Tag: اسلام آباد ہائیکورٹ

  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی پیشی ، آئی جی اسلام آباد کو سکیورٹی انتظامات کی ہدایت

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی پیشی ، آئی جی اسلام آباد کو سکیورٹی انتظامات کی ہدایت

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ رجسٹرار آفس نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی پیشی کے موقع پر آئی جی اسلام آباد کو سکیورٹی انتظامات یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کیخلاف کیخلاف اپیلوں کی سماعت کیلئے اسلام آبادہائیکورٹ رجسٹرار آفس نےقواعدوضوابط پرسرکلرجاری کردیا۔

    جس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس عامرفاروق اورجسٹس گل حسن ستائیس نومبرکواپیلوں پرسماعت کریں گے، نواز شریف کی پیشی پر آئی جی اسلام آباد مناسب سکیورٹی انتظامات یقینی بنائیں۔

    سرکلر میں کہا ہے کہ کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخلہ رجسٹرارآفس کی جانب سےجاری پاسزسےمشروط ہوگا اور درخواست گزارکی قانونی ٹیم کےپندرہ وکلاکو کمرہ عدالت میں داخلےکی اجازت ہوگی۔

    سرکلر میں کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ، اے جی کے 5،5 سرکاری وکلا کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت ہوگی، اسلام آبادہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے30صحافیوں کو داخلے کی اجازت ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ملازمین انٹری پاسز سے مستثنیٰ ہوں گے۔

  • شیریں مزاری کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    شیریں مزاری کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر شیریں مزاری کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر شیریں مزاری کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنےکی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور پولیس کی جانب سے وکیل طاہر کاظم عدالت میں پیش ہوئے ، عدالت نے کہا کہ کئی لوگوں پرکریمنل کیسز ہیں صرف شیریں مزاری کا نام کیوں شامل کیا۔

    پولیس وکیل طاہر کاظمنے بتایا کہ شیریں مزاری کے خلاف 7مقدمات درج ہیں ،جن کے پاس کھانا پینانہیں ہوتاانھوں نے تو بیرون ملک نہیں جاناہوتا ، شیریں مزاری کی ٹریول ہسٹری کافی زیادہ ہے، ان لوگوں سےکوئی ڈر نہیں ہوتاجن کی ٹریول ہسٹری نہ ہویاکھانےپینےکی کمی ہو۔

    عدالت نے کہا کہ کیسز درج ہیں یا ٹریول ہسٹری زیادہ ہےیہ تو کوئی بات نہ ہوئی، بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شیریں مزاری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری نےدلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ  کی عدم موجودگی میں بینچز کی تشکیل  اور کیسز مارکنگ کیسے ہوگی ؟

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی عدم موجودگی میں بینچز کی تشکیل اور کیسز مارکنگ کیسے ہوگی ؟

    اسلام آباد ‌: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی عدم موجودگی میں بینچز کی تشکیل اور کیسز مارکنگ کے حوالے سے اہم سرکلر جاری کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدم موجودگی میں بینچز کی تشکیل اور کیسز مارکنگ کرنے سے متعلق اہم سرکلر جاری کر دیا ، چیف جسٹس کی منظوری سے اہم سرکلر جاری کیا گیا۔

    جس میں کہا ہے کہ بینچزتشکیل کااختیار چیف جسٹس کا ہی ہو گا، کیس مارکنگ اختیاردستیاب سینئر جج کوحاصل ہوگا ، چیف جسٹس کی عدم دستیابی پرایڈیشنل رجسٹرار بنچ تشکیل کیلئے چیف جسٹس سے ہدایات لیں گے۔

    سرکلر میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی ہدایات کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل عمل کریں گے اور چیف جسٹس کی چھٹی کی صورت میں دستیاب سینئر جج کیس کی مارکنگ کر سکے گا۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اختیار ریگولیٹ کرنے کی سفارش کی تھی۔

  • آج سے عدالت میں پیش ہونے سے قبل  وکلا کا گاؤن پہننا لازمی قرار

    آج سے عدالت میں پیش ہونے سے قبل وکلا کا گاؤن پہننا لازمی قرار

    اسلام آباد: ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں آج جب بغیر گاؤن پہنے سینئر وکیل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس کو انھیں یاد دلانا پڑا کہ آج سے وکلا کے لیے گاؤن پہن کر پیش ہونا لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کے خلاف 2018 سے زیر سماعت توہین عدالت کی درخواست کی سماعت سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا وکلا سے مکالمہ ہوا۔

    جب بغیر گاؤن پہنے سینئر وکیل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا معذرت کے ساتھ کیا آپ لوگوں کو ہائیکورٹ کے احکامات کا پتا نہیں ہے، آپ دونوں سینئر وکیل ہیں، ایک تو ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب بھی ہیں، لیکن دونوں بغیر گاؤن کے آ گئے؟

    چیف جسٹس نے کہا 15 نومبر سے عدالت پیش ہونے پر گاؤن پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے، اس پر وکلا نے کہا ہم معذرت چاہتے ہیں، آئندہ گاؤن پہن کر عدالت پیش ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ خود بھی گاؤن پہنیں اور دیگر وکلا کو بھی بتائیں جنھوں نے وہ نوٹیفکیشن نہیں دیکھا۔

  • چیف جسٹس پاکستان کے بعد چیف جسٹس ہائیکورٹ کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا اہم معاملہ سامنے آگیا

    چیف جسٹس پاکستان کے بعد چیف جسٹس ہائیکورٹ کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا اہم معاملہ سامنے آگیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جسٹس محسن اختر کیانی نے چیف جسٹس ہائیکورٹ کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا معاملہ انتظامی کمیٹی کو بھیجنے کی سفارش کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کے بعد چیف جسٹس ہائیکورٹ کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا اہم معاملہ سامنے آگیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جسٹس محسن اختر کیانی نے معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو بھیجنے کی سفارش کر دی ہے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک کیس میں معاملہ سامنے آنے کے بعد آرڈر میں اضافی نوٹ لکھا ہے کہ ” چیف جسٹس کی عدم موجودگی میں انتظامی جج کے پاس بنچ تشکیل دینے کا اختیار نہیں ، چیف جسٹس کی عدم موجودگی کے باعث حفاظت نہ مل پانا بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی عدم موجودگی کے باعث درخواست گزار کو حفاظت نہیں مل پاتی، بادی النظر میں یہ پہلو درخواست گزار کو مشکل صورتحال میں ڈال دیتا ہے کیونکہ انتظامی جج ہنگامی نوعیت کے کیس کو بھی اُسی دن سماعت کیلئے مقرر نہیں کر سکتا۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے لکھا ‘انتظامی جج کے پاس اہم نوعیت کا کیس بھی اگلے روز کیلئے مارک کرنے کا اختیار ہے، کیس مارک کرنے کے باوجود ایڈمنسٹریٹو جج سماعت کیلئے بینچ تشکیل نہیں دے سکتا، ایڈمنسٹریٹو جج محض چیف جسٹس کے فراہم کردہ اختیارات کے مطابق کیس مارک کر سکتا ہے۔’

    جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے انتظامی معاملات چلانے کا اختیار انتظامی کمیٹی کے پاس ہے، معاملہ انتظامی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کر سکے، ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے تحت معاملہ فُل کورٹ کے سامنے بھی رکھا جا سکتا ہے۔

  • ’قانون کے مطابق شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے لیکن اسے خفیہ رکھنا لازم ہے‘

    ’قانون کے مطابق شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے لیکن اسے خفیہ رکھنا لازم ہے‘

    اسلام آباد: آڈیو لیکس کیس میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیک کیس میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے لیگل فریم ورک موجود ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے کہا عدالت نے سوال پوچھا ہے کہ کس ایجنسی کے پاس گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے؟ جواب یہ ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا فریم ورک دیتا ہے، وزیر اعظم آفس انٹیلیجنس ایجنسیوں کے حساس روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، اور ان کے ساتھ کچھ فاصلے سے تعلقات رکھتا ہے۔

    وزیر اعظم آفس انٹیلیجنس ایجنسیوں سے آئین، قانون کے مطابق عوامی مفاد میں کام کی امید رکھتا ہے، اور وزیر اعظم آفس کا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام ، آپریشنز کی تفصیل میں جانا قومی سلامتی کے حق میں نہیں، ایسا عمل ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے کہا عدالت نے سوال پوچھا کہ قانون کے مطابق ریکارڈ ٹیلی فونک گفتگو کو خفیہ رکھنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟ انوسٹیگیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت کا میکنزم فراہم کرتا ہے، تاہم قانون کے مطابق ریکارڈ کی گئی گفتگو کو خفیہ رکھنا، لیک ہونے سے روکنے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

    انھوں نے کہا اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ریکارڈ کی گئی گفتگو کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے، ٹیلی گراف ایکٹ میں بھی پیغامات پڑھنے کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت سے اجازت کو لازم قرار دیا گیا، لیکن پیکا آرڈینینس اور رولز کے تحت بھی حاصل کیے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کو خفیہ رکھنا لازم ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے جواب میں کہا عدالت نے سوال پوچھا ہے کہ شہریوں کی گفتگو کس نے ریکارڈ اور لیک کیں؟ تحقیقات کیا ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کر کے لیک کرنے کا معاملہ وفاقی حکومت کے علم میں ہے، اور وفاقی حکومت نے سینئر ججز پر مشتمل اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا ہے، یہ کمیشن لیک کی گئی آڈیوز کے مصدقہ ہونے کی انکوائری کرے گا۔

  • ایمان مزاری کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے بڑا ریلیف مل گیا

    ایمان مزاری کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے بڑا ریلیف مل گیا

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایمان مزاری کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کیا ہے، عدالت نے کہا کہ سیکرٹری، آئی جی ، ڈی جی ایف آئی ایمان مزاری کو گرفتار نہیں کریں گے۔

    عدالت نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ، پولیس اور ایف آئی اے کسی صوبے کی گرفتاری میں معاونت نہیں کریں گے، ایمان مزاری کو اسلام آباد کی حدود سے باہر نہ لے جانے کو یقینی بنائیں۔

    حکم نامے کے مطابق سیکرٹری داخلہ ایمان مزاری کیخلاف مقدمات سے متعلق تک صوبوں سے تفصیلات مانگ کر آگاہ کریں، ایس ایس پی آپریشنزکے مطابق اسلام آباد میں ایمان مزاری کیخلاف تین مقدمے درج ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے مطابق ایمان مزاری اسلام آباد کے دومقدمات میں ضمانت پر ہے۔

    پٹشنرکی والدہ نے کہا تیسرے مقدمے میں ضمانت کی صورت میں پھرگرفتاری کا خدشہ ہے، عدالت سے 16 مئی والے فواد چوہدری کیس کا آرڈرکرنے کی استدعا کی گئی۔

  • ایمان مزاری کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں گرفتاری کا سامنا، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

    ایمان مزاری کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں گرفتاری کا سامنا، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

    اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں گرفتاری کا سامنا ہے، جس پر انھیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز اڈیالہ جیل کے باہر سے دوسری بار گرفتار ہونے پر ایمان مزاری نے حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2 مقدمات میں ضمانت کے بعد ایمان مزاری کو تیسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔

    درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایمان مزاری کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں گرفتاری کا سامنا ہے، انھیں حفاظتی ضمانت فراہم کی جائے، ایمان مزاری کو حفاظتی ضمانت ملے تاکہ ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا جا سکے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ایمان مزاری مقدمات کی تفتیش میں مکمل تعاون کرنے کے لیے بھی تیار ہیں، اس لیے عدالت ایف آئی اے اور صوبائی اداروں کو ایمان مزاری کو گرفتار کرنے سے روکے، اور عدالت ایمان مزاری کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے۔

    درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل، اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا سوسائٹیز کو اپنے ناموں سے’’اسلام آباد‘‘ نام ہٹانے کا حکم

    اسلام آباد ہائیکورٹ کا سوسائٹیز کو اپنے ناموں سے’’اسلام آباد‘‘ نام ہٹانے کا حکم

    اسلام آباد سے باہر واقع ہاؤسنگ سوسائٹیز کو اسلام آباد کا نام استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔

    جسٹس ارباب محمد طاہر نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن منسوخی کے خلاف کیس کا فیصلہ جاری کر دیا جس میں اسلام آباد کی حدود سے باہر واقع 18 ہاؤسنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن منسوخی کو کالعدم قراردیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 18 ہاؤسنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن بحال کر دی ہے۔

    اسلام آباد میں رجسٹرڈ لیکن اسلام آباد کی حدود سے باہر سوسائٹیز کی رجسٹریشن ڈی سی نے منسوخ کی تھی، عدالت نے رجسٹریشن منسوخی کا گزشتہ سال 23 ستمبر کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس حوالے سے فیصلے میں اسلام آباد سے باہر سوسائٹیز کو نام کے ساتھ اسلام آباد کا لفظ ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ’’اسلام آباد‘‘ نام کی تبدیلی سے تاثر ختم ہوگا یہ سوسائٹیز یہ اسلام آباد کی حدود میں واقع ہیں، سوسائٹیز کے خرچ  پر اخبارات میں اشتہار  دئیے جائیں یہ سوسائٹیز اسلام آباد کی حدود میں نہیں ہے۔

    عدالت نے کہا کہ عوامی آگاہی کے لئے اشتہارات مستقل ہاؤسنگ سوسائٹیز کی مرکزی جگہوں پر چسپاں رہیں گے، اسلام آباد نام استعمال کر کے چالاکی سے عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ سوسائٹیز اسلام آباد میں ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز نے سوسائٹیز کی رجسٹریشن منسوخی کرتے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے، مختلف انکوائریز کے بعد رجسٹرار سوسائٹیز قانون کے مطابق دوبارہ کارروائی کر سکیں گے۔

    عدالت نے کہا کہ رجسٹرار پہلے خود مطمئن کرے کیا سوسائٹیز نے رجسٹریشن کے ایک سال کے اندر ڈویلپمنٹ شیڈول دیا، رجسٹرار تصدیق کرے گا مقررہ وقت میں کیا سوسائٹیز نے متعلقہ صوبے میں ڈیٹا فراہم کیا اگر سوسائٹیز  نے ہاؤسنگ پراجیکٹ پر  عمل کرنے کا ڈیٹا نہیں دیا تو رجسٹرار کارروائی کر سکتا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ رجسٹرار انکوائری کرے گا کیا سوسائٹیز  نے متعلقہ صوبوں میں پراجیکٹس بروقت مکمل کئے، پراجیکٹ کے لئے جگہ ایکوائر کی گئی اگر نہیں تو انکے فنانشل افیئرز کی رجسٹرار انکوائری کریں۔

    ’رجسٹرار یہ بھی انکوائری کرے گا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے پاس کیا ہاؤسنگ اسکیم چلانے کی صلاحیت ہے، رجسٹرار  پنجاب کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے بھی اس حوالے سے معاونت لے سکے گا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ 2 ماہ میں رجسٹرار کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز رجسٹرار ہائیکورٹ کو عمل درآمد رپورٹ دیں، عدالت کے سامنے آیا ہے رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز نےکبھی بھی قانون پر عمل نہیں کرایا۔

    جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے آیا ہے رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز نے کبھی بھی قانون پر عمل نہیں کرایا، ہاؤسنگ سوسائٹیز کی ورکنگ اور ان کے فنانشل افیئرز کو کبھی مانیٹر نہیں کیاگیا، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ کبھی رجسٹرار نے پنجاب کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے معلومات حاصل کی ہوں۔

  • جیل حکام چیئرمین پی ٹی آئی کی دوستوں، فیملی اور وکلاء  سے ملاقات کروائیں، عدالت کا حکم

    جیل حکام چیئرمین پی ٹی آئی کی دوستوں، فیملی اور وکلاء سے ملاقات کروائیں، عدالت کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو فیملی اور وکلا سے ملاقات کی اجازت دے دی اور چیئرمین پی ٹی آئی کو جائے نماز اور قرآن پاک کا انگلش ترجمہ بھی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل منتقلی، سہولیات اورملاقات کی درخواست پر تحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا، چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کیا۔

    تحریری حکمنامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو فیملی اور وکلاء سے ملاقات کی اجازت دے دی اور کہا تحریری حکمنامہ سپریٹنڈنٹ جیل ملاقات کیلئے ایک یا ایک سے زائد دن مختص کریں۔

    عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے وجوہات سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے بتایاجائےکن وجوہات کی بنیاد پر اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔

    تحریری حکمنامے میں چیئرمین پی ٹی آئی کو گھر کا کھانا دیا جاسکتا ہے یا نہیں آئندہ سماعت پر معاونت طلب کرلی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ ریکارڈ پر نہیں جو قیدی کو ہفتے میں ایک سے زائد بار ملاقات سے روکے، جیل حکام چیئرمین پی ٹی آئی کے دوست، رشتہ دار اور وکلا سے ملاقات کروائیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جائے نماز اور انگلش ترجمے کیساتھ قرآن مجید دیا جائے اور مناسب طبی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ اڈیالہ جیل میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھا گیا ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اڈیالہ جیل میں رش اورسکیورٹی سےمتعلق رپورٹ جمع کرائیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ وکیل کےمطابق چیئرمین پی ٹی آئی سے ملنے جانے پر ملنے نہ دیاگیااورمقدمہ درج کیا گیا، ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق جیل میں ملاقات کے اوقات 8 سے 2 بجے تک ہیں، 3بجے تک بھی ملنے دیا جاسکتا ہے۔

    حکم نامے کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق ملاقات پیرسے ہفتے تک مقررہ اوقات میں کی جاسکتی ہے، مقررہ اوقات کے بعد ملاقات کی اجازت نہیں دی جاسکتی،عدالت کو بتایا گیا قیدی سے روزانہ کی بنیاد پر ملاقات میں قانونی طور پر کوئی قدغن نہیں، روزانہ کی بنیاد پر ملاقات سپریٹنڈٹ جیل کی اجازت سے مشروط ہوتی ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ بتایا گیا بہتر ہوگا وکلا ہفتے میں ایک یا دو بار ملاقات کیلئے اٹک جیل جائیں تاکہ بندوبست کرنے میں آسانی ہو، وکلا کے مطابق اٹک جیل میں بی کلاس سہولیات موجود ہی نہیں ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کا مقصد بی کلاس سہولیات مہیانہ کرناہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ وکلاکےمطابق چیئرمین پی ٹی آئی کوچھوٹےکمرےمیں قیدکرکےرکھاہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوگھر کے کھانے کی اجازت بھی نہیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل کےمطابق وہ تمام سہولیات مہیاکی جا رہی ہیں جس کےوہ قانونی طورپرحقدارہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کوکھاناجانچ پڑتال کےبعددیاجاتاہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں ہدایت کی کہ درخواست کوآئندہ ہفتےسماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔