق تھا۔

    انصارعباسی نے مزید کہا خبر میری ہے ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں، میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں، اس سنجیدہ معاملے کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عامر غوری سے استفسار کیا غوری صاحب آپ نےخبر بطور ایڈیٹر نیوز پڑھی ہوگی، تو کیا آپ نے اس کی اجازت دی ، جس پر ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک نوٹرائز حلف نامہ آیا تو اس پر خبر دی۔

    غوری صاحب یہ حلف نامہ کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں تھا ، میں سب کو شو کازنوٹس جاری کرنے جا رہا ہوں، تاثر یہ ہے کہ حلف نامہ جھوٹا اور غلط ہے، میں سب کے سامنے خود کوقابل احتساب سمجھتا ہوں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی ، سابق جج رانا شمیم اور دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری کو شوکاز نوٹس جاری کردیا اور فریقین کو 24نومبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق جج راناشمیم کےالزامات پرتوہین عدالت کیس کی سماعت 10دن تک کیلئے ملتوی کردی۔

    سابق جج کے انکشافات کا نوٹس


    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق گلگت بلتستان کورٹ کے سابق جج کے انکشافات کا نوٹس لیا تھا۔

    راناشمیم کوتوہین عدالت کانوٹس جاری


    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوران سماعت سابق چیف جسٹس جی بی راناشمیم کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین کو10 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تھا۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر میرشکیل الرحمان ، دی نیوز کے ایڈیٹر عامرغوری اور انصارعباسی کو بھی نوٹسز جاری کئے۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ کیوں نہیں توہین عدالت آرڈیننس2003 کے تحت کارروائی کی جائے، رجسٹرار آفس ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کرے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ خبر زیر التوااپیلوں سےمتعلق ہےجو 17 نومبر کو سماعت کےلئےمقرر ہے، راناشمیم کا دعویٰ ہے وہ سابق چیف جسٹس کی ٹیلیفونک گفتگوکاگواہ تھا۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ خبر کے مطابق ثاقب نثار نےنواز شریف، مریم کو رہا نہ کرنے کی ہدایت کی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے مبینہ طور پر معزز جج کو ہدایت کی تھی جبکہ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رانا محمد شمیم نے تصدیق کی ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت کےباہرمقدمہ چلنا زیر التوامعاملےکومتاثر کرنے کا رجحان رکھتا ہے،یہ معاملہ مجرمانہ توہین کے جرم کو راغب کرتا ہے، دی نیوز میں شائع رپورٹ زیرالتوامعاملےمیں کارروائی کومتاثرکرتی ہے اور اس کااثرانصاف میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی وجہ کو ہٹانے پر ہوتا ہے۔

    حکم نامے کے مطابق معاملے کے زیر التوا رپورٹس کاشائع ہوناتوہین کی سب سےسنگین شکل ہے، شائع رپورٹ عدالت کو بدنام،عوام کا اعتماد مجروح کرنے کے مترادف ہے، یہ نوٹ کیا جاتا ہے کہ انصاف کی سالمیت کو برقرار رکھنا عوامی مفاد میں ہے،تنازعات کافیصلہ منصفانہ طریقے سےہوناقانون کی حکمرانی کیلئے ناگزیر ہے۔

  • وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف، حکومت نے جواب دینے کے لیے مہلت مانگ لی

    وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف، حکومت نے جواب دینے کے لیے مہلت مانگ لی

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل دینے کے لیے عدالت سے مہلت مانگ لی، عدالت کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کو ملے تحائف ان کے نہیں عوام کے ہیں، حکومت کو چاہیئے 10 سالوں کے تحائف پبلک کر دے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل دینے کے لیے حکومت نے مہلت مانگ لی، ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔

    دوران سماعت جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کوئی دفاعی تحفہ ہو وہ بے شک نہ بتائیں لیکن ہر تحفے پبلک کرنے پر پابندی کیوں ہے؟ کسی ملک نے کوئی ہار تحفے میں دیا تو اسے پبلک کرنے میں کیا ہرج ہے؟

    جج کا کہنا تھا کہ حکومت تحائف نہ بتا کر کیوں شرمندہ ہو رہی ہے؟ حکمرانوں کو ملے تحائف ان کے نہیں عوام کے ہیں۔ کوئی عوامی عہدے پر نہ ہو تو کیا عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو تحائف ملیں گے؟

    عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ حکومت کیوں تمام تحائف کو میوزیم میں نہیں رکھتی؟ حکومت کو چاہیئے 10 سالوں کے تحائف پبلک کر دے۔

    جسٹس گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ حکومت بتائے کتنے تحائف کا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے تخمینہ لگوایا؟ کس نے کیا تحفہ دیا یہ بات عوام کو بتانے سے تعلقات کیسے خراب ہوں گے۔

    ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ ایک شہری کو وزیر اعظم کے تحائف کی تفصیلات دینے کا انفارمیشن کمیشن کا حکم کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

    کابینہ ڈویژن نے عمران خان کو بطور وزیر اعظم ملنے والے تحائف کو کلاسیفائیڈ قرار دیا اور کہا تھا کہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کا عکاس ہوتا ہے، ایسے تحائف کی تفصیل کے اجرا سے میڈیا ہائپ اور غیر ضروری خبریں پھیلیں گی۔

    کابینہ ڈویژن نے مزید کہا تھا کہ بے بنیاد خبریں پھیلنے سے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے اور ملکی وقار مجروح ہوگا۔

  • کلبھوشن یادیو کیس: کیا بھارت نے اپنے جاسوس کو تنہا چھوڑ دیا؟

    کلبھوشن یادیو کیس: کیا بھارت نے اپنے جاسوس کو تنہا چھوڑ دیا؟

    اسلام آباد: کیا بھارت نے اپنے جاسوس کو تنہا چھوڑ دیا ہے؟ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی وکالت کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن بھارت کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا، آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ہدایت کی کہ بھارت کو ایک اور مہلت دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہمی کی وزارت قانون کی درخواست میں، بھارت کو وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک اور مہلت دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رہائی سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان اور عدالتی معاون ایڈوکیٹ حامد خان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    اٹارنی جنرل نے حکومت پاکستان کی طرف سے بھارتی حکومت کو بھجوائی گئی دستاویزات عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا 5 مئی کو اس عدالت نے تفصیلی آرڈر پاس کیا تھا کہ ایک اور کوشش کی جائے، عدالت نے کہا تھا کہ بھارت کو کلبھوشن کے لیے وکیل کرنے کی کوشش کی جائے، بھارت کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

    عدالت نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہم نے عمل کرانا ہے لیکن بھارت کواس میں دل چسپی نہیں ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے بھارت کو درخواست دی تھی کہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کیا جائے، بھارتی حکومت اور کمانڈر کلبھوشن یادیو کے انکار پر ہی اس عدالت میں اپیل دائر کی گئی۔

    حکومت کی اب اس عدالت سے استدعا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے لیے نمائندہ مقرر کیا جائے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی نمائندہ مقرر ہونے پر بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد ہو سکے گا؟ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ویانا کنونشن کے مطابق کسی بھی غیر ملکی فوجی قیدی کو شفاف ٹرائل اور نظر ثانی اپیل کا حق ہے، عدالت نے کہا کہ ہم تو ویانا کنونشن کے قوانین کے تحت اس کیس میں جائیں گے، مگر حکومت کیسے اسے ہینڈل کرے گی؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں اس عدالت میں آئی ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم کیسے نظر ثانی اپیل یا نمائندہ مقرر کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی اپیل یا نمائندہ مقرر کرنے کے لیے کسی کو اپیل دائر کرنا ہوگا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت نے نوٹسز جاری کیے تھے لیکن کلبھوشن اور بھارتی حکومت انکاری ہیں، عدالت نے کہا کہ اگر دونوں فریق نمائندہ مقرر کرنے سے انکاری ہیں، تو ہم کیسے فیئر ٹرائل کر سکتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت عالمی عدالت انصاف کے ریویو اور ری کنسڈریشن کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد چاہتی ہے، عدالت نے کہا کہ ہم تو قونصلر رسائی کی حد تک اس کو دیکھ رہے ہیں، اس پر عمل درآمد تو ہو چکا، عدالت یا حکومت کو اس کے علاوہ کیوں دیکھنا چاہیے؟ کیا ریویو سوموٹو کی صورت میں عدالت لے سکتی ہے؟ یا الگ سے پٹیشن دائر ہوگی؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم کہتے ہیں وکیل مقرر کیا جائے جو اس کیس میں کلبھوشن کی طرف سے ریویو دائر کرے گا، ہم کسی غیر ملکی وکیل کو یہاں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے، وہ یہاں سے وکیل کر سکتے ہیں، عدالت نے کہا کہ کلبھوشن اور بھارتی حکومت کو ایک اور ریمائنڈر بھی بھیجیں۔

    عدالت نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی ایک اور مہلت دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت اور کلبھوشن یادیو کو اس عدالت کا آرڈر پہنچا دیں اور کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔

  • ٹک ٹاک پر پابندی، اسلام آباد ہائیکورٹ  کا بڑا حکم آگیا

    ٹک ٹاک پر پابندی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم آگیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے پرعدالت کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے میکنزم بنانے کیلئے وفاقی  حکومت سے مشاورت کا بھی حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی اے کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی کی خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے پی ٹی اے کے وکیل سے استفسار کیا ٹک ٹاک کو کیوں بند کیا؟ ٹک ٹاک بند کرنا ہی واحد راستہ ہے تو پھر گوگل بھی بند کردیں، یہ21ویں صدی ہے لوگوں کاذریعہ معاش سوشل میڈیا سے منسلک ہے۔

    وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ پشاور اور سندھ ہائیکورٹ نے پابندی اور میکنزم بنانے کا کہا تھا، جس پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پشاور ہائیکورٹ نے پورے ٹک ٹاک کو بند کرنے کاحکم دیا تھا؟ وکیل پی ٹی اے نے پشاور اور سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ عدالت کو پڑھ کر سنایا ، جس پر عدالت نے کہا دونوں عدالتوں نے کہیں نہیں کہا آپ ٹک ٹاک کومکمل بند کریں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ایسی ویڈیوزتویوٹیوب پربھی اپ لوڈ ہوتی ہیں، تو آپ یوٹیوب بھی بندکریں، آپ لوگوں کو گائیڈ کریں کہ غلط چیزیں نہ دیکھیں، آپ نے دونوں عدالتوں کے فیصلوں کو غلط استعمال کیا۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ میکنزم کا کہا گیا تو آپ میکنزم بنائیں، آپ کے پاس کیا اختیار ہے کہ ٹک ٹاک مکمل بند کر دیا؟ جس بنیاد پر ٹک ٹاک بند کیااسی گراؤنڈ پر باقی ایپس کیوں بند نہیں کئے؟

    عدالت نے استفسار کیا پی ٹی اے کیا چاہتی ہے؟ کیا مورل پولیسنگ کرے گی؟ آپ صرف منفی چیزیں کیوں دیکھتے ہیں، آپ مثبت چیزیں بھی دیکھیں۔
    اسلام آبادہائیکورٹ نے سماعت 23 اگست تک کے لئے ملتوی کر د

    اسلام آبادہائیکورٹ نے سیکریٹری آئی ٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اور پی ٹی اےکو ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے پر عدالت کو مطمئن کرنے اور میکنزم بنانے کیلئے وفاقی حکومت سے مشاورت کا حکم دے دیا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت 23 اگست تک کے لئے ملتوی کر دی۔