Tag: اسلام آباد ہائیکورٹ

  • بانی پی ٹی آئی کل اقتدارمیں آگئے تو……… جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے اہم ریمارکس

    بانی پی ٹی آئی کل اقتدارمیں آگئے تو……… جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے اہم ریمارکس

    اسلام آباد : جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے متعلق کیس میں اہم ریمارکس سامنے آئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی نئےٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کی درخواست پرسماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، وکیل بانی پی ٹی آئی نے بتایا کہ القادرٹرسٹ کو رجسٹر نہیں کیا جا رہا، عدالت چیف کمشنر کوحکم دے۔

    چیف کمشنر اسلام آباد کی جانب سےرپورٹ جمع نہ ہونے پرعدالت نے برہمی کا اظہار کیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے سوال کیا سرکاری عہدیدار کیوں خوف محسوس کر رہے ہیں؟ سرکاری عہدیداروں کو صرف اللہ کا خوف ہونا چاہیے۔

    ہائی کورٹ کے جج نے ریمارکس دیئے ذہن میں رکھیں موجودحکومت صرف 5سال کیلئےاقتدارمیں رہےگی، بانی پی ٹی آئی کل اقتدارمیں آگئےتوپلیٹ میں رکھ کررجسٹریشن کردی جائے گی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد سے آئندہ سماعت پر دوبارہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

  • آڈیو لیک کیس: ایف آئی اے، پی ٹی اے، پیمرا کی درخواستیں 5،5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج

    آڈیو لیک کیس: ایف آئی اے، پی ٹی اے، پیمرا کی درخواستیں 5،5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج

    اسلام آباد: آڈیو لیک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے، پی ٹی اے، پیمرا کی درخواستیں 5،5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق آڈیو لیک کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی عدالتی بینچ پر اعتراض کی متفرق درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کر دیں، اور انٹیلیجنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل طارق محمود کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    آڈیو لیک کیس میں بشریٰ بی بی اور نجم ثاقب کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اور اعتراض کیا ہے کہ ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار سمیت 6 ججز نے انٹیلیجنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا۔

    عدالتی استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ متفرق درخواستیں آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے نے دائر کی ہیں، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے اہم ادارے ہیں، ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کروں گا، کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے؟

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا بینچ ڈی لسٹ کردیا گیا

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے ڈی جی ایف آئی اے نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اتھارٹی دی، جج نے کہا کہ درخواست کا متعلقہ حصہ پڑھیں جہاں مجھ پر اعتراض کیا گیا ہے، یہ خط ایف آئی اے سے کس طرح متعلقہ ہے؟ آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ جسٹس شوکت صدیقی کے جو الزامات ہیں اس عدالت کے ججز ان کو سپورٹ کر رہے ہیں، اس عدالت کے ججز نے کہا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    جج نے کہا آپ نے خط کا جو حصہ پڑھا یہ آئی ایس آئی سے متعلق ہے، ایف آئی اے سے متعلق نہیں، آپ نے متفرق درخواست میں لکھا ہے کہ ہائیکورٹ کے ججز نے شکایت کی، یہ شکایت کس طرح ہے؟ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے الزامات لگائے، ہم تو حمایت کر رہے ہیں، ہائیکورٹ ججز کا خط آئی ایس آئی سے متعلق ہے، ایف آئی اے سے متعلق نہیں، کیا ایف آئی اے انٹیلیجنس ایجنسی ہے؟

    ایڈیشنل اٹارنی نے بتایا ایف آئی اے انٹیلیجنس ایجنسی نہیں ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ کے ججز کو بلیک میل کرنے سے ایف آئی اے کا کوئی تعلق ہے؟ کیا ایف آئی اے کا ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگانے سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اس لیٹر میں کسی ایگزیکٹو کے نام کا ذکر ہے؟ مفاد کے ٹکراؤ کے حوالے سے بتائیں؟ اس خط میں ذاتی مفاد کا بتائیں؟ میرا کیا ذاتی مفاد ہے؟ اگر ایگزیکٹو ججز کو بلیک میل کرے تو کیا ججز کے مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے گا؟ مفادات کے ٹکراؤ کی کیا آپ اس طرح تعریف کریں گے؟

    جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ خط کے کسی ایک معاملے سے بھی ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا بادی النظر میں ایف آئی اے کا کوئی تعلق نہیں بنتا، جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پھر ایف آئی اے کیس نہ سننے کی متفرق درخواست کیسے دائر کر سکتی ہے؟ اس پر ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے،

    ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے آڈیو لیکس میں ایف آئے اے کی اعتراض کی متفرق درخواست جرمانے کے ساتھ مسترد کر دی، بعد ازاں عدالت نے آئی بی افسر کو روسٹرم پر طلب کیا اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل طارق محمود کو ذاتی حیثیت میں جواب طلبی کے لیے طلب کیا۔

    کیس کی سماعت کے بعد اعتزاز احسن نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے آج کے حکم نامے نے میرا قد 20 فٹ اونچا کر دیا، وکلا نے بھی روسٹرم پر آ کر جسٹس بابر ستار کی بہادری کو سراہا۔

  • اپنے 3 بچوں کو قتل کرکے خودکشی کی کوشش کرنے والی ملزمہ کا ذہنی طبی معائنہ کرانے کا حکم

    اپنے 3 بچوں کو قتل کرکے خودکشی کی کوشش کرنے والی ملزمہ کا ذہنی طبی معائنہ کرانے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے 3 بچوں کو قتل کرکے خودکشی کی کوشش کرنے والی ملزمہ کا ذہنی طبی معائنہ کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    جس میں کہا کہ فیصلے کی کاپی چیف کمشنر، آئی جی اسلام آباد، سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل اور ای ڈی پمز کو بھجوائی جائے۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار زیبہ گُل پر اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو قتل کر کے خود کشی کرنے کی کوشش کرنے کے جرم میں فرد جرم عائد کی گئی،یکم دسمبر 2022 کی چارج شیٹ میں واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ زیبہ گل ذہنی طور پر بیمار ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے 465 کے تحت انکوائری کے بغیر ہی زیبہ گل کو 302 بی کے تحت 3 بار عمر قید کی سزا سنا دی، رائل کورٹ نے زیبہ گل کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 311 کے تحت 14 سال قید کی سزا بھی سنائی۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ چیف کمشنر اسلام آباد سپریم کورٹ کے صوفیہ بانو کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ سے درخواست گزار کا ذہنی طبی معائنہ کرائیں۔

    فیصلے کے مطابق میڈیکل بورڈ کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ آیا ملزمہ ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنا دفاع پیش کرنے کیلئے ذہنی طور پر قابل تھی یا نہیں، حکم نامہ

    عدالت نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے صوفیہ بانو کیس کے فیصلے کے تحت میڈیکل بورڈ نہیں بنایا جاتا تو ای ڈی پمز میڈیکل بورڈ بنائیں،اگر ایسا ہوتا ہے تو چیف کمشنر اسلام آباد وضاحت دیں گے کہ سپریم کورٹ کے صوفیہ بانو کے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا۔

    ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ آئندہ سماعت پر عدالت میں جمع کرائی جائے،آئی جی اسلام آباد اور سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل میڈیکل بورڈ کی معاملے میں معاونت کرنے کے پابند ہوں گے اور ملزمہ کے میڈیکل بورڈ سے ذہنی طبی معائنے کی ذمہ داری چیف کمشنر اسلام آباد کی ہوگی۔

  • ہاتھی آپ نکال چکے ہیں، دم بھی نکال دیں، سائفر کیس میں جج کے ریمارکس

    ہاتھی آپ نکال چکے ہیں، دم بھی نکال دیں، سائفر کیس میں جج کے ریمارکس

    اسلام آباد: چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں ریمارکس دیے کہ ہم نے کیس کا جائزہ لیا ہے، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے اپنے بیانات میں کچھ بھی ڈسکلوز نہیں کیا۔

    بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا سائفر کبھی بھی عوامی جلسے میں نہیں پڑھا گیا، جب کیس دو مرتبہ ریمانڈ بیک ہو کر جائے تو جج کو احتیاط سے کیس سننا چاہیے، شاہ محمود قریشی کے بطور ملزم بیان سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا گیا تھا، ملزمان کے حتمی بیان کے بعد بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے 2-2 سوال پوچھے گئے، اور سوال پوچھنے کے فوری بعد سزا سنا دی گئی۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے ہمیں جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر فارن اسٹیٹ نے کوئی جارحانہ بات کی ہے تو وہ آپ بتائیں گے نہیں، کیوں کہ وہ بات سائفر میں آئی ہے۔ سائفر اگر سائفر کے طور پر نہ آتا اور عمومی طور پر بھیجا جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ اگر سائفر ڈپلومیٹک بیگ کے طور پر آتا تو کیا پھر وزیر اعظم اسے سامنے لا سکتا تھا؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا دونوں اپیل کنندگان سے کوئی ریکوری نہیں ہوئی، کسی ملزم سے سائفر کی کاپی برآمد نہیں ہوئی، ایف آئی اے نے غلط کیس بنایا اور ٹرائل کورٹ نے بھی غلط سزا دی۔ آج تک سائفر کے الزام پر کسی پر کیس نہیں بنا اور سزا نہیں ہوئی۔ ٹرائل کورٹ جج نے فیصلے میں کبھی سیاسی مقاصد کا بتایا اور کبھی اکانومی کا ذکر کر دیا۔

    چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہاتھی آپ نکال چکے دم بھی نکال دیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے آپ نے 10 سال جو سزا ہوئی اس کو ڈی مولش کرنے کی کوشش کی ہے، ہم نے نوٹ کر لیا ہے، آپ نے اچھے سے دلائل دیے، ایک چیز آپ کے پاس آتی ہے وہ واپس نہیں کی جاتی، سائفر کی کاپی واپس نہ دینے پر 2 سال کی سزا سنائی گئی، آپ نے سائفر کاپی واپس دینی تھی جو واپس نہیں دی گئی، اس پر کل دلائل دیں۔ سلمان صفدر نے کہا صرف بانی پی ٹی آئی نے نہیں دینے تھے باقی لوگوں کے پاس بھی کاپیاں تھیں جو پرچہ درج ہونے کے بعد واپس آئیں۔ سائفر اپیلوں پر مزید سماعت کل 4 اپریل کو ہوگی۔

    بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج عدالتی کارروائی میں ٹرائل کورٹ کے جج کا فیصلہ پڑھا گیا، جج صاحب نے سائفر کیس کو اکنامی سے منسلک کر دیا تھا، سرکار کے کیس کا جب خلاصہ ہوا تو وہ سارا دھڑام سے آ گرا ہے، ججز بھی حیران تھے کہ اس فیصلے میں اکنامی کا ذکر کہاں سے آ گیا، اب حتمی دلائل شروع ہو چکے ہیں، جج صاحب نے کہا ہاتھی تو نکل چکا ہے پیچھے اس کی دم رہتی ہے، دم نکلنے کا مطلب کہ ہم نے پراسیکیوشن کا کیس اچھی طرح جھنجوڑ دیا ہے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے عامر ڈوگر کو عمرہ پر جانے کی اجازت  دیدی

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے عامر ڈوگر کو عمرہ پر جانے کی اجازت دیدی

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کو عمرے کی ادائیگی کے لیے جانے کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عامر ڈوگر کی درخواست پر سماعت کی، کسی لسٹ میں نام نہ ہونے پر پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر کو ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے عامر ڈوگر کو عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ عامر ڈوگر 3 سے 9 اپریل تک عمرہ ادائیگی کیلئے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے عامر ڈوگر کی درخواست پر فریقین کو 22 اپریل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ڈپٹی رجسٹرار کے پاس بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت جاری کردی۔

  • پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دی جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم

    پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دی جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے انتظامیہ کو پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دینے کی ہدایت کر دی اور کہا شرائط وضوابط پرعملدرآمد کرا کرجلسے کی اجازت دیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی اسلام آباد میں 30 مارچ کو جلسے کی اجازت دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے اسٹیٹ کونسل کو ہدایت کی اپنے ٹرم اینڈ کنڈیشنز پر عملدرآمد کروا کے جلسے کی اجازت دیے دیں۔

    عدالت نے اسلام آبادانتظامیہ کو ہدایت کی کہ آپ نے جو شرائط عائد کرنی ہیں وہ کر دیں، جس پر اسٹیٹ کونسل نے کہا پہلے بھی ان کو جو اجازت دی گئی، اس کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے جو شرائط نارمل ہوتی ہیں وہ لگائیں اس میں کوئی حرج نہیں، کوئی غیر معمولی شرائط عائد نہ ہو جو اسٹینڈرڈ ٹی او آر ہوتے ہیں اس کے مطابق اجازت دیں۔

    شیر افضل مروت نے عدالت میں کہا کہ کل جو واقعہ ہوا ہے وہ تو ڈی سی کے جلسہ کی اجازت نا دینے کے ہوا ہے ، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ میرے سے پہلے والے چیف جسٹس بھی اجازت دیتے رہے ہیں میں نے بھی آرڈر کیا ہے۔

    شیر افضل مروت نے کہا ہم ہر قسم کی شرائط کی پابندی کے لئے تیار ہیں تو سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز دہشت گردی کا ایک افسوس ناک واقعہ بھی ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا زندگی رکتی تو نہیں ہے، چلتی ہی رہتی ہے، ہم نے اسی طرح دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔

    سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا مجھے ہدایات لینے کا وقت دیدیں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا میں آپ کی رضامندی نہیں مانگ رہا، فیصلہ میں نے کرنا ہے۔

    یاد رہے ڈی سی اسلام آباد نے پی ٹی آئی کی جلسے کی اجازت کی درخواست مسترد کردی تھی پی ٹی آئی نے معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

  • جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، نگران وزیراعظم

    جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، نگران وزیراعظم

    اسلام آباد : بلوچ طلبا بازیابی کیس میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جسٹس محسن اختر کیانی سے مکالمے میں کہا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں، ہمیں بلوچستان میں مسلح جدوجہدکاسامناہے، جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عدالت میں پیش ہوئے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے مکالمے میں کہا ہم نے 2 سال میں کئی سماعتیں کیں،بلوچ طلبا اٹھائے گئے، کچھ لوگ دہشتگرد ہیں،کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا۔ کچھ لوگ گھروں کو پہنچ گئے ہیں، جس پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہم بلوچستان میں مسلح جدوجہد کا سامنا کررہے ہیں، پیراملٹری فورسز،کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

    انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ لاپتہ افراد کا ایشو خود حل نہیں کرنا چاہتے، ان سے لاپتہ افراد کا پوچھو تو5 ہزار نام دے دیتے ہیں، یو این کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا؟ وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں؟

    جس پر جسٹس کیانی نے کہا آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟ تو نگران وزیراعظم نے بتایا میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں۔

    نگران وزیرعظم نے مزید کہا کہ ایک سابق چیف جسٹس بلوچستان میں نماز ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلادیا گیا، جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، روڈ کنارےلوگوں کو مارا گیا مگر مجال ہے کسی کو انسانی حقوق یاد آئے ، یہ بسوں سے اتارکرنام پوچھتے اورچوہدری یا گجرکو قتل کردیتے ہیں، پھر لوگ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں۔

    انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے ساتھ لوگوں کے جینے کا بھی حق ہے۔ آئین پاکستان شہریوں سے ریاست کیساتھ غیر مشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے۔ دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں، 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ انہیں پراسیکیوٹ نہیں کرسکے، اگر قانون میں سقم ہے اور ثبوت نہیں ہیں تواس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ قانون ایک ہی ہے،اس کے مطابق ہی چلنا ہے، اگر کسی کوگرفتارکریں تواس متعلق پتہ ہونا چاہیے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ عدالتوں نے بہت بڑے دہشت گردوں کو بھی سزائیں دی ہیں۔کوئی عدالت نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی۔ بلاشبہ یہ ایک جنگ ہے ، جو ہماری فوج اور ادارے لڑرہے ہیں۔ آپ نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں،اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں،انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا۔

    جس پر نگران وزیراعظم نے کہا ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کےخلاف کاروائی ہونی چاہیے، دوران سماعت ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا جب بات لاپتہ افراد کی ہوتو دہشتگردوں کی طرف چلی جاتی ہے، لاپتہ افراد کے اہلخانہ کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، یہ تاثردرست نہیں کہ ہم ریاست کےخلاف کوئی پروپیگنڈا کررہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں، ہم کبھی بھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔

    جس پر انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ زندہ رہنے کا حق سر فہرست ہے، مجھے بلوچستان سے ہونےکی وجہ سے حالات کا زیادہ علم ہے،بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہو رہی ہے، میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت اور آپ کی اولین کوشش تھی لاپتہ لوگ گھروں کو پہنچ جائیں، درخواست پر کارروائی آگئے نہ بڑھتی تو لوگ بازیاب نہ ہوتے، کوشش رہی رہا ہونے والے بھی عدالت میں آکر اپنا موقف دیں۔

    اٹارنی جنرل کی آئندہ سماعت کے لیے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں نئی حکومت آجائے اور اس تھوڑا وقت مل جائے تو جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ بلکل آئندہ سماعت کے لیے تھوڑا وقت دیں گے، عدالت نے جو کمیٹی تشکیل دی اسکی رپورٹ جمع کروا دی، بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • پولیس اور ایف آئی اے کو شیر افضل مروت کے خلاف تادیبی کاروائی سے روک دیا گیا

    پولیس اور ایف آئی اے کو شیر افضل مروت کے خلاف تادیبی کاروائی سے روک دیا گیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس اور ایف آئی اے کو شیر افضل مروت کے خلاف تادیبی کاروائی سے روک دیا ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی اور ہراساں نہ کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نےدرخواست پر سماعت کی، شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے۔

    شیر افضل مروت نے بتایا کہ احتجاج اور ریلی نکالی جس کے بعد میرے گھر چھاپہ مارا گیا ، رات ایک بجےمیرے گھر کا دروازہ توڑاگیا، ہراساں کیا گیا ، فریقین کو نوٹس جاری کرکے کیسوں کی تفصیلات مانگی جائیں۔

    رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایک ایف آئی آر کا مجھے پتہ ہے جس میں کل ضمانت کروائی ہے، انھوں نےنیا کام پکڑا ہوا ہے اپوزیشن رہنماؤں پرکیسز درج کرلیتے ہیں۔

    شیر افضل مروت نے استدعا کی عدالت پولیس ، ایف آئی اے سے کیسوں کی تفصیل منگوالے ، جس پر جسٹس ثمن رفعت امتیاز کا کہنا تھا کہ پہلے نوٹس کرکے جواب مانگ لیتےہیں تو رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ پولیس،ایف آئی اےسے کوئی توقع نہیں ہے ، ہراساں نہ کرنے ، بغیر وارنٹ گھر میں نہ گھسنے کابھی حکم دیں۔

    عدالت نے فریقین کو شیر افضل مروت کے خلاف تادیبی کاروائی سے روک دیا اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 26 فروری تک رپورٹ طلب کرلی اور کہا شیر افضل مروت کے خلاف کتنے کیسز درج ہیں 26 فروری تک بتایاجائے۔

  • توشہ خانہ اورالقادر ٹرسٹ کیس کا جیل ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

    توشہ خانہ اورالقادر ٹرسٹ کیس کا جیل ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد : توشہ خانہ اورالقادرٹرسٹ کیس کا جیل ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا، جس میں استدعا کی کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق توشہ خانہ اور القادرٹرسٹ کیس کے جیل ٹرائل کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست کردی۔

    بانی پی ٹی آئی نے جیل ٹرائل کے دونوں نوٹیفکیشن کیخلاف درخواست دائرکی، درخواست میں کہا گیا کہ القادرٹرسٹ کیس میں 14نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہوا، توشہ خانہ کیس میں28 نومبر کو جیل ٹرائل کانوٹیفکیشن جاری ہوا۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن غیر قانونی اوربدنیتی پر مبنی ہیں ، استدعا کی کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار دیا جائے ،درخواست کے زیر التوا رہنے تک ٹرائل کورٹ کارروائی کو روکا جائے۔

    توشہ خانہ اور القادرٹرسٹ کیس میں دونوں درخواستوں میں چیئرمین نیب اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • بینکوں کی ونڈ فال آمدن پر 40 فیصد اضافی ٹیکس، اہم خبر آگئی

    بینکوں کی ونڈ فال آمدن پر 40 فیصد اضافی ٹیکس، اہم خبر آگئی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے بینکوں کی ونڈفال آمدن پر 40 فیصد ٹیکس کیخلاف حکم امتناع میں 26 جنوری تک توسیع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے بینکوں کی ونڈفال آمدن پر40 فیصد اضافی ٹیکس کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

    درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے، ایف بی آر وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے دائر کی گئی درخواست کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا۔

    ایف بی آر کے وکیل نے کہا کراچی کی درخواستیں اسلام آباد میں نہیں سنی جاسکتیں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا جو معاملہ کراچی کا ہے وہ اسلام آباد میں کیسے سنا جاسکتا ہے؟

    عدالت نے دائرہ اختیار کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا تفصیلی آرڈر میں کراچی کی درخواستیں سننے کی وجوہات جاری کریں گے، عدالت نے حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت26 جنوری تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے ونڈفال آمدن پر اضافی ٹیکس کے خلاف درخواست عسکری بینک نے دائرکررکھی ہے۔